بیلندور
’بیلندور‘ بھارت کا پہلا قصبہ ہے جہاں پنچائتی سرگرمیوں کو انفوٹیک سے مربوط کرکے جمہوری عمل کو عوامی سطح تک لایاجارہاہے
بیسیویں صدی کے اوائل میں بھارت کی ریاست آندھراپردیش سے ریڈی خاندان کے تین گھرانے اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر کسی ایسی نئی اور بہترجگہ کو اپنا مسکن بنانے کے لئے پیدل نکل کھڑے ہوئے جہاں انھیں اچھا ذریعہ معاش ملے اور وہ پرسکون زندگی بسرکرسکیں۔
بالآخر انھیں ریاست میسور( اب ریاست کرناٹک) کے علاقے میں واقع بیلندور جھیل کے کنارے ایک چھوٹا سا گاؤں نظرآیا۔ انھوں نے ادھر ہی ڈیرے ڈالنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ گاؤں قریباً 15 گھرانوں پر مشتمل تھا۔ یہ تینوں ریڈی خاندان جہاں سے آئے تھے، وہاں کھیتی باڑی کرتے تھے،چنانچہ یہاں بھی کرنے لگے۔انھوں نے خوب محنت سے انگور، سیب، امرود، باجرہ اور چاول کاشت کرنا شروع کردیئے۔مویشی بھی پالے اور مچھلیاں بھی پکڑیں۔ اس طرح ننگے پاؤں اس گاؤں پہنچنے والے جلد ہی خوش حال گھرانے بن گئے۔ اپنے خاندانوں کو خوشحال کرنے کے بعد 1930ء کی دہائی میں ریڈی خاندان کے مردوں نے گاؤں کی مجموعی حالت سدھانے کی طرف توجہ دینے کا فیصلہ کرلیا۔ یہاں صدیوں پراناایک مندرتھا، اس کی حالت خاصی خراب نظرآتی تھی، ریڈی مردوں نے سوچا کہ گاؤں کی حالت بدلنے کا آغاز مندر کی تزئین وآرائش ہی سے ہوناچاہئے۔ یہ بیلندور کی تاریخ کا اہم ترین سنگ میل ثابت ہوا۔
چالیس کی دہائی میں اس علاقے میں سائیکل کی سواری ایک بہتر ٹرانسورٹ کے طور پر سامنے آئی۔1947ء میں ایک نیا سنگ میل طے ہوا جب یہاں کے ایک مسلمان باشندے نے چاول نکالنے والی مشین لگالی۔ اس کے لئے بجلی کی ضرورت تھی، وہ بنگلور سے لائی گئی۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ بجلی کا آنا اس گاؤں میں کتنا بڑا انقلاب ثابت ہوا ہوگا۔
پوری بیسوی صدی کے دوران میں جھیل اس گاؤں کی زندگی کا لازمی حصہ بنی رہی، مچھیرے اس صاف شفاف جھیل سے مچھلیاں پکڑتے تھے۔ بچے بھی اس کے پانی میں خوب تیراکی کرتے جبکہ کسان اس جھیل کے پانی سے اپنی فصلوں کو سیراب کرتے۔ صرف گاؤں والے ہی اس جھیل سے فائدے نہیں اٹھاتے تھے بلکہ روس کے علاقے سائبیریا سے ، موسم گرما میں مرغابیاں انڈے دینے اور افزائش نسل کے لئے اس جھیل پر آیاکرتی تھیں، جب ان کے بچے طویل پرواز کے قابل ہوتے تو وہ اپنے وطن کی طرف پروازکرجاتی تھیں۔
1962ء میں اس گاؤں کے باشندوں نے اپنی پنچایت قائم کرلی تاکہ گاؤں کے معاملات زیادہ بہتراندازمیں آگے بڑھ سکیں۔آنے والے برسوں میں اپنی مقامی حکومت کی بدولت یہ گاؤں زیادہ خوشحال ہونے لگا۔1965ء میں گاؤں اور شہر کے درمیان بس سروس شروع ہوگئی۔1970ء میںاس گاؤں کی آبادی 200نفوس تک پہنچ گئی۔ اس سال یہاں کے ایک رہائشی نے موٹرسائیکل خرید لی۔ اسے بھی ایک سنگ میل قراردیاجاسکتاہے۔ 1978ء میں یہاں کے آبپاشی کے نظام کو زیادہ بہترکیاگیاتو گاؤں کے اردگرد شاندارقسم کا سبزہ اور شادابی آگئی۔
نوے کی دہائی میں 'بیلندور' کی وجہ شہرت اس کی سائبرسرگرمیاں بن گئیں۔اب یہ بھارت کا پہلا قصبہ ہے جہاں پنچائتی سرگرمیوں کو انفوٹیک سے مربوط کر کے جمہوری عمل کو عوامی سطح تک لایا جا رہا ہے۔ جب ریڈی خاندان ہی کے ایک سپوت جگن ناتھ بیلندور کی پنچایت کے صدربنے تو انھوں نے عزم کیا کہ وہ پنچائتی کارروائیوں، حسابات اور پنچائتی مجلس کی کارروائی کو کمپیوٹرائزڈ کرنے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وسائل سے باہم مربوط کردیں گے اور پھر انھوں نے اگلے چند برسوں میں یہ انوکھاکام کرکے دکھادیا۔آج اس قصبے کے تمام کام کمپیوٹروں کے ذریعے انجام دئیے جاتے ہیں۔
زمینوں کے ریکارڈ، لگان کی ادائیگی، گھروں کے ٹیکس، پنچایت کے حسابات، پنچایت کی کارروائی کی روداد، مختلف افتتاحی سکیموں سے استفادہ کا بیورو، گھروں کے پلاٹوں اور مردم شماری کے اعداد و شمار، زمینوں کے کھاتے،کھاتوں کی تقسیم کے نتیجے میں آنے والی تبدیلیوں کو کمپیوٹرائزڈ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پنچایت کے سبھی گھرانے اپنے گھریلو ٹیلی فونز پر یہ کارروائی سن سکتے ہیں۔
اس سے بھی بڑی بات یہ کہ یہ ساری تفصیلات مقامی کنڑا زبان کے خصوصی سافٹ ویئر پیکج کے ذریعہ مہیا کی جاتی ہیں۔ یادرہے کہ'بیلندور پنچایت' پانچ دیہاتوں کی نمائندہ ہے جن میں بیلوندر، ہلورا، امبلی پورہ، کاری منا اگراہرا اور دیوار بسن ھلی شامل ہیں۔ ان کی مجموعی آبادی دس ہزار سے کچھ زائد ہے۔ بیلندور بنگلور سے کوئی اٹھارہ کلومیٹر کے فاصلے پر مشرق میں واقع ہے اور اس کی زیادہ تر آبادی کسانوں یا مل مزدوروں پر مشتمل ہے۔
اصل میں جب 1997ء میں جگن ناتھ اس پنچایت کے سربراہ منتخب ہوئے، سب سے پہلے انھوں نے دفتری دستاویزات کو دیکھا، انھوں نے محسوس کیاکہ کسانوں کو ذرا ذرا سی تحریری ضرورتوں کے لئے شہرجاناپڑتاہے، صرف اس لئے کہ ٹائپ رائٹر اور کمپیوٹرز وہاں ہوتے ہیں۔اسی طرح کے کچھ دیگر مسائل کا حل بھی شہرمیں پڑاہوتاہے۔
جگن ناتھ نے سوچاکہ بنگلور کو بھارت کا سافٹ ویئر اور انفوٹیک کا دارالحکومت کہا جاتا ہے اس لئے کیوں نہ بیلندور کے پنچایتی نظام کو کمپیوٹر اور انفوٹیک کی سہولتوں سے لیس کیا جائے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے احساسات پنچایت کے اجلاس میں رکھے اور سب ارکانِ پنچایت کوسارے نظام کو کمپیوٹرائزڈ کرنے پر رضامند کر لیا۔ پھر انھوں نے اسی سال پانچ کمپیوٹر خریدے اور تمام زمینوں اور لگان سے متعلق ریکارڈ کو ان میں محفوظ کرنے کا کام شروع کر دیا، اس کے بعد فلاحی منصوبوں کی باری آئی، یوں مرحلہ وار پنچایت کا سارانظام ہی کمپیوٹرائزڈ ہوگیا۔ یوں یہ پنچایت ملک بھر کی پہلی مقامی انتظامیہ بن گئی جو اپنے زیر انتظام پانچ دیہات کے نظم و نسق میں اور اطلاعات، معلومات کی ترسیل کیلئے کمپیوٹر کا استعمال کر رہی ہے۔
نئے نظام نے پنچایت کے ہرآنے والے سربراہ کے لئے بہت سی سہولتیں پیدا کردیں۔ سوبھا گیا وتی ( جگن ناتھ کے بعد منتخب ہونے والی پنچایت کی سربراہ) اپنے پیش رو کی بہت تعریف کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ کمپیوٹر کی آمد سے پہلے پنچایت کو اپنا ریکارڈ رکھنے کیلئے ہر ایک روپے کے ٹیکس پر ڈیڑھ روپے تک خرچ کرنا پڑتے تھے لیکن اب یہ خرچ کم ہو کر نصف روپیہ تک رہ گیا ہے''۔
پھر اس گاؤں کے شاندار نظام کو دیکھنے کی خاطرراجستھان، کیرالہ، ہماچل پردیش اور کئی دیگر ریاستوں اور شہروں سے کئی وفود آئے ۔ساؤتھ افریقہ براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی دستاویزی فلمیں بنانے والی فلم کار جین لپ مین نے اس پنچایت کے نظام پر ایک فلم بھی تیارکی۔
سرکاری اداروں میں رشوت کینسر کی طرح سرایت کرچکی ہے، اور سرکاری اہلکار مختلف طرح کے حیلوں بہانوں کے ذریعے عام لوگوں سے روپیہ بٹورتے ہیں۔کبھی درخواست میں نقص نکال کر تو کبھی فائل کے گرد روایتی سرکاری لال رنگ کے فیتے پر ایک اور گرہ باندھ کر، اور کبھی سائل کی فائل کو کئی دوسری فائلوں کے نیچے دبا کر۔ اور پھر سرخ فیتہ کا بندھن کچھ لئے دیئے بغیر نہیں کھلتا۔
لیکن بلندور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے سرخ فیتے اور رشوت ستانی کی لعنت میں نمایاں کمی آئی۔ جگن ناتھ کہتے ہیں: '' اب اس علاقے میں رشوت کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ کمپیوٹر کے آنے سے انتظامیہ مستعد ہوگئی، رشوت ستانی اور افسرشاہی کی سبب ہونے والی تاخیر میں بہت کمی آئی۔''انھوں نے مزیدبتایا: ''اب مالیے کی وصولی صحیح طور پر کی جاتی ہے اور اس کا مکمل اندراج کیا جاتا ہے۔ تمام متعلقہ معلومات ایک بٹن دباتے ہی پلک جھپکنے میں سامنے آجاتی ہیں، یاد رہے کہ پنچایت کے محصول میں زبردست اضافہ ہوا۔''
بنگلور کے نواح میں ہونے کی وجہ سے یہاں کے90 فی صد لوگ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں۔گاؤں کے تمام لوگ جگن ناتھ کو بہت یاد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زمینوں کے کھاتے ٹرانسفرکرنا، والدین کی جائیداد کی تقسیم اور پنچایت سے این او سی حاصل کرنا بے حد آسان ہوگیا۔ ابتداء میں گاؤں والوں کا خیال تھا کہ یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکے گا مگر اب گاؤں کے کسان بھی جگن ناتھ کے لائے انقلاب سے مسرور ہیں۔اب وہ گاؤں کی ڈیری، لائبریری اور جانوروں کے ہسپتال اور کوآپریٹو سوسائٹی، سبھی جگہ کمپیوٹر کی تنصیب کے خواہش مند ہیں۔ ان انقلابی تبدیلیوں کی وجہ سے اب ایک عدد نجی فرم نے یہاں سائبر مرکز بھی قائم کر لیا۔ ان ساری تبدیلیوں کی وجہ سے یہ گاؤں اور اس کی زمین بہت قیمتی بن گئی ہیں۔ بیسویں صدی کے اوائل میں سرجاپور میں زمین کی مالیت چارلاکھ روپے فی ایکڑ تھی لیکن اب رنگ روڈ کے ساتھ واقع اس علاقے میں اس کی مالیت تین کروڑ سے زائد ہوچکی ہے۔
پاکستان میں شاید ایک بھی گاؤں ایسا نہ ہو جہاں شہروں جیسے رہائشی اپارٹمنٹس تعمیر ہوں، یہاں کے دیہاتوں میں لوگوں کی اکثریت جھونپڑیوں یا مٹی کے بنے مکانوں میں زندگی بسر کر رہی ہے تاہم بیلندورکامعاملہ ہی مختلف ہے۔یہاں تعمیرشدہ فلیٹس آرام دہ اور جدید ہیں۔ یہ گاؤں شہر جیسا بن چکا ہے۔
جگن ناتھ ریڈی نے ایک کام یہ بھی کیا کہ پنچایت کے اجلاسوں کی کارروائی مقامی کیبل ٹی وی کے ذریعے گاؤں کے ہرگھرانے میں دکھانے کا اہتمام کیا۔ مقصد صرف یہ تھا کہ گورننس کو صاف وشفاف رکھاجائے۔ سکولوں کو کمپیوٹرز فراہم کئے گئے تاکہ یہاں پڑھنے والے بچے زیادہ اچھے طالب علم بن سکیں اور جدید دورکے چیلنجز کا مقابلہ کرسکیں۔ انھوں نے گاؤں میں صفائی کے نظام کو بہتربنانے کے لئے پورے گاؤں میں کوڑے کے ڈرم رکھے۔ اس سے گاؤں کی خوبصورتی میں کس قدر اضافہ ہوا ہوگا، سمجھنا چنداں مشکل نہیں۔
قوموں کی تقدیربدلنے والے دوسری قوم کے لوگ نہیں ہوتے، اپنی قوم ہی سے کچھ لوگ اٹھتے ہیں اورانقلاب برپا کرتے ہیں جیسا کہ بیلندور کے کچھ لوگوں نے کیا۔ بھارت میں کرپشن کے خلاف جدوجہد کرنے والے اناہزاری نے بھی اپنے گاؤں کی قسمت بدلی اور اسے دنیا بھر کے دیہاتوں کے لئے ایک مثال بنادیا۔ کیا پاکستان کے دیہاتوں کو نہیں بدلاجاسکتا، دیہات بدل جائیں تو ملک بدل جاتے ہیں۔
بالآخر انھیں ریاست میسور( اب ریاست کرناٹک) کے علاقے میں واقع بیلندور جھیل کے کنارے ایک چھوٹا سا گاؤں نظرآیا۔ انھوں نے ادھر ہی ڈیرے ڈالنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ گاؤں قریباً 15 گھرانوں پر مشتمل تھا۔ یہ تینوں ریڈی خاندان جہاں سے آئے تھے، وہاں کھیتی باڑی کرتے تھے،چنانچہ یہاں بھی کرنے لگے۔انھوں نے خوب محنت سے انگور، سیب، امرود، باجرہ اور چاول کاشت کرنا شروع کردیئے۔مویشی بھی پالے اور مچھلیاں بھی پکڑیں۔ اس طرح ننگے پاؤں اس گاؤں پہنچنے والے جلد ہی خوش حال گھرانے بن گئے۔ اپنے خاندانوں کو خوشحال کرنے کے بعد 1930ء کی دہائی میں ریڈی خاندان کے مردوں نے گاؤں کی مجموعی حالت سدھانے کی طرف توجہ دینے کا فیصلہ کرلیا۔ یہاں صدیوں پراناایک مندرتھا، اس کی حالت خاصی خراب نظرآتی تھی، ریڈی مردوں نے سوچا کہ گاؤں کی حالت بدلنے کا آغاز مندر کی تزئین وآرائش ہی سے ہوناچاہئے۔ یہ بیلندور کی تاریخ کا اہم ترین سنگ میل ثابت ہوا۔
چالیس کی دہائی میں اس علاقے میں سائیکل کی سواری ایک بہتر ٹرانسورٹ کے طور پر سامنے آئی۔1947ء میں ایک نیا سنگ میل طے ہوا جب یہاں کے ایک مسلمان باشندے نے چاول نکالنے والی مشین لگالی۔ اس کے لئے بجلی کی ضرورت تھی، وہ بنگلور سے لائی گئی۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ بجلی کا آنا اس گاؤں میں کتنا بڑا انقلاب ثابت ہوا ہوگا۔
پوری بیسوی صدی کے دوران میں جھیل اس گاؤں کی زندگی کا لازمی حصہ بنی رہی، مچھیرے اس صاف شفاف جھیل سے مچھلیاں پکڑتے تھے۔ بچے بھی اس کے پانی میں خوب تیراکی کرتے جبکہ کسان اس جھیل کے پانی سے اپنی فصلوں کو سیراب کرتے۔ صرف گاؤں والے ہی اس جھیل سے فائدے نہیں اٹھاتے تھے بلکہ روس کے علاقے سائبیریا سے ، موسم گرما میں مرغابیاں انڈے دینے اور افزائش نسل کے لئے اس جھیل پر آیاکرتی تھیں، جب ان کے بچے طویل پرواز کے قابل ہوتے تو وہ اپنے وطن کی طرف پروازکرجاتی تھیں۔
1962ء میں اس گاؤں کے باشندوں نے اپنی پنچایت قائم کرلی تاکہ گاؤں کے معاملات زیادہ بہتراندازمیں آگے بڑھ سکیں۔آنے والے برسوں میں اپنی مقامی حکومت کی بدولت یہ گاؤں زیادہ خوشحال ہونے لگا۔1965ء میں گاؤں اور شہر کے درمیان بس سروس شروع ہوگئی۔1970ء میںاس گاؤں کی آبادی 200نفوس تک پہنچ گئی۔ اس سال یہاں کے ایک رہائشی نے موٹرسائیکل خرید لی۔ اسے بھی ایک سنگ میل قراردیاجاسکتاہے۔ 1978ء میں یہاں کے آبپاشی کے نظام کو زیادہ بہترکیاگیاتو گاؤں کے اردگرد شاندارقسم کا سبزہ اور شادابی آگئی۔
نوے کی دہائی میں 'بیلندور' کی وجہ شہرت اس کی سائبرسرگرمیاں بن گئیں۔اب یہ بھارت کا پہلا قصبہ ہے جہاں پنچائتی سرگرمیوں کو انفوٹیک سے مربوط کر کے جمہوری عمل کو عوامی سطح تک لایا جا رہا ہے۔ جب ریڈی خاندان ہی کے ایک سپوت جگن ناتھ بیلندور کی پنچایت کے صدربنے تو انھوں نے عزم کیا کہ وہ پنچائتی کارروائیوں، حسابات اور پنچائتی مجلس کی کارروائی کو کمپیوٹرائزڈ کرنے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وسائل سے باہم مربوط کردیں گے اور پھر انھوں نے اگلے چند برسوں میں یہ انوکھاکام کرکے دکھادیا۔آج اس قصبے کے تمام کام کمپیوٹروں کے ذریعے انجام دئیے جاتے ہیں۔
زمینوں کے ریکارڈ، لگان کی ادائیگی، گھروں کے ٹیکس، پنچایت کے حسابات، پنچایت کی کارروائی کی روداد، مختلف افتتاحی سکیموں سے استفادہ کا بیورو، گھروں کے پلاٹوں اور مردم شماری کے اعداد و شمار، زمینوں کے کھاتے،کھاتوں کی تقسیم کے نتیجے میں آنے والی تبدیلیوں کو کمپیوٹرائزڈ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پنچایت کے سبھی گھرانے اپنے گھریلو ٹیلی فونز پر یہ کارروائی سن سکتے ہیں۔
اس سے بھی بڑی بات یہ کہ یہ ساری تفصیلات مقامی کنڑا زبان کے خصوصی سافٹ ویئر پیکج کے ذریعہ مہیا کی جاتی ہیں۔ یادرہے کہ'بیلندور پنچایت' پانچ دیہاتوں کی نمائندہ ہے جن میں بیلوندر، ہلورا، امبلی پورہ، کاری منا اگراہرا اور دیوار بسن ھلی شامل ہیں۔ ان کی مجموعی آبادی دس ہزار سے کچھ زائد ہے۔ بیلندور بنگلور سے کوئی اٹھارہ کلومیٹر کے فاصلے پر مشرق میں واقع ہے اور اس کی زیادہ تر آبادی کسانوں یا مل مزدوروں پر مشتمل ہے۔
اصل میں جب 1997ء میں جگن ناتھ اس پنچایت کے سربراہ منتخب ہوئے، سب سے پہلے انھوں نے دفتری دستاویزات کو دیکھا، انھوں نے محسوس کیاکہ کسانوں کو ذرا ذرا سی تحریری ضرورتوں کے لئے شہرجاناپڑتاہے، صرف اس لئے کہ ٹائپ رائٹر اور کمپیوٹرز وہاں ہوتے ہیں۔اسی طرح کے کچھ دیگر مسائل کا حل بھی شہرمیں پڑاہوتاہے۔
جگن ناتھ نے سوچاکہ بنگلور کو بھارت کا سافٹ ویئر اور انفوٹیک کا دارالحکومت کہا جاتا ہے اس لئے کیوں نہ بیلندور کے پنچایتی نظام کو کمپیوٹر اور انفوٹیک کی سہولتوں سے لیس کیا جائے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے احساسات پنچایت کے اجلاس میں رکھے اور سب ارکانِ پنچایت کوسارے نظام کو کمپیوٹرائزڈ کرنے پر رضامند کر لیا۔ پھر انھوں نے اسی سال پانچ کمپیوٹر خریدے اور تمام زمینوں اور لگان سے متعلق ریکارڈ کو ان میں محفوظ کرنے کا کام شروع کر دیا، اس کے بعد فلاحی منصوبوں کی باری آئی، یوں مرحلہ وار پنچایت کا سارانظام ہی کمپیوٹرائزڈ ہوگیا۔ یوں یہ پنچایت ملک بھر کی پہلی مقامی انتظامیہ بن گئی جو اپنے زیر انتظام پانچ دیہات کے نظم و نسق میں اور اطلاعات، معلومات کی ترسیل کیلئے کمپیوٹر کا استعمال کر رہی ہے۔
نئے نظام نے پنچایت کے ہرآنے والے سربراہ کے لئے بہت سی سہولتیں پیدا کردیں۔ سوبھا گیا وتی ( جگن ناتھ کے بعد منتخب ہونے والی پنچایت کی سربراہ) اپنے پیش رو کی بہت تعریف کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ کمپیوٹر کی آمد سے پہلے پنچایت کو اپنا ریکارڈ رکھنے کیلئے ہر ایک روپے کے ٹیکس پر ڈیڑھ روپے تک خرچ کرنا پڑتے تھے لیکن اب یہ خرچ کم ہو کر نصف روپیہ تک رہ گیا ہے''۔
پھر اس گاؤں کے شاندار نظام کو دیکھنے کی خاطرراجستھان، کیرالہ، ہماچل پردیش اور کئی دیگر ریاستوں اور شہروں سے کئی وفود آئے ۔ساؤتھ افریقہ براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی دستاویزی فلمیں بنانے والی فلم کار جین لپ مین نے اس پنچایت کے نظام پر ایک فلم بھی تیارکی۔
سرکاری اداروں میں رشوت کینسر کی طرح سرایت کرچکی ہے، اور سرکاری اہلکار مختلف طرح کے حیلوں بہانوں کے ذریعے عام لوگوں سے روپیہ بٹورتے ہیں۔کبھی درخواست میں نقص نکال کر تو کبھی فائل کے گرد روایتی سرکاری لال رنگ کے فیتے پر ایک اور گرہ باندھ کر، اور کبھی سائل کی فائل کو کئی دوسری فائلوں کے نیچے دبا کر۔ اور پھر سرخ فیتہ کا بندھن کچھ لئے دیئے بغیر نہیں کھلتا۔
لیکن بلندور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے سرخ فیتے اور رشوت ستانی کی لعنت میں نمایاں کمی آئی۔ جگن ناتھ کہتے ہیں: '' اب اس علاقے میں رشوت کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ کمپیوٹر کے آنے سے انتظامیہ مستعد ہوگئی، رشوت ستانی اور افسرشاہی کی سبب ہونے والی تاخیر میں بہت کمی آئی۔''انھوں نے مزیدبتایا: ''اب مالیے کی وصولی صحیح طور پر کی جاتی ہے اور اس کا مکمل اندراج کیا جاتا ہے۔ تمام متعلقہ معلومات ایک بٹن دباتے ہی پلک جھپکنے میں سامنے آجاتی ہیں، یاد رہے کہ پنچایت کے محصول میں زبردست اضافہ ہوا۔''
بنگلور کے نواح میں ہونے کی وجہ سے یہاں کے90 فی صد لوگ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں۔گاؤں کے تمام لوگ جگن ناتھ کو بہت یاد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زمینوں کے کھاتے ٹرانسفرکرنا، والدین کی جائیداد کی تقسیم اور پنچایت سے این او سی حاصل کرنا بے حد آسان ہوگیا۔ ابتداء میں گاؤں والوں کا خیال تھا کہ یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکے گا مگر اب گاؤں کے کسان بھی جگن ناتھ کے لائے انقلاب سے مسرور ہیں۔اب وہ گاؤں کی ڈیری، لائبریری اور جانوروں کے ہسپتال اور کوآپریٹو سوسائٹی، سبھی جگہ کمپیوٹر کی تنصیب کے خواہش مند ہیں۔ ان انقلابی تبدیلیوں کی وجہ سے اب ایک عدد نجی فرم نے یہاں سائبر مرکز بھی قائم کر لیا۔ ان ساری تبدیلیوں کی وجہ سے یہ گاؤں اور اس کی زمین بہت قیمتی بن گئی ہیں۔ بیسویں صدی کے اوائل میں سرجاپور میں زمین کی مالیت چارلاکھ روپے فی ایکڑ تھی لیکن اب رنگ روڈ کے ساتھ واقع اس علاقے میں اس کی مالیت تین کروڑ سے زائد ہوچکی ہے۔
پاکستان میں شاید ایک بھی گاؤں ایسا نہ ہو جہاں شہروں جیسے رہائشی اپارٹمنٹس تعمیر ہوں، یہاں کے دیہاتوں میں لوگوں کی اکثریت جھونپڑیوں یا مٹی کے بنے مکانوں میں زندگی بسر کر رہی ہے تاہم بیلندورکامعاملہ ہی مختلف ہے۔یہاں تعمیرشدہ فلیٹس آرام دہ اور جدید ہیں۔ یہ گاؤں شہر جیسا بن چکا ہے۔
جگن ناتھ ریڈی نے ایک کام یہ بھی کیا کہ پنچایت کے اجلاسوں کی کارروائی مقامی کیبل ٹی وی کے ذریعے گاؤں کے ہرگھرانے میں دکھانے کا اہتمام کیا۔ مقصد صرف یہ تھا کہ گورننس کو صاف وشفاف رکھاجائے۔ سکولوں کو کمپیوٹرز فراہم کئے گئے تاکہ یہاں پڑھنے والے بچے زیادہ اچھے طالب علم بن سکیں اور جدید دورکے چیلنجز کا مقابلہ کرسکیں۔ انھوں نے گاؤں میں صفائی کے نظام کو بہتربنانے کے لئے پورے گاؤں میں کوڑے کے ڈرم رکھے۔ اس سے گاؤں کی خوبصورتی میں کس قدر اضافہ ہوا ہوگا، سمجھنا چنداں مشکل نہیں۔
قوموں کی تقدیربدلنے والے دوسری قوم کے لوگ نہیں ہوتے، اپنی قوم ہی سے کچھ لوگ اٹھتے ہیں اورانقلاب برپا کرتے ہیں جیسا کہ بیلندور کے کچھ لوگوں نے کیا۔ بھارت میں کرپشن کے خلاف جدوجہد کرنے والے اناہزاری نے بھی اپنے گاؤں کی قسمت بدلی اور اسے دنیا بھر کے دیہاتوں کے لئے ایک مثال بنادیا۔ کیا پاکستان کے دیہاتوں کو نہیں بدلاجاسکتا، دیہات بدل جائیں تو ملک بدل جاتے ہیں۔