مجیب کے چھ نکات کا میں بھی گواہ ہوں

مجیب الرحمن کے دور میں پاکستان توڑنے کے ذمے دار وہ اعلیٰ درجے کے خود غرض اور مطلب پرست...


Abdul Qadir Hassan September 29, 2012
[email protected]

مشرقی پاکستان کے محاذ پر کامیابی کے بعد ہمارے بدمعاش اور بدقماش حکمران طبقے کو بلوچستان کا نیا محاذ مل گیا ہے۔ یہاں مقامی افراتفری اور غیر یقینی بھی ہے اور مکتی باہنی بھی۔

اگر اس میں کسی کو شک ہو تو وہ ہمارے وزیر داخلہ جناب رحمٰن ملک سے اس کی تصدیق کر سکتا ہے۔ وہ نام تو نہیں لیں گے لیکن اسے غیر ملکی ہاتھ ضرور کہیں گے۔ ویسے ملک صاحب کو سب پتہ ہے۔ چھ نکات والے مشرقی پاکستان کے لیڈر شیخ مجیب الرحمٰن بھی جانثار اور پکے پاکستانی تھے جو ڈھاکا سے کلکتہ تک سائیکل پر سفر کر کے قائد کی زیارت کرتے تھے اور جناب اختر مینگل سردار عطاء اللہ کے فرزند ہیں جن کی یہ بات میں نے خود سنی تھی کہ کوئی کچھ بھی بن جائے میں اپنے قبیلے کی جگہ کا نام پاکستان رکھ دوں گا۔

مجیب الرحمن کے دور میں پاکستان توڑنے کے ذمے دار وہ اعلیٰ درجے کے خود غرض اور مطلب پرست سنگدل پاکستانی لیڈر تھے جو احمق الزماں اور برخود غلط فوجی حکمران یحییٰ خان کے کاسہ لیس اور حواری تھے اور آج اگرچہ کوئی فوجی حکمران نہیں مگر اس سے کم بھی نہیں اور جانتے بوجھتے ہوئے صرف زبانی کلامی معافی کو مسئلہ کا حل سمجھتے ہیں۔ ایک اطمینان کی بات یہ ہے کہ اختر مینگل نے پاکستان کی عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا اور پھر وہ محب وطن لیڈر میاں نواز شریف سے ملے اور مشترکہ پریس کانفرنس میں دونوں نے دل کھول کر بات کی۔

دنوں بلوچستان کی خوشنودی کی کوششوں پر متفق تھے۔ بات ابھی شروع ہوئی ہے اور چونکہ سرداروں کے سائے میں زندگی بسر کرنے والے بلوچوں سے زیادہ بے بس پاکستانی اور کوئی نہیں اس لیے ان کے سرداروں سے ہی بات ہو گی جو تعداد اور اثر و رسوخ میں صوبے بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق ان سرداروں میں سے شاید ہی کوئی پاکستان کا باغی ہو لیکن ان کی پاکستان کے غلط سلط حکمرانوں سے بغاوت ہمارے سامنے ہے۔

بلوچستان کا مسئلہ سو فیصد مقامی اور اس صوبے کے اندر ہے جسے بھارت جیسے دشمن باہر سے ہوا دے رہے ہیں۔ اس وقت جناب سردار اختر مینگل کو دانشمند اور بے حد محب وطن ساتھیوں کی ضرورت ہے جو ان کے ہاتھ واقعی مضبوط کریں اور وہ بلوچستان کے دشمنوں کے خلاف ڈٹ جائیں۔

میری رپورٹنگ کے عروج کا زمانہ تھا جب شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات زیر بحث تھے۔ لاہور میں گلبرگ کے مین بلیوارڈ پر ایک آزاد سیاستدان مگر بے حد سرگرم ملک غلام جیلانی کا گھر تھا۔ ان کے گھر کے بالکل سامنے سابق وزیراعظم چوہدری محمد علی کا گھر تھا جہاں ملک بھر کے سیاسی لیڈر اور جماعتیں ملاقاتیں کرتی تھیں۔ ان دونوں گھروں کے درمیان ایک سیاسی ہجوم رہتا تھا اور اخباری رپورٹر کبھی ایک گھر کے کبھی دوسرے گھر کے چکروں میں سرگرداں رہتے تھے۔

میں نے جب دیکھا کہ اس سیاسی مشق کا جو نتیجہ نکلتا ہے وہ ملک جیلانی کی کوٹھی میں اپنی اصل صورت میں پہنچ جاتا ہے تو میں نے ملک صاحب کے ہاں ڈیرہ ڈال دیا۔ ان کے مہمان خانے کے ساتھ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جو ان کا دفتر بھی تھا۔ یہاں بعض لیڈر خفیہ ملاقات کیا کرتے تھے۔ اس کمرے کے دروازے کے باہر میں کسی صوفے میں دھنسا ہوا پڑا رہتا تھا۔ ایک دن بڑی افراتفری اور تیزی میں دو تین آدمی آئے اور اس دفتر میں گھس گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ ہی اندر داخل ہو گیا۔ ٹائپسٹ کو بلایا گیا اور ایک چھوٹا سا کاغذ اسے دیا گیا جو اس نے دو چار منٹ میں ٹائپ کر دیا۔

لیڈروں نے اس مسودے کو پڑھا اور اس کی پروف ریڈنگ کے لیے مجھے دے دیا۔ میں نے ایک آدھ ٹائپ کی غلطی لگائی۔ دوبارہ ٹائپ ہوا جو ٹھیک تھا اور یہ کاغذ لے کر اسے لانے والے فوراً ہی باہر نکل گئے اور چوہدری صاحب کے ہاں چلے گئے۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تو شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات تھے جس کا ایک کاغذ ردی کی ٹوکری سے بھی اٹھا لیا گیا تھا۔ میری نالائقی کہ اتنی بڑی خبر میرے ہاتھ سے نکل گئی۔ ہمیں ملک صاحب کے ہاں بیٹھے ہوئے کچھ دیر بعد جب معلوم ہوا کہ یہ کاغذ کیا تھا تو مجھ پر ایک سکتہ طاری ہو گیا۔ ہاتھ آئی ہوئی اتنی بڑی خبر سے محرومی کے بعد مجھے میرا جسم بے جان سا دکھائی دیا۔ میں اپنے حافظے پر بھروسہ کر کے اتنی بڑی خبر نہیں دے سکتا تھا لیکن میں نے بالآخر جیسے اب یاد پڑتا ہے اتنی خبر دے دی کہ شیخ صاحب نے لیڈروں کے سامنے کچھ تحریری مطالبات رکھے ہیں جن پر بحث ہو گی۔

اختر مینگل صاحب نے ان مشہور چھ نکات کے وزن پر اپنے نکات پیش کیے ہیں جو بڑے ہی بے ضرر ہیں اور میں میاں نواز شریف سے عرض کروں گا کہ وہ اب ٹھنڈے ماحول سے نکل کر سرگرم ہو جائیں اور مینگل صاحب کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ وہ بلوچوں کے تیسرے بڑے قبیلے کے سردار ہیں اور ان کا سیاست اور حکومت میں ایک عرصہ سے دخل عمل رہا ہے۔ ان کی عزت بھی کی جاتی ہے اور ان پر سیاسی الزامات بھی نہیں ہیں۔ کرپشن کے آزار سے بھی پاک ہیں اور ایک باعزت سردار ہیں۔

میاں نواز شریف ہوں یا دوسرے محب وطن لیڈر' ان کی خدمت میں ایک گزارش ہے کہ ابھی حالات قابو میں ہیں اور مکتی باہنی کی رخنہ اندازیوں کے باوجود بلوچ سردار اور عوام ان سے خبردار ہیں اور مقابلے پر ہیں۔ بلوچوں کو سہارے اور قوم کی حمایت کی ضرورت ہے۔ ناسازگار حالات میں گھرے ہوئے بلوچوں کی جرأتیں زندہ سلامت ہیں۔ بلوچ پیٹھ پر نہیں اپنے سینے پر گولی کھاتا ہے اور جو سینہ سامنے رکھتا ہے اس کو کون شکست دے سکتا ہے سوائے اپنوں کے۔

میں یہاں عمران خان سے عرض کروں گا کہ وہ فوراً بلوچستان جائیں' ان کے اثرات وہاں موجود ہیں اور سُستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن معلوم یہ ہوا ہے کہ عمران خان نہ اخبار پڑھتے ہیں نہ سنتے ہیں۔ اس کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں