علامہ صاحب آگے نکل گئے
علامہ صاحب نے دھرنا ختم کیا، اچھا کیا۔ انقلاب لانے کے لیے جمہوری طریقہ اختیار کرنے کا اعلان کیا، بہت اچھا کیا۔
چند دنوں پہلے 21 ویں صدی کے پہلے انقلابی حضرت علامہ صاحب کا ایک انٹرویو نظر سے گزرا جس میں انھوں نے فرمایا کہ ہم نے حکومت گرانے کی بہت کوشش کی لیکن بعض ''سپر پاورز'' نے حکومت کو گرنے نہیں دیا۔ جب نواز شریف کے لیے بڑی طاقتوں کی کھلی حمایت سامنے آئی تو مجھے مجبوراً اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی پڑی۔ یہ بڑی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں کوئی تبدیلی رونما ہو۔ علامہ صاحب نے مزید فرمایا تھا کہ سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر لیا جاتا تو ملک میں مارشل لاء لگ جاتا اور اگر ایسا ہوتا تو اس کے نتیجے میں ہماری جماعت کو القاعدہ جیسی دہشتگرد تنظیم قرار دے دیا جاتا۔
اس خصوصی انٹرویو میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ 70 روزہ دھرنے کے دوران ان کی جماعت کے کارکنوں نے انتہائی اہم معرکے سر کیے اور تمام تر سختیوں اور مشکلات کے باوجود 30 اور 31 کی درمیانی شب زبردست کامیابیاں حاصل کیں لیکن دھرنا رفتہ رفتہ کمزور ہو رہا تھا، میرے سامنے دو راستے تھے ایک یہ کہ میں کارکنوں کو پارلیمنٹ، وزیر اعظم ہاؤس اور پی ٹی وی وغیرہ پر قبضے کا حکم دیتا اور دھرنے کو منطقی انجام تک پہنچا دیا جاتا جب کہ دوسرا راستہ یہ تھا کہ حکمت عملی تبدیل کر کے کسی متبادل راستے کا انتخاب کر لیا جاتا۔ یہی وجہ تھی کہ دھرنوں کو ختم کیا گیا اور اس بارے میں عمران خان سمیت تمام لوگوں کو اعتماد میں لیا گیا تھا۔
علامہ صاحب نے دھرنا ختم کیا، اچھا کیا۔ انقلاب لانے کے لیے جمہوری طریقہ اختیار کرنے کا اعلان کیا، بہت اچھا کیا، انھوں نے عام انتخابات، ضمنی انتخابات اور بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کا درست فیصلہ کیا۔ اب اگر وہ اپنے ان فیصلوں پر قائم رہتے ہیں تو انتخابات میں عوام اس کا فیصلہ کریں گے کہ ملک کی باگ ڈور انھیں سونپ دی جائے یا ابھی ان کو مزید سیاسی تربیت کی ضرورت ہے۔ علامہ صاحب نے معروضیت اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تصادم کا راستہ ترک کیا۔ اس طرح انھوں نے خود کو اور اپنی جماعت کو سیاسی طور سے فنا ہونے سے بچا لیا۔
اب انھیں موقع میسر آیا ہے کہ وہ دھرنے کے دباؤ والے ماحول سے نکل کر یورپ اور شمالی امریکا کی خوبصورت فضاؤں میں بیٹھیں اور یہ غور فرمائیں کہ ان کے دھرنوں سے ملک کو کیا فائدہ ہوا؟ انھیں اس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ انھوں نے اور عمران خان نے، یہ کیسے سوچ لیا تھا کہ جمہوری حکومت ، منتخب پارلیمنٹ اور وزیر اعظم کو 24 یا 48 گھنٹوں کے دھرنوں سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اگر بعض مہم جو افراد نے انھیں ایسا باور کرایا تھا تو یہ اقتدار میں آنے کی خواہش نے دونوں رہنماؤں کو اتنا بے قرار کر دیا کہ انھوں نے یہ غور کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ عالمی علاقائی اور ملکی حالات اب اتنے تبدیل ہو چکے ہیں کہ پاکستان جیسے اہم ملک میں پارلیمنٹ کے خلاف شب خون مار کر پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہو گا ۔
علامہ صاحب نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ بڑی طاقتیں نواز شریف حکومت کو ہٹانے کے حق میں نہیں۔ وہ اور عمران خان ایک نیا اور انقلابی پاکستان بنانے کے دعوے دار ہیں۔ کیا ملک کی قیادت اور امارت ایسے شوریدہ سر انقلابیوں کے سپرد کی جا سکتی ہے جو عالمی حالات سے بے بہرہ ہوں اور جن کو یہ اندازہ تک نہ ہو کہ انھوں نے جس خطرناک مہم جوئی کی پر خطر راہ اپنائی ہے اسے عالمی برادری اور دنیا کے سرکردہ ممالک کی تائید حاصل ہو سکے گی یا نہیں؟ 13 اور 14 اگست کے بعد جب پاکستان کے دارالحکومت کو مفلوج کر کے یہ مژدہ سنایا جا رہا تھا کہ چند دنوں میں حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا۔
اس وقت عالمی طاقتوں کا جو ابتدائی ردعمل آیا اس سے یہ بات سمجھ میں آ جانی چاہیے تھی کہ امریکا، برطانیہ، یورپی یونین، چین، روس اور بعض انتہائی اہم عرب ملک، منتخب جمہوری حکومت کے خلاف جاری مہم جوئی کی حمایت تو درکنار خاموش تائید کا تاثر دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اہم دارالحکومتوں سے ایسے بیانات جاری کیے گئے جن سے تمام ابہام دور ہو گئے۔ ہمارے دونوں عظیم رہنماؤں کو اس امر پر کچھ غور تو ضرور کرنا چاہیے تھا کہ وہ امریکا جو افغانستان سے رخصت ہو رہا ہے، پاکستان میں عدم استحکام کیوں چاہے گا۔ اس کی سیاسی حکمت عملی بھی یہی ہو گی کہ پاکستان میں سیاسی استحکام رہے تا کہ پاکستان کی افواج کو دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں کامیابی ملے اور امریکا کو افغانستان میں دوبارہ مداخلت پر مجبور نہ ہونا پڑے ۔
دھرنے والوں کو یقینا معلوم تھا کہ جن دنوں وہ اسلام آباد میں ہوں گے ان ھی دنوں چین کے صدر پاکستان کے سرکاری دورے پر تشریف لائیں گے۔ اس دورے کی غیر معمولی اہمیت تھی۔ ان سے زیادہ کون یہ جانتا ہے کہ چین اس وقت امریکا کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی معاشی طاقت ہے۔ دنیا کے ہر ملک کی تمنا ہے کہ چین کا صدر اس کے ملک کا دورہ کرے تا کہ چین کی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا جائے اور چین کی منڈیوں تک رسائی حاصل کی جائے۔ چین کے صدر کے پاکستان آنے کا مطلب چینی کمپنیوں کو گرین سگنل دینا تھا کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کا عمل تیز تر کر دیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے ایک سال کے دوران چین کی قیادت سے مسلسل رابطے رکھے۔ سات برسوں میں 42 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے انھیں آمادہ کیا، اس جدو جہد کا نتیجہ تھا کہ چین کے صدر نے ہندوستان سے پہلے پاکستان کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے آنے سے کچھ دنوں پہلے انقلاب برپا کرنے والے اور نیا پاکستان بنانے والے ریڈ زون میں داخل ہو گئے۔
ریاست کی علامت عمارتوں میں گھسنے اور توڑ پھوڑ کر کے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ یہ اہم دورہ ممکن نہ ہو سکے اور ایسا ہی ہوا۔ اس حوالے سے دو سوال ابھرتے ہیں۔ پہلا یہ کہ نیا پاکستان بنانے والوں کو کیا اس بات کا علم نہیں تھا کہ چینی صدر سمیت تین ملکوں کے صدور پاکستان آنے والے تھے۔ انھیں اس بات کا علم تھا، لیکن اس کے باوجود انھوں نے ایسے حالات پیدا کیوں کیے جس کے باعث یہ اہم دورے ملتوی یا منسوخ ہو گئے۔ کیا انھیں ریاست اور حکومت کے درمیان فرق کا علم نہیں تھا۔ آکسفورڈ کی تعلیم اور کینیڈا میں رہنے اور علامہ کے منصب پر فائز ہونے والوں کے بارے میں یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ وہ ریاست اور حکومت کے درمیان فرق سے نابلد اور ناواقف ہوں گے۔
ان دوروں کی منسوخی سے حکومت کو سبکی اٹھانی پڑی لیکن ریاست پاکستان کا مالی، معاشی اور سیاسی لحاظ سے بھاری نقصان ہوا۔ عالمی سرمایہ کاروں میں حکومت کی نہیں بلکہ پاکستان کی ساکھ مجروح ہوئی۔ چین کی طرف سے ان کے صدر کے دورے کی منسوخی کے حوالے سے جو سرکاری بیان جاری کیا گیا اس میں منسوخی کا سبب پاکستان کی سیاسی صورتحال کو قرار دیا گیا۔ یہ بیان دراصل اس بات کی علامت تھا کہ چین بھی پاکستان میں جاری سیاسی مہم جوئی کو پسند نہیں کرتا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت چین کی معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ہو، اس سے پاکستان اور چین دونوں کا نقصان ہو گا۔
علامہ طاہرالقادری اپنے سیاسی کزن سے زیادہ دانش مند ثابت ہوئے۔ دھرنے کے آغاز کے چند ہفتوں بعد انھیں اندازہ ہو گیا کہ نواز حکومت کے خاتمے اور پارلیمنٹ کی تحلیل اور ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام کے لیے انھیں سبز باغ دکھائے گئے تھے اور غلط طور پر یہ یقین دلایا گیا تھا کہ نہ صرف ملک کے طاقت ور حلقے بلکہ بڑی طاقتیں بھی پاکستان میں تبدیلی کی خواہاں ہیں لہٰذا لانگ مارچ اور دھرنوں کی کامیابی یقینی ہے۔ اس سازشی تھیوری کے ذریعے ملک میں خوف ناک ماحول پیدا کردیا گیا۔ دھرنوں کے ابتدائی دنوں میں انتہائی سنجیدہ تجزیہ نگار بھی حکومت کے یقینی زوال کے اسباب اور نئی حکومت کے خدوخال پر اپنی دانش کے موتی بکھیرنے لگے ۔ اصل حقیقت کا ادراک ہوتے ہی علامہ صاحب نے یوٹرن لینے میں لمحہ بھر کی دیر نہیں لگائی ۔ وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اپنی مدح سرائی کرنے والوں کو حیران، پریشان اور روتا چھوڑ کر رات ساڑھے تین بجے کی پرواز سے وہیں سدھار گئے جہاں سے تشریف لائے تھے ۔ جاتے جاتے یہ کہہ گئے کہ انقلاب کا سفر جاری ہے، ان کا آنا جانا لگا رہے گا ۔
ایک دھرنا ختم ہوا ، دوسرا جاری ہے۔ غصہ، طیش، دھمکی، الزام کی زد میں کون سا فرد یا ادارہ ایسا ہے جو نہیں آیا ۔ ہر شام دشنام طرازی کی محفل سجتی ہے، لوگ بلا ثبوت اور دلیل کے الزامات کی باتیں سن سن کر بے زار ہوچکے ہیں ۔ ملک سخت مسائل سے دوچار ہے ، پورا خطہ تبدیلیوں کی لہر میں ہے ۔ ایسے میں پاکستان کو سیاسی استحکام کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے جو جمہوری عمل کے تسلسل کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس عمل میں جو بھی رخنہ ڈالے گا تاریخ اس سے حساب طلب کرے گی ۔ علامہ صاحب نے تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا ہے لہٰذا انھوں نے اس سے ٹکرانے کا فیصلہ ملتوی کردیا ہے ۔ دھرنوں اور حملوں میں وہ اپنے سیاسی کزن سے آگے تھے لیکن غلطی کے بروقت ادراک میں بھی وہ ان سے آگے نکل گئے ۔
اس خصوصی انٹرویو میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ 70 روزہ دھرنے کے دوران ان کی جماعت کے کارکنوں نے انتہائی اہم معرکے سر کیے اور تمام تر سختیوں اور مشکلات کے باوجود 30 اور 31 کی درمیانی شب زبردست کامیابیاں حاصل کیں لیکن دھرنا رفتہ رفتہ کمزور ہو رہا تھا، میرے سامنے دو راستے تھے ایک یہ کہ میں کارکنوں کو پارلیمنٹ، وزیر اعظم ہاؤس اور پی ٹی وی وغیرہ پر قبضے کا حکم دیتا اور دھرنے کو منطقی انجام تک پہنچا دیا جاتا جب کہ دوسرا راستہ یہ تھا کہ حکمت عملی تبدیل کر کے کسی متبادل راستے کا انتخاب کر لیا جاتا۔ یہی وجہ تھی کہ دھرنوں کو ختم کیا گیا اور اس بارے میں عمران خان سمیت تمام لوگوں کو اعتماد میں لیا گیا تھا۔
علامہ صاحب نے دھرنا ختم کیا، اچھا کیا۔ انقلاب لانے کے لیے جمہوری طریقہ اختیار کرنے کا اعلان کیا، بہت اچھا کیا، انھوں نے عام انتخابات، ضمنی انتخابات اور بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کا درست فیصلہ کیا۔ اب اگر وہ اپنے ان فیصلوں پر قائم رہتے ہیں تو انتخابات میں عوام اس کا فیصلہ کریں گے کہ ملک کی باگ ڈور انھیں سونپ دی جائے یا ابھی ان کو مزید سیاسی تربیت کی ضرورت ہے۔ علامہ صاحب نے معروضیت اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تصادم کا راستہ ترک کیا۔ اس طرح انھوں نے خود کو اور اپنی جماعت کو سیاسی طور سے فنا ہونے سے بچا لیا۔
اب انھیں موقع میسر آیا ہے کہ وہ دھرنے کے دباؤ والے ماحول سے نکل کر یورپ اور شمالی امریکا کی خوبصورت فضاؤں میں بیٹھیں اور یہ غور فرمائیں کہ ان کے دھرنوں سے ملک کو کیا فائدہ ہوا؟ انھیں اس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ انھوں نے اور عمران خان نے، یہ کیسے سوچ لیا تھا کہ جمہوری حکومت ، منتخب پارلیمنٹ اور وزیر اعظم کو 24 یا 48 گھنٹوں کے دھرنوں سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اگر بعض مہم جو افراد نے انھیں ایسا باور کرایا تھا تو یہ اقتدار میں آنے کی خواہش نے دونوں رہنماؤں کو اتنا بے قرار کر دیا کہ انھوں نے یہ غور کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ عالمی علاقائی اور ملکی حالات اب اتنے تبدیل ہو چکے ہیں کہ پاکستان جیسے اہم ملک میں پارلیمنٹ کے خلاف شب خون مار کر پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہو گا ۔
علامہ صاحب نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ بڑی طاقتیں نواز شریف حکومت کو ہٹانے کے حق میں نہیں۔ وہ اور عمران خان ایک نیا اور انقلابی پاکستان بنانے کے دعوے دار ہیں۔ کیا ملک کی قیادت اور امارت ایسے شوریدہ سر انقلابیوں کے سپرد کی جا سکتی ہے جو عالمی حالات سے بے بہرہ ہوں اور جن کو یہ اندازہ تک نہ ہو کہ انھوں نے جس خطرناک مہم جوئی کی پر خطر راہ اپنائی ہے اسے عالمی برادری اور دنیا کے سرکردہ ممالک کی تائید حاصل ہو سکے گی یا نہیں؟ 13 اور 14 اگست کے بعد جب پاکستان کے دارالحکومت کو مفلوج کر کے یہ مژدہ سنایا جا رہا تھا کہ چند دنوں میں حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا۔
اس وقت عالمی طاقتوں کا جو ابتدائی ردعمل آیا اس سے یہ بات سمجھ میں آ جانی چاہیے تھی کہ امریکا، برطانیہ، یورپی یونین، چین، روس اور بعض انتہائی اہم عرب ملک، منتخب جمہوری حکومت کے خلاف جاری مہم جوئی کی حمایت تو درکنار خاموش تائید کا تاثر دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اہم دارالحکومتوں سے ایسے بیانات جاری کیے گئے جن سے تمام ابہام دور ہو گئے۔ ہمارے دونوں عظیم رہنماؤں کو اس امر پر کچھ غور تو ضرور کرنا چاہیے تھا کہ وہ امریکا جو افغانستان سے رخصت ہو رہا ہے، پاکستان میں عدم استحکام کیوں چاہے گا۔ اس کی سیاسی حکمت عملی بھی یہی ہو گی کہ پاکستان میں سیاسی استحکام رہے تا کہ پاکستان کی افواج کو دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں کامیابی ملے اور امریکا کو افغانستان میں دوبارہ مداخلت پر مجبور نہ ہونا پڑے ۔
دھرنے والوں کو یقینا معلوم تھا کہ جن دنوں وہ اسلام آباد میں ہوں گے ان ھی دنوں چین کے صدر پاکستان کے سرکاری دورے پر تشریف لائیں گے۔ اس دورے کی غیر معمولی اہمیت تھی۔ ان سے زیادہ کون یہ جانتا ہے کہ چین اس وقت امریکا کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی معاشی طاقت ہے۔ دنیا کے ہر ملک کی تمنا ہے کہ چین کا صدر اس کے ملک کا دورہ کرے تا کہ چین کی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا جائے اور چین کی منڈیوں تک رسائی حاصل کی جائے۔ چین کے صدر کے پاکستان آنے کا مطلب چینی کمپنیوں کو گرین سگنل دینا تھا کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کا عمل تیز تر کر دیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے ایک سال کے دوران چین کی قیادت سے مسلسل رابطے رکھے۔ سات برسوں میں 42 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے انھیں آمادہ کیا، اس جدو جہد کا نتیجہ تھا کہ چین کے صدر نے ہندوستان سے پہلے پاکستان کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے آنے سے کچھ دنوں پہلے انقلاب برپا کرنے والے اور نیا پاکستان بنانے والے ریڈ زون میں داخل ہو گئے۔
ریاست کی علامت عمارتوں میں گھسنے اور توڑ پھوڑ کر کے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ یہ اہم دورہ ممکن نہ ہو سکے اور ایسا ہی ہوا۔ اس حوالے سے دو سوال ابھرتے ہیں۔ پہلا یہ کہ نیا پاکستان بنانے والوں کو کیا اس بات کا علم نہیں تھا کہ چینی صدر سمیت تین ملکوں کے صدور پاکستان آنے والے تھے۔ انھیں اس بات کا علم تھا، لیکن اس کے باوجود انھوں نے ایسے حالات پیدا کیوں کیے جس کے باعث یہ اہم دورے ملتوی یا منسوخ ہو گئے۔ کیا انھیں ریاست اور حکومت کے درمیان فرق کا علم نہیں تھا۔ آکسفورڈ کی تعلیم اور کینیڈا میں رہنے اور علامہ کے منصب پر فائز ہونے والوں کے بارے میں یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ وہ ریاست اور حکومت کے درمیان فرق سے نابلد اور ناواقف ہوں گے۔
ان دوروں کی منسوخی سے حکومت کو سبکی اٹھانی پڑی لیکن ریاست پاکستان کا مالی، معاشی اور سیاسی لحاظ سے بھاری نقصان ہوا۔ عالمی سرمایہ کاروں میں حکومت کی نہیں بلکہ پاکستان کی ساکھ مجروح ہوئی۔ چین کی طرف سے ان کے صدر کے دورے کی منسوخی کے حوالے سے جو سرکاری بیان جاری کیا گیا اس میں منسوخی کا سبب پاکستان کی سیاسی صورتحال کو قرار دیا گیا۔ یہ بیان دراصل اس بات کی علامت تھا کہ چین بھی پاکستان میں جاری سیاسی مہم جوئی کو پسند نہیں کرتا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت چین کی معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ہو، اس سے پاکستان اور چین دونوں کا نقصان ہو گا۔
علامہ طاہرالقادری اپنے سیاسی کزن سے زیادہ دانش مند ثابت ہوئے۔ دھرنے کے آغاز کے چند ہفتوں بعد انھیں اندازہ ہو گیا کہ نواز حکومت کے خاتمے اور پارلیمنٹ کی تحلیل اور ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام کے لیے انھیں سبز باغ دکھائے گئے تھے اور غلط طور پر یہ یقین دلایا گیا تھا کہ نہ صرف ملک کے طاقت ور حلقے بلکہ بڑی طاقتیں بھی پاکستان میں تبدیلی کی خواہاں ہیں لہٰذا لانگ مارچ اور دھرنوں کی کامیابی یقینی ہے۔ اس سازشی تھیوری کے ذریعے ملک میں خوف ناک ماحول پیدا کردیا گیا۔ دھرنوں کے ابتدائی دنوں میں انتہائی سنجیدہ تجزیہ نگار بھی حکومت کے یقینی زوال کے اسباب اور نئی حکومت کے خدوخال پر اپنی دانش کے موتی بکھیرنے لگے ۔ اصل حقیقت کا ادراک ہوتے ہی علامہ صاحب نے یوٹرن لینے میں لمحہ بھر کی دیر نہیں لگائی ۔ وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اپنی مدح سرائی کرنے والوں کو حیران، پریشان اور روتا چھوڑ کر رات ساڑھے تین بجے کی پرواز سے وہیں سدھار گئے جہاں سے تشریف لائے تھے ۔ جاتے جاتے یہ کہہ گئے کہ انقلاب کا سفر جاری ہے، ان کا آنا جانا لگا رہے گا ۔
ایک دھرنا ختم ہوا ، دوسرا جاری ہے۔ غصہ، طیش، دھمکی، الزام کی زد میں کون سا فرد یا ادارہ ایسا ہے جو نہیں آیا ۔ ہر شام دشنام طرازی کی محفل سجتی ہے، لوگ بلا ثبوت اور دلیل کے الزامات کی باتیں سن سن کر بے زار ہوچکے ہیں ۔ ملک سخت مسائل سے دوچار ہے ، پورا خطہ تبدیلیوں کی لہر میں ہے ۔ ایسے میں پاکستان کو سیاسی استحکام کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے جو جمہوری عمل کے تسلسل کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس عمل میں جو بھی رخنہ ڈالے گا تاریخ اس سے حساب طلب کرے گی ۔ علامہ صاحب نے تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا ہے لہٰذا انھوں نے اس سے ٹکرانے کا فیصلہ ملتوی کردیا ہے ۔ دھرنوں اور حملوں میں وہ اپنے سیاسی کزن سے آگے تھے لیکن غلطی کے بروقت ادراک میں بھی وہ ان سے آگے نکل گئے ۔