بُک شیلف

کوگن پلان غیرملکی جاسوسوں، دہشت گردوں کے گٹھ جوڑ اور ان سے پاکستان کی محب وطن قوتوں کے درمیان کشمکش کی کہانی ہے۔

جس تحریر میں معاشرے کا چہرہ نظر نہ آئے اسے لاحاصل تحریر کہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
KOGON PLAN
مصنف: نعیم بیگ
ناشر: یو ایم ٹی پریس، سی گیارہ، جوہر ٹاؤن، لاہور
صفحات:342،قیمت: 1200روپے



کوگن پلان جدید دور میں لکھا گیا ایک ناول ہے جو کہ جاسوسی ناولوں کی نسبتاً پرانی روایات کو مدنطر رکھتے ہوئے تخلیق کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں اردو زبان کے عظیم جاسوسی ناول نگارابن صفی اورانگریزی زبان کے مشہور جاسوسی ناول نگار فریڈریک فورستھ اور آئن فلیمنگ سے نعیم بیگ کی انسیت مختلف جگہ دکھائی دیتی ہے۔ تاہم اس بات سے ہرگز ذہن میں یہ خیال نہ لانا چاہیے کہ نعیم بیگ نے ان عظیم جاسوسی ناول نگاروں کے اسلوب کی تقلید کی ہے۔

نعیم بیگ کا اپنا ایک منفرد طرز تحریر ہے اور ناول کی کہانی ان کے تخیل کی ایک منفرد پرواز ہے۔ ناول کوگن پلان کا پلاٹ 9/11 کے بعد کے دور کا پاکستان پر مبنی ہے، جس میں پاکستان عالمی جاسوسوں اور دہشت گردوں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ غیرملکی جاسوسوں اور دہشت گردوں کے گٹھ جوڑ اور ان سے پاکستان کی محب وطن قوتوں کے درمیان کشمکش ہی نعیم بیگ کے اس ناول کی کہانی ہے۔

پاکستان کا خفیہ جاسوس کیپٹن ساحل فرحاج، جس کا تعلق ملک کی جاسوسی سرکاری تنظیم نیشنل سیکیوریٹی بیورو سے ہے، کابل میں ایک عالمی دہشت گرد رزمک بلال کے خاتمے کے لیے ایک مشن ڈارک روم پر تعینات کیا گیا ہے، مگریہ مشن بوجوہ ناکام رہتا ہے اور رزمک بلال فرار ہو جاتا ہے، جب کہ ساحل فرحاج کو زخمی حالت میں پاکستان میں واپس لایا جاتا ہے۔ ساحل فرحاج ملٹری اسپتال میں علاج کے لیے داخل کیا جاتا ہے۔جہاں ایک نرس اس کی تیمارداری کرتی ہے اور ساحل فراج اس کی زلف کا اسیر ہو جاتا ہے۔ بعدازاں ساحل اس نرس سے ازدواجی بندھن میں بندھ جاتا ہے۔

اس طرح اس جاسوسی ناول میں روایتی انداز میں محبت کا تڑکا لگا ہوا ہے، دیگر مصالحے بھی پورے ہیں مگر جو چیز اس ناول کو ممتاز کرتی ہے وہ پاکستانی خفیہ جاسوسوں کی وہ جدوجہد ہے جو کہ مادر وطن کے لیے انتہائی ناموافق حالات میں کی جارہی ہے۔ اس جدوجہد کو کسی بھی پلیٹ فارم پر اجاگر نہیں کیا گیا۔

ناول کی کہانی دل چسپ اور سنسنی خیز ہے۔ یہ شروع میں پھیلتی چلی جاتی ہے اور مختلف معاملات کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے، مگر جوں جوں اپنے انجام تک پہنچتی ہے پھیلے معاملات سکڑنا شروع ہوتے ہیں اور اپنے منطقی انجام کی جانب بڑھنا شروع ہوتے ہیں مگر یہ سب کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ قاری کی ناول کی کہانی میں دل چسپی برقرار رہتی ہے۔ ناول کی جان اس کے آخری صفحات میں ہے، جہاں خوف ناک رزمک بلال اور وطن کے دفاع کے لیے ہمہ وقت مستعد ساحل فرحاج آمنے سامنے ہیں اور انجام کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
یہ نعیم بیگ کی تیسری کتاب مگر دوسرا ناول ہے ان کا پہلا ناول انگریزی زبان میں لکھا گیا۔ اس کے بعد ان کے اردو افسانوں کا مجموعہ منظر عام پر آیا اور اب کوگن پلان کام یابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔

یادوں کی بستی
مصنف: ایاز راہی
ناشر: الوقار پبلی کیشن، 335-k2واپڈا ٹاؤن، لاہور
صفحات:424 ،قیمت:995روپے


ادب گہری بصیرت کی آئینہ دار ہو، جس میں سماجی کراہیں صاف سنائی دیں۔ سارے نامور نظر آئیں۔ اور زخم کا تعفن بخوبی محسوس ہو۔ میں اسے ہی ادب کہتا ہوں اس لیے کہ جس تحریر میں معاشرے کا چہرہ نظر نہ آئے اسے لاحاصل تحریر کہتے ہیں۔ آپ گل بکاؤلی پڑھیں۔ سندھ باد جہازی پڑھیں اس میں مزہ تو بہت آئے گا۔

وقت بھی کٹ جائے گا مگر اسے معاشرے کا ترجمان نہیں کہہ سکتے اور نہ اس میں ہمارا معاشرہ نظر آئے گا، جب کہ ٹھنڈا گوشت پڑھیں، آنندی پڑھیں، راجا گدھ پڑھیں، ان میں سسکتی ہوئی کراہیں ضرور سنائی دیں گی۔ گل و بلبل کا رونا۔ تخیلی عشق کا پرچار وقت کا ضیاں کہلائے گا۔ زندگی کے حادثات کو الفاظ کا پیراہن دے کر آنے والی پود کو سبق کے لیے کچھ دیا جائے جس سے نسل نو کچھ حاصل کرے تبھی قلم کا فرض چکتا ہے۔

ایاز راہی کہنے کو ایک نوآموز قلم کار ہیں۔ اس لیے کہ جغادری قلم کاروں کی فہرست میں یہ نام جو نظر نہیں آتا ہے، مگر تحریر میں فسوں ضرور نظر آیا۔ اور اسی لیے میں حیرت زدہ ہوں کہ ایاز راہی کا تعلق نہ ادب کی بستی لاہور سے ہے اور نہ ادب پرور شہر کراچی سے ہے۔ وہ تو ان بڑے شہروں سے کوسوں دور مانسہرہ کا باسی ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ وہاں ادبی ماحول بھی عنقا ہے، مگر اس کی تحریروں کا مجموعہ بعنوان ''یادوں کی بستی'' جب رزق بصارت بنی تو میں ششدر رہ گیا۔

غالب کے خطوط پڑھے۔ صفیہ کے خطوط نظر نواز ہوئے اور بھی کئی قلم کاروں کے خطوط کا مطالعے کا حصہ بنے مگر جو انفرادیت اس مجموعہ میں نظر آئی اس کی تعریف نہ کرنا ادب کی توہین سمجھتا ہوں۔ یہ خطوط کا مجموعہ ہے۔ ان دوستوں کے نام خطوط ہیں جن کے ساتھ ایاز راہی کا بچپن گزرا ہے۔ گزرے وقت کو یاد کرتے ہوئے اس نے جس انداز سے اسے بیان کیا ہے یہ بھی ایک قابل تعریف انداز ہے۔

ہر خط ایک منفرد انداز لیے ہوئے ہے، تاریخی واقعات کو حال کے آئینہ میں دکھانے کا اپنا ایک خاص انداز اپنایا گیا ہے۔ کسی خط میں ادبی معرکہ آرائی کا ذکر چھیڑ کر اسے گزرے وقت کی راکھ کریدنے کا ذریعہ بنا دینا آسان نہیں مگر یہ میں نے ''یادوں کی بستی'' میں دیکھا۔ اس کا ہر ورق خود میں ایک تاریخ ہے۔ تاریخ نویسوں کا کام ہے بڑے لوگوں کا احوال رقم کرنا اور یادوں کی بستی معمولی مگر معاشرے کے اہم لوگوں کے تذکرے سے لبالب ہے۔ میں اپنے ہر احباب سے یہی گزارش کرتا ہوں کہ ایک بار اس مجموعہ کو ضرور پڑھیں۔

لغت انسائیکلو پیڈیا
مرتب: مولانا ڈاکٹر محمد ظہور خان پارس
ناشر: رنگ ادب پبلی کیشنز 5 کتاب مارکیٹ اردو بازار، کراچی
صفحات:520،قیمت: 600 روپے


''لغت انسائیکلو پیڈیا'' مولانا ڈاکٹر محمد طہور خان پارس کی مرتب کردہ کتاب کی اول جلد ہے، جس میں الف ممدودہ اور الف مقصورہ سے شروع ہونے والے حروف تہجی کے تحت 445 شعراء کا نعتیہ کلام شامل کیا گیا ہے۔ یقیناً ایک بڑا اور اہم کام ہے۔ نعتیہ انتخاب تو اس سے قبل بھی بیسیوں شایع ہوئے تاہم یہ کام اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں آپ الف سے شروع ہونے والے شعراء کے نعتیہ کلام کو پڑھ اور اس کا جائزہ لے سکتے ہیں۔

یہ جلد اول ہے، لازمی ہے کہ مرتب کی ہمت قائم رہی تو پھر دیگر حروف سے شروع ہونے والے شعراء کا دیگر نعتیہ کلام بھی اگلی جلدوں کی توسط سے قاری تک پہنچے گا۔ مرتب طہور خان پارس نے اپنے مضمون میں خود پر گزرنے والے واقعات کے ساتھ ساتھ دیگر واقعات یعنی آپ بیتی اور جگ بیتی کو ملاکر بہت کچھ کہنے کی کام یاب کو شش کی ہے۔

جاوید رسول جوہر، جوکہ ممتاز شاعر ہیں کا مضمون ''اردو لغت گوئی کا ارتقائی جائزہ'' اپنی جگہ لغت کے حوالے سے بہت سے در کھولتا ہے۔ نعت عقیدت کا معاملہ ہے، سو اس نعتیہ انتخاب میں شامل ہر شاعر نے اپنی اپنی طبیعت مزاج اور سوچ کے مطابق اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے پیارے نبی حضور اکرمؐ ﷺکو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ یہ دل سے نکلی ہوئی صدا ہے سو ''نعت انسائیکلوپیڈیا'' اہم اہم تصنیف ہے جسے ہر لائبریری میں خاص کر لغت کے حوالے سے تحقیق کرنے والے اشخاص و اداروں کے پاس ہونا چاہیے۔

اس انسائیکلو پیڈیا میں ایک کمی محسوس ہوتی ہے کہ نعتیہ شعراء کے کوائف یا ان کے نعتیہ شعری مجموعوں کا اندراج نہیں ملتا۔ مرتب نے صرف نام لکھا اور نیچے اس کی ایک نعت شامل کردی۔ امید ہے کہ آئندہ آنے والے دیگر حصوں میں اس کمی کو دور کرنے کی طرف بھی توجہ دی جائے گی اور نعت کے ساتھ شاعر کا تعارف اور اس کے نعتیہ مجموعوں کا ذکر بھی شامل کیا جائے گا۔ اس سے کتاب کی وقعت میں اضافہ بھی ہوگا اور وہ انسائیکلو پیڈیا کے حقیقی معیار پر پوری اترنے میں کام یاب بھی ہوگی۔

تیرے نشاں شام و سحر
شاعر: نصیر احمد
ناشر: شمع ادب، 44اے رحمان پورہ لاہور
صفحات:249،قیمت: 350 روپے




ساہیوال سے تعلق رکھنے والے نصیر احمد کا شمار ان شعراء میں ہوتا ہے جو شاعری کو جنون کی حد تک اپنالیتے ہیں۔ نصیر احمد بنیادی طور پر غزل گو شاعر ہیں اور ان کے غزلوں کے دو مجموعے ''جاگ رہی ہے چاندنی'' اور ''تتلیاں پھول چومتی ہوں گی'' کے علاوہ حمد و نعت کے دو مجموعے ''سفر پُلِ صراط کا'' اور ''سجدۂ شوق'' شایع ہوچکے ہیں۔ نصیر احمد کہنہ مشق شاعر ہیں اور انھیں اردو ادب کے دو ممتاز درخشندہ ستاروں بہزاد لکھنوی اور شبنم رومانی کا شاگرد ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔

''تیرے نشاں شام وسحر'' ان کا حمدیہ مجموعہ کلام ہے۔ یہ کتاب بہت سلیقے سے اہتمام سے شائع کی گئی ہے۔ ''تیرے نشاں شام وسحر'' میں زیادہ تر وہ حمدیہ کلام شامل ہے جو نصیر احمد نے کعبہ شریف کی حاضری کے دوران کہا۔ انھوں نے ''اے اﷲ میں حاضر ہوں'' کہتے ہوئے مکہ کی خاص بھینی بھینی خوشبو بھی محسوس کی اور آب زم زم سے تشنگی بھی مٹائی۔ ساتھ ہی ساتھ اپنے بیٹے ہارون کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے اپنے ماں باپ کو یہ سعادت حاصل کرنے کے لیے ویزہ بھیجا۔ نصیر احمد کی کایا پلٹ گئی ہے۔ وہ غزل سے نعت اور حمد کی طرف اور تصوف کی طرف مائل ہوچکے ہیں وہ برملا کہتے ہیں:

تجھ سا معبود ہے کہاں موجود ؟
بادشاہی ہے تیری لا محدود!
اے مرے حاجت روا، اے تاجدار بحر و بر
میری جانب بھی توجہ، میری جانب بھی نظر

نصیر احمد کے حمدیہ کلام کے تناظر میں پروفیسر انوار احمد زئی، پروفیسر جمیل احمد عدیل، عارف منصور اور خورشید بیگ ملیسوی کے مضامین شامل ہیں، جن میں تفصیل سے ''تیرے نشاں شام و سحر'' پر بات کی گئی ہے۔ نصیر احمد نے اس حمدیہ کلام میں ایک خصوصی اہتمام یہ بھی کیا ہے کہ حمدیہ کلام میں جہاں جہاں انھوں نے مشکل الفاظ جیسے ''عیاں راچہ بیاں، غرفۂ گردوں، خاکۂ سفال، سکینت'' وغیرہ استعمال کیے ہیں، انھیں خط کشیدہ کرکے نیچے ان کے معانی بھی درج کردیے ہیں۔ اس سے نہ صرف ابلاغ مکمل ہوجاتا ہے بلکہ پڑھنے والا عربی اور فارسی کے نئے الفاظ سے بھی آشنائی حاصل کرلیتا ہے۔

جو پڑھا تھا لوٹا رہا ہوں
(مضامین کا مجموعہ)
مضمون نگار: عبدالرفیق بھوپالی ناشر: فرید پبلشرز، کراچی
صفحات: 160، قیمت:300روپے


عبدالرفیق بھوپالی کا علم و ادب سے رشتہ پرانا ہے۔ ممتاز شاعر محسن بھوپالی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ یہ کتاب ماضی اور حال کی شخصیات پر لکھے اُن کے طویل اور مختصر مضامین کا مجموعہ ہے۔ چند میں ذاتی تجربات اور مشاہدات بھی شامل ہیں۔ کتاب میں اسد محمد خاں کی رائے درج ہے۔

''کچھ اپنے بارے میں'' کے زیرعنوان مصنف نے کتاب کی اشاعت کے اسباب بیان کیے ہیں۔ زبان سادہ اور رواں ہے۔ قارئین اس کے ذریعے مختلف معروف شخصیات کے بارے میں جان کاری حاصل کرسکتے ہیں۔ آخری حصے میں مصنف کے کوائف درج ہیں۔ مختلف شخصیات کے خطوط اور آٹو گراف کا عکس دیا گیا ہے۔ مصنف کی نام ور شخصیات اور اہل خانہ کے ساتھ تصاویر بھی ہیں۔

خدا مری نظم کیوں پڑھے گا (طویل نظم)
شاعر: دانیال طریر
زیراہتمام: مہردر، انسٹی ٹیوٹ، کوئٹہ
صفحات: 120، قیمت: 200 روپے


دانیال طریر کا ذکر آتا ہے، تو ذہن میں ایک نوجوان لیکن بہت ذہین تخلیق کار کا تصور ابھرتا ہے، جو ایک باصلاحیت تنقید نگار، جدید نظم گو اور غزل کہنے والے قابل ذکر شاعر کا چہرہ ہے۔ ''خدا مری نظم کیوں پڑھے گا'' ان کا ایک ایسا منفرد کام ہے، جو اپنی ہیئت کے علاوہ تخیئل اور تخلیقی قوت کے بھرپور اظہار کی علامت ہے۔ اس نظم کے مختلف حصے مخلوط بحروں اور ہیئتوں میں لکھے گئے ہیں۔

کہیں غزل ہے تو کہیں معریٰ تو کہیں آزاد تو کہیں نثری ہیئت اور بعض مقامات پر آزاد اور نثری ہیئتوں کو بہ یک وقت بروئے کار لایا گیا ہے۔ اصناف شعری کے ساتھ ساتھ اس نظم کی ایک اور خصوصیت بھی ہے، یعنی چند مقامات پر الفاظ کو قصداً غلط تلفظ کے ساتھ برتا گیا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا اسے خصوصیت کہا جاسکتا ہے؟ اس پر تو ناقدین بحث کریں گے، تاہم شاعر نے خاص پس منظر میں الفاظ کو غلط تلفظ کے ساتھ برتا ہے۔

''خدا مری نظم کیوں پڑھے گا'' قاری کے لیے ایک خوش گوار تجربہ ہوسکتا ہے۔ اس کا ہر بند، چاہے وہ غزل پر مشتمل کیوں نہ ہو، اسی مصرع پر ختم ہوتا ہے یعنی ''خدا مری نظم کیوں پڑھے گا۔'' ایک ایسی طویل نظم جس کا ہر بند دوسرے بند کی طرف لپکتا ہے۔

بہ قول دانیال طریر، ''کائناتی نظر کا کوئی دائرہ خدا کے تصور کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا'' اِس لیے جب ان پر عدم اطمینان کا پرندہ اپنے پر پھیلاتا ہے، تو زمین کے مقدر میں ترمیم کا خواب دیکھنے لگتے ہیں اور اس خواب کی تعبیر کے لیے انھیں ایک ہی راستہ نظر آتا ہے، خدا سے استفہام کی صورت میں مکالمے کا راستہ، یہ نظم اسی تمنا کا مظہر ہے۔ اس نظم کا نفس مضمون بحیثیت کُل اس زمین پر پائی جانے والی بے اطمینانی ہے، جس نے ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے جو ظلم اور ناانصافی اور استحصال کی صورت میں ہر حساس دل کو جکڑے ہوئے ہے۔ اس لیے یہ قاری کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس نظم کا یہ ابتدائیہ ایک اچھی وضاحت بھی ہے:
''یہ نظم جو میری آرزوؤں کی منتہا ہے
یہ نظم سارے سفر کی روداد بن گئی ہے
زمیں نژادوں کے دل کی فریاد بن گئی ہے''
کتاب کی طباعت میں مہردر انسٹی ٹیوٹ کی روایتی نفاست کی جھلک واضح ہے۔ قیمت بھی مناسب ہے۔

شعروسخن (ادبی جریدہ)
ایڈیٹر: جان عالم
صفحات: 96
رابطہ: پوسٹ بکس نمبر1، جی پی او مانسہرہ



شعروسخن کا تازہ شمارہ مانسہرہ سے شایع ہونے والے اِس جریدے کا انسٹھ واں شمارہ ہے، جس میں اردو دنیا کی بھرپور نمایندگی شامل ہے۔ یہ ایک طویل عرصے سے کام یابی کے ساتھ چھپ رہا ہے، اور ادبی دنیا کے پھیلاؤ میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ اس پرچے کی مشمولات پر نگاہ دوڑانے سے سمجھ میں آتا ہے کہ وسیع المشربی کی سڑک پر رواں دواں یہ پرچہ گروہ بندیوں سے آزاد ہے۔ تازہ شمارے میں، مدیر جان عالم کا اداریہ انفرادیت کا حامل ہے جو تین اشعار اور چار سطروں پر مشتمل ہے، جس میں اگست کے مہینے کی مناسبت سے ہم وطنوں کو یوم آزادی کا دردمندانہ پیغام دے کر جھنجوڑنے کی کوشش کی گئی ہے، یہ کہہ کر کہ ''اگر تم صرف سانس لینے کو ہی آزادی سمجھتے ہو، اور تم سمجھتے ہو کہ تم آزاد ہو، تو تمھیں یوم آزادی مبارک۔''

مضامین کے حصے میں دیپک بدکی کا لکھا ہوا مضمون ''دو ہم عصر افسانہ نگار منٹو اور عصمت'' عامر سہیل کا ''نذرعابد کی شاعری کا سماجی پہلو'' رؤف نیازی کا ''ارضیت کا نوحہ اور محمود واجد'' اشفاق آشفتہ کا ''ڈاکٹر محمود فیضانی'' عرفان احمد خان کا ''خاکہ مرزا ریڈ اینڈ وائٹ'' اور افسانوں کے حصے میں اے خیام کا ''بابو'' زیب اذکار حسین کا ''آٹھویں دن کا قرض'' محمد حامد سراج کا ''شہرگزیدہ'' ساجد خان کا ''خلش کا شکار'' سائرہ غلام نبی کا ''یہ کہانی تو نہیں'' اور رابعہ الرباء کا ''داماد'' اس شمارے کی نمائندہ تحریریں ہیں۔ 27 شعرا کی غزلوں اور 14 شعرا کی نظموں سے سجے اس رسالے کی ایک اور خصوصیت اس کے خطوط کا حصہ بھی ہے۔

جس میں دھواں دھار خطوط اپنا رنگ جمارہے ہیں۔ یہ اچھا طرز عمل ہے کہ خطوط بھی غیر جانب داری کے ساتھ چھاپے جاتے ہیں، تاہم جان عالم کا بہ طور مدیر متنازع خطوط کا جواب دینا مناسب نہیں، یہ کام مکمل طور پر خطوط نگاروں پر ہی چھوڑ دینا چاہیے۔ اس کے علاوہ چند ایسی باتیں ہیں جن پر مدیر کو توجہ دینی چاہیے، مثلا یہ ادبی پرچہ میگزین سائز کی بجائے کتابی سائز میں موجودہ صورت سے کہیں زیادہ باوقار لگے گا، فونٹ سائز چھوٹا کیے جانے سے مزید تحریریں شامل ہوسکتی ہیں۔ غزلوں والے حصے میں ایک کالم میں دو غزلیں بہ آسانی آسکتی ہیں جس میں صرف ایک غزل لگائی گئی ہے۔ اسی طرح لے آؤٹ بھی لائق توجہ ہے۔
Load Next Story