بات کچھ اِدھر اُدھر کی ہمارے ہیں حسین

فرقہ پرستی کے زہرنے ہمیں اپنی اساس سےاس قدردور کردیا ہے کہ ہم نے اسلام کی عظیم ترین شخصیات کو بھی اپنےبیچ بانٹ دیا ہے۔

عاشورہ سب دن ہے کہ امام حسینؓ کی قربانی دین اسلام کے لیے ہی نہیں پوری انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے، جس جس کو ظلم و جبر کے خلاف آواز اُٹھانی ہو، وہ آپؓ سے ہی اس کی جرات پاتا ہے۔ فوٹو: فائل

محرم الحرام کے شروع ہوتے ہی راولپنڈی اور خصوصاً اندرون شہر کے علاقوں میں ایک اضطراب،بے چینی اور گونہ گوں کی سی کیفیت ہے،بے یقینی،ڈر اورخوف نے ہر باسی کو پریشان کر رکھا ہے،اس شہر کے لوگوں نے کبھی سوچا نہ تھاکہ انہیں ایک دن اپنے ہی لوگوں سے اس طرح خائف ہو کر رہنا پڑے گا۔ یہ شہر پچھلے برس عاشورہ پر جس اندوہ ناک سانحے کا شکار ہوا اور اس کے بعدیہاں کے باسی جس ذہنی اذیت اور خوف کے عالم میں مبتلا رہے اُس نے یہاں کے رہنے والوں کے اذہان پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔

ایک بہت بڑی تباہی سے یہ شہر بال بال بچا جس کا کریڈٹ بلا شبہ میڈیا اور دونوں مکاتبِ فکر کے علماء کو جاتا ہے۔ مگر نفر ت کی جو چنگاری پچھلے برس لگائی گئی تھی اب تک سلگ رہی ہے ، ابھی چند دن ہی ہوئے کہ راولپنڈی کے ایک مشہور عالم دین اور مفتی کو قتل کر دیا گیا اور اس کا ردِعمل بے حد شدید تھا اور شہر ایک دفعہ پھر کسی افسوس ناک واقعے سے دوچار ہوتے ہوتے بچا،اس کا سہرا یہاں کی انتظامیہ اور پولیس کو جاتا ہے جنہوں نے مظاہرین کو مخالف فرقے کی عبادت گاہوں کی جانب پیش قدمی سے روکے رکھا اور ان کی حفاظت میں کوئی کسر نہ رکھ چھوڑی۔

مگر اس سال جب میں اپنے شہر کو دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے،وہ لوگ جو پورے سال ایک دوجے سے شیر و شکر ہو کر رہتے، اب اپنا پہلو بچاتے نظر آتے ہیں، سرگوشیوں میں گفتگو کی جا رہی ہے اور ساتھ ہی کن انکھیوں سے ادھر اُدھر نظر ڈالی جاتی ہے، کہ کہیں کسی دوسرے مکتب فکر کا کوئی شخص ہماری باتیں تو نہیں سن رہا۔ ماں باپ اپنے بچوں کو گھروں میں رہنے کی تاکید کر رہے ہیں اور دو اجنبی بات کرنے سے پہلے یہ معلوم کرتے ہیں کہ آپ کہیں فلاں فرقے کے تو نہیں؟ ہم نے جن کے ساتھ زندگیاں گزار دیں، اُن سے ہمارے رشتے کس قدر کمزور تھے، اب معلوم ہوا۔


راجہ بازار اور اس سے ملحق علاقو ں میں پچھلے چار دنوں سے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار راستے بند کیے کھڑے ہیں، مقامی باسیوں کے ساتھ تاجروں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے، اس سب نقصان کے ذمہ دار کون ہے، شائد اس کا فیصلہ نہ ہو سکے مگر یہ سچ ہے کہ اب بھی یہاں ایسے عناصر پائے جاتے ہیں جن کی تخریب کاری اور شدت پسندی شہر کو ایک بڑے نقصان سے دوچار کر سکتی ہے۔

فرقہ پرستی اور تعصب کے زہر نے ہمیں اپنی اساس سے اس قدر دور کر دیا ہے کہ اب ہم نے اسلام کی عظیم ترین شخصیات کو بھی اپنے بیچ بانٹ دیا ہے، سید الشہدا امام حسینؓ تمام مسلمانوں کی شان ہیں، آپ دین اسلام کا اثاثہ ہیں اور آپ پر ہر مسلمان کا برابر حق ہے، مگر اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ عاشورہ صرف اہل تشیع حضرات کا ہی دن بن کر رہ گیا، باقی مکاتبِ فکر کے لوگ جس طرح پہلے اس دن کو مناتے تھے،اب وہ سلسلہ معدوم ہوتا نظر آ رہاہے۔ امام حسینؓ کی قربانی دین اسلام کے لیے ہی نہیں پوری انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے، جس جس کو ظلم و جبر کے خلاف آواز اُٹھانی ہو، وہ آپؑ سے ہی اس کی جرات پاتا ہے۔ ہمارے پاس حضور گرامی اعلی مرتبت حضرت محمد ﷺ اور ان کے گھرانے کے سوا ہے ہی کیا اور اگر ہم ان ہستیوں کے نام پر بھی ایک نہ ہو پائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ذلت و رسوائی سے بچا نہیں سکتی۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story