ذائقوں کا زوال
بعض اوقات بڑے بڑے ہوٹلوں میں وہ ذائقہ نہیں ملتا جو نانبائی کے چھوٹے سے ہوٹل یا سڑک کے کنارے بنے ڈھابوں میں ملتا ہے
گزشتہ ایک کالم میں عطاء الحق قاسمی اور انتظار حسین کے کالموں کے حوالے سے بات ہوئی تھی کہ عطا صاحب کو دلّی میں وہ ذائقہ نہیں ملا جس کی شہرت انھوں نے ہر جگہ سنی تھی اور انتظار صاحب چونکہ ذائقہ آشنا بھی ہیں، اس لیے اس کے کھو جانے پہ نوحہ کناں بھی ہیں اور وجوہات سے بھی با خبر ہیں کہ ذائقوں کے زوال کی اصل وجہ کمرشل ازم ہے کہ اب اوّلین ترجیح مال بنانے کو دی جاتی ہے، نہ کہ ذائقوں کو، البتہ سجاوٹ اور ظاہری پیکنگ اگر کسی بھی چیز کی اچھی ہوں تو مال بکنے میں دیر نہیں لگتی۔
البتہ حقیقت کا پتہ لگنے تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ کیونکہ پیکنگ کھولنے سے پہلے آپ کو قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ پہلے ذائقوں پر زور تھا کہ ذائقے کا سفر بہت تیز ہوتا ہے۔ کئی سال پہلے کی بات ہے کہ لاہور میں ایک رشتے دار نے میوہ اور مونگ پھلی لگی نان خطائی کھلائی۔ کیا خوب ذائقہ تھا کہ بچپن میں برنس روڈ کی ایک بیکری کی بنی نان خطائی یاد آ گئی۔ انھوں نے بتایا کہ لکشمی چوک پر ایک دکان ہے، بہت اندر کی طرف جہاں گاڑی نہیں جا سکتی۔ پھر وہ نان خطائیاں ہم ساتھ بھی لے کر آئے جس نے کھائی واہ واہ کی۔
یہ بھی پتہ چلا کہ کراچی والے اپنے لاہوری میزبانوں اور دوست احباب سے فرمائشیں کر کے لکشمی چوک کی نان خطائیاں منگواتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے لاہور کے دوست احباب کراچی سے نمکو منگواتے ہیں۔ نان خطائیوں کے ذائقے کی دھوم تو پورے لاہور میں تھی۔ کراچی والے بھی کسی حد تک واقف تھے۔ سو دیکھتے ہی دیکھتے پورے لاہور میں نان خطائیوں والی بیکری کی بے شمار شاخیں کُھل گئیں۔ یہ ایک طریقے کے فرنچائز ہیں۔
لیکن گذشتہ سال جب اپنے میزبانوں سے فرمائش کی کہ ہمیں ساتھ لے جانے کے لیے نان خطائیاں منگوا دیں تو انھوں نے بتایا کہ وہ جو ذائقہ ہماری زبان پر ہے وہ اب ناپید ہے کہ کمرشل ازم اس کے ذائقہ کو کھاگیا۔ اب صرف اس دکان کا نام استعمال ہو رہا ہے۔ ہمیں یقین نہ آیا تو انھوں نے گھر کی قریبی بیکری سے کیک اور نان خطائیاں دونوں منگوائیں۔ زبان پر رکھیں تو پتا چلا کہ بھوسی ٹکڑے کے بسکٹ کھا رہے ہیں۔ ذائقے کے زوال کے باوجود اس کا نام بھی ایسے ہی چل رہا ہے جیسے بے مزا قورمے کے باوجود دلّی میں کریم ہوٹل کا نام گونج رہا ہے۔
دراصل یہ دور پبلسٹی کا دور ہے۔ اشتہار بازی کی صنعت عروج پر ہے کہ لوگ اشتہاری اشیاء پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کر لیتے ہیں لیکن جو ذائقہ آشنا ہیں وہ پبلسٹی سے متاثر نہیں ہوتے۔ تقسیم کے بعد کراچی میں دلّی کے خاندانی باورچیوں اور دیگر ہنرمندوں کی آمد بھی جاری رہی۔ بقول انتظار صاحب ایک نہاری والا لاہور کی طرف بھی نکل گیا جس کا ذکر انھوں نے اپنے کالم میں بھی کیا اور ملاقات کی تفصیل بھی بتائی۔ اسی طرح کراچی میں ایک کباب فروش کا نام سیخ کباب اور گولا کباب کے نام سے گونجتا تھا۔
برنس روڈ کی گلی نمبر 2 کے نکڑ پر وہ ٹھیلا لگاتے تھے اور خود کباب بناتے تھے۔ ایمان داری نے برکت دی کہ انھوں نے نہ صرف مصالحے اچھے ڈالے بلکہ گوشت کا انتخاب خود کر کے اپنے سامنے قصائی سے قیمہ بنواتے تھے۔ چکنائی، پردوں اور پٹھوں سے پاک صاف ستھرے قیمے کے کبابوں نے انھیں ٹھیلے سے اٹھا کر بہت بڑی جگہ پہنچا دیا۔ ان کا کام جاری رہا، تازہ گوشت، پودینے کی تازہ چٹنی اور نرم و خستہ تندوری نان ان کی پہچان تھی۔ وہ اپنے گاہکوں کا بے حد خیال رکھتے تھے۔ خود گھوم پھر کر ان کی شکایات دور کروا دیتے تھے۔
ایک ہوٹل سے کئی ہوٹل بنے، پھر ان کا انتقال ہو گیا۔ اور ان کے ساتھ ہی ذائقے بھی مر گئے۔ آج کراچی اور کراچی سے باہر کباب کی دنیا میں ان کا نام اسٹیٹس سمبل ہے، لیکن وہ جو ذائقہ ان کی زندگی میں تھا اور خاص کر جب تک وہ برنس روڈ پر ٹھیلا لگاتے تھے، وہ اب بیٹوں کی تجوریوں میں بند ہوگیا۔ صرف نام باقی رہ گیا۔ لاہور کی نان خطائی والے اور کراچی کے سیخ کباب کے خالقوں کا نام انھیں کما کر تو دے رہا ہے، لیکن محض نام میں کیا رکھا ہے؟
بعض اوقات بڑے بڑے ہوٹلوں میں وہ ذائقہ نہیں ملتا جو نانبائی کے چھوٹے سے ہوٹل یا سڑک کے کنارے بنے ڈھابوں میں ملتا ہے، کیونکہ ان ڈھابوں اور چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں میں جو کچھ ملتا ہے وہ تازہ ہوتا ہے۔ بڑے ہوٹلوں کی طرح کئی کئی دن کا باسی ڈیپ فریزر میں رکھا ہوا کھانا نہیں ہوتا، جو مائیکرو ویو اوون میں گرم ہو ہو کر اپنا اصل ذائقہ اور رنگ دونوں کھو چکا ہوتا ہے۔ دلّی میں کناٹ پیلس پر بھی ہم نے چاٹ کھائی چھولے کھائے، لاہور اور کراچی میں بھی ان دکانوں پر بارہا یہ سب کھایا جن کے اندر بجلی کے قمقموں اور فانوسوں کی روشنی تھی، لیکن ہر بار چمک دمک کے باوجود مایوسی ہوئی۔
البتہ دلّی ہی میں جامع مسجد کے بالکل سامنے والے بازار سے ہم گزر رہے تھے، یہی کوئی صبح کے گیارہ بجے تھے کہ ایک چھوٹے سے ٹھیلے پر بڑا ہجوم نظر آیا۔ دیکھا تو ایک چھولے والا صرف چھولے بیچ رہا ہے۔ درمیان میں بڑا سا دیگچہ رکھا ہے، ایک طرف گتے کی پیالیاں۔ دیگچہ پر ڈھکنا لگا ہے۔ وہ قریب کھڑے لوگوں کو پیالیاں بنا کر دیتا ہے اور لپک کے ڈھکنا بند کر دیتا ہے۔ مہک بڑی زبردست تھی۔ ہمیں بچپن میں برنس روڈ پر کھائے ہوئے چھولے اور دہی بڑے یاد آ گئے۔
ہم نے استہفامیہ نظروں سے قاضی صاحب کو دیکھا تو وہ بولے، ''پاگل ہوئی ہو، ٹھیلے پر سے لے کر کھائو گی؟'' بس جناب وہ چھولے والا دلّی کا روڑہ تھا، پلٹ کر بولا، ''صاحب! قسم اﷲ کی بڑی صفائی سے گھر والی بناتی ہے۔ اگر ایسا ذائقہ دلّی بھر میں کہیں اور مل جائے تو جو چور کی سزا سو میری۔'' اتنا کہہ کر اس نے جھٹ سے ایک گتے کی صاف ستھری پیالی نکالی اور بنا کر ہمارے آگے کر دی۔ ''لیجیے میڈم میرے کہنے سے چکھ کر دیکھیے ضرور۔ میں اس کے پیسے نہیں لوں گا۔'' اب تو انکار کا چارہ ہی نہ تھا۔
پیالی لے کر جوں ہی ایک چمچہ لیا، زبان نے کہا، یہی ہے دلّی کا اصل ذائقہ، اسے بڑے بڑے ہوٹلوں میں مت ڈھونڈو۔ اور پھر یکے بعد تین پیالیاں ہمارے معدے میں اتر گئیں۔ وہ ہر بار نئی پیالی بناتا تھا اور استعمال شدہ پیالی ڈسٹ بن میں ڈال دیتا تھا۔ آخر کو قاضی صاحب سے رہا نہ گیا، گو کہ وہ ثقیل چیزوں سے سخت پرہیز کرتے ہیں لیکن انھوں نے بھی جب پہلا چمچہ چکھا تو فوراً دوسری پیالی کا آرڈر دے دیا۔
بعد میں دوبارہ وہ چھولے کھانا نصیب نہ ہوئے، کیونکہ وہ صبح دس بجے سے بارہ بجے دوپہر تک رہتا تھا، پھر چلا جاتا تھا، سب کچھ بیچ کر۔ زیادہ کی اسے لالچ نہ تھی۔ حالانکہ جو ذائقہ اس کے چھولوں میں تھا، وہ اگر سارا دن بھی ٹھیلا لگاتا رہتا تو اسی طرح اس کا دیگچہ بار بار خالی ہوتا رہتا۔ لیکن غربت میں قناعت کا یہ نظارہ میرے لیے بہت عجیب تھا۔
اسی طرح سن ساٹھ کی دہائی میں کراچی میں پی ای سی ایچ سوسائٹی میں سابقہ خیام سنیما کے بالکل سامنے والی دو سڑکوں کے درمیان ایک بن کباب والا بھی ٹھیلا لگاتا تھا۔ دور دور سے لوگ لینے اور کھانے آتے تھے۔ ٹھیلے کے پاس ایک بینچ پڑی تھی جس پر اچھے اچھے لوگ بیٹھ کر کھاتے تھے اور گھر لے جاتے تھے۔
چونکہ اس جگہ سے ہی گزر کر ہم گھر کی طرف جاتے تھے اس لیے یہ ٹھیلے والا نظروں میں رہتا تھا۔ اکثر جو لوگ خیام سنیما میں فلم دیکھنے آتے تھے۔ وہ اس بن کباب والے سے پارسل بنوا لیتے تھے تاکہ انٹرول میں کھا سکیں۔ اس اکیلے شخص کی ایمان داری اور نیک نیتی نے بہت جلد اسے بھی ٹھیلے سے اٹھا کر جگمگاتی جگہ پہنچا دیا۔ لیکن وہ ٹھیلا چھٹا تو ذائقے بھی وہیں رہ گئے۔
دراصل کھانوں میں ذائقوں کے زوال کی اصل وجہ بے ایمانی اور کم وقت میں زیادہ کمانا ہے۔ اس لیے بازاروں کے کھانوں، چاٹ اور دیگر چیزوں میں غیر معیاری اشیاء کا استعمال ہے۔ سموسوں، شامی کباب اور پکوڑے غیر معیاری تیل میں تلے جائیں گے، نہاری اور قورمہ جب چربی میں پکے گا تو خوشبو اور ذائقہ کہاں سے آئے گا۔ پکانے والے تو آج بھی موجود ہیں لیکن تانبے یا پیتل کی قلعی دار دیگچی اور اصلی زعفران کہاں ملے گی؟ زعفران کے نام پر بھٹّے کے رنگے ہوئے ایسنس والے بال ملتے ہیں۔
زردے میں ڈالنے کے لیے ہار سنگھار کی ڈنڈیاں تو اب ملنے سے رہیں۔ اصلی فوڈ کلرز بھی ناپید ہیں کہ وہ بہت مہنگے ہوتے ہیں۔ اسی لیے تمام خوردنی اشیاء میں ٹیکسٹائل کلرز ڈالے جا رہے ہیں، جن کا زیادہ استعمال سرطان اور دیگر بیماریوں کا سبب بن رہا ہے، لیکن لاعلمی اور کمرشل ازم نے آنکھوں پر پردے ڈال دیے ہیں۔