غم کا موسم
دنیا کا سارا ادب اور سارا فن غم کی کیفیت سے جنم لیتا ہے۔ وہ مصوری ہو یا موسیقی ۔ وہ سنگتراشی ہو یا تھیٹر۔
دنیا کے ہر مذہب میں خوشیوں کے دن تو ہوا کرتے ہیں مگر یہ انفرادیت صرف عالم اسلام کو حاصل ہے کہ اس میں ہر سال دس دن ایسے بھی آتے ہیں جن کے دوران ہواؤں میں ماتم کی صدائیں؛ فضاؤں میں نوحوں کا ترنم اور نظر میں سیاہ رنگ بھر جاتا ہے۔ اگر ہم نفسیات کے علم کو غور سے پڑھیں تو ہمیں یہ پتہ بھی چلتا ہے کہ انسان کو اپنی ذہنی صحت متوازن رکھنے کے لیے صرف خوشیوں کی نہیں بلکہ غم کی ضرورت بھی ہوا کرتی ہے۔
وہ انسان جو معاشرے کے مسلط کیے ہوئے معیارات کو قائم رکھنے کے لیے درد میں بھی نہیں روتے۔ ان لوگوں کو ایک برس میں دس دن ایسے میسر آتے ہیں جن میں وہ دل کھول کر روسکتا ہے اور اس کا وہ رونا اس کی کمزوری نہیں بلکہ نیکی تصور کیا جائے۔ کیا وہ بات کم اہم ہے کہ انسان اپنے دل میں دبائے ہوئے سارے درد آنسوؤں میں بہا ڈالے اور اپنے آس پاس صرف غم کا ماحول دیکھے اور اس قدر دیکھے کہ اس کی روح کی غمگین ضرورت بھی پوری ہوجائے اور وہ نئے سرے سے پھر زندگی کے تلخ اور شیریں تجربات کا حوصلہ حاصل کرلے۔
اس حوالے سے مجھے محرم الحرام کے دوراں بہت غم کا پیدا ہونے والا ماحول صرف اس لیے پسند نہیں کہ میں فطری طور پر غم پسند ہوں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ سارے انسانوں میں غم سے محبت کا ایک جذبہ موجود ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہمیں صرف ہنسی مزاح والی فلمیں اچھی لگتیں۔ مگر ہم اگر اپنی پسند کے فائل میں ایک نظر ڈالیں تو ہمیں اس بات کا احساس ہوجائے گا کہ ہمیں خوشی سے زیادہ غم متاثر کرتا ہے۔ اس لیے غم اور جذبات سے بھری ہوئی فلمیں ہم پر زیادہ اثر کرتی ہیں۔
یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ ایک سچائی ہے کہ دنیا کا سارا ادب اور سارا فن غم کی کیفیت سے جنم لیتا ہے۔ وہ مصوری ہو یا موسیقی ۔ وہ سنگتراشی ہو یا تھیٹر۔ فن کے جس روپ میں غم زیادہ ہوا کرتا ہے اس میں ہماری لیے کشش بھی اتنی بڑھ جاتی ہے۔ اگر ہم فن کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں یونان میں وہ المیے دکھائی دیں گے جن کا اثر وقت گزرنے سے کم نہیں ہوا۔ اگر ہم موسیقی کی دنیا پر اپنی سماعت کو مرکوز کریں تو ہمیں درد کی صدائیں اپنے دل میں بجتی ہوئی محسوس ہونگیں۔ یہ درد ہی ہے جو ہمیں اس دنیا کے ساتھ جوڑتا ہے۔ اس لیے فیض صاحب نے لکھا تھا کہ:
''بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی''
یہ درد ہی ہے جس کی وجہ سے شاعری میں اثر پیدا ہوتا ہے۔ یہ درد ہی جو ایسے ناولوں کی تخلیق کا باعث بنا جن کو پڑھتے ہوئے ہم کھو سے جاتے ہیں۔ یہ درد ہی ہے جس کے لیے لبنان کے عظیم شاعر اور مفکر خلیل جبران نے لکھا تھا کہ ''جس کے ساتھ تم نے ہنستے ہوئے پوری زندگی بتائی ہو تم اس کو تو بھول سکتے ہو مگر جس کے ساتھ ہم نے ایک پل آنسو بہائے ہیں اس کو تم کبھی نہیں بھول سکتے''۔
غم ہمیں بھولنے نہیں دیتا۔ اگر ایسا نہ ہوتا اور اگر محبت کی مسرت میں صرف ہنسی مذاق پنہاں ہوتا تو ہم عشق میں اتنے جذباتی نہ بنتے۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ خوشی بہت سطحی چیز ہے۔ جب کہ غم میں ایک غضب کی گہرائی ہوا کرتی ہے۔ غم ہمیں وہ کچھ سکھاتا ہے جو خوشی کے بس کی بات نہیں۔ سب سے بڑی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ غم ہمیں محبت سے آشنا کرتا ہے۔ اگر غم نہ ہوتا تو دو دل آپس میں جڑ نہ پاتے۔ اور وہ شاعر جو غم کی ہر کیفیت اور درد کے ہر رنگ سے آشنا ہوتے ہیں وہ اس ضمن میں کہتے ہیں کہ:
اس عشق میں ہم نے کیا سیکھا؟
آس سیکھی
غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و ہرمان کے دکھ درد کے معنی سیکھے
زیردستوں کے مسائل سمجھنا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے
اگر درد نہ ہوتا تو ہمیں یہ سب باتیں کون سکھاتا؟ اس لیے صرف مذہبی حوالے سے نہیں بلکہ آرٹ کے حوالے بھی اور نفسیات کی سائنس کی رو سے بھی میں اس غم کو ایک ضروری چیز سمجھتا ہوں جو ہمارے دل کے دامن سے لپٹ جاتا ہے۔ اسلامی کلینڈر کے اس ابتدائی ماہ کے دوراں جس میں ہمیں درد سے لبریز ماحول میسر آتا ہے، اس میں ہم ذرا خاموش رہتے ہیں اور اپنے اندر اتر کر اپنی روح میں لگے ہوئے ان زخموں پر درد کا مرہم رکھتے ہیں جو زخم ہم فراموش کرکے جیتے ہیں۔ اس غمگین ماہ کے دوراں ہمیں بہت سی باتوں پر پھر سے سوچنے کا ماحول اور قوت میسر آتا ہے اور ہم ایک بار پھر اپنی ذات میں وہ قوت پیدا کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں جو ہمیں نئے غم برداشت کرنے کا حوصلہ اور ہمت عطا کرتی ہے۔
بات صرف میری پسند اور ناپسند کی نہیں ہے، دنیا کے وہ ادیب اور شاعر جو مسلمان نہیں تھے اور نہ ان کے ممالک میں محرم الحرام کے حوالے سے ماتم کا ماحول سجتا تھا۔ انھوں نے بھی خوشیوں کے مقابلے میں غموں کو سراہا ہے۔ وہ رونا جس کو عام طور پر مرد کی کمزوری قرار دیا جاتا ہے اس کے حوالے سے یونان کے عظیم ناول نگار کازانت زاکس نے لکھا ہے کہ ''رو انسان ذات رو! رونے میں نجات ہے'' اور صرف یونان کے اس ناول نگار تک یہ نقطہ نظر محدود نہیں، بلکہ اٹلی کی مشہور اور معروف جرنلسٹ اور ادیبہ فلاچی نے اپنے ناول میں لکھا کہ ''مرد کے لیے رونا عیب نہیں'' مگر ہمارا میل شاؤنسٹ معاشرہ مرد سے رونے کا حق چھین لیتا ہے مگر اس کو یہ حق ملتا ہے اس ماہ کے دوراں جس میں رونا عبادت بن جاتا ہے۔
اس غمگین ماہ کے ابتدائی دس دن کس طرح ہمیں صرف ہر قسم کے غم کی بات بتائی جاتی ہے۔ ان دس دنوں تک غم کی کیفیت ہمارے دلوں میں موجود خوشیوں کے وہ سارے مصنوعی مظاہر کو صاف کرتی ہے جو خوشیاں نہیں بلکہ خوشیوں کے نام پر ملنے والے دھوکے تھے۔ ہمیں کبھی کبھی جب اداسی اچانک گھیر لیتی ہے تب ہمیں یہ معلوم بھی نہیں ہوتا کہ ہم اداس کیوں ہیں؟
اصل میں یہ اداسی سطحی خوشیوں سے خوش ہونے والے ذہن کا ردعمل ہوا کرتا ہے۔ میں اس عمل اور ردعمل کے حوالے سے زیادہ گہرائی میں جانا نہیں چاہتا۔ کیوں کہ اخبار کا کالم صرف وقت اور حالات کے حوالے سے ایک کمنٹ تک محدود ہونا چاہیے، اس لیے میں آپ سے صرف اتنی بات شیئر کرنا چاہتا تھا کہ جب ہمیں تنہائی بھیڑ میں چھپ کر ملتی ہے، جب ہم لوگوں کے درمیاں اکیلاپن محسوس کرتے ہیں، جب ہم دھوکے سے پیدا ہونے والی کیفیت کے ہاتھوں ذہنی طور پر یرغمال ہوجاتے ہیں، جب ہمیں چاہت کا وہ ماحول نہیں ملتا جس میں ہمارا دل خوش رہتا ہے تب ہم غم میں پناہ لیتے ہیں۔
غم کا دامن وسیع ہوا کرتا ہے، غم ہمیں اپنے آپ میں سما لیتا ہے۔ یہ غم ہی ہے جس کو اپنے سینے میں دبا کر اردو ادب کی عظیم رائٹر قرۃ العین حیدر نے اپنے سب سے زیادہ خوبصورت ناول اور افسانے لکھے۔ وہ ناول اور افسانے جن میں صرف محبت کے نام پر انسان کے تجربات نہیں بلکہ وہ ماحول بھی ہے جو ہمیں اس وقت اپنے اس پاس دکھائی دے رہا ہے۔
وہ انسان جو معاشرے کے مسلط کیے ہوئے معیارات کو قائم رکھنے کے لیے درد میں بھی نہیں روتے۔ ان لوگوں کو ایک برس میں دس دن ایسے میسر آتے ہیں جن میں وہ دل کھول کر روسکتا ہے اور اس کا وہ رونا اس کی کمزوری نہیں بلکہ نیکی تصور کیا جائے۔ کیا وہ بات کم اہم ہے کہ انسان اپنے دل میں دبائے ہوئے سارے درد آنسوؤں میں بہا ڈالے اور اپنے آس پاس صرف غم کا ماحول دیکھے اور اس قدر دیکھے کہ اس کی روح کی غمگین ضرورت بھی پوری ہوجائے اور وہ نئے سرے سے پھر زندگی کے تلخ اور شیریں تجربات کا حوصلہ حاصل کرلے۔
اس حوالے سے مجھے محرم الحرام کے دوراں بہت غم کا پیدا ہونے والا ماحول صرف اس لیے پسند نہیں کہ میں فطری طور پر غم پسند ہوں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ سارے انسانوں میں غم سے محبت کا ایک جذبہ موجود ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہمیں صرف ہنسی مزاح والی فلمیں اچھی لگتیں۔ مگر ہم اگر اپنی پسند کے فائل میں ایک نظر ڈالیں تو ہمیں اس بات کا احساس ہوجائے گا کہ ہمیں خوشی سے زیادہ غم متاثر کرتا ہے۔ اس لیے غم اور جذبات سے بھری ہوئی فلمیں ہم پر زیادہ اثر کرتی ہیں۔
یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ ایک سچائی ہے کہ دنیا کا سارا ادب اور سارا فن غم کی کیفیت سے جنم لیتا ہے۔ وہ مصوری ہو یا موسیقی ۔ وہ سنگتراشی ہو یا تھیٹر۔ فن کے جس روپ میں غم زیادہ ہوا کرتا ہے اس میں ہماری لیے کشش بھی اتنی بڑھ جاتی ہے۔ اگر ہم فن کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں یونان میں وہ المیے دکھائی دیں گے جن کا اثر وقت گزرنے سے کم نہیں ہوا۔ اگر ہم موسیقی کی دنیا پر اپنی سماعت کو مرکوز کریں تو ہمیں درد کی صدائیں اپنے دل میں بجتی ہوئی محسوس ہونگیں۔ یہ درد ہی ہے جو ہمیں اس دنیا کے ساتھ جوڑتا ہے۔ اس لیے فیض صاحب نے لکھا تھا کہ:
''بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی''
یہ درد ہی ہے جس کی وجہ سے شاعری میں اثر پیدا ہوتا ہے۔ یہ درد ہی جو ایسے ناولوں کی تخلیق کا باعث بنا جن کو پڑھتے ہوئے ہم کھو سے جاتے ہیں۔ یہ درد ہی ہے جس کے لیے لبنان کے عظیم شاعر اور مفکر خلیل جبران نے لکھا تھا کہ ''جس کے ساتھ تم نے ہنستے ہوئے پوری زندگی بتائی ہو تم اس کو تو بھول سکتے ہو مگر جس کے ساتھ ہم نے ایک پل آنسو بہائے ہیں اس کو تم کبھی نہیں بھول سکتے''۔
غم ہمیں بھولنے نہیں دیتا۔ اگر ایسا نہ ہوتا اور اگر محبت کی مسرت میں صرف ہنسی مذاق پنہاں ہوتا تو ہم عشق میں اتنے جذباتی نہ بنتے۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ خوشی بہت سطحی چیز ہے۔ جب کہ غم میں ایک غضب کی گہرائی ہوا کرتی ہے۔ غم ہمیں وہ کچھ سکھاتا ہے جو خوشی کے بس کی بات نہیں۔ سب سے بڑی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ غم ہمیں محبت سے آشنا کرتا ہے۔ اگر غم نہ ہوتا تو دو دل آپس میں جڑ نہ پاتے۔ اور وہ شاعر جو غم کی ہر کیفیت اور درد کے ہر رنگ سے آشنا ہوتے ہیں وہ اس ضمن میں کہتے ہیں کہ:
اس عشق میں ہم نے کیا سیکھا؟
آس سیکھی
غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و ہرمان کے دکھ درد کے معنی سیکھے
زیردستوں کے مسائل سمجھنا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے
اگر درد نہ ہوتا تو ہمیں یہ سب باتیں کون سکھاتا؟ اس لیے صرف مذہبی حوالے سے نہیں بلکہ آرٹ کے حوالے بھی اور نفسیات کی سائنس کی رو سے بھی میں اس غم کو ایک ضروری چیز سمجھتا ہوں جو ہمارے دل کے دامن سے لپٹ جاتا ہے۔ اسلامی کلینڈر کے اس ابتدائی ماہ کے دوراں جس میں ہمیں درد سے لبریز ماحول میسر آتا ہے، اس میں ہم ذرا خاموش رہتے ہیں اور اپنے اندر اتر کر اپنی روح میں لگے ہوئے ان زخموں پر درد کا مرہم رکھتے ہیں جو زخم ہم فراموش کرکے جیتے ہیں۔ اس غمگین ماہ کے دوراں ہمیں بہت سی باتوں پر پھر سے سوچنے کا ماحول اور قوت میسر آتا ہے اور ہم ایک بار پھر اپنی ذات میں وہ قوت پیدا کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں جو ہمیں نئے غم برداشت کرنے کا حوصلہ اور ہمت عطا کرتی ہے۔
بات صرف میری پسند اور ناپسند کی نہیں ہے، دنیا کے وہ ادیب اور شاعر جو مسلمان نہیں تھے اور نہ ان کے ممالک میں محرم الحرام کے حوالے سے ماتم کا ماحول سجتا تھا۔ انھوں نے بھی خوشیوں کے مقابلے میں غموں کو سراہا ہے۔ وہ رونا جس کو عام طور پر مرد کی کمزوری قرار دیا جاتا ہے اس کے حوالے سے یونان کے عظیم ناول نگار کازانت زاکس نے لکھا ہے کہ ''رو انسان ذات رو! رونے میں نجات ہے'' اور صرف یونان کے اس ناول نگار تک یہ نقطہ نظر محدود نہیں، بلکہ اٹلی کی مشہور اور معروف جرنلسٹ اور ادیبہ فلاچی نے اپنے ناول میں لکھا کہ ''مرد کے لیے رونا عیب نہیں'' مگر ہمارا میل شاؤنسٹ معاشرہ مرد سے رونے کا حق چھین لیتا ہے مگر اس کو یہ حق ملتا ہے اس ماہ کے دوراں جس میں رونا عبادت بن جاتا ہے۔
اس غمگین ماہ کے ابتدائی دس دن کس طرح ہمیں صرف ہر قسم کے غم کی بات بتائی جاتی ہے۔ ان دس دنوں تک غم کی کیفیت ہمارے دلوں میں موجود خوشیوں کے وہ سارے مصنوعی مظاہر کو صاف کرتی ہے جو خوشیاں نہیں بلکہ خوشیوں کے نام پر ملنے والے دھوکے تھے۔ ہمیں کبھی کبھی جب اداسی اچانک گھیر لیتی ہے تب ہمیں یہ معلوم بھی نہیں ہوتا کہ ہم اداس کیوں ہیں؟
اصل میں یہ اداسی سطحی خوشیوں سے خوش ہونے والے ذہن کا ردعمل ہوا کرتا ہے۔ میں اس عمل اور ردعمل کے حوالے سے زیادہ گہرائی میں جانا نہیں چاہتا۔ کیوں کہ اخبار کا کالم صرف وقت اور حالات کے حوالے سے ایک کمنٹ تک محدود ہونا چاہیے، اس لیے میں آپ سے صرف اتنی بات شیئر کرنا چاہتا تھا کہ جب ہمیں تنہائی بھیڑ میں چھپ کر ملتی ہے، جب ہم لوگوں کے درمیاں اکیلاپن محسوس کرتے ہیں، جب ہم دھوکے سے پیدا ہونے والی کیفیت کے ہاتھوں ذہنی طور پر یرغمال ہوجاتے ہیں، جب ہمیں چاہت کا وہ ماحول نہیں ملتا جس میں ہمارا دل خوش رہتا ہے تب ہم غم میں پناہ لیتے ہیں۔
غم کا دامن وسیع ہوا کرتا ہے، غم ہمیں اپنے آپ میں سما لیتا ہے۔ یہ غم ہی ہے جس کو اپنے سینے میں دبا کر اردو ادب کی عظیم رائٹر قرۃ العین حیدر نے اپنے سب سے زیادہ خوبصورت ناول اور افسانے لکھے۔ وہ ناول اور افسانے جن میں صرف محبت کے نام پر انسان کے تجربات نہیں بلکہ وہ ماحول بھی ہے جو ہمیں اس وقت اپنے اس پاس دکھائی دے رہا ہے۔