حالات کے تناظر میں

پاکستانی معاشرے میں ہر طرح کی برائی، قبیح رسوم و قیود، نمود و نمایش، تصنع و بناوٹ، فحاشی و عریانی بام عروج پر ہے۔


Naseem Anjum September 29, 2012
[email protected]

آج کے حالات کے تناظر میں مسلمانوں کی حالتِ زار علامہ اقبال کے ان اشعار کی آئینہ دار ہے کہ حال سب کا برا ہے نہ واعظ صاحبِ عمل اور نہ سامع صاحبِ ایمان۔ اقبال کہتے ہیں کہ:

واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برقِ طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسمِ اذاں، روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحبِ اوصاف حجازی نہ رہے
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغاں بھی
تم سبھی کچھ ہو، بتائو تو مسلماں بھی ہو

پاکستانی معاشرے میں ہر طرح کی برائی، قبیح رسوم و قیود، نمود و نمایش، تصنع و بناوٹ، فحاشی و عریانی بام عروج پر ہے۔ ذخیرہ اندوزی بے ایمانی اپنی جگہ، نفرت و تعصب نے سب سے زیادہ قہر پھیلایا ہے، اس کی سب سے اہم وجہ حکومتوں کی بے پروائی، اپنے فرائض سے چشم پوشی اور ذاتی اغراض اور مفاد پرستی ہے۔ اگر حکمران چاہتے تو حکومتی سطح پر قوانین نافذ کیے جاسکتے تھے۔ اگر دیکھا جائے تو کچھ قوانین بھی موجود ہیں لیکن ان پر عمل نہیں کیا جاتا ہے۔

معاملہ کچھ اس طرح کا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، بھینس کو حاصل کرنے کے لیے اہلِ ثروت کے پاس بے شمار ذرایع ہیں جس میں رشوت اور سفارش کو زیادہ سے زیادہ دخل ہے۔ اگر یہ دو چیزیں نہ ہوتیں تب معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جاتا اور آج اس قدر قتل و غارت ہرگز نہ کیا جاتا اور نہ ہر سمت لاشوں کا بازار سجتا، آج اسی اقربا پروری نے محشر بپا کردیا ہے، ایک ایک گھر سے 8-8 اور 4-4 لاشیں نکل رہی ہیں۔

گھر والوں کے حوصلے قابلِ تحسین ہیں کہ اﷲ نے انھیں صبر و شکر کی لازوال دولت سے مالا مال کردیا ہے، ورنہ تو ایک بچّے کی موت پر گھر والے اور خصوصاً ماں کو غشی کے دورے پڑتے تھے، زندہ لوگوں کی زندگیوں کے لالے پڑ جاتے تھے، لیکن وہ جانتے ہیں کہ شہیدوں کے ورثاء دھاڑیں نہیں مارتے ہیں۔ راہِ حق پر چلنے والوں کے لیے اﷲ نے بلند مراتب رکھے ہیں۔ ایک گھر کے چار افراد لقمۂ اجل بن گئے، چار بھائیوں کے جنازے ایک ساتھ نکلے پھر دوسرے ہی روز ایک گھر کے تین افراد، باپ اور دو بیٹوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔

ایک ایک کرکے مرنے والے علیحدہ، جن کی ہر روز تعداد 12-10، 15 ضرور ہوجاتی ہے۔ اِن حالات میں حکومت کیوں خاموش ہے، رینجرز کہاں ہے؟ فورسز کے سربراہ کیوں نہیں ایسا لائحہ عمل بناتے ہیں، جس کی رو سے ہر علاقے اور ہر شاہراہ کی حفاظت ہوسکے۔ ان راستوں پر نفری کیوں نہیں کھڑی کی جاتی ہے جو خاص عمارات، مساجد، امام بارگاہ، مدارس کو جاتے ہیں۔ اگر اتفاق سے کوئی پولیس موبائل اس قسم کے سانحات کی چشمِ دید گواہ ہوتی بھی ہے تو وہ ایک طرف ہوجاتی ہے۔ اس طرح قاتل کے پنجے میں مقتول آجاتے ہیں، انھیں کوئی چھڑانے والا نہیں۔ گویا دانستہ قتل و غارت کا بازار گرم رکھا جاتا ہے۔ سانحہ بلدیہ گزر چکا ہے، لیکن جو دل دہلانے والے حقائق سامنے آئے ہیں، اس سے اندازہ لگالیجیے کہ انسان کو اپنا مال و دولت انسانی جانوں سے کہیں زیادہ عزیز ہے۔

بے شک یہ دولت، پیسہ کیا چیز ہے، جس کے لیے لوگوں کو آگ میں جھونکا جارہا ہے، قتل کیا جارہا ہے، جس بات کو اﷲ اور اس کے نبیؐ نے منع فرمایا ہے وہی بات بار بار کی جارہی ہے، یعنی دولت سے عشق اور حقوق العباد سے لاتعلقی۔ ''سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ'' دنیا ایک مسافر خانہ ہے جہاں ہر شخص آخرت کی کھیتی کاٹ کر چل دیتا ہے۔ مال و اسباب، اولاد، دھن دولت سب کچھ یوں ہی پڑا رہ جاتا ہے، بڑے بڑے محلوں میں رہنے والے بڑی بڑی گاڑیاں استعمال کرنے والوں کے حصّے میں بعض اوقات 2 گز زمین بھی میسر نہیں آتی، لیکن ہوس ہے کہ بڑھتی ہی جاتی ہے یہ رکنے کا نام نہیں لیتی۔

آج بڑے بڑے دردناک واقعات اور حادثات جنم لے رہے ہیں۔ امّت مسلمہ کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے اہلِ مغرب ان کی دینی حمیت کو ببانگِ دہل للکار رہے ہیں لیکن مسلم دنیا کوئی ایسا کام اور کارنامہ انجام دینے کے لیے تیار نہیں کہ دشمن کے پیر اکھڑ جائیں اور وہ بلاخوف و خطر یہ کہنے پر مجبور نہ ہو کہ ہم اس گستاخانہ فلم کی مذمت کرتے ہیں لیکن گوگل، Youtube سے اس فلم کو ہٹائیں گے نہیں، پھر مذمت اور امریکا کی شرمندگی اور بے عزتی کیسی؟ صدر آصف علی زرداری نے اپنے دورۂ امریکا کے موقع پر کہا کہ اقوام متحدہ گستاخانہ فلم جیسے عمل کو جرم قرار دے اور عالمی برادری خاموش تماشائی نہ بنے۔

انھوں نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی پوچھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مزید کتنا نقصان اٹھانا پڑے گا؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام اسلامی ممالک اپنے ملک میں امریکا کے قائم سفارت خانوں کو بند کرنے اور سفارت کار کو ملک بدر کرنے کا اعلان کرتے اور اس ملعون ٹیری جونز کو حقیقتاً سزا دیتے یا امریکا یا پاکستان کے حوالے کرتے تو شاید جان مال کا اتنا بڑا نقصان ہرگز نہ ہوتا۔ یہ بڑے ہی دکھ کی بات ہے کہ جلوس و ریلیاں نکالتے وقت نظم و نسق کا فقدان پایا جاتا ہے۔

اگر اپنے اپنے گروپ کے لیڈر اپنے کارکنوں کی نہ کہ گنتی کریں، انھیں مونو گرام اور سفید یا کسی خاص رنگ کی ٹوپیاں فراہم کرے تو دہشت گردوں کی شناخت آسانی کے ساتھ ہوسکتی ہے کہ کب اور کس موقعے پر لٹیرے جلوس میں شامل ہوگئے ہیں، اپنے کارکنوں کو ایسے مواقعے پر ٹریننگ دینا اور دستوں کی حفاظت کرنا۔ رینجرز اور پولیس اہلکاروں کی نفری کی بھی موجودگی جلوس کے اطراف میں ضروری اور لازمی ہے۔ اگر ایسا نہیں کیا تو پاکستان میں جو دہشت گردی کی تنظیمیں کام کررہی ہیں۔

یہ غیر ملکی ہر صورت پاکستانیوں کی جانوں کو نشانہ بنائیں گے اور املاک کو برباد کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اے سی اور دوسری قیمتی چیزیں چرا کر یہ ثابت کردیا کہ وہ دشمن کے آلۂ کار ہیں اور بذاتِ خود بھی وہ مسلمان اور پاکستانی کہلانے کی تو دور کی بات ہے، یہ لوگ انسان کہلانے کے قابل نہیں۔ کیا پیارے نبیؐ سے عشق کا تقاضا یہی ہے کہ آپؐ کی تعلیمات کی نفی اور پوری دنیا میں جگ ہنسائی کا سامان پیدا کریں وہ غیر مسلم جو مہذب اور تعلیم یافتہ ہیں، اچھی طرح جانتے ہیں کہ حضرت محمدؐ کی سیرتِ پاک قابل تقلید ہے۔

آپؐ اخلاق کے اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ فتح مکہ سے پہلے کفار نے طائف کی گلیوں میں رسولِ پاکؐ کی ذاتِ اقدس پر طرح طرح کے ظلم کیے، نعوذ باﷲ آپ کو قتل کرنے کی ناپاک جسارت بھی کی لیکن آپؐ نے سب کو معاف کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آپؐ کے اعلیٰ و ارفع اخلاق سے متاثر ہو کر بے شمار لوگ مسلمان ہوئے، جوق درجوق لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے۔ آج بھی جب مسلمان خود نبی پاکؐ کی تعلیمات کو بھلا بیٹھے ہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اپنے کردار اور اخلاق کو بدلیں۔ اقبال کچھ اس طرح دعاگو ہیں۔

ضمیر لالہ میں روشن چراغِ آرزو کردے
چمن کے ذرے ذرے کو شہیدِ جستجو کردے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں