مرزا اطہر بیگ کی صورت حال

جو بھی موضوع میرے سامنے آتا ہے، وہ خود اپنی ساخت اور ہیئت کا انتخاب کرتا ہے، مرزا اظہر بیگ

اگر ناول میں تجربات نہیں ہیں تو یہ پاپولر ناول تو ہوسکتا ہے مگر ادبی ناول نہیں ہوگا، مرزا اطہر بیگ فوٹو : فائل

FAISALABAD:
تذکرہ اُن صاحب کا، جو ''کلیہ شکنی'' میں طاق ہیں۔ ناول کی دنیا میں جہاں کوئی کلیہ ملے، کھٹ سے توڑ ڈالتے ہیں۔

بزرگ کہتے ہیں، ایسے کرم کرو گے، تو کلام تمھارا ژولیدگی کا شکار ہوجائے گا، قاری کا تخیلاتی نظام تلپٹ ہوا، تو پھر آپ لکھو گے، آپ پڑھو گے، اور طاق پر دھر دو گے۔ پر وہ ہیں کہ ناصح کی باتوں پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ اپنی دھن میں چلے جارہے ہیں۔ بت شکنوں سے زیادہ بھاگ والے ہیں کہ اُنھیں سترہ حملے نہیں کرنے پڑے۔ پہلا ہی وار کارگر رہا۔ ''غلام باغ'' مرزا اطہر بیگ کا پہلا ناول، جو عام طور سے ادیبوں کا آخری ناول ہوتا ہے کہ یا تو اِس نوع کی کوشش کے بعد اُنھیں قاری ہی نہیں ملتا یا پھر مصنف خود اعلان کر دیتا ہے؛ بھائیو، اِس شاہ کار کو میرے ساتھ قبر میں اتار دینا۔

البتہ بیگ صاحب کا یہ معاملہ نہیں رہا۔ اور یہ امر حیرت انگیز ہے۔ ''غلام باغ'' دیوانگی کی ہوائیں ساتھ لایا۔ قارئین پر فرزانگی کے بادل چھا گئے۔ ڈھول کی تھاپ پر کبیر مہدی، زہرہ اور ڈاکٹر ناصر کے گیت سنائی دینے لگے۔ آسمانوں پر نیلا رجسٹر کھل گیا۔ یہ پُرپیچ ناول، جسے ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے ''ناول آف دی ایبسرڈ'' قرار دیا تھا، جلد ہی ''کلٹ'' کی صورت اختیار کر گیا۔ اس پُراسرار اور طویل قصے کے بعد افسانوی مجموعے ''بے افسانہ'' کی اشاعت عمل میں آئی، جس میں تنوع بھی تھا، اور جدت بھی۔ کلیوں کی شکست و ریخت کا سلسلہ جاری رہا۔

''صفر سے ایک تک: سائبراسپیس کے منشی کی سرگذشت'' میں بیگ صاحب نے کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی، ہمارے غریب اور شریف معاشرے میں، جہاں جاگیردار ہی اصل حکم راں ہے، اثرپذیری کو اِس مہارت سے گرفت کیا کہ بہت سے پکار اٹھے: لاجواب!سائبر اسپیس کے منشی کی سرگذشت تو بیان کرڈالی، مگر ''بے افسانہ'' کا ایک افسانہ پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں تھا۔ بڑا ضدی تھا۔ روز سامنے آن کھڑا ہوتا۔ منہ بسورتا۔ کہتا: میں تو ناول ہوں، مجھے ادھورا کیوں چھوڑ دیا؟

روز روز کے تقاضوں سے تنگ آکر مصنف نے ایک غار کا رخ کیا۔ قلم اٹھایا۔ رجسٹر کھولا۔ اور نامعلوم کی دنیا میں اتر گیا۔ اور جب وہ بہت سے تغیرات کے بعد غار سے باہر آتا ہے، تو ہاتھوں میں ''حسن کی صورت حال '' کا مسودہ ہوتا ہے۔ اور وہ ایک منتر کا جاپ کر رہا ہوتا ہے: ''خالی جگہ پُر کرو۔۔۔ خالی جگہ پُر کرو۔۔۔''



ورجینا وولف کہا کرتی تھی: ''ناول میں اتنی وسعت ہوتی ہے کہ تخلیق کار اُس میں ہر شے سموسکتا ہے۔'' اگر آپ کو اِس بات پر شک ہے، تو ''حسن کی صورت حال: خالی جگہیں پُر کرو'' پڑھ لیں۔آپ صنف ناول کی، بوجھ ڈھونے کی قابلیت کے قائل ہوجائیں گے۔ امریکی ادیب میرین کرافورڈ نے انیسویں صدی میں ناول کو ''پاکٹ تھیٹر'' قرار دیا تھا، اکیسویں صدی میں بیگ صاحب نے اردو میں اِسے ایک ضخیم اور پرقوت حقیقت کا روپ دے ڈالا۔ اور یہ ناول اُن کا فقط اسٹیج پر ہونے والے واقعات تک محدود نہیں، یہ آپ کو پس اسٹیج جو کچھ بیت رہا ہے، اور جو کچھ بیتنے کا امکان ہے، اس سے بھی جوڑے رکھتا ہے۔

ان کے پسے ہوئے، دھتکارے ہوئے عجیب و غریب کردارآپ کے سامنے فقط استحصال کی تصاویر پیش نہیں کرتے۔ یہ تو ایک اور طرح کا منظر ہے۔ کچھ حد تک لایعنی، کچھ حد تک محیر العقول۔ جس میں کباڑ خانہ ہے، عظیم نجات دہندہ سے نجات کا دن ہے، سوانگ پروڈکشنز ہے، گول میز کی کہانی ہے، سعید کمال، انیلا اور سیفی ہیں (جن میں شاید آپ کبیر مہدی اور زہرہ کو تلاش کریں) میلا بھاگاں والا ہے، کباڑ کمپلس ہے (ایک عجائب خانہ۔ جہاں 'جبار جمع کرنے والا' اور 'ارشاد کباڑیا' خوش آمدید کہتے ہیں۔ جہاں عجیب و غریب ورلڈ ریکارڈ بنائے جاتے ہیں۔ جیسے؛ غریب اور شریف ترین باڈی بلڈر کا ریکارڈ، رکشے میں بیٹھ کر سب سے طویل رپورٹ لکھنے کا ریکارڈ وغیرہ) اور آخر میں حقیقت کا کچومر ۔ اور یہی مرزا اطہر بیگ کی دنیا ہے، روایت سے بغاوت کی دنیا کہ وہ ادب میں فرسودہ طور طریقوں سے بے زار ہیں۔ اُس ناول کو ناول ہی نہیں مانتے، جس میں تجربہ نہ ہو۔


اس تذکرے میں ہم حسن رضا ظہیر کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ یہ پہلو دار اور گنجلک ناول اِسی کردار سے شروع ہوتا ہے۔ حسن، جسے ''اچٹتی منظر بینی'' کی عادت ہے۔ وہ مناظر پر نگاہ ضرور ڈالتا ہے، پر اُن میں شامل نہیں ہوتا۔ اور پھر پردۂ حیرت سے اُن لمحات کا ظہور ہوتا ہے، جو اُسے اردگرد کی دنیا میں براہ راست مداخلت پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اور وہ کہانی شروع ہوتی ہے، جس میں کئی خالی جگہیں قاری کو پُرکرنی پڑتی ہیں۔

یہ ناول، مرزا اطہر بیگ کے دیگر ناولوں سے مختلف ہے۔ مماثلت بس ایک؛ کلیہ شکنی کی خواہش۔ جو اور شدید ہوگئی ہے۔ ناول میں کئی کردار ایک جیسے ناموں کے حامل ہیں۔ یہ یک سانیت انتشار کو مہمیز کرتی ہے۔ آپ کو سرئیلزم کی جھلکیاں ملیں گے، کچھ عجیب و غریب ادارتی نوٹ۔ مصنف کی براہ راست کلام کرنے کی عادت۔ اور سب سے اہم؛ بیانیے میں فلم میکنگ کی تکنیک، جس نے ناول کو نئی جہت عطا کر دی ہے۔ دراصل اندرون ناول ایک فلم بن رہی ہے، جو ''یہ فلم نہیں بن سکتی'' اور ''یہ فلم ضرور بنے گی'' کے درمیان جھولتی ہے۔ لطف دیتی ہے۔

''حسن کی صورت حال'' پر تفصیلی بحث کے لیے الگ دفتر درکار۔ ہم اِس بات پر قصّہ لپیٹے ہیں کہ فلسفے کے یہ استاد لسانیات اور ادبیات میں نئی جہتیں کھوجنے کے قائل ہیں۔ کئی جہتیں تو کھوج ڈالیں، جو خاصی تحیرخیز ہیں۔ دل کو بھاتی ہیں۔

مارکیز نے کہا تھا: ''ناول کوڈز میں بیان کردہ حقیقت کا نام ہے۔'' بیگ صاحب کے ناولز میں بھی کئی ''کوڈز'' ہیں، مگر ضروری نہیں کہ آپ ہر ایک کو ''ڈی کوڈ'' کرتے پھریں۔ کچھ چیزیں فقط اِس لیے ہوتی ہیں کہ اُنھیں جوں کا توں چھوڑ دیا جائے۔مرزا اطہربیگ کی یہ کتاب سانجھ پبلی کیشنزلاہورنے چھاپی ہے،جواس سے قبل ''غلام باغ''،''صفر سے ایک تک: سائبراسپیس کے منشی کی سرگذشت'' اور ''بے افسانہ'' کوبھی شائع کرچکا ہے۔
(نوٹ: اگر آپ کو اِس تحریر میں خالی جگہیں نظر آئیں، تو براہ مہربانی انھیں پُر کرنے کی زحمت نہ کریں، کچھ چیزیں تو فقط لطف اندوز ہونے کے واسطے ہوتی ہیں)

ناول نگاری اور ناول نگار
اپنے طرز ناول نگاری سے متعلق مرزا اطہر بیگ کہتے ہیں،''میں یہ عزم لے کر نہیں لکھتا کہ مجھے کلیے توڑنے ہیں۔ جو بھی موضوع میرے سامنے آتا ہے، وہ خود اپنی ساخت اور ہیئت کا انتخاب کرتا ہے۔ 'بے افسانہ' میرا پسندیدہ افسانہ ہے۔ میرے ذہن میں تھا کہ لکھتے ہوئے خیال کی مناسبت سے ہمیں ایک لفظ سُوجھتا ہے، تو ہم رُکتے ہیں، اور اْس کے متبادلات کے طور پر کئی الفاظ سوچتے ہیں، جن سے ایک چن کر ہم فقرے مکمل کرتے ہیں۔ میرے ذہن میں آیا، کیوں نہ ایسا تجربہ کیا جائے، جہاں منتخب کردہ لفظ کے ساتھ اْس کے متبادلات بھی سامنے آئیں، قاری نئے تجربات سے گزرے۔ ''

ان کے بقول ''اگر ناول میں تجربات نہیں ہیں، تو یہ پاپولر ناول تو ہوسکتا ہے، مگر ادبی ناول نہیں ہوگا۔ ادبی ناول میں کسی نہ کسی سطح پر تجربہ ضرور ہوتا ہے۔ یہ حیرت انگیز صنفِ ادب ہے۔ یہاں امکانات لامحدود ہیں۔ اِس میں کمال ہے کہ تغیر کو گرفت میں لانے کے لیے خود تغیر سے گزرتا ہے۔ ناول کی صنف یورپ سے آئی ہے۔ شروع میں جو ناول لکھے گئے، وہ ایک حد تک سپاٹ تھے۔ یہ ٹو ڈائی مینشنل ناول تھے۔ ان میں گہرائی کی تیسری ڈائی مینشن نہیں تھی۔ قرۃ العین کی آمد کے بعد یہ ڈائی مینشن ہمیں نظر آئی۔ بیرونی دنیا میں ناول کے میدان میں بہت تجربات ہوئے، مگر ہم اردو ناول کی بات کریں، تو میں کہوں گا کہ ہمارے ہاں فوٹو گرافکس تو بنائے گئے، مگر ایکس ریز نہیں بنائے۔''

ناول نگاری، ان کے نزدیک، ایک متوازی دنیا میں زندہ رہنے کا نام ہے۔ ایسی دنیا جو ہر لمحے ساتھ ساتھ چلتی ہے، جب اِس دنیا میں کوئی واقعہ ہوتا ہے، تو اُس کی بازگشت آپ کی تحریروں میں سُنی جاتی ہے۔ ''ایک سطح پر یہ تنہائی کا سفر ہے۔ جب ناول مکمل ہوجاتا ہے، تو ناول نگار کو خلا محسوس ہوتا ہے۔ وہ دنیا ختم ہوجاتی ہے، جو آپ کے تخیل میں آباد تھی۔''
Load Next Story