ہز ہائنس خادم اعظم
پاکستان عالمی برادری میں کرپشن مآب، کشکول بردار، دہشت گردی میں خودکفیل اور دہشت گردوں کا ایکسپورٹر مشہور ہے۔
دنیا میں سوائے پاکستان کے ایک بھی ایسا ترقی یافتہ، تعلیم یافتہ، تہذیب یافتہ جمہوری ملک نہیں ہے جہاں جاگیرداری سسٹم پورے طمطراق کے ساتھ قائم ہے۔ مقامی حکومتوں کا بلدیاتی نظام غائب ہے، ملک صرف چار لسانی صوبوں کا صوبے دار ہے، جس پر پانچ اونچے درجے کے خاندان باریاں لگا کر حکومت کر رہے ہیں۔
نتیجتاً ملک پر لوڈشیڈنگ، مہنگائی، اغوا برائے تاوان، بھتہ مافیا، اسٹریٹ کرائمز، دہشت گردی، خودکش بمباری وغیرہ وغیرہ بلکہ بہت سارے وغیرہ کا راج ہے۔ جہاں کے وزیراعظم سولہ (16) مہینے کی حکومت کے دوران اٹھارہ غیر ملکی دورے کر رہے ہیں، جس میں تین دورے امریکا کے باقی ادھر ادھر کے شامل ہیں۔ رہا برطانیہ کا سوال تو اس کا معاملہ تو گھر آنگن جیسا ہے۔
دوسری طرف دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی شناخت رکھنے والا بھارت ہے، جو ہم سے ایک دو نہیں بلکہ پورے چوبیس گھنٹے جونیئر ہے، اس کے باوجود جہاں پارلیمانی، انتظامی، عدالتی، بلدیاتی، دفاعی، معاشی، مالیاتی، ترقیاتی، تعلیمی اداروں کی ترقی کا تسلسل برقرار ہے کیونکہ انھوں نے آزادی کے فوراً بعد تعلیم، ترقی اور تبدیلی کے دشمن Status Quo کے ناگ کا پھن کچل دیا تھا۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے آزادی کے 67 سال بعد مستقبل کی پانچ سپر معاشی طاقتوں Brics (برازیل، روس، انڈیا، چائنا اور ساؤتھ افریقہ) میں شامل ہوگیا۔
جب کہ پاکستان عالمی برادری میں کرپشن مآب، کشکول بردار، دہشت گردی میں خودکفیل اور دہشت گردوں کا ایکسپورٹر مشہور ہے۔ اور حقیقتاً دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والا ملک بھی یہی ہے۔ عبادت گاہیں محفوظ ہیں نہ بزرگان دین کے مزارات، تعلیمی ادارے محفوظ ہیں نہ قانون نافذ کرنے والے ادارے، تجارتی مراکز محفوظ ہیں نہ مالیاتی ادارے۔ عوام لاچار، قانون معطل اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس ہیں۔
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے کیریئر کا آغاز ممبئی کے فٹ پاتھ پر قائم ایک چائے کے کھوکھے پر بطور ''باہر والے'' کے کیا۔ اور آج دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طفیل بھارت کے وزیراعظم ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم نے بھی اپنے کیریئر کا آغاز ماڈل ٹاؤن سے کیا، آج رائے ونڈ کے محلات میں رہتے ہیں۔ شاید اسی لیے اقوام متحدہ کے عملے نے ویب سائٹ پر ان کے نام کے ساتھ ہزہائی نس لگا دیا، جو صرف بادشاہوں کے ناموں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے حکمران بھی باہر والے ہی ہیں جن کے اثاثے باہر زیادہ بتائے جاتے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم صنعتکاروں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری پر راغب کرنے کے ماہر مانے جاتے ہیں ۔
مختصراً عوامی جمہوریت، 28 صوبوں، خودمختار بلدیاتی نظام اور ترقیاتی منصوبوں کا تسلسل برقرار رکھنے کا ریکارڈ رکھنے والے بھارت کے وزیراعظم اور کبھی ہچکولے کھاتی جمہوریت، چار لسانی صوبوں، غائب بلدیاتی نظام اور کاغذی ترقیاتی منصوبوں کی شہرت رکھنے والے پاکستان کے حکمرانوں کا اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے جانے کا کچھ احوال ملاحظہ کیجیے۔
پاکستان کے ہز ہائی نس خادم اعظم اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے گلف اسٹریم کے ایک جہاز کو 10 لاکھ روپے فی گھنٹہ کرایہ پر لے کر روانہ ہوئے اور وہاں ٹھیک اسی ہوٹل میں ٹھہرے جس میں امریکی صدر بارک اوباما ٹھہرے ہوئے تھے۔ آٹھ لاکھ یومیہ کا سویٹ بک کرایا۔ PTI اور PAT کے کارکنوں کے ''گو نواز گو'' کے نعروں کی گونج میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں ایک عدد تقریر بھی کی جو پاکستان کو 3 کروڑ 60 لاکھ روپے کی پڑی۔
ملک میں سیلاب اور دھرنوں، مالی مشکلات کے پیش نظر ہز ہائی نس خادم اعظم کو امریکی دورے سے روکنے کی کوشش کی گئی جو رائیگاں گئی۔ کیونکہ ان کو ہرحال میں یہ دورہ کرنا تھا تاکہ اپنی تقریر میں کشمیر کے مسئلہ اٹھا سکیں۔ اس طرح ایک طرف انھوں نے بھارت مخالف لابی کا منہ بند کیا جو ان کو بھارت نوازی کا طعنہ دیتے تھے۔ دوسری اسٹیبلشمنٹ کی غلط فہمی بھی رفع کرنے کی کوشش کی۔ واپسی کے بعد وزیرستان کا دورہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ویسے یہ ان کا ایک انتہائی مثبت اقدام تھا جس کو سراہا جانا چاہیے تھا۔
دوسری طرف نریندر مودی جو سانحہ گجرات کے ذمے دار ہیں جن پر نہ صرف امریکی ویزے کی پابندی تھی بلکہ امریکی عدالت سے ان کے خلاف وارنٹ بھی جاری ہوا تھا۔ بذریعہ کمرشل فلائٹ عوامی کلاس میں سفر کرتے ہوئے امریکا پہنچے۔ ان کو وہائٹ ہاؤس کے مہمان خانہ میں ٹھہرایا گیا۔ اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں ایک لفظ بھی کشمیر کے مسئلے کے متعلق نہیں کہا۔
امریکی صدر بارک اوباما سے دو مرتبہ ون ٹو ون ملاقات کی اس کے علاوہ اوباما اور مودی دو مرتبہ رات کے کھانے پر مدعو کیے گئے۔ اور 20 (بیس) ٹاپ کلاس امریکی کمپنیوں کے CEO سے ون ٹو ون ملاقات کی۔ طے شدہ 160 ارب ڈالرز کے بجائے 480 ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کرکے چلے آئے۔
سوال یہ ہے کہ کہیں پاکستان کی پسماندگی کی وجہ پاکستانی وزرائے اعظم کی شان و شوکت اور بھارت کی شان و شوکت کی وجہ بھارتی وزرائے اعظم کی سادگی تو نہیں؟
نتیجتاً ملک پر لوڈشیڈنگ، مہنگائی، اغوا برائے تاوان، بھتہ مافیا، اسٹریٹ کرائمز، دہشت گردی، خودکش بمباری وغیرہ وغیرہ بلکہ بہت سارے وغیرہ کا راج ہے۔ جہاں کے وزیراعظم سولہ (16) مہینے کی حکومت کے دوران اٹھارہ غیر ملکی دورے کر رہے ہیں، جس میں تین دورے امریکا کے باقی ادھر ادھر کے شامل ہیں۔ رہا برطانیہ کا سوال تو اس کا معاملہ تو گھر آنگن جیسا ہے۔
دوسری طرف دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی شناخت رکھنے والا بھارت ہے، جو ہم سے ایک دو نہیں بلکہ پورے چوبیس گھنٹے جونیئر ہے، اس کے باوجود جہاں پارلیمانی، انتظامی، عدالتی، بلدیاتی، دفاعی، معاشی، مالیاتی، ترقیاتی، تعلیمی اداروں کی ترقی کا تسلسل برقرار ہے کیونکہ انھوں نے آزادی کے فوراً بعد تعلیم، ترقی اور تبدیلی کے دشمن Status Quo کے ناگ کا پھن کچل دیا تھا۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے آزادی کے 67 سال بعد مستقبل کی پانچ سپر معاشی طاقتوں Brics (برازیل، روس، انڈیا، چائنا اور ساؤتھ افریقہ) میں شامل ہوگیا۔
جب کہ پاکستان عالمی برادری میں کرپشن مآب، کشکول بردار، دہشت گردی میں خودکفیل اور دہشت گردوں کا ایکسپورٹر مشہور ہے۔ اور حقیقتاً دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والا ملک بھی یہی ہے۔ عبادت گاہیں محفوظ ہیں نہ بزرگان دین کے مزارات، تعلیمی ادارے محفوظ ہیں نہ قانون نافذ کرنے والے ادارے، تجارتی مراکز محفوظ ہیں نہ مالیاتی ادارے۔ عوام لاچار، قانون معطل اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس ہیں۔
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے کیریئر کا آغاز ممبئی کے فٹ پاتھ پر قائم ایک چائے کے کھوکھے پر بطور ''باہر والے'' کے کیا۔ اور آج دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طفیل بھارت کے وزیراعظم ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم نے بھی اپنے کیریئر کا آغاز ماڈل ٹاؤن سے کیا، آج رائے ونڈ کے محلات میں رہتے ہیں۔ شاید اسی لیے اقوام متحدہ کے عملے نے ویب سائٹ پر ان کے نام کے ساتھ ہزہائی نس لگا دیا، جو صرف بادشاہوں کے ناموں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے حکمران بھی باہر والے ہی ہیں جن کے اثاثے باہر زیادہ بتائے جاتے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم صنعتکاروں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری پر راغب کرنے کے ماہر مانے جاتے ہیں ۔
مختصراً عوامی جمہوریت، 28 صوبوں، خودمختار بلدیاتی نظام اور ترقیاتی منصوبوں کا تسلسل برقرار رکھنے کا ریکارڈ رکھنے والے بھارت کے وزیراعظم اور کبھی ہچکولے کھاتی جمہوریت، چار لسانی صوبوں، غائب بلدیاتی نظام اور کاغذی ترقیاتی منصوبوں کی شہرت رکھنے والے پاکستان کے حکمرانوں کا اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے جانے کا کچھ احوال ملاحظہ کیجیے۔
پاکستان کے ہز ہائی نس خادم اعظم اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے گلف اسٹریم کے ایک جہاز کو 10 لاکھ روپے فی گھنٹہ کرایہ پر لے کر روانہ ہوئے اور وہاں ٹھیک اسی ہوٹل میں ٹھہرے جس میں امریکی صدر بارک اوباما ٹھہرے ہوئے تھے۔ آٹھ لاکھ یومیہ کا سویٹ بک کرایا۔ PTI اور PAT کے کارکنوں کے ''گو نواز گو'' کے نعروں کی گونج میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں ایک عدد تقریر بھی کی جو پاکستان کو 3 کروڑ 60 لاکھ روپے کی پڑی۔
ملک میں سیلاب اور دھرنوں، مالی مشکلات کے پیش نظر ہز ہائی نس خادم اعظم کو امریکی دورے سے روکنے کی کوشش کی گئی جو رائیگاں گئی۔ کیونکہ ان کو ہرحال میں یہ دورہ کرنا تھا تاکہ اپنی تقریر میں کشمیر کے مسئلہ اٹھا سکیں۔ اس طرح ایک طرف انھوں نے بھارت مخالف لابی کا منہ بند کیا جو ان کو بھارت نوازی کا طعنہ دیتے تھے۔ دوسری اسٹیبلشمنٹ کی غلط فہمی بھی رفع کرنے کی کوشش کی۔ واپسی کے بعد وزیرستان کا دورہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ویسے یہ ان کا ایک انتہائی مثبت اقدام تھا جس کو سراہا جانا چاہیے تھا۔
دوسری طرف نریندر مودی جو سانحہ گجرات کے ذمے دار ہیں جن پر نہ صرف امریکی ویزے کی پابندی تھی بلکہ امریکی عدالت سے ان کے خلاف وارنٹ بھی جاری ہوا تھا۔ بذریعہ کمرشل فلائٹ عوامی کلاس میں سفر کرتے ہوئے امریکا پہنچے۔ ان کو وہائٹ ہاؤس کے مہمان خانہ میں ٹھہرایا گیا۔ اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں ایک لفظ بھی کشمیر کے مسئلے کے متعلق نہیں کہا۔
امریکی صدر بارک اوباما سے دو مرتبہ ون ٹو ون ملاقات کی اس کے علاوہ اوباما اور مودی دو مرتبہ رات کے کھانے پر مدعو کیے گئے۔ اور 20 (بیس) ٹاپ کلاس امریکی کمپنیوں کے CEO سے ون ٹو ون ملاقات کی۔ طے شدہ 160 ارب ڈالرز کے بجائے 480 ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کرکے چلے آئے۔
سوال یہ ہے کہ کہیں پاکستان کی پسماندگی کی وجہ پاکستانی وزرائے اعظم کی شان و شوکت اور بھارت کی شان و شوکت کی وجہ بھارتی وزرائے اعظم کی سادگی تو نہیں؟