گوالمنڈی کا ’’سومنات‘‘ اور شیخ ’’پورس‘‘ کا حملہ

اگر انسان گوالمنڈی متواتر کامیاب دورے کرتا رہا تو بالاخر اسے پنجاب کارڈیالوجی کا ’’دورہ‘‘ بھی کرنا پڑتا ہے۔

tahir.mir@expressnews.tv

پرائم ٹائم کے ''سقراط'' شیخ رشید کے لاہور میں واقع گوالمنڈی میں ہونے والے جلسہ ِعام کو خاص اہمیت دے رہے تھے۔

دوسری طرف آڈر پر مال تیار کرنے والے بعض ہول سیل ڈیلر تو اسے میاں برادران کے ''سومنات'' پر حملہ قرار دے رہے تھے۔ لیکن گوالمنڈی کے ایک بٹ بہادر کا کہنا ہے کہ '' دریائے جہلم کے اس پار راولپنڈی سے حملہ آور ہونے والا سکندر ِ اعظم، شریفوں کو شکست دینے کے بجائے خود ''شیدا پورس'' بن کر رخصت ہو ا''۔ فوڈ اسٹریٹ میں ہونے والے جلسہ کے حجم کے حوالے سے بٹ بہادر کا کہنا تھا کہ جلسہ سردار مچھلی فروش کے ہاں سے شروع ہو کر بلا تکا کباب شاپ پر ختم ہو گیا تھا، یعنی شیخ رشید کا جلسہ پرانی فوڈ اسٹریٹ میں واقع کھابے کی چند دکانوں تک ہی پھیل سکا... اُف! کیا سچوئیشن ہے؟

شیخ صاحب کی سیاسی زندگی کے سنگ میل کو بار بی کیو اور مچھلی فروشوں کی دکانوں سے ماپا جا رہا ہے۔ بحیثیت صحافی میں نے ایک بٹ بہادر کی رپورٹنگ کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے یہ سوچا کہ موصوف چونکہ بٹ بہادر ہیں اس لیے بٹ برادران (میاں برادران) کی دف بازی کر رہے ہیں۔ پھر خیال آیا کہ مسمی شیخ رشید بھی تو کشمیری ہیں، آپ تحریر و تقریر اور صحافت کے شورش گھرانے کے شاگرد بھی ہیں۔ شیخ رشید ایک طویل عرصے تک نامور صحافی، ادیب اور خطیب شورش کشمیری کے معتقد بھی رہے ہیں۔

اس لیے کشمیر یوں کے نزدیک کشمیری ہونے کے نمبر تو ان کے پاس بھی ہیں۔ لہذا مجھے تایا عادل بٹ کا یہ مذکورہ بیان نہ تو خواجہ کی ''گواہی'' لگا ا ور نہ ہی یہ لگا کہ شیخ صاحب کی گوالمنڈی میں ''پیشی'' ہوئی ہے۔ ذاتی طور پر شیخ رشید کے ''تاریخی جلسہ'' ( مراد صرف 28 ستمبر کا جلسہ ہے) کا نظارہ نہ کر سکا۔ وجہ یہ ہوئی کہ اس وقت لاہور کی اکھڑی ہوئی سڑکیں سطح مرتفع پھوٹو ہار کا نقشہ پیش کر رہی ہیں۔

ایسے میں بے ترتیب ٹریفک اور بے صبرے لوگو ں کی برپا کی گئی ہنگامہ خیزی سے یوں لگتا ہے کہ بدنظمی اور بد انتظامی کا صُور پھونک دیا گیا ہو۔ ایک عرصہ سے لاہور کو یوں کھود دیا گیا ہے جیسے شہر کے نیچے سے ہڑپہ یا موہنجو داڑو برآمد کرنا ہو... ایسے میں کون مائی کا لعل تھا جو شیخ صاحب کے جلسہ عام تک پہنچ پاتا... اس پر شیخ رشید نے پنجاب حکومت سے سیکیورٹی بھی مانگی تھی... بس پھر کیا تھا؟ گوالمنڈی میں جائے وقوعہ، مطلب یہ ہے کہ جلسہ کے مقام کی طرف جانے والے ہر زمینی اور فضائی رستہ پر، سیکیورٹی تعینات کر دی گئی۔ ان سب احتیاطی تدابیر کے بعد 28 ستمبر کے دن بعد از نماز ظہر گوالمنڈی کو سیکیورٹی کے اعتبار سے پینٹا گون بنا دیا گیا تھا۔ اس دن گوالمنڈی منیر نیازی کے اس شہر کا منظر پیش کر رہی تھی جسکے لوگ بعض اوقات یوں ظالم ہوا جایا کرتے ہیں کہ

کُج انج وی راہواں اوکھیاں سن، کُج گل وچ غم د ا طوق وی سی
کُج شہر دے لوک وی ظالم سن، کُج ساہنوں مرن دا شوق وی سی

یوں لگتا تھاکہ حکومت نے شیخ رشید کے گوالمنڈی کے جلسہ کا سیکیورٹی پلان بناتے ہوئے گوگل ارتھ کی سہولت سے استفادہ کیا ہو گا۔ گوالمنڈی کا گوگل ویو (نظارہ) کریں تو یہ پیرس کے فیشن اور شاپنگ گڑھ Shanzelize سے ملتا جلتا (نقشہ کے اعتبار سے) دکھائی دیتا ہو گا۔ حسن اتفاق سے بندہء صحافی نے شانزے لیزے اور گوالمنڈی دونوں مقامات کے کامیاب ''دورے'' کیے ہیں۔ شانزے لیزے جانے کا اتفاق ذرا کم ہوا ہے لیکن گوالمنڈی کے دوروں کا تو حساب نہیںکیا جا سکتا۔


اگر انسان گوالمنڈی متواتر کامیاب دورے کرتا رہا تو بالاخر اسے پنجاب کارڈیالوجی کا ''دورہ'' بھی کرنا پڑتا ہے۔ گوالمنڈی اور شانزے لیزے اگرچہ مشابہت رکھتے ہیں لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ شانزے لیزے میں زیرو فگر حسینائیں اور ہینڈسم مرد شاپنگ کرتے ہیں جب کہ گوالمنڈی میں زیرو، زیرو، ون یعنی ایک سو قطر کا معدہ رکھنے والے کھابے باز پیٹ پوجا کرنے آتے ہیں۔ بات ہو رہی تھی کہ خادم اعلیٰ کے کسی خادم نے کس طرح شیخ رشید کے جلسہ کی سیکیورٹی پلاننگ کی کہ اس کی حیثیت ''تاریخ ساز '' ہو گئی...

قارئین! گوالمنڈی کا گوگل نظارہ بھی کر لیں نیز یہ بھی دیکھیے کہ شیخ رشید نے جلسہ کے لیے کون سا مقام منتخب کر رکھاتھا ۔گوالمنڈی کو چار اطراف سے نسبت روڈ، دل محمد روڈ، سرکلر روڈ اور میواسپتال روڈ نے آغوش میںلے رکھاہے۔ فوڈ اسٹریٹ، جس مقام پر جلسہ منعقد ہوا وہاں تک پہنچنے کے لیے 6 رستے ہیں۔ جلسہ گاہ تک پہنچنے کا ایک رستہ ریلوے روڈ ہے جس پر چوک برف خانہ اور چوک دال گراں ہے۔

اسی روڈ کے دوسری طرف یعنی اگر ریلوے اسٹیشن کی طرف جائیں تو الٹے ہاتھ سرائے سلطان واقع ہے جو پنجاب کے حکمرانوں اور ہمارے پیارے میاں برادران کا پرانا محلہ ہے۔ فوڈ اسٹریٹ کی طرف آنے والی ایک گلی میں تھانہ واقع ہے جس کے دائیں بائیں گندا انجن اورکچا نسبت روڈ واقع ہے۔ جلسہ گاہ تک پہنچنے کا مرکزی راستہ چمبرلین روڈ تھا جس کی ایک جانب نسبت روڈ اور دوسری جانب موچی گیٹ واقع ہے۔ ریلوے روڈ اور میو اسپتال سے آنے والا رستہ بھی بند رکھاگیا۔ شاہ عالمی، قطب الدین ایبک کے مزار، سرائے رتن چند اور بانساں والہ بازار سے آنے والا رستہ بھی بند تھا۔

سرکلر روڈ، اسپتال روڈ اور نسبت روڈ پر آنے والے شہریوں کو اسی رستے پر گھما کر واپس گھر بھیجنے کے ''فول پروف'' انتظامات کیے گئے تھے۔ مذکورہ تمام رستوں پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے، شیخ رشید پاکستان کے'' مضبوط اورمحفوظ ترین نظریات'' کی سیاست کرتے ہیں، پھر نجانے انھیںکس سے خطرہ تھا، شاید عوام سے خطرہ تھا؟ شیخ رشید ایک جہان دیدہ سیاست ہیں۔ انھوں نے گوالمنڈی میں جلسہ تو کیا مگر میاں برادران کو اس طرح سے مخاطب نہ کیاجیسے وہ اکثر راولپنڈی میں کیا کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ''ساڑھے 5 خاندان اور ان کے 25 بچے ملکی خزانہ لوٹ رہے ہیں، آیندہ الیکشن خونی ہو گا''۔ شیخ رشیدکا اشارہ سیاستدانوں کے کن 5 عدد گھرانوں کی طرف ہے اور وہ کس ''ہاف بوائلڈ گھرانے'' کی بات کر رہے ہیں، بہتر ہے کہ وہ قوم کو خود ہی بتائیں''۔ شیخ رشید نے لاہوریوں کو طعنہ دیا ہے کہ انھوں نے پیروں میںگھنگرو اور ہاتھوں میں چوڑیاں پہن رکھی ہیں۔ مردوںکے لیے چوڑیاں پہننا ایک طعنہ ضرور ہے مگر شیخ صاحب کو پتہ ہونا چاہیے کہ گھنگرو تو بلھے شاہ جیسے فقیروں نے بھی باندھے تھے... اور جب کوئی بلھا گھنگرو باندھ لیتا ہے تو پھر ''تھیا تھیا '' ضرور ہوتا ہے۔

شیخ صاحب کا ماضی اور حال گواہ ہے کہ وہ ''تھیاتھیا '' کے شوقین نہیں بلکہ ان کے اردگرد ''لفٹ رائٹ، لفٹ رائٹ پریڈ'' ہو تو وہ خوش ہوتے اور کھلتے ہیں۔ گوالمنڈی سیف الدین سیف اور خواجہ پرویز کا محلہ بھی ہے۔ شیخ رشید کا گوالمنڈی میں سیکیورٹی کے حصار میں ''محفوظ جلسہ'' کرنے پر مجھے خواجہ پرویز کا لکھا وہ گیت یاد آ گیا جس کا نقشہ کچھ یوں ہے کہ ہیروئن، ہیرو سے ''ڈیٹ'' لگانے کے دوران چیچی کے چھلے سے محروم ہونے پر یوں ناراض ہوتی ہے کہ

میری چیچی(چھنگلیا) دا چھلہ ماہی لا لیا، گھر جا کے شکیت (شکایت) لاواں گی

لگتا ہے شیخ رشید بھی راولپنڈی واپس جا کر ''گھر والوں '' سے میاں نواز شریف اور خادم اعلیٰ کی شکایت ضرور لگائیں گے۔
Load Next Story