’’نظام‘‘ جو چمڑے کے سکے چلاتا ہے
جس چیز کے آج کل سب سے زیادہ چرچے ہیں اس پر ہم ’’چپ‘‘ ہیں۔ وہ ہے ’’نظام‘‘۔
KARACHI:
ہمارے چینل ''ہواں سے ہیاں تک'' کے ناظرین و سامعین جو بڑی حد تک ''صابرین و شاکرین'' بھی ہیں کیوں کہ آج کل کے چینلوں کو سننا دیکھنا اور اس کے بعد بھی پاگل نہ ہونا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ ہاں تو ہمارے ان صابرین و شاکرین بلکہ زدگان و متاثرین کو بجا طور پر یہ گلہ تھا کہ ہم نے ویسے تو دنیا کی تمام فضولیات اور خرافات کے ڈھیر لگا دیے ہیں لیکن جس چیز کے آج کل سب سے زیادہ چرچے ہیں اس پر ہم ''چپ'' ہیں۔ وہ ہے ''نظام'' جس کے بارے میں اور تو اور گونگے اور گھونگے بلکہ بونگے بھی دن رات بولتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اپنے رسوائے عالم ٹاک شو ''چونچ بہ چونچ'' میں بھی اس پر چونچ بازی نہیں کی ہے ۔
اب مملکت اللہ داد ناپرساں کے احمقان کرام کو کون سمجھائے کہ یہ دنیا ایک مایا جال ہے خاص طور پر مملکت ناپرسان تو دو سو فیصد ایک مایاوی مملکت ہے۔ جب کہ مملکت ناپرساں میں جو چیز سرے سے ہوتی نہیں ہے لیکن سب سے زیادہ چرچے اسی کے ہیں بلکہ یوں کہئے کہ چاروں طرف نظام ہی نظام ہے اور نظام کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، لیکن ناظرین کا اصرار تھا۔
اس لیے ہم نے اپنے چینل کے سب سے بڑے ''کھوجی'' ۔۔۔ سن گن خان کو ناپرساں بھیجا کہ وہ ذرا جا کر اس مکار ناپکار ناہنجار خدائی خوار اللہ کی مار ''نظام'' کا پتہ لگائے کہ یہ کون ہے اور کیا بیچتا ہے ہمارے چیف کھوجی سن گن خان نے کُھرا اٹھایا خاک چھانی پانی بلوایا اور ہوا فلٹر کی لیکن نظام کم بخت گدھے کا سینگ، بچھو کی آنکھ، سانپ کے پیر اور لیڈر کا ایمان ہو کر نہ جانے کہاں کھو گیا تھا چنانچہ اس نے بذریعہ ''کچھوا میل'' خبر بھیجی ہے کہ
شاہد ہستی مطلق کی کمر ہے عالم
لوگ کہتے ہیں کہ ہے پر مجھے منظور نہیں
جوابی طور پر چینل کی انتظامیہ نے اسے خبردار کیا کہ اگر خالی ہاتھ لوٹ آئے تو تمہیں وہی سزا دی جائے گی جو مملکت اللہ داد ناپرسان میں ''شریف'' آدمیوں کے لیے مقرر ہے اور تمہیں ویسے ہی کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے جیسے کسی سچ بولنے والے کو پہنچایا جاتا ہے، چیف کھوجی سن گن خان کے کان ہو گئے وہ اتنا ڈرا کہ گھگھی بند ہو گئی کیونکہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ مملکت اللہ داد ناپرساں میں شریفوں اور سچوں کا کیا حشر نشر کیا جاتا ہے۔
اسی پریشانی میں اسے نیند آ گئی تب خواب میں اسے ایک ''سراغ'' ملا اور اسی سراغ کا حال سنانے کے لیے آج کل ہم نے اپنے چیف کھوجی سن گن خان کو اپنے ٹاک شو چونچ بہ چونچ میں مدعو کیا ہوا ہے اور یہ بتانے کی تو ضرورت ہی کیا ہے کہ ان سے لڑانے کے لیے ہمارے پاس اپنی جو ''دو چونچیں'' موجود ہیں انھیں بھی گھس گھسا کر خوب تیز دھار کیا گیا ہے کیوں کہ دونوں چونچیں کوے کی طرح ہر پاک و صاف چیز کھا کر گھسائی جاتی ہیں،
اینکر : ہاں تو جناب سن گن خان صاحب پہلے تو مملکت اللہ داد ناپرساں سے صحیح و سالم اور ایک ہی ''پیس'' میں آنے پر مبارک باد قبول کریں۔
سن گن : جی ہاں ۔جاں بچی سو لاکھوں پائے، خیر سے بدھو گھر کو آئے کیونکہ مملکت اللہ داد ناپرساں میں کسی اور کو تو چھوڑیئے خود ناپرساں ہی کی جان پر بنی ہوئی ہے کیونکہ میں نے وہاں کوئی ایک انسان تو کیا کوئی چڑیا کا بچہ بھی ایسا نہیں دیکھا جو ناپرساں کی ریڑھ نہ مار رہا ہو۔
چشم : تو یوں کہئے کہ ناپرساں کو صرف ناپرسانیوں ہی سے خطرہ ہے۔ علامہ : جیسے تم کو تم ہی سے خطرہ ہے۔
چشم : اور آپ سے خلق خدا کو۔
اینکر : لڑیئے مت ہاں تو سن گن صاحب آپ کا مطلب یہ ہے کہ تم شہر سمجھتے ہو جس کو پوچھو نہ وہاں کیا حالت ہے۔ سن گن : جی ہاں یوں سمجھ لو کہ وہاں سانپ اور نیولے کی لڑائی ہو رہی ہے جو ایک دفعہ میں نے دیکھی تھی۔
اینکر : اچھا ؟ پھر تو اس کا آنکھوں دیکھا حال سنایئے۔
سن گن : کیوں نہیں وہ ایسا ہوا کہ سانپ اور نیولے کو میں نے لڑتے ہوئے دیکھا سانپ نے نیولے کی دم منہ میں لے رکھی تھی اور نیولے نے سانپ کی دم، دونوں ہی زور لگا کر ایک دوسرے کو نگل رہے تھے تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ وہاں کچھ بھی نہ تھا۔
اینکر : کیا مطلب ؟ وہ نیولا اور سانپ۔
سن گن : دونوں نے ایک دوسرے کو نگل لیا ۔
اینکر : خیر چھوڑیئے نا، آپ نظام کے بارے میں بتایئے خواب میں آپ کو کیا سراغ ملا۔
سن گن : مجھے خواب میں ایک کلین شیو بزرگ نے بتایا کہ تم دارالحکومت اکرام آباد جاؤ اور وہاں جا کر ''دشت طور'' نامی مقام پر دھرنا دے تو مراقبے میں چلے جاؤ چالیس دن بعد جب تمہارا چلہ مکمل ہو جائے گا اور تمہارے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے ... اینکر : اچھا تو پھر۔ سن گن : میں نے وہاں چلا کاٹا اور ایک کنٹینر نشین ہو گیا ۔ علامہ : یہ کنٹینر کیا ہوتا ہے؟ چشم : چلہ کاٹنے کی کوٹھری ہوتی ہے۔ اینکر :تم دونوں چپ رہو، آپ بتائیں سن گن صاحب۔
سن گن : ٹھیک چالیسویں دن میں نے ایک اور بزرگ کو دیکھا۔ اینکر : مگر آپ تو نظام کے بارے میں بتانے والے تھے۔ سن گن : ہاں پھر مجھے ایک اور بزرگ ملا جس کی عمر چار سو بیس سال سے صرف ساڑھے تین سو سال کم تھی اس کا نام نظام الدین منظور ناظمانی تھا۔ اینکر : مطلب کہ نظام تھا۔
سن گن : نہیں بلکہ اپنے جد اعلیٰ نظام سقہ کا پڑ پڑ پڑ پڑ، چڑ چڑ چڑ چڑ، کڑ کڑ کڑ کڑ پوتا بچہ سقہ تھا۔ اینکر : اچھا وہ جو نظام سقہ کا پڑ پڑ پوتا تھا اس نے کیا بتایا؟ سن گن : اس نے بتایا کہ اس کے جد اعلیٰ حضرت نظام سقہ کو بادشاہ نے ڈیڑھ ''دن'' کی حکومت عطا کی تھی جس میں اس نے اپنے خاندانی بکرے کی مشک سے سکے بنائے اور چلائے تھے۔ اینکر : ہاں چمڑے کے سکوں کے بارے میں سنا ہے میں نے۔ چشم : سنا کیا ہے ہم نے دیکھے بھی ہیں چلائے بھی ہیں کیوں کہ آج کل کے سارے سرکاری سکے چمڑے ہی کے بنے ہوتے ہیں۔ علامہ : جھوٹ مت بولو آج کل تو کاغذ کے نوٹ ہوتے ہیں۔
چشم : یہی نوٹ اصل میں چمڑے ہی کے ہوتے ہیں لیکن ہائی ٹیکنالوجی کی وجہ سے کاغذ کے بنائے جاتے ہیں۔
سن گن : لیکن ایک بات تم سب نہیں جانتے کہ اس نظام نے مشک کے چمڑے سے سکے بنائے تھے جب کہ آج کل کے نوٹ یا سکے ایک خاص قسم کے دو پائے جانور کی کھال سے بنائے جاتے ہیں۔ اینکر : کون سا دو پایا؟ سن گن : نام تو اس کا عوام کالانعام ہے لیکن لیڈر لوگ، افسر لوگ اور سرکاری لوگ اسے پیار سے ''عوام'' کہہ کر پکارتے ہیں۔