صلاحیت محض سزا ہے
صلاحیت،اہلیت اوردلیل پرقائم فکر! یہ ایسے بھیانک جرائم ہیں جنکی ہمارے ملک میں ہرلمحہ مستقل سزاملتی رہتی ہے۔
پاکستان کیساملک تھا۔ مگر یہ کیا بنادیا گیا! مشکل بات یہ، کہ اسکابین الاقوامی تشخص بگاڑکا شکار ہے!یہ حقیقت ہے یا افسانہ۔ ہر شخص کا اپنا اپنا نقطہ نظرہے۔ آپکو اگر یورپ، امریکا یامغربی دنیاکے ممالک میں سفر کرنا پڑے توآپکو صرف ایک نظر سے دیکھا جاتا ہے اوروہ ہے "دہشت گردی کا مہیب عفریب"۔ مغربی ممالک میں ہمیں کسی ایسے گروہ کاحصہ گرداناجاتاہے جو خودکش جیکٹیں پہن کرہمہ وقت دوسروں کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف رہتے ہیں! ہم نے غیرسرکاری سطح پردہشت گردی کے اس لیبل کوقبول کرلیا ہے۔ دنیا کی اکثر درسگاہیں حساس مضامین میں اپنے علمی دریچے پاکستان کے طالبعلموں پر بند کرچکی ہیں۔ آپ جومرضی کرلیجیے،آپکو نیوکلیئرفزکس میں داخلہ نہیں دیاجائیگا۔ شائد کسی کو احساس ہی نہیں کہ ہم نے انجانے میں اپنے قومی اثاثے کے ساتھ کیا سلوک کیاہے!
آپ ملک کے اندرونی حالات دیکھیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک خاص طریقے سے ہمارے قومی مزاج کوتبدیل کیاگیا۔ہمیں ایک ایسے ملک میں بدل دیاگیاجس میں لفظ "جہاد"کے معنی بتائے بغیرایک مستقل عذاب برپا کردیا گیا ہے۔ کسی نے ہمیں یہ نہیں کہاکہ جہاد کا میدان انتہائی وسیع ہے۔اس کے ذریعے سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم میں مہارت اور معیشت میں بے مثال ترقی بھی کی جاسکتی تھی۔ ہمیں "جہاد" کے نام پرہتھیار کے ذریعے تبدیلی لانے کے لیے استعمال کیا گیا۔
ہمارے ملک میں ایک ایسی سوچ کاغلبہ ہوگیا جودلیل سے قاصرتھی اورہے۔اس سوچ کے حامل افرادنے ہمارے پورے ملکی نظام پرکنٹرول حاصل کرلیاہے۔خاص فکرکی بنیاد پرہمارے پورے معاشرے کی تشکیل نوکی گئی۔اکثر اہل قلم بھی "جہادی سوچ"کاحصہ بنتے چلے گئے۔یہ سوچ آج بھی قائم ہے۔ ہمارے وہ لوگ جوحالات کوعقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کرتے تھے، انھیں بتدریج ختم کردیاگیا۔ ہمارے تمام اہل ہنر جو آزاد سوچ کے حامل تھے،قتل کر دیے گئے یا انکو خاموش کردیاگیا۔ اکثرملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
میں دعوے سے عرض کرتاہوں کہ تحریک پاکستان کے کئی اہم جزوہمیں نہیں بتائے گئے! تاریخ مسخ کی گئی! حقائق میں سے اکثرکونصاب سے نکال دیاگیا!حکومتی اورغیر حکومتی سطح پر ان علماء اوراہل قلم کو آگے لایا گیا جو صرف اپنے خیالات کو ہی حقیقت سمجھتے تھے۔ہماری سوچ کامحورتبدیل کردیا گیا!یہ سوچ اب اس ملک کی اصل مالک ہے! جواسکو چیلنج کرنے کی حماقت کریگا، اسکا انجام انتہائی خوفناک ہوجائیگا!
اب دنیانے ہمیں ایک خاص رنگ میں تسلیم کرلیاہے۔ اگرآپ نے ان کے اصل جذبات جاننے ہوں توان کے عام لوگوں سے لے کردانشوروں سے مکالمہ کرکے دیکھیں۔ آپکو اندازہ ہوجائیگاکہ ان ممالک کی سوچ ہمارے متعلق کیا ہے۔ دوسرے ممالک کو تو چھوڑیے۔ چین کی حکومت سے بات کریں۔وہ برملا کہتے ہیں کہ ان کے ملک کے کچھ حصوں میں پائے جانے والی مذہبی شدت پسندی کاتعلق پاکستان سے ہے۔بہت کم لوگوں کو اندازہ ہے کہ چین کی حکومت نے شدت پسندی کوختم کرنے کے لیے کتنے انتہائی قدم اٹھائے ہیں۔ اگرچین جوکہ کسی حدتک ہمارادوست ملک ہے،ہماری حرکتوں سے تنگ آچکاہے تودوسرے ممالک کاکیاحال ہو گا؟
میں ایک اورنتیجہ پرپہنچا ہوں۔ہمارے ملک میں چندجرائم ایسے ہیں جنکی کوئی معافی نہیں۔صلاحیت،اہلیت اوردلیل پرقائم فکر!یہ ایسے بھیانک جرائم ہیں جنکی ہمارے ملک میں ہرلمحہ مستقل سزاملتی رہتی ہے۔میں نے 30 سالہ نوکری میں صرف ان لوگوں کوترقی کرتے دیکھاہے جو درمیانے درجہ کی عقل سلیم سے آراستہ ہیں!میں پست کالفظ استعمال نہیں کرناچاہتا!مگرکئی مقامات پردرمیانہ درجہ کا لفظ بھی ناکام نظرآتاہے!میں یہ لکھنا نہیں چاہتا تھا مگرمیں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے قرآن مجید کا کافی حصہ طالبعلمی کے زمانے میں حفظ کیاتھا۔میں نے آقاؐکی سیرت کو بغور سیکڑوں بار پڑھا ہے! میں آج کل بھی "ابنِ ہشام" کی تحریر شدہ سیرت پڑھ رہا ہوں! مگراس کے باوجودمیں اکثرعلماء سے منطق کی بنیادپرکوئی مکالمہ کرنے سے قاصرہوں!میں اس بحث میں مزیدآگے نہیں بڑھاناچاہتا!
ماضی میں جانے سے پہلے آپکوحالیہ واقعات کیجانب لیجانا چاہتاہوں۔فریدہ کوکی خیل آفریدی خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقہ سے تعلق رکھتی تھی۔اس نے یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔یہ ماسٹر ڈگری "Gender Studies" میں تھی۔ فریدہ کاذہن دیکھیے کہ اسکول کی تعلیم کے دوران اس نے اپنی بہن نورضیاآفریدی کے ساتھ ملکر"سویرا"نام کی ایک این جی اوبنائی۔ مقصد قبائلی علاقوں میں خواتین میں بیداری پیدا کرنا تھا مگر یہ جرم اتنا بڑا تھا کہ جولائی 2012ء میں پشاور کے علاقہ حیات آبادمیں اسے گولیاں ماری گئیں۔ وہ اسپتال پہنچنے سے پہلے مرچکی تھی۔ایک ایسی آواز کو خاموش کردیا گیا جو قبائلی علاقے میں رہتے ہوئے مظلوم عورتوں میں احساس جگانے کی کوشش کررہی تھی۔
میراخیال ہے کہ پاکستان میں اکثریت کوفریدہ کوکی خیل کانام تک یادنہیں ہوگا! لاتعداد مثالیں ہیں۔کیابات کروں اورکیابات نہ کروں! رضا رومی ملک چھوڑنے پرمجبورہوا!اصغرندیم سیدپردوقاتلانہ حملے ہوئے۔ خوش قسمتی سے وہ شخص ان دونوں حملوں میں معجزانہ طریقے سے محفوظ رہا۔ خالد احمد کا نام ونشان کاپتہ نہیں! وہ کس ملک میں ہیں یاپاکستان میں مستقل خاموشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔علامہ غامدی ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے! مطلب یہ،کہ ہم نے دلیل کے دروازے مستقل بندکردیے کہ کہیں سے تازہ ہوا کا جھونکا اندر نہ آجائے۔
میں تھوڑاساماضی سے استفادہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہم نے سعادت حسن منٹوکے ساتھ کیاسلوک کیا!اس جیسا نایاب اورعظیم لکھاری ہمارے معاشرتی جبرکی زندہ مثال ہے۔اس پرتین بارپاکستان میں مقدمات قائم کیے گئے۔ اسے ذلیل ورسواکرنے میںکوئی کسرنہ چھوڑی گئی! مگر وقت کی عدالت نے سعادت حسن منٹوکواسکاجائزمقام عطا کیا۔ اس کے کچھ افسانے تواب ضرب المثل ہیں!مگراپنے دور میں ہم نے اس عظیم آدمی کی مکمل بے عزتی کی!ہمارا وتیرہ ہمیشہ سے بالکل ایک جیساہے!اس نے ایک عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہاتھاکہ"میں صرف وہ لکھتا ہوں جومعاشرہ میں ہوتاہے۔ میں تواصل میں حقیقت نگار ہوں"۔کسی کے پاس آج تک اس کے اس فقرے کاکوئی جواب نہیں ہے!
آپ منیرنیازی کی مثال لیجیے۔وہ اپنے وقت کابے مثال شاعرتھا۔میں اسکوذاتی طورپربھی جانتاتھا۔وہ اپنی زندگی کابیشترحصہ انتہائی تنگ دستی میںگزارنے پرمجبور رہا۔ ٹائون شپ میں نالے پرمعمولی ساگھراس نے کس مصیبت سے بنایا،یہ بہت کم لوگوں کومعلوم ہے۔اس کی زندگی میں چندہم عصراہل قلم نے اسکاجیناحرام کردیا۔اس کی شاعری کوبھی بے حیثیت کرنے کی شعوری کوشش کی گئی۔میں نے اس شخص کولمحہ لمحہ موت کے دروازے تک جاتے ہوئے دیکھا ہے۔
قصورصرف یہ تھاکہ وہ ایک مخصوص ادبی گروہ کاحصہ بننے سے انکارکرتا رہتا تھا۔ایک دن وہ میرے ایک سول سروس کے سینئردوست کوکہنے لگا کہ وہ اپنے ہم عصروں سے اتناتنگ آچکا ہے کہ وہ اس ملک سے ہجرت کرناچاہتا ہے۔پھردوبارہ کہنے لگے کہ"ایک بارہجرت کے عذاب سے گرزنے کے بعد شائد وہ دوبارہ ہجرت کوذہنی طورپربرداشت نہ کرپائے"۔پوری زندگی اس کے پاس اپنی ذاتی گاڑی نہیں تھی۔وہ بس پر سفر کرتا تھا یا ٹاؤن شپ سے ویگن پرآجاتا تھا۔
مجھے ان کے ایک دوست نے بتایاکہ شائدآخری عمرکے کچھ حصے میں انکو"سرکاری گاڑی"الاٹ کی گئی تھی۔ مگر منیر نیازی کاجرم اتنابھیانک تھاکہ اسے زندہ درگورکرنے کی لاتعدادکوششیں کی گئیں۔وہ آزاد سوچ کا حامل شخص تھا۔منافقت سے کوسوں دور!اس کے ظاہر اور باطن میں کوئی فرق نہیں تھا۔اس کی شاعری آج بھی زندہ ہے! عجیب بات ہے کہ منیرنیازی کی شاعری میں عیب نکالنے والے لوگ بطور شاعر کسی بھی توجہ کا مرکز نہیں بن پائے! یہ وقت کی عدالت کا انصاف ہے! وہ اپنے اورآنے والے وقت کاایک بہت بڑا شاعر ہے۔ میں نے اس شخص کوذرہ ذرہ مرتے ہوئے دیکھاہے۔اکثرتنہائی میں وہ اردوکلاسیکل موسیقی سناکرتا تھا۔ جس ٹیپ ریکارڈر پریہ موسیقی سنی جاتی تھی اس کی قیمت زیادہ سے زیادہ پندرہ سویادوہزار روپے ہوگی!یہ تنہائی پسندشخص آج بھی ہمارے ملک کی پہچان ہے!
اختر شیرانی کے ساتھ جوسلوک روارکھاگیااس پرآپ کیا کہیں گے؟اس جیسے قادرالکلام شاعرکو ذلیل ورسواکرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ کئی تقریبات سے انکو باہر نکال دیاگیا۔ انھیں گالیاں دی گئیں۔ ان کے خلاف باقاعدہ کہاگیاکہ اس جیسے شخص کی پاکستان جیسے پاک اورصاف ملک میں کوئی جگہ نہیں! مگر اختر شیرانی اپنے اشعارکی وجہ سے آج بھی زندہ ہے! اسے وقت کی عدالت نے انصاف دیااوراسے بھی اَمر کردیا!
میں نے چندمثالیں دی ہیں۔اس طرح کی سیکڑوں مثالیں اوربھی موجودہیں۔قدرت اللہ شہاب جیسے شخص کوجنرل یحییٰ خان نے ملک چھوڑنے پرمجبورکردیا۔وہ زندگی کے انتہائی مشکل اورغربت کے سال جلا وطنی میں گزارتا رہا۔ الطاف گوہرجیسے علم دوست کو پابند سلاسل کیا گیا۔ میں اس طرح کی اورمثالیں بھی دیناچاہتا ہوں مگرپھر کبھی سہی!
ہمارے ملک کے تمام دروازں پر ہزاروں میل لمبااور چوڑانظرنہ آنے والا بورڈ لگا ہوا ہے۔ اس پرجلی بلکہ سنہری حروف میں درج ہے کہ اگر آپ میں خدانخواستہ ذہانت یاصلاحیت کے جراثیم موجود ہیں، تو آپ قطعاً یہاں آنے کی کوشش نہ کریں! کیونکہ اس مملکت خدادادمیں صلاحیت بہت بڑاجرم ہے اور اکثر اوقات اس کی سزاصرف اورصرف موت یا جلاوطنی ہے!