بات کچھ اِدھر اُدھر کی کربلا کا پیغام
اگر ہم ابھی تک اس کو سمجھ نہیں پائے تو خدارا اپنی زندگیوں کو کربلا کے عملی درس کے مطابق ڈھالیں
پوری دنیا میں اس وقت مسلمان مشکلات کا شکار ہیں۔ کفاراس وقت اجتماعی طور پر مسلم امہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس کے باوجود ہم باہم دست وگریباں ہیں۔ ہم مل کر دشمن کا مقابلہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ملکوں کی سطح پر بھی ہم ایک دوسرے کو ناکام ثابت کرنے پر تلے ہیں ہوئے۔ قرآن کریم رہتی دنیا تک سرچشمہء ہدایت ہے لیکن ہم ہدایت لینے کو تیار نہیں۔ ارشاد ہوا ' اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو ، اور تفرقوں میں نہ پڑو' لیکن ہم کو کسی کے بندھے ہاتھوں پہ اعتراض ہے تو کسی کے کھلے ہاتھوں پہ۔ کہیں کفر کے فتوے ہیں تو کہیں قتل کے فرمان۔ غرضیکہ کہ قفس بھی اپنا قیدی بھی خود۔
مسائل کا منبع معاملات کو اجتماعی حالت میں دیکھنا ہے۔ ہم اجتماعی طور پر خود کو مسلم امہ کاحصہ سمجھتے ہیں لیکن انفرادی طور پر اچھا مسلمان بننے کو تیار نہیں ہیں۔ ہم آقائے دو جہاں صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات سے دور ہو رہے ہیں۔ طائف کی وادی، پتھروں کی بارش، حضور صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کے جوتے مبارک تک خون سے بھر گئے۔ وحی آئی، ' حکم کریں تو پہاڑ اہل طائف پر الٹ دیا جائے' ۔ فرمایا ' اللہ یہ بے خبر ہیں نہیں جانتے، انہیں ہدایت عطا فرما'۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ سرور کائنات صلی اللہ وعلیہ و آلہ سلم جو وجہ ء تخلیق کائنات ہیں جب وہ صبر و برداشت کا اتنا بڑا مظاہرہ کر سکتے ہیں تو پھر ہماری کیا اوقات کہ ہم دوسروں کے گریباں چاک کرتے پھریں؟
صبر و برداشت کا جو درس کائنات کے راہبر صلی اللہ و علیہ و آلہ سلم نے پوری ظاہری زندگی میں دیا۔ اس کی تکمیل نواسہ رسول صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم ، جگر گوشہء بتول ، حسین ؓنے کر بلا کے میدان میں کر دی ۔ اور دکھا دیا کہ صبرو برداشت ہی ہماری میراث ہے۔ لیکن صد افسوس! ہم میں آج یہ صبر و برداشت عملی طور پر ختم ہو گیا ہے۔
قیام مکہ میں جب کوفہ والوں کی طرف سے بے پناہ خطوط و پیغامات موصول ہوئے تو جناب مسلم بن عقیل کو روانہ کیا ۔ لیکن جب ابن زیاد کوفہ کا گورنر بنا تو مسلم بن عقیل اور ان کے ساتھیوں کو، بمعہ فرزندانِ مسلم ، بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ حضرت حسینؓ کو راستے میں جب خبر ملی تو پھر بھی آپ نے کمال صبر و برداشت کا مظاہرہ کیا۔ آپ ؓ چاہتے تو واپس لوٹ سکتے تھے۔ لیکن نانا کے دین کی آبیاری اپنی ذات سے زیادہ اہم تھی۔ کیا اس لمحے بھی تاریخ نوجوانانِ جنت کے سردار کے لبوں پر کوئی ایسا لفظ تلاش کر پائی جو صبر و برداشت کے منافی ہو؟ یہ صبر و برداشت سے بھی کچھ اوپر کا عمل تھا۔ شیطان کو شاید آج سجدہ نہ کرنے کا بھی افسوس ہوا ہو گا۔ جن کے لباس جنت سے آئیں۔ وہ تپتے صحرا کے مکین۔ ۔۔ الاماں۔۔۔ افسوس ہم نے صبر و برداشت کے اس عظیم مظاہرے کو بھلا دیا۔ اور عدم برداشت کو اپنا لیا۔ کیا کر بلا میں صبر کی انتہا نہیں تھی؟ تو پھر آج ہم کیوں صبر کو چھوڑ چکے ہیں؟ کیوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں؟
کر بلا کی تپتی زمین سے اپنے پیاروں کے لاشے اٹھاتے ہوئے بھی آپ ؓکے پایہ استقلال میں لرزش نہ آئی۔ اور صبر و برداشت کا ایسا نمونہ رہتی دنیا تک چھوڑا جس کا کوئی ثانی نہیں ہو گا۔
اگر ہم ابھی تک اس کو سمجھ نہیں پائے تو خدارا اپنی زندگیوں کو کربلا کے عملی درس کے مطابق ڈھالیں۔کربلا میں معرکہ ء حق و باطل تھا۔ جس کا پیغام صبر و برداشت تھا۔ کیا ہم آج اس پیغام کو سمجھ پا رہے ہیں؟ کیا آج ہم میں برداشت موجود ہے؟ کیا آج ہم صبر کو اپنی ذات کا حصہ بنا رہے ہیں؟ اگر نہیں تو ہمیں خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہو گا۔ مشکلات پہ صبر کرنا سیکھنا ہو گا۔ کسی دوسرے کی سوچ، عمل، طریق کو برداشت کرنا ہوگا۔ یہی کربلا کا درس ہے جس سے نہ صرف ہماری ذاتی زندگیا ں بہتر ہوں گی بلکہ امت مسلمہ اجتماعی طور پر بھی مسائل سے چھٹکارا حاصل کرسکتی ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
مسائل کا منبع معاملات کو اجتماعی حالت میں دیکھنا ہے۔ ہم اجتماعی طور پر خود کو مسلم امہ کاحصہ سمجھتے ہیں لیکن انفرادی طور پر اچھا مسلمان بننے کو تیار نہیں ہیں۔ ہم آقائے دو جہاں صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات سے دور ہو رہے ہیں۔ طائف کی وادی، پتھروں کی بارش، حضور صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کے جوتے مبارک تک خون سے بھر گئے۔ وحی آئی، ' حکم کریں تو پہاڑ اہل طائف پر الٹ دیا جائے' ۔ فرمایا ' اللہ یہ بے خبر ہیں نہیں جانتے، انہیں ہدایت عطا فرما'۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ سرور کائنات صلی اللہ وعلیہ و آلہ سلم جو وجہ ء تخلیق کائنات ہیں جب وہ صبر و برداشت کا اتنا بڑا مظاہرہ کر سکتے ہیں تو پھر ہماری کیا اوقات کہ ہم دوسروں کے گریباں چاک کرتے پھریں؟
صبر و برداشت کا جو درس کائنات کے راہبر صلی اللہ و علیہ و آلہ سلم نے پوری ظاہری زندگی میں دیا۔ اس کی تکمیل نواسہ رسول صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم ، جگر گوشہء بتول ، حسین ؓنے کر بلا کے میدان میں کر دی ۔ اور دکھا دیا کہ صبرو برداشت ہی ہماری میراث ہے۔ لیکن صد افسوس! ہم میں آج یہ صبر و برداشت عملی طور پر ختم ہو گیا ہے۔
قیام مکہ میں جب کوفہ والوں کی طرف سے بے پناہ خطوط و پیغامات موصول ہوئے تو جناب مسلم بن عقیل کو روانہ کیا ۔ لیکن جب ابن زیاد کوفہ کا گورنر بنا تو مسلم بن عقیل اور ان کے ساتھیوں کو، بمعہ فرزندانِ مسلم ، بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ حضرت حسینؓ کو راستے میں جب خبر ملی تو پھر بھی آپ نے کمال صبر و برداشت کا مظاہرہ کیا۔ آپ ؓ چاہتے تو واپس لوٹ سکتے تھے۔ لیکن نانا کے دین کی آبیاری اپنی ذات سے زیادہ اہم تھی۔ کیا اس لمحے بھی تاریخ نوجوانانِ جنت کے سردار کے لبوں پر کوئی ایسا لفظ تلاش کر پائی جو صبر و برداشت کے منافی ہو؟ یہ صبر و برداشت سے بھی کچھ اوپر کا عمل تھا۔ شیطان کو شاید آج سجدہ نہ کرنے کا بھی افسوس ہوا ہو گا۔ جن کے لباس جنت سے آئیں۔ وہ تپتے صحرا کے مکین۔ ۔۔ الاماں۔۔۔ افسوس ہم نے صبر و برداشت کے اس عظیم مظاہرے کو بھلا دیا۔ اور عدم برداشت کو اپنا لیا۔ کیا کر بلا میں صبر کی انتہا نہیں تھی؟ تو پھر آج ہم کیوں صبر کو چھوڑ چکے ہیں؟ کیوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں؟
کر بلا کی تپتی زمین سے اپنے پیاروں کے لاشے اٹھاتے ہوئے بھی آپ ؓکے پایہ استقلال میں لرزش نہ آئی۔ اور صبر و برداشت کا ایسا نمونہ رہتی دنیا تک چھوڑا جس کا کوئی ثانی نہیں ہو گا۔
اگر ہم ابھی تک اس کو سمجھ نہیں پائے تو خدارا اپنی زندگیوں کو کربلا کے عملی درس کے مطابق ڈھالیں۔کربلا میں معرکہ ء حق و باطل تھا۔ جس کا پیغام صبر و برداشت تھا۔ کیا ہم آج اس پیغام کو سمجھ پا رہے ہیں؟ کیا آج ہم میں برداشت موجود ہے؟ کیا آج ہم صبر کو اپنی ذات کا حصہ بنا رہے ہیں؟ اگر نہیں تو ہمیں خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہو گا۔ مشکلات پہ صبر کرنا سیکھنا ہو گا۔ کسی دوسرے کی سوچ، عمل، طریق کو برداشت کرنا ہوگا۔ یہی کربلا کا درس ہے جس سے نہ صرف ہماری ذاتی زندگیا ں بہتر ہوں گی بلکہ امت مسلمہ اجتماعی طور پر بھی مسائل سے چھٹکارا حاصل کرسکتی ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔