شیطان اور چیلے
دنیا کے حالات اس قدر تیزی سے بدل رہے ہیں اورفتنے اس قدر بڑھ رہے ہیں کہ سچ اورجھوٹ کا معلوم کرنا بہت مشکل ہوتاجارہا ہے۔
KARACHI/TANDO ALLAHYAR:
شیطان کی انگلی سے شیرہ دیوار پر چپکانے والا واقعہ تو آپ نے پڑھا ہی ہوگا۔ زمانہ بدلا، کاروبار دنیا بڑھا، شیطان کو چھوٹے چھوٹے کام کرنے کی فرصت نہ ملی تو اس نے ذمے داریاں بانٹ دیں، کچھ اپنی اولاد میں اور کچھ پیروکاروں میں، صرف پلاننگ ہی کا کام وہ خود کرنے لگا بلکہ وہ بھی ''اعلیٰ سطح کی''، خدمات کا نیٹ ورک وسیع ہوا، اب ہر ملک کے ہر گوشے میں اپنے آقا کا حکم بجا لانے کے لیے اس کے چیلے بے تاب رہتے ہیں ۔ اس کی اپنی بھی ایک شیطانی عالمگیریت ہے۔
شیطان کو جب جنت سے نکالا گیا تھا تو اس نے اﷲ تعالیٰ کو ابلیسی چیلنج دیا تھا وہ بھی تو یہی تھا کہ ''تیرے بندوں کو گمراہ کروں گا''، اور ویسے بھی جب اﷲ تعالیٰ نے انسان کو بنانے کا ارادہ فرمایا تو فرشتوں نے بھی بھانپ لیا تھا کہ وہ دنیا میں آکر کیا کارستانیاں کرے گا اور فرشتوں نے اپنا یہ خدشہ دربار خداوندی میں پیش بھی کیا تھا کہ ''یہ زمین پر فساد پیدا کرے گا اور خون بہائے گا''۔
دنیا کی بڑی سے بڑی جنگ یا سیاسی تنازعات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا کوئی ٹھوس جواز موجود نہیں تھا، سوائے اس کے کہ شیطان نے کسی معمولی سے واقعے کی یا ایک معمولی سے مطالبے کی شکل میں کہیں پر ذرا سا شیرہ لگا دیا ہو، وہ بھی ایسی معصومیت کے ساتھ کہ کسی کو شائبہ بھی نہ گزرے۔
دنیا کے حالات اس قدر تیزی سے بدل رہے ہیں اور فتنے اس قدر بڑھ رہے ہیں کہ سچ اور جھوٹ کا معلوم کرنا بہت مشکل ہوتا جارہا ہے، ایک طرف سے ایک بات سنتے ہیں تو دوسری طرف سے اس کے برعکس بات سامنے آجاتی ہے، تیسری آواز کچھ اور پتہ دے رہی ہوتی ہے، جس سے ایک عام آدمی کا ذہن کشمکش کا شکار ہو جاتا ہے کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔
حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ مجھے شیطان کو دیکھنے کا بہت اشتیاق تھا، ایک روز فجر کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلا تو ایک شخص کو دیکھا جس کی شکل سے لعنت ٹپک رہی تھی، گماں ہوا کہ یہی شیطان ہے، سو قریب جاکر دریافت کیا تو وہ بولا ہاں میں شیطان ہوں۔ جنید بغدادی کہتے ہیں کہ میں نے اس سے پوچھا کہ تو اﷲ کا اتنا برگزیدہ تھا تو پھر حکم الٰہی بجا لانے سے تجھے کس چیز نے روکا؟، تو شیطان جھٹ بولا، جنید کیا مجھے زیب دیتا تھا کہ میں اپنے رب کے علاوہ کسی اور کو سجدہ کرتا؟ جنید بغدادی کہتے ہیں کہ شیطان کی یہ بات سن کر میں حیران رہ گیا اور چند لمحے کے لیے سوچنے لگا کہ واقعی اس نے تو بہت اچھا کیا۔ مگر، جنید بغدادی کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے میری مدد فرمائی اور یکدم مجھے وہ آیات یاد آگئیں جن میں حقیقت بیان کی گئی تھی کہ شیطان نے تکبر سے سجدہ نہیں کیا (کہ مجھے آگ سے بنایا ہے اور انسان کو مٹی سے، اس لیے میں اس سے اعلیٰ ہوں)۔ میں نے اس پر لعنت کی تو وہ شیطان بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے بھاگ گیا۔
آج کے دور میں شیطان اور اس کے چیلے مسلمانوں کو گمراہ اور اللہ کے دین اسلام کو نیچا دکھانے کے لیے اپنا ہر حربہ استعمال کررہے ہیں، چونکہ ہمارے یقین اور اعمال میں وہ پختگی نہ ہونے کے سبب اس کی ہر چال آسانی سے کامیاب ہوجاتی ہے اور ہم اپنے، اﷲ اور اس کے رسولؐ کے دشمن کی عیاریوں کو سمجھ نہیں پاتے اور انتہائی آسانی کے ساتھ شیطان یا اس کے کسی چیلے کی باتوں میں آکر یا اس کی کسی حرکت کے ردعمل میں اپنے ہی مسلمان بھائی کی جان کے دشمن تو بن جاتے ہیں مگر اپنے حقیقی دشمن تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے۔
ہم اگر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ، بین الاقوامی شاطر و مہم ساز 'بزنس مین'، خفیہ ایجنسیاں اور سیکیورٹی اداروں کے علاوہ بعض سیاسی جماعتیں، انتہاپسند تنظیمیں، لسانی گروہ بھی ویسا ہی کردار ادا کرتے ہوئے شیطان کی طرف سے اﷲ تعالی کو کیے گئے چیلنج کو پورا کرنے میں مصروف عمل ہیں، وہ خود اور اپنے زر خریدوں کے ذریعے زمین پر فتنہ و فساد پیدا کرنے یا اس کی راہ ہموار کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں، یہ چیلے یا زرخرید فتنہ و فساد، قتل و غارت گری، دہشتگردی، بم دھماکوں اور دیگر سنگین نوعیت کی وارداتوں کے ذریعے مخلوق خدا کو ایذا پہنچا کر اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔
رواں سال ماہ جون کے وسط میں لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں واقع عوامی تحریک کے سربراہ کی رہائش گاہ کے قریب سے رکاوٹیں ہٹانے کے دوران پولیس اور پی اے ٹی کے کارکنان میں جھڑپوں کے دوران ایک درجن سے زائد افراد جاں بحق جب کہ ایک سو سے زائد زخمی ہوگئے تھے، اس سانحے میں انسانی جانوں کا ضیاع تو المناک تھا ہی مگر اس کے ساتھ سیکیورٹی معاملات پر جو سوالات اٹھے ان کا جواب کسی نے تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی ۔
ماڈل ٹاؤن لاہور میں پولیس اور مظاہرین میں جھڑپوں کے دوران ایک شخص کو دیکھا گیا تھا جو گاڑیاں توڑنے میں مصروف تھا، وہی شخص پولیس افسران کی شاباش لیتے ہوئے بھی دکھائی دیا، جب کہ یہی شخص سی سی ٹی وی فوٹیج میں پولیس کی قیادت کرتے ہوئے ڈنڈا اٹھائے دوڑتے ہوئے بھی نظر آیا، اس شخص کی شناخت 'گلوبٹ' کے نام سے ہوئی تھی جس کے دائیں بازو پر پنجاب پولیس کا لوگو بھی آویزاں تھا، جب کہ اس کی ٹی شرٹ پر 77 کا نمبر درج تھا۔ حالیہ دنوں دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے گلو بٹ کو سزا سنا دی، جو 11 سال 3 ماہ قید اور ایک لاکھ 10 ہزار روپے جرمانے کی صورت میں اسے بھگتنا ہوگی۔
کیا 77 سے پہلے والے نمبر کے 'گلوز' یعنی ایک سے 76 نمبر تک والے لوگوں کا سراغ لگانا ضروری نہیں ؟ ان پولیس والوں کو شامل تفتیش کیوں نہ کیا گیا جو گاڑیاں ٹوٹتے ہوئے دیکھتے رہے بلکہ گلوبٹ کو ہدایات بھی دیتے رہے، اگر گلو بٹ کی پشت پناہی خود پولیس ہی کررہی تھی تو پھر تفتیش کا کام اسے کیوں سونپا گیا؟ کیا گلو بٹ پر مقدمے کی غلط دفعات لگانے والوں سے بازپرس کی گئی؟ کیا اس مقدمے میں متاثرین جن کی گاڑیاں توڑی گئی تھیں انھیں فریق بنایا گیا؟ کیا اس خدشے کی تحقیقات کرائی گئی کہ آیا گولی چلانے والا بھی کوئی ''گلو'' ہی تو نہیں تھا؟ اور یہ کہ اس واردات کے پیچھے درحقیقت کون تھا؟ اور اگر اس عمل کے پیچھے حکومت یا حکمراں نہیں تھے تو پھر کون تھا؟ آخر وہ کیا نتائج چاہتا تھا؟
عمران خان اور طاہرالقادری نے اس سانحے کی تہہ تک جانے کے لیے حکومت پر دباؤ کیوں نہیں ڈالا؟ عمران خان اس ایشو کو لے کر ملک کے بڑے بڑے مسائل کی جڑوں تک پہنچ سکتے تھے مگر وہ خاموشی کیوں اختیار کرگئے؟ کیا ملک میں پھیلی قتل و غارت گری میں ایسے ہی لوگ ملوث نہیں ہوتے؟ کیا بم دھماکے یا دیگر تخریبی کارروائیاں کرنے والے لوگ اسی پیٹرن پر کام نہیں کرتے؟ تو پھر کیوں حکومت، اپوزیشن، انقلابی اور نئے پاکستان والے معاملے کی گہرائی تک جانے کی خواہش نہیں رکھتے؟
ہمارے ملک کا المیہ ہی یہی رہا ہے کہ قیام پاکستان کے چند سال بعد ملک کے وزیراعظم لیاقت علی خاں سے لے کر سابقہ وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل تک کسی بھی سازش کے مرتکب افراد کو بے نقاب نہیں کیا گیا، بلکہ ان سانحات کے نشان تک مٹا دیے گئے۔
یہ سب کام کون کرتا رہا؟ کیا یہ سب گلو بٹ جیسے ہی لوگ نہیں تھے؟ مگر نہ ماضی میں کھوج لگانے کی کوشش کی گئی اور نہ اب اس کی ضرورت محسوس کی گئی، بلکہ اس بار بھی پرویزمشرف اور شکیل آفریدی کی طرح صرف ایک ہی شخص کو بغیر کسی خاص تحقیقات کے قربانی کا بکرا بنادیا گیا، اور حقائق سے آنکھیں چرالی گئیں۔ ہم تو فقط خواہش ہی رکھ سکتے ہیں کہ کاش کوئی ایسا محب وطن حکمراں ملے جو ایسے سانحات کا کھوج لگانے کے لیے آخری حد تک جائے اور ان تمام لوگوں کا پتہ چلائے جو میڈیا کے کیمروں میں محفوظ نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ''نامعلوم افراد'' کا فائدہ لے کر ''باعزت بری'' ہوگئے۔