پاکستان ایک نظر میں راونڈ 2

حکومت مخالف دھرنوں اورجلسوں کواس حد تک کھینچ لیا گیا ہے کہ یہ اپنی افادیت اور رعنائیت کھو چکے ہیں یا کھوتے جا رہے ہیں۔


جاہد احمد November 03, 2014
اب جلسے جلوسوں کا نیا سلسلہ دھرنوں کی ناکامی کا ثبوت ہے. راؤنڈ1 میں ناک آؤٹ ہونے کے بعد راؤنڈ2 کا مرکزِ نگاہ نقطہ حکومت گرانے کی ضد سے صرفِ نظر کرتے ہوئے انتخابی اصلاحات اور ریاستی مشنری کے نظام میں بہتری کی بات کی جانی چاہیے۔ فوٹو: فائل

FLORIDA: حکومت کے خلاف راؤنڈ 2 کھیلنے سے پہلے عمران خان صاحب نے راؤنڈ 1 کی اختیار کردہ حکمت عملی، برآمد ہوئے نتائج اور زمینی حقائق کا بغور تجزیہ ضرور کیا ہو گا اور اسی کی بنیاد پر راؤنڈ 2 کے لئے نئی حکمت عملی وضع کی گئی ہوگی اور یقیناًوہ یہ سمجھتے ہوں گے کہ اس بار بازی ان کے ہاتھ ہی لگے گی۔

حکومت گرانے کی کوئی بھی مہم عوام الناس کی بھر پور شمولیت ، قتل و غارت گری ، انارکی ، ریاستی اداروں و عوام کے مابین ٹکراؤ کی صورتحال پیدا کئے بنا کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بلاشبہ تحریکِ انصاف کے چیئرمین بااعتماد ہیں کہ راؤنڈ 2 میں اسلام آباد کی دو سڑکوں سے بڑھ کر قومی سطح پر حالات اس قدر دگرگوں کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ حکومت کا جانا ٹھہر جائے گا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ ایسا بھرپور ہنگامہ برپا کرنے کے لئے قادری صاحب کا نعمل البدل کہاں سے آئے گا یا کہ اس مرتبہ عمران خان ہی قادری صاحب کے روپ میں بھی جلوہ افروز ہوں گے؟آل راؤنڈر جوہوئے!!!

تھوڑی سی روشنی تحریکِ انصاف کے سیاسی طرزِ عمل پر ڈالی جائے تودکھائی پڑتا ہے کہ حکومت مخالف دھرنوں اور جلسوں کی حکمتِ عملی کو اس حد تک کھینچ لیا گیا ہے کہ یہ اپنی افادیت اور رعنائیت کھو چکے ہیں یا کھوتے جا رہے ہیں۔

وطنِ عزیز میں تواتر سے خودکش حملے ہونا شروع ہوئے تو ابتدائی طور پر عوام میں ڈر اور خوف کی لہر پھیل گئی۔ لوگوں نے پر ہجوم جگہوں ، بازاروں اور مساجد میں جانے سے احتیاط برتنی شروع کی۔ کچھ عرصہ میں خود کش بمبار، خود کش حملے ہماری نفسیات اور روز مرہ کا معمول بن گئے۔ اب یہ حال ہے کہ یہاں بم پھٹا، وہاں عوام کو خبر ملی، چند لمحے افسوس کی کیفیت سے دوچار ہوئے، جیتے جاگتے انسانوں کو میڈیا پر سی سی ٹی وی فوٹیج میں چیتھڑ ے بنتے دیکھا اور پھر زندگی کی دوڑ میں بھاگ کھڑے ہوئے۔

ملک کی سرحدوں کے اندر غیرملکی ڈرون حملوں کے سلسلے آغاز ہوا توعوام میں شدید غم و غصہ امڈ آیا۔ امریکہ کو برا بھلا کہا گیا، مظاہرے ہوئے، سیاست ہوئی، ایوان میں قراردادیں منظور ہوئیں پر پھر ہوا یوں کہ اگلے چند برسوں میں ڈرون حملے بھی ہماری قومی زندگی کے معمولات کا ایک حصہ بن گئے۔ اب ڈرون حملہ ہوتا ہے تو ہوتا ہے! عوام کو اس سے پریشانی یا تکلیف کا احساس ختم ہو چکا ۔ نہ کوئی خاص سوال اٹھتا ہے اور نہ کوئی زیادہ بڑا ایشو کھڑا کیا جاتا ہے۔بات سمجھی جا چکی ہے کہ ڈرون حملوں کے محرکات کیا ہیں اور ان کا سدِباب پاک دھرتی سے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے مکمل صفائے سے مشروط ہے۔

ٹھیک یہی دھرنوں کی سیاست کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی بنیاد اور تبدیلی کے نام پر حکومت کو چلتا کرنے کی خاطر اسلام آباد میں دھرنوں کا سلسلہ شروع کیا گیا تو ابتدائی طور پر اس نے عوام کو اپنی طرف متوجہ کیا۔اسلام آباد میں پیدا کی گئی ایک ہیجانی کیفیت اور انارکی کی صورتحال سر شام عوام کو ٹی وی سے چپکانے میں کامیاب رہی پر پھر وہی ہوا کہ چند ہفتوں بعد یہ دھرنے بھی عوام کے لئے شام کے اوقات میں روزانہ کی بنیاد پر نشر ہونے والے ٹی وی پروگرام کی حیثیت اختیار کر تے ہوئے روز مرہ زندگی کا معمول بن گئے اور یوں اپنی افادیت کھوتے چلے گئے۔ عوام کی اکثریت سمجھنے لگی کہ حکومت ایک یا دو افراد کی خواہش کے مطابق چلتی نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی ریاست چند افراد کی خواہشات کی تکمیل کی خاطر خانہ جنگی کے ماحول میں دھکیلی جانی چاہیے۔

اب جلسے جلوسوں کا نیا سلسلہ دھرنوں کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ تفریحی قلت کا شکار معاشرے کے لئے یہ نیا Entertainment Package ہے۔ محرم کے مہینے کے بعد راؤنڈ2 میں جب ان جلسے جلوسوں کی تعداد فی ہفتہ دو جلسے تک پہنچے گی تو یہ تبدیلی پیکیج بھی کچھ عرصہ عوام کو محظوظ کرنے کے بعد ان کے روز مرہ کے معمولات میں شامل ہو جائے گا۔

راؤنڈ1 میں ناک آؤٹ ہونے کے بعد راؤنڈ2 کا مرکزِ نگاہ نقطہ راؤنڈ1 میں کی گئی سنگین غلطیوں کا تدارک ہونا چاہیے اور حکومت گرانے کی ضد سے صرفِ نظر کرتے ہوئے انتخابی اصلاحات اور ریاستی مشنری کے نظام میں بہتری کی بات کی جانی چاہیے جس کا حقیقت میں ملک کے بہتر مستقبل سے بالواسطہ تعلق بنتا ہے۔لیکن اگر خان صاحب اپنی انا کے حصار میں قید اقتدار کے حصول کی خاطر آنکھیں میچے اپنے دائیں اور بائیں جانب کھڑے پتلی بازوں کے ہاتھوں میں راؤنڈ1 ہی کی طرح ناچنے پرپھر تیار کھڑے ہیں تو تاریخ گواہ ہے کہ ایسے افراد مقاصد کے حصول کے بعد دودھ میں پڑی مکھی کی طرح نکال پھینکے جاتے ہیں !

عمران خان شاید اصغر خان بھی نہیں بننا چاہیں گے جنہوں نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی بنیاد اور ذولفقار علی بھٹو سے اختلافات کی وجہ سے 1977 میں افواجِ پاکستان کو خط لکھ کر بھٹو حکومت گرانے کی ترغیب دی ۔ بعد ازاں اقتدار پر ضیاء کے قبضے ،بھٹو کی پھانسی اور انتخابات کے منعقد نہ کیے جانے پر ضیاء کے مارشل لاء کے خلاف ایم آر ڈی تحریک کا حصہ بن گئے۔ لیکن وہ خط ان کی سیاسی زندگی کا ایسا سیاہ دھبہ ثابت ہوا جس نے اصغر خان کے تمام تر اچھے اور بہتر کاموں کو پسِ پشت ڈال دیا اور اصغر خان آج اسی خط کے تناظر میں یاد کیے جاتے ہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں