کراچی ہم رہنے والے ہیں اسی اُجڑے دیار کے

سینما گھر میں آنے کے، فلم دیکھنے کے آداب ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی بے ادبی بھی ہوجاتی ہے۔

zahedahina@gmail.com

ہمارے شہر کراچی میں روزانہ جب تک ڈیڑھ دو درجن لاشیں نہ گریں، ٹیلی ویژن اسکرین اور اخباروںکے صفحۂ اول سونے رہتے ہیں۔

ہمارے جوان اور بوڑھے، نچلے متوسط طبقے کے لوگ اخبار میں ''عدد'' بن جاتے ہیں، خاندان کے واحد کفیل چلے جائیں تو گھر کے چولہے پر چڑھی ہوئی ہنڈیا میں دال اور سبزی نہیں، بھوک ابال کھاتی ہے۔ مارے جانے والوں کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرنے کی دعائیں دینے اور جانے والوں کو جنت کی بشارت دینے والے لشکارے مارتی گاڑیوں میں بیٹھ کر اپنی محفوظ کوٹھیوں اور بنگلوں کو لوٹ جاتے ہیں۔

21 ستمبر کو یوں تو سارے ملک میں ہی احتجاجی جلوس نکلے، پشاور، اسلام آباد، اور لاہور میں جلائو گھیرائو ہوا۔ آنسو گیس کے گولے اور ربر کی گولیاں چلیں لیکن کراچی پر حملہ آور ہونے والوں کی شان ہی الگ تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کچھ لوگ اس غریب پرور شہر کے تمام احسانات بھلاتے ہوئے اسے غارت غول کرنے نکلے ہیں۔

انھوں نے صرف انسان نہیں مارے، بینک لوٹے، اے ٹی ایم مشینیں توڑیں، گاڑیاں چکنا چور کیں۔ موٹر سائیکلوں کو تیلی دکھائی۔ اس بے قابو ہجوم کو سڑکوں پر لانے والے رہنما سکون سے گھروں میں بیٹھے ٹیلی ویژن اسکرین پر سب کچھ دیکھتے رہے اور شہر جلتا رہا، لٹتا رہا۔ شہریوں کی جان جاتی رہی۔ شہر کی پہچان چھنتی رہی اور رہنما ان مناظر کو یوں دیکھتے رہے جیسے یہ سب کچھ اغیار کے ساتھ ہورہا ہے۔

انگریزوں نے کراچی کو فتح کیا تو جلد ہی یہ شہر فاتحوں کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ انھوںنے اسے 'ملکہ مشرق' کے نام سے یاد کیا۔ اسے سجایا اور سنوارا۔ مدراس، کلکتے اور ہندوستان سے آگے مشرق بعید اور یورپ سے امریکا تک بڑی اور چھوٹی تجارتی منڈیوں کے لیے اس کی بندرگاہ ایک دھڑکتی ہوئی گزرگاہ بن گئی۔ شہر سے اخبار نکلے، سیاسی سرگرمیاں شروع ہوئیں جو انگریز کے لیے ناپسندیدہ تھیں۔ مدرسے، اسکول اور کالج کھلے۔ علمی اور ادبی محفلیں جمیں، مشاعرے ہونے لگے جس میں سارے ہندوستان کے مشہور شاعر آتے اور اپنا رنگ جماتے۔

پارسیوں کی بنائی ہوئی ناٹک منڈلیاں، ممبئی، کان پور اور کلکتے سے کراچی کا رخ کرتیں۔ پارسیوں اور ہندوئوں نے جی جان سے اس شہر کو چاہا۔ انھوں نے صرف انسانوں کے لیے ہی نہیں، اس کے جانوروں کے لیے اسپتال اور پیائو (حوض) قائم کیے۔ سمندر کے کنارے سیرگاہیں بنیں اور شہر میں باغ لگائے گئے۔ خاموش اور پھر بولتی فلموں کا زمانہ آیا تو یہاں درجنوں سینما گھر تعمیر ہوئے جو اس زمانے میں 'ٹاکیز' کہلاتے تھے۔ یہ زندہ ناچ گانا کب کسی کے وہم وگمان میں تھا۔ جن کی انگریزی اور اردو سے رسم و راہ نہ تھی، وہ بھی فلم دیکھنے جاتے اور اللہ کی قدرت پر قربان ہوتے کہ وہ کیا کیا تماشے دکھاتا ہے۔

شہر والوں کی فلموں سے دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ ایک طرف ترک وطن کرکے آنے والوں کا سیلاب اور ان کے مسائل تھے، دوسری طرف سینما گھر نہ صرف زورو شور سے فلمیں دکھا رہے تھے بلکہ نئے سینما گھر تعمیر بھی ہورہے تھے۔ 18 ستمبر 1947 کو پاکستان بننے کے بعد کراچی کے پہلے سینما گھر 'جوبلی' کا افتتاح ہوا اور شہر کی تہذیبی روایات کا تسلسل جاری رہا۔
اسی شہر میں سینما گھروں کی اس شاندار روایات کو پہلے بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کا گھن لگا۔

کاروبار ٹھپ ہوا تو بہت سے سینما گھر بند ہوئے، گرائے گئے اور ان کی جگہ کثیر المنزلہ تجارتی اور رہائشی عمارتیں تعمیر ہوئیں۔ چند برس پہلے ہندوستان سے آنے والی فلموں اور ہنگامہ خیز انگریزی فلموں نے شہر میں قدرے رونق پیدا کی ، رات گئے تک بندر روڈ پر فلم بینوں، ویگنوں، رکشوں، ٹیکسیوں اور گاڑیوں کا ہجوم رہنے لگا۔ بابل بن کباب والے کے ٹھیکے اور بلبل پان شاپ والے کی چاندی ہوگئی۔

بڑی بڑی ہڑتالیں اور ہنگامے جھیل جانے والے شہر میں 21 ستمبر کو ان سینما گھروں کی چتا جلی جو قلب شہر میں تھے۔ نشاط، بمبینو، کیپری، پرنس، وہ سینما گھر جن سے تین نسلوں کی سنہری یادیں وابستہ تھیں۔ یہاں کوئی ریڈ زون نہ تھا۔یہاں شہر کے اور ملک کے بڑے سیاستدانوں کو اپنی جان کا خوف نہ ہوتا تھا۔ یہ نشاط سینما تھا جہاں 3 مارچ 1962 کو فضلی صاحب کی فلم 'چراغ جلتا رہا' کے افتتاح کی خصوصی تقریب کے لیے محترمہ فاطمہ جناح تشریف لائی تھیں اور ان کے گرد لوگ پروانوں کی طرح جمع تھے۔

ابھی دو برس باقی تھے کہ جنرل ایوب خان انھیں دھاندلی سے ہرائیں ان کے فرزند ارجمند اس کی سڑکوں پر 'مادر ملت' کی بے توقیری کریں اور شہر کے اشراف دم سادھے بیٹھے رہیں۔ یہ شرف قصائی کے بیٹے کے حصے میں آئے کہ وہ ان کی حرمت پر جان نثار کردے۔ ابھی اس سانحے میں دو برس باقی تھے۔


'نشاط' جل گیا، لوٹ لیا گیا۔ یقین نہیں آتا۔ کیسی یادیں ہجوم کرتی ہیں۔'' ہمیں پہنچنے میں دیر ہوگئی ہے۔ ہانپتے ، کانپتے، لرزتے ہوئے ہاتھوں سے ہم بہت آہستگی سے دروازہ کھولتے ہیں۔ اندر اندھیرا ہے۔ دروازہ کھلنے سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آتا ہے اور اندھیرے ہال میں روشنی کی ایک لکیر کھنچ جاتی ہے۔ اندر بیٹھے ہوئے لوگوں کی ناراضگی ہمیں شرمندہ کردیتی ہے۔ اس وقت اندھیرے میں ایک جگنو سا چمکتا ہے اور گیٹ کیپر اپنی ٹارچ لہراتا ہوا ہماری طرف لپکتا ہے اور ہمارے ہاتھ سے ٹکٹ لے لیتا ہے۔

اس پر ایک سرسری نظر ڈالتا ہے اور واپس دروازے کی طرف پلٹتاہے اور ہم درازے کے قریب کی نشستوں پر ٹٹولتے ہوئے اور لوگوں کو ناراض کرتے ہوئے شرمندہ شرمندہ سے بیٹھ جاتے ہیں۔ سینما گھر میں آنے کے، فلم دیکھنے کے آداب ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی بے ادبی بھی ہوجاتی ہے۔ جوبلی اور ریوالی سینما کے درمیان کھینچی ہوئی گڈوانی اسٹریٹ کے نکڑ سے فٹن میں چڑھ کر نشاط تک جانا۔ ایک سنسی خیز معاملہ ۔ آٹھ دس دن پہلے سے گھر والوں سے اجازت مانگی گئی تھی۔

سندھ کے ایک معتبر دانشور اور فارسی زبان و ادب کے شناور ڈاکٹر عارف شاہ گیلانی کی صاحب جمال بیٹی شمیم گیلانی سال چھ مہینے میں ڈاکٹر بننے والی ہیں۔ ہمارے گھر میں وہ نہایت معتبر سمجھی جاتی ہیں۔ وہ جہاں جائیں مجھے ان کے ساتھ جانے کی اجازت مل جاتی ہے۔ آٹھویں نویں میں پڑھنے والی کی بساط ہی کیا۔

ان کے ساتھ کیسی کیسی یادگار فلمیں دیکھیں، کلوپیڑا، ہنچ بیک آف ناٹرے ڈیم، سن فلاور، فار ہوم دی بل ٹولز، اردو فلمیں ان کے سوا تھیں۔ زندگی یا طوفان، تہذیب، آئینہ، زرقا اور نہ جانے کتنی دوسری پاکستانی اور ہندوستانی فلمیں۔ جنرل ایوب بمبینو سینما کا افتتاح کررہے ہیں۔

پاکستانی وزیر اعظم حسین شہید سہروردی اپنی بھانجیوں، بھتیجیوں اور بیٹی کے ساتھ فلمیں دیکھنے آرہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کا خاندان گرائونڈ سرکل میں بیٹھا لطف اٹھاتا ہے نہ دہشت گرد ہیں اور نہ دہشت گردی۔

'نشاط' کراچی کی شان تھا۔ ہم اس کی بربادی پر نہ روئے لیکن ایک مغربی صحافی سٹیو انس کیپ ہے، ایک اخبار کا مدیر۔ کراچی سے ہوکر گزرا ہے اور اس نے کراچی پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ 'نشاط' کے جل کر راکھ ہونے کی اطلاع آئی تو سٹیو نے واشنگٹن سے اس سینما کی تباہی پر گریہ کیا۔ اس نے لکھا کہ ''نشاط 65 برس سے شہر میں اپنا سر اٹھائے کھڑا تھا۔ اس کی عظیم الشان اسکرین پر دنیا بھر میں مقبول اور کھڑکی توڑ فلمیں چلتی تھیں اور اس بات کا ثبوت تھیں کہ پاکستانی سماج ارد گرد کے مسلمان ملکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ کھلا ڈلا ہے۔

اس کی عمارت پر مغربی فلمی اداکارائوں کے بڑے بڑے بل بورڈ نظر آتے جن میں ان کے شفاف لباس سے ان کے بدن جھلکتے اور ان کی حسین زلفیںلہراتیں۔'' سٹیو نے کچھ غلط تو نہیں لکھا کہ 'نشاط' ایک ایسے علاقے میں تھا جس کے ارد گرد کئی مشہو ر سینما گھر تھے۔ یہ 1947سے 2012 تک جم کر کھڑا رہا۔ اس نے جنر ل ضیاء الحق کی سرپرستی میں سر اٹھانے والے انتہا پسندوں کا مقابلہ کیا۔ اس پر کئی مرتبہ حملے ہوئے لیکن چند دنوں کی بندش کے بعد اس میں پھر سے فلموں کی نمائش شروع ہوگئی۔ لیکن اس مرتبہ اسے منصوبہ بندی سے لوٹا گیا اور پھر جلایا گیا۔

ہم نہیں کہہ سکتے کہ دیومالائی پرندے ققنس کی طرح نشاط اپنی راکھ سے دوبارہ جی اٹھے گا یا نہیں لیکن ہمیں یہ تو مانناپڑے گا کہ اس روز شہر کے اس سینما اور تمام سینمائوں کو جلانے والے دراصل خود کو لوٹ رہے تھے، خود کو جلا رہے تھے اور یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ امریکا کو سبق سکھا رہے ہیں۔امریکیوں کو خبر بھی نہیں ہوئی اور ہمارے شہر کی ایک زندگی اور شاندار ثقافتی اور تہذیبی روایت جل گئی۔ جن سیڑھیوں پر چڑھ کر محترمہ فاطمہ جناح 'نشاط' کے اندر پہنچی تھیں۔ جن صوفوں پر حسین شہید سہروردی، شائستہ اکرام اللہ، ذوالفقار علی بھٹو، نصرت بھٹو، اور ہمارے متعدد فنکاروں ، ادیبوں، شاعروں اور مصوروں کے بدن کی گرمی اور ہاتھوں کا لمس تھا، وہ سب کچھ جل گیا۔

آج سے ڈھائی سو برس پہلے شہنشاہِ سخن میر تقی میر نے دِلّی کے اجڑنے پر یہ شعر کہا تھا جو آج کراچی پر بھی صادق آتا ہے۔

جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کردیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
Load Next Story