فروغ معیشت

ہمارے قبائلی علاقہ جات میں حکومت کی طرف سے کسی قسم کے ترقیاتی کاموں کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں گیا۔

KARACHI:
چین کے انقلابی رہنما ماؤزے تنگ کہتے ہیں ''اگر ہمارے پاس کوئی صحیح نظریہ ہو لیکن ہم اس کے متعلق فقط زبانی جمع خرچ کرتے رہیں، اسے بالائے طاق رکھ دیں اور اس کے مطابق عمل نہ کریں تو اس نظریے کی، خواہ وہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، کوئی اہمیت نہیں رہتی۔'' ماؤزے تنگ کے اس نظریے کے پیشِ نظر ہم اپنے ملک کی موجودہ معاشی اور اقتصادی صورتحال کو ماضی میں کیے گئے حکومتی اقدامات کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے کچھ اس طرح رقم طراز ہوتے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی بھاری اکثریت سے برسر اقتدار آتے ہی ان کی ترجیحات میں ملک کے معاشی اور اقتصادی ڈھانچے کی تبدیلی تھی جس کا مقصد کشکول فری معیشت کا نفاذ تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ملک میں صنعتی اور غیر صنعتی پیداواری یونٹس جو حکومت کی تحویل میں تھے انھیں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فروخت کرنے کا بیڑہ اٹھالیا گیا۔ برسرِ اقتدار حکومت کا موقف تھا کہ یہ ادارے اپنی مجموعی ناقص کارکردگی کی وجہ سے حکومتی خزانے پر ناقابلِ برداشت بوجھ ہیں۔

یہ امر قابل افسوس ہے کہ اس پر عملدرآمد کا آغاز عجلت کی نذر ہوگیا۔ غیر منافع بخش، خسارے میں چلنے والے اداروں کی آڑ میں منافع بخش یونٹس کی سستے داموں نجی کمیشن (Privatization Commission) کے ذریعے فروخت کی گئی اور ان یونٹس میںکام کرنے والے کارکنوں، ملازمین کے حقوق کے تحفظ کا خیال نہیں رکھا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان ملازمین کے مقدمات ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں طویل عرصے سے التوا کا شکار ہیں۔ پرائیویٹائزیشن کمیشن کے نفاذ کے فوراً بعد عوامی سطح کے قومی اداروں کو اپنے من پسند افرا د کو سستے داموں فروخت کردینے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کردیا گیا۔ کشکول تو نہ ٹوٹ سکا البتہ ملک کے عوام جو غریب تھے ان کا معیار زندگی اپنی اوسط سطح سے نیچے گرگیا، جس کے نتیجے میں امیر امیر تر ہوتا گیا۔ ممکن ہے یہ سارا پروسیس بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر کیا گیا ہو۔

ارتکازِ دولت کا راج کسی ہوشربا جن کی طرح عوام پر ایسا برسا کہ عوام عوام نہ رہے، کسی ظالم بادشاہ کی رعایا بن کر رہ گئے۔ عدالتوں میں انصاف کی فراہمی کے فقدان نے ہمارے ملک کے غریب محنت کشوں کو ظلم کی چکی میں پسنے پر مجبور کردیا۔ بلاشبہ ملک میں کسی قسم کی سماجی، معاشی تبدیلی رونما ہو، وہ ظاہر ہے عالمی حالات کے تغیرات کا پیش خیمہ ضرور ہوا کرتی ہے۔

صنعتوں کی ترقی قومی اور بین الاقوامی تجارت کے حجم میں تیزی سے اضافے کا سبب بنتی ہے۔ کسی ملک کی معیشت کا مجموعی اور بنیادی انحصار زراعت ہے اور زراعت ملک کی صنعت کے فروغ کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمارے ہاں کھربوں ایکڑ قابل کاشت اراضی پانی کی قلت اور بے جا کیمیکل ادویات کے استعمال سے ناکارہ ہوچکی ہے، جس کا درست سمت میں استعمال موجودہ سائنسی تحقیقات کے دائرے میں رہتے ہوئے قابل کاشت لانے کی شدید ضرورت ہے۔ دریاؤں اور نہروں کا جال اس ملک کے طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے۔ موسمیات بھی اپنے مختلف رنگ میں موجود ہیں۔

نجی تحویل میں دیے گئے عوامی فلاحی اداروں کے مالیاتی حجم میں کمی بیشی کے لیے باضابطہ طور پر گولڈن شیک ہینڈ کی اسکیم متعارف کروائی گئی جس کے تحت ان اداروں میں مستقل بنیادوں پر کام کرنے والے ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کیا گیا اور ان اداروں کے اندرونی معاملات میں ایسے عوامل کارفرما ہوگئے جنھوں نے اداروں کے اندر نئے اور پرانے ملازمین کے تصور کو خوب ہوا دی۔

محنت کش تنظیموں کا مکمل طور پر خاتمہ کرکے تھرڈ پارٹی ایمپلائمنٹ کا نظا م جو ہنوز اب تک جاری ہے، عام آدمی کے معاشی استحصال میں اہم کردار ادا کیا۔ ہمارا پڑوسی ملک بھارت حسب عادت مذموم سازشوں کے تحت ہر سال آبی دہشتگردی کا مرتکب ہورہا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ہمارے ہاں پانی کے ذخیرہ کرنے کا معقول انتظام نہیں ہے۔ پانی کا رخ ہمارے علاقوں کی طرف کرنے سے سوائے جان و مال و اسباب کی تباہی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں پانی کے ذخیرہ کے لیے مختلف مقامات پر ڈیمز کی تعمیر کی اشد ضرورت ہے تاکہ سیلابی پانی کو محفوظ بناکر ملک کی ترقیاتی کاموں کے لیے استعمال میں لایا جاسکے اور اس آبی دہشتگردی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاسکے۔


سر زمین پاک میں عوام کو غربت کی سطح تک لانے کی منظم منصوبہ بندی کئی سال قبل ہوچکی تھی۔ ٹیکسوں کا بدترین نظام، بجلی کی مصنوعی قلت اور بحران، بدامنی، بھتہ خوری جیسے معاشرتی عوامل ان ھی حالات کے پیش خیمہ ہیں، جو ملک میں قائم پیداواری اور منافع بخش یونٹس کی بندش کا سبب بھی بنے۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ خود انحصاری کے اصول اپناتے ہوئے بیرونی قرضوں پر انحصار کم سے کم کیا جائے۔

ہمارے قبائلی علاقہ جات میں حکومت کی طرف سے کسی قسم کے ترقیاتی کاموں کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں گیا۔ وہاں تعلیم کا فروغ اور انڈسٹریلائزیشن کی شدید ضرورت تھی، قبائلی علاقہ جات اپنے علاقائی حسن کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے، یہاں سیاحت کو ترقی دی جاسکتی تھی جو کثیر مقدار میں زرِ مبادلہ کی وصولی کا ذریعہ ہوتی، جو یقیناً ملک کی معیشت کی ترقی میں ایک سنگ میل ثابت ہوسکتی تھی۔

کہتے ہیں غربت انسان کو گمراہ کرتی ہے۔ بیرونی طاقتوں کا یہی منصوبہ ہمارے وطن عزیز میں بھی جاری و ساری ہے، جو لامحالہ خودکش حملوں، اداراتی کرپشن، قتل و غارت گری کی وارداتوں نے جنم لیا۔ اس وقت طویل عرصے سے مسلسل جاری ٹارگٹ کلنگ جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی، یہ کیوں ہے؟ کیونکہ ہم نے سنجیدگی سے ان مسائل کی طرف کبھی توجہ دینے کا سوچا ہی نہیں۔ میرا قبائلی علاقہ جات میں جانے کا اتفاق ہوا۔

میں نے ذاتی طور پر محسوس کیا کہ قبائلی لوگ بہت سیدھے سادھے مزاج اور محبت کرنے والے مہمان نواز لوگ ہیں۔ ان کو اگر تعلیم کی سہولتیں اور مناسب روزگار ان ھی کے علاقوں میں فراہم کردیا جاتا تو کوئی وجہ نہیں کہ بیرونی اشاروں پر منفی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ ان لوگوں کو بھی ملک کی معیشت کی ترقی میں قیمتی حصہ سمجھ کر قبول کیا جائے۔ اس کی تمام تر ذمے داری ہماری بیوروکریسی اور ہر حکومت میں شامل ہونے والے عوامی نمائندگان کی ہے۔

ملک میں پیداواری یونٹس کے نئے ادارے قائم ہونے چاہیے تھے تاکہ مقامی لوگوں کے لیے روزگار کا سبب بنتے بلکہ جو تھوڑے بہت پیداواری یونٹس بچے بھی تھے وہ بھی ٹھیکیداری کی نذر ہوگئے۔ ٹھیکیداری کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ کم خرچ بالا نشین۔ وہ ملازمین کے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اور صرف اپنے کثیر منافع اور سرمائے میں اضافے کی طرف توجہ رکھتا ہے جو سراسر انسانی معاشی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

ملک کی معیشت کی ترقی کا دارومدار مرکزی بینک اور اس کے زیر اثر بینکس اور مالیاتی اداروں پر ہے۔ معاشی ترقی میں رکاوٹ کا ایک اہم اور قابل غور پہلو بچتوں کا فقدان ہے، اس کی شاید وجہ ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری اور آبادی میں اضافے کی رفتار میں تیز ہونا ہے۔ بینکوں کے ڈپازٹ میں اضافے کا سب سے بڑا ذریعہ یہی لوگوں کی بچت ہوا کرتی ہے۔ ملک کا بینکنگ نظام مضبوط پروجیکٹ فائنانسنگ کے بجائے کمزور اور لاغر کنزیومر فائنانسنگ پر کھڑا ہے۔ پان کے کھوکھے کی طرح چھوٹے چھوٹے بینکس کا وجود ہوچکا ہے جن کی مجموعی کارکردگی صرف اور صرف کنزیومر فائنانسنگ ہے۔

چین ہمارا معاشی طور پر ترقی یافتہ پڑوسی ہے، ہمارے ملک کے سرمائے دار اور صنعت کار طبقہ ملک کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی سرمایہ کاری چین کے پیداواری یونٹس میں لگانے پر مجبور ہیں۔ ہمارے تعلیمی نظام کا بھی اﷲ ہی حافظ ہے، تعلیم کا حصول بہت مشکل اور مہنگا ترین سودا بن چکا ہے، جس کو ہم علم کے بجائے تجارت کا نام ہی دے سکتے ہیں۔ انصاف کی فراہمی بغیر مال و زر کے ناممکن ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پورے کا پورا پروسیس محض نیشنلائزیشن کا خاتمہ اور ڈی نیشنلائزیشن کے ذریعے معیشت کا پہیہ چلانا مقصود تھا، جو ٹھکیداری نظام کا سبب بنا۔ اس سنگین صورتحال کو ہمارے ماہرین معیشت اعداد و شمار کی روشنی میں کیا تجزیہ پیش کرتے ہیں، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ہم تو محب وطن ہونے کے ناتے یہی کہیں گے: ''ہماری عظمتوں کی سرزمین پاکستان ہے اور صرف پاکستان''۔ ہماری دعا ہے کہ اﷲ جنوبی ایشیا کے اس سرسبز و شاداب قیمتی خطے کو کرپشن سے پاک، زرعی، صنعتی، تجارتی اور مثالی فلاحی اسلامی مملکت بنادے۔
Load Next Story