تحریک انصاف اور ن لیگ بات چیت کی مجبوری
یہ سمجھنا کہ پاکستان تحریک انصاف کے ہونے یا نہ ہونے سےکوئی فرق نہیں پڑتا جمہوریت کےپاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔
KARACHI:
کافی دیر کے بعد اخبارات میں پاکستان تحریک انصاف اور ن لیگ کے درمیان بات چیت کے حوالے سے ایک آدھ مثبت خبر چھپی ہے۔ ایک خبر وزیر اطلاعات پرویز رشید کے بیان سے بنی ہے۔ اطلاعات کے مطابق پرویز رشید نے عمران خان کو اپنے مخصوص انداز میں بات چیت کی دعوت دی ہے۔ انھوں نے کہا : " تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کے لیے ہمارے دل کے دروازے کھلے ہیں لیکن عمران خان اپنی مذاکراتی ٹیم کو حکومتی ٹیم سے بات چیت کی اجازت نہیں دے رہے۔ عمران خان شاہ محمود کی ہتھکڑیاں کھول کر مذاکرات کی دعوت دیں۔ عمران خان پارلیمنٹ میں آئیں گلے لگائیں گے"۔
گورنر پنجاب چوہدری سرور نے بھی کچھ اسی قسم کے اشارے دیے ہیں۔ گورنر پنجاب چوہدری سرور نے کہا ہے کہ "میرے طاہر القادری سے بھی مذاکرات ہوتے رہے ہیں، عمران خان سے بھی مذاکرات سے ہی دھرنا ختم ہو گا۔ تحریک انصاف کی قیادت سے رابطہ ہے اور تحریک انصاف کی قیادت کو دھرنے ختم کرنے پر آمادہ کر لیا جائے گا۔ سیاسی جماعتوں میں مذاکرات جمہوریت کا حسن ہے اور جمہوری حکومت ہی جمہوری راستے اختیار کرتی ہے"۔ پاکستان تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے ممبر عارف علوی نے جواباً یہ بیان دیا ہے کہ وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں مگر بات چیت کے لیے دعوت نامہ سنجیدگی سے موصول ہونا چاہیے۔
یہ سب کچھ پڑھنے اور سننے میں اچھا دکھتا اور سنائی دیتا ہے۔ مگر بات چیت کے اس عزم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دونوں جماعتوں کو ان مجبوریوں کا احساس کرنا ہو گا جو ہر گزرتے ہوئے لمحے سخت سے سخت ترین ہوئے چلی جا رہی ہیں۔ ن لیگ اور پاکستان تحریک انصاف میں سے کوئی جماعت دوسرے کو برداشت کیے بغیر نہ تو اپنی سیاست میں توازن لا سکتی ہے اور نہ ملک میں استحکام کی اس اشد ضرورت کو پورا کر سکتی ہے۔ جس کے بغیر جمہوریت کا قائم رہنا ہمیشہ مشکوک رہے گا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی مجبوری واضح ہے۔ تحریک انصاف اسلام آباد کے دھرنے کے زور ٹوٹنے کے باوجود پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے، اس کو نظام سے باہر رکھ کر گھسیٹ گھسیٹ کر جمہوریت کو چلایا تو جا سکتا ہے لیکن ملک کی سلامتی کے لیے ضروری اصلاحات نہیں کی جا سکتیں۔ تحریک انصاف نے اس ملک کے نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد پر سیاسی اثرات مرتب کر دیے ہیں۔ اس کے علاوہ شہروں میں وہ حلقے جو سیاسی نظام سے کنارہ کشی اختیار کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے' اب اس جماعت کے ذریعے سیاسی دھارے کا حصہ ہیں۔
اس کے ساتھ بیرون ملک پاکستانیوں کی اکثریت تحریک انصاف کے نقطہ نظر سے اتفاق کرتی ہے۔ لہٰذا یہ سوچنا کہ عمران خان دھرنے کے بعد نظام سے باہر رہ کر اپنی قدر کھو دے گا درست نہیں۔ خیبر پختونخوا میں حکومت اس مجبوری کا ایک اور عکس ہے۔ دہشت گردی اور آبادی کے ساتھ کاروبار کی نقل مکانی وہ معاملات ہیں جن کو وفاق یا پنجاب کسی طور نظر انداز نہیں کر سکتے۔ خیبر پختونخوا اگر چھینک بھی مارے گا تو پورا ملک زکام میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ لہذا یہ سمجھنا کہ پاکستان تحریک انصاف کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا جمہوریت کے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔
ن لیگ اگر اس مجبوری کو سمجھ لے تو اس کے لیے استعفیٰ کے علاوہ دوسرے نکات پر لچک اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے میں آسانی ہو گی۔ تحریک انصاف کے دوسرے مطالبات قابل عمل بھی ہیں اور نظام کو بہتر انداز سے چلانے کے لیے ضروری بھی۔ اگر تحریک انصاف کے اراکین کے استعفوں کو روکنا ہے تو پھر بات چیت کے دروازے خوش دلی اور خوش بینی کے ساتھ کھلے رکھنے ہوں گے۔ اس ضمن میں پہل کرنے کی ذمے داری حکومت کی بنتی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو بھی ان تمام معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہو گا جو کنٹینر پر کھڑے ہو کر ذہن سے دور اور نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔
اگر تحریک انصاف کا خیال ہے کہ اس نے مقبولیت کی معراج پا لی ہے تو پھر اس کو اپنے لیے یہ سوال اٹھانا ہو گا کہ آیا موجودہ مقبولیت اس کو تمام ملک میں حکومت چلانے کی وہ عددی برتری دے دے گی جس کی وجہ سے اس کو کسی اور جماعت کے مدد یا تعاون کی ضرورت نہ پڑے۔ سوشل میڈیا پر اودھم مچانے والے اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے نہ ہی ان سے اس جواب کی طلب کرنی چاہیے۔ تمام تر سیاسی فارمولوں کو بروئے کار لا کر ہم یہ سنجیدہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اپنی بہترین انتخابی کارکردگی کے بعد بھی تحریک انصاف ہر صوبے میں مختلف قسم کی جماعتوں کی مدد کے بغیر اصلاحات کے راستے پر قدم نہیں بڑھا سکتی۔ معاملہ عمران خان کی خواہشات کا نہیں حقائق کا ہے۔
ویسے بھی اس قسم کے انتخابات کروانے کے لیے جن سے تحریک انصاف مطمئن ہو بنیادی اصلاحات کرنی ہوں گی۔ اگر عمران خان یہ سمجھ رہے ہیں کہ قوم کی سوچ تبدیل ہو گئی ہے تو بھی اس تبدیلی کو ایک تطہیر شدہ انتخابی نظام اور عمل سے گزار کر ہی طاقت حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اقتدار میں آنے کا رستہ وہی ہے جو تحریک انصاف نے عوامی تحریک کے ساتھ مل کر اپنایا مگر جس میں اس کو ہر قسم کی معاونت اور مدد کے باوجود کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ لہذا تحریک انصاف خود کو ان اہم انتخابی اصلاحات کرنے کے عمل سے علیحدہ نہیں رکھ سکتی۔
ایسا کرے گی تو وہ اپنے اگلے سال کی تمام تر توانائیاں محض احتجاج اور سیاسی لڑائیاں کرنے میں صرف کر دے گی۔ تعمیری کام کرنے کے مواقع کنٹینر پر کھڑے ہو کر استعمال نہیں کیے جا سکتے۔ جلسے کرنے سے حکومت چلانے کا بندوبست پیدا نہیں ہو جاتا۔ مسلسل احتجاج کی واضح قیمت خیبر پختونخوا کے عوام اور حکومت نے اٹھائی ہے۔ اس قیمت کا ٹھنڈے دل سے تجزیہ کرنا ہوگا۔
ہر سوال کو سازش یا بد نیتی کہہ کر پرے پھینک دینا جذباتی تسکین کا باعث تو بن سکتا ہے عملی سیاست کی بنیاد نہیں۔ دونوں جماعتیں بات چیت سے اپنے معاملات حاصل کر سکتی ہیں اور دونوں جماعتیں اپنے موقف پر کھڑے رہتے ہوئے نظام کو ملک کے استحکام کے لیے بروئے کار لا سکتی ہیں۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال کر دونوں جماعتیں اپنی آنکھوں میں دھول جونک رہی ہیں۔ بات چیت کا آغاز سب کے مفاد میں ہے۔ اس حقیقت کو جتنا جلدی مان لیں اتنا ہی اچھا ہو گا۔
کافی دیر کے بعد اخبارات میں پاکستان تحریک انصاف اور ن لیگ کے درمیان بات چیت کے حوالے سے ایک آدھ مثبت خبر چھپی ہے۔ ایک خبر وزیر اطلاعات پرویز رشید کے بیان سے بنی ہے۔ اطلاعات کے مطابق پرویز رشید نے عمران خان کو اپنے مخصوص انداز میں بات چیت کی دعوت دی ہے۔ انھوں نے کہا : " تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کے لیے ہمارے دل کے دروازے کھلے ہیں لیکن عمران خان اپنی مذاکراتی ٹیم کو حکومتی ٹیم سے بات چیت کی اجازت نہیں دے رہے۔ عمران خان شاہ محمود کی ہتھکڑیاں کھول کر مذاکرات کی دعوت دیں۔ عمران خان پارلیمنٹ میں آئیں گلے لگائیں گے"۔
گورنر پنجاب چوہدری سرور نے بھی کچھ اسی قسم کے اشارے دیے ہیں۔ گورنر پنجاب چوہدری سرور نے کہا ہے کہ "میرے طاہر القادری سے بھی مذاکرات ہوتے رہے ہیں، عمران خان سے بھی مذاکرات سے ہی دھرنا ختم ہو گا۔ تحریک انصاف کی قیادت سے رابطہ ہے اور تحریک انصاف کی قیادت کو دھرنے ختم کرنے پر آمادہ کر لیا جائے گا۔ سیاسی جماعتوں میں مذاکرات جمہوریت کا حسن ہے اور جمہوری حکومت ہی جمہوری راستے اختیار کرتی ہے"۔ پاکستان تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے ممبر عارف علوی نے جواباً یہ بیان دیا ہے کہ وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں مگر بات چیت کے لیے دعوت نامہ سنجیدگی سے موصول ہونا چاہیے۔
یہ سب کچھ پڑھنے اور سننے میں اچھا دکھتا اور سنائی دیتا ہے۔ مگر بات چیت کے اس عزم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دونوں جماعتوں کو ان مجبوریوں کا احساس کرنا ہو گا جو ہر گزرتے ہوئے لمحے سخت سے سخت ترین ہوئے چلی جا رہی ہیں۔ ن لیگ اور پاکستان تحریک انصاف میں سے کوئی جماعت دوسرے کو برداشت کیے بغیر نہ تو اپنی سیاست میں توازن لا سکتی ہے اور نہ ملک میں استحکام کی اس اشد ضرورت کو پورا کر سکتی ہے۔ جس کے بغیر جمہوریت کا قائم رہنا ہمیشہ مشکوک رہے گا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی مجبوری واضح ہے۔ تحریک انصاف اسلام آباد کے دھرنے کے زور ٹوٹنے کے باوجود پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے، اس کو نظام سے باہر رکھ کر گھسیٹ گھسیٹ کر جمہوریت کو چلایا تو جا سکتا ہے لیکن ملک کی سلامتی کے لیے ضروری اصلاحات نہیں کی جا سکتیں۔ تحریک انصاف نے اس ملک کے نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد پر سیاسی اثرات مرتب کر دیے ہیں۔ اس کے علاوہ شہروں میں وہ حلقے جو سیاسی نظام سے کنارہ کشی اختیار کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے' اب اس جماعت کے ذریعے سیاسی دھارے کا حصہ ہیں۔
اس کے ساتھ بیرون ملک پاکستانیوں کی اکثریت تحریک انصاف کے نقطہ نظر سے اتفاق کرتی ہے۔ لہٰذا یہ سوچنا کہ عمران خان دھرنے کے بعد نظام سے باہر رہ کر اپنی قدر کھو دے گا درست نہیں۔ خیبر پختونخوا میں حکومت اس مجبوری کا ایک اور عکس ہے۔ دہشت گردی اور آبادی کے ساتھ کاروبار کی نقل مکانی وہ معاملات ہیں جن کو وفاق یا پنجاب کسی طور نظر انداز نہیں کر سکتے۔ خیبر پختونخوا اگر چھینک بھی مارے گا تو پورا ملک زکام میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ لہذا یہ سمجھنا کہ پاکستان تحریک انصاف کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا جمہوریت کے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔
ن لیگ اگر اس مجبوری کو سمجھ لے تو اس کے لیے استعفیٰ کے علاوہ دوسرے نکات پر لچک اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے میں آسانی ہو گی۔ تحریک انصاف کے دوسرے مطالبات قابل عمل بھی ہیں اور نظام کو بہتر انداز سے چلانے کے لیے ضروری بھی۔ اگر تحریک انصاف کے اراکین کے استعفوں کو روکنا ہے تو پھر بات چیت کے دروازے خوش دلی اور خوش بینی کے ساتھ کھلے رکھنے ہوں گے۔ اس ضمن میں پہل کرنے کی ذمے داری حکومت کی بنتی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو بھی ان تمام معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہو گا جو کنٹینر پر کھڑے ہو کر ذہن سے دور اور نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔
اگر تحریک انصاف کا خیال ہے کہ اس نے مقبولیت کی معراج پا لی ہے تو پھر اس کو اپنے لیے یہ سوال اٹھانا ہو گا کہ آیا موجودہ مقبولیت اس کو تمام ملک میں حکومت چلانے کی وہ عددی برتری دے دے گی جس کی وجہ سے اس کو کسی اور جماعت کے مدد یا تعاون کی ضرورت نہ پڑے۔ سوشل میڈیا پر اودھم مچانے والے اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے نہ ہی ان سے اس جواب کی طلب کرنی چاہیے۔ تمام تر سیاسی فارمولوں کو بروئے کار لا کر ہم یہ سنجیدہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اپنی بہترین انتخابی کارکردگی کے بعد بھی تحریک انصاف ہر صوبے میں مختلف قسم کی جماعتوں کی مدد کے بغیر اصلاحات کے راستے پر قدم نہیں بڑھا سکتی۔ معاملہ عمران خان کی خواہشات کا نہیں حقائق کا ہے۔
ویسے بھی اس قسم کے انتخابات کروانے کے لیے جن سے تحریک انصاف مطمئن ہو بنیادی اصلاحات کرنی ہوں گی۔ اگر عمران خان یہ سمجھ رہے ہیں کہ قوم کی سوچ تبدیل ہو گئی ہے تو بھی اس تبدیلی کو ایک تطہیر شدہ انتخابی نظام اور عمل سے گزار کر ہی طاقت حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اقتدار میں آنے کا رستہ وہی ہے جو تحریک انصاف نے عوامی تحریک کے ساتھ مل کر اپنایا مگر جس میں اس کو ہر قسم کی معاونت اور مدد کے باوجود کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ لہذا تحریک انصاف خود کو ان اہم انتخابی اصلاحات کرنے کے عمل سے علیحدہ نہیں رکھ سکتی۔
ایسا کرے گی تو وہ اپنے اگلے سال کی تمام تر توانائیاں محض احتجاج اور سیاسی لڑائیاں کرنے میں صرف کر دے گی۔ تعمیری کام کرنے کے مواقع کنٹینر پر کھڑے ہو کر استعمال نہیں کیے جا سکتے۔ جلسے کرنے سے حکومت چلانے کا بندوبست پیدا نہیں ہو جاتا۔ مسلسل احتجاج کی واضح قیمت خیبر پختونخوا کے عوام اور حکومت نے اٹھائی ہے۔ اس قیمت کا ٹھنڈے دل سے تجزیہ کرنا ہوگا۔
ہر سوال کو سازش یا بد نیتی کہہ کر پرے پھینک دینا جذباتی تسکین کا باعث تو بن سکتا ہے عملی سیاست کی بنیاد نہیں۔ دونوں جماعتیں بات چیت سے اپنے معاملات حاصل کر سکتی ہیں اور دونوں جماعتیں اپنے موقف پر کھڑے رہتے ہوئے نظام کو ملک کے استحکام کے لیے بروئے کار لا سکتی ہیں۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال کر دونوں جماعتیں اپنی آنکھوں میں دھول جونک رہی ہیں۔ بات چیت کا آغاز سب کے مفاد میں ہے۔ اس حقیقت کو جتنا جلدی مان لیں اتنا ہی اچھا ہو گا۔