نصاب تعلیم میں تبدیلی کی ضرورت
ہمارا نصاب تعلیم اور طریقہ تعلیم کچھ ایسا ہے جس میں ہم نے سارا زور یادداشت کو تیز تر کرنے میں صرف کیا ہوا ہے۔
نصاب کی اصطلاح اس مقررہ تدریسی مواد کے لیے استعمال ہوتی ہے جس میں مختلف مضامین اور اسباق کے مطالعے کے ساتھ ساتھ ایسی سرگرمیاں بھی شامل ہیں جو بچوں کے مشاہدات اور تجربات میں اضافے کا باعث ہے۔ اس میں شامل تمام باتوں میں اس امر کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقررہ وقت میں اپنے مقررہ مقاصد کو بھی پورا کرے۔
ایک اچھے نصاب کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف طالبعلم کو خواندہ بناتا ہے بلکہ طالبعلم کو اس کے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے اور معاشی سرگرمیوں سے عہدہ برآ ہونے کے قابل بھی بناتا ہے اور اس کے ذریعے طالبعلم کی کردار سازی کے ذریعے اس کی فکری، تمدنی اور تہذیبی تربیت بھی کی جاتی ہے۔
اس کا اولین مقصد ذہن کی ایسی تربیت کرنا ہے جس سے طالبعلم آزادانہ اور تمام متعلقہ مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے صحیح رائے قائم کرسکے اور اس کی اس صلاحیت کو ترقی دی جاتی ہے جس کی مدد سے وہ مستقبل کے مسائل کا تدبر سے سامنا کر سکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا نصاب تعلیم ان تمام خوبیوں کا حامل ہے؟ یقینا اس کا جواب نفی میں ہوگا کیونکہ ہم ایسے طالب علموں کی اکثریت پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں جو کوئی بھی بات کریں وہ تحقیق اور تصدیق کے ساتھ کریں اور وہ بات حقائق پر مبنی ہو۔ یہی ایک تعلیم یافتہ شخص کی پہچان ہے۔
ہمارا نصاب تعلیم اور طریقہ تعلیم کچھ ایسا ہے جس میں ہم نے سارا زور یادداشت کو تیز تر کرنے میں صرف کیا ہوا ہے۔ یادداشت بذات خود عقل نہیں ہے، وہ ذہن کی ایک صلاحیت ہے۔ ہمارا نظام امتحان ایسا ہے جس میں ہم طالبعلم کی یادداشت کا امتحان لیتے ہیں، صلاحیت کا نہیں۔ اس طرح ہم اپنے نصاب تعلیم اور طریقہ امتحانات کے ذریعے ایک اچھے اور دیرپا یادداشت رکھنے والے طوطے پیدا کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ راقم التحریر کے نزدیک اس کی صرف ایک وجہ ہے، وہ کہ ہمارے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کی کوئی سمت متعین نہیں ہے، ہم اب تک یہ تعین ہی نہیں کر سکے ہیں کہ ہمیں اپنے طالبعلم کو کیا پڑھانا ہے؟ اور کس طرح پڑھانا ہے؟ جب تک یہ بات واضح نہیں کی جائے گی یہ معاملہ موجود رہے گا۔
اس سلسلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ دو طبقات میں تقسیم ہے ایک سیکولر اور لبرل قوتیں ہیں، دوسری قوتیں دینی اور مذہبی ہیں۔ ان دونوں قوتوں کے مابین اس معاملے میں فکری ٹکراؤ ہے جس کی وجہ سے ہم اپنے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کی کوئی سمت متعین نہیں کرسکے ہیں، بس تعلیم کے معاملے میں بے مقصد تجربات کیے جا رہے ہیں۔
سیکولر قوتوں کے نزدیک تعلیم آزادی فکر کے ساتھ دی جانی چاہیے۔ عقائد کی نظر سے دی جانیوالی تعلیم میں صداقتیں دھندلا جاتی ہیں، جب صحیح دیکھ نہیں پائینگے تو فیصلے بھی غلط ہوں گے اور نتائج بھی اپنے ہی خلاف نکلیں گے، اس لیے تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ وہ آزادانہ فکر کے ساتھ دی جائے۔ علم اس وقت تک وجود میں نہیں آتا جب تک وہ ٹھوس حقائق، دلائل، تنقید اور تجربے کی کسوٹی پر پورا نہ اترے۔
بدنصیبی سے عمرانی اور سماجی علوم کو چھوڑیے ہم سائنس جیسے مضمون جو اپنی فطرت میں ہی سیکولر ہے اسے مذہبی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم اپنی درسی کتب میں سائنس کے ذریعے مذہب کی حقانیت اور سچائی کو ثابت کرتے ہیں۔ سائنس کے حقائق و نظریات چند صدیوں بعد تبدیل ہونے کا ریکارڈ رکھتے ہیں جب کہ مذہب میں پہلے سے طے شدہ عقائد کو درست تسلیم کرنا اور ان پر ایمان و یقین لانا ضروری ہوتا ہے یعنی مذہب کے قوانین اٹل ہوتے اور اس کی نفی کی اجازت نہیں ہوتی۔
جب ہم سائنس اور مذہب کو ایک ہی قرار دیتے ہیں تو اس سے مذہب کا تقدس متاثر ہوتا ہے پھر ہم تاویل کا سہارا لیتے ہیں۔ اس طرح ہمارے اندر ایک غیر سائنسی سوچ جنم لیتی ہے جس کی وجہ سے ہم سائنس کی افادیت سے ہمیشہ محروم رہے ہیں۔ سائنس کے شعبے میں ہمارا کردار ''صفر'' ہے۔ کچھ یہی معاملہ تاریخ کے مضمون کے ساتھ ہے۔ تاریخ ہم سے تحقیق، غیر جانبداری اور سائنسی فکر کا مطالبہ کرتی ہے۔ جب ہم تاریخ کو عقیدے کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم تاریخ کو اپنی خواہشات کے مطابق موڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہم تاریخی شعور سے ہی محروم ہیں۔ حقائق سے نظریں چرانا ہماری روزمرہ عادات میں شامل ہوچکا ہے۔ ہم دنیا میں تاریخی شعور سے عاری ایک جذباتی قوم تصور کیے جاتے ہیں۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہم نے اپنے سفر کا آغاز کہاں سے کیا اور اب ہم کہاں کھڑے ہیں۔ بحیثیت انسان ہر تہذیب اپنے ارتقا سے گزری ہے اور بعض تہذیبوں نے عروج بھی حاصل کیا ہے۔ ہم مسلمانوں بالخصوص عربوں کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں دوسری قوموں کی تاریخ کو نہ ہم تاریخ کا حصہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی اسے اپنے مطالعے میں لاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہم دوسری تہذیبوں جنھوں نے اپنے ارتقا سے گزر کر جو ترقی حاصل کی ہے اس کے استفادے سے محروم رہتے ہیں۔
دینی اور مذہبی قوتیں سیکولر اور لبرل قوتوں کے اس فلسفہ تعلیم کو مسترد کرتی ہیں۔ دینی اور مذہبی قوتوں کے نزدیک سیکولر اور لبرل قوتوں کی جانب سے جو نظام تعلیم اور نصاب تعلیم پیش کیا جاتا ہے وہ مغرب کے تجربات ہیں۔ ہم یہ دیکھے بغیر کہ اس مٹی میں یہ پودا لگ بھی سکتا ہے یا نہیں ہم اپنی نسل پر اسے برابر آزمانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اس عمل کی بدولت معاشرہ ایک طرف جا رہا ہے تعلیم ہمیں دوسری طرف لے جا رہی ہے اس سے داخلی تضاد پیدا ہو رہا ہے۔
مغرب ایک مادہ پرست معاشرہ ہے۔ اس کا نصب العین ہمارے معاشرے سے مختلف ہے، ہم روح کو نظر انداز کرکے صرف مادیت پر اپنے طالب علم کی فکر کو استوار نہیں کرسکتے۔ ہم دین کے بغیر کسی فلسفہ زندگی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہمیں مغربی علوم اور ان کے سوچنے کے انداز فکر سے استفادے میں یہ بات لازمی دیکھنی ہوگی کہ کون کون سی چیزیں ہمارے معاشرے کے لیے مفید ہیں اور کون سی نقصان دہ۔ باہر سے لائی ہوئی ہر چیز کو اپنے معاشرے میں سمویا نہیں جاسکتا۔
جہاں تک تاریخ کے مضمون کا تعلق ہے تو آپ تمام دنیا کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں، چاہے وہ رومی ہوں یا یونانی، چینی ہوں یا جاپانی، یورپین ہوں یا امریکن، ہر قوم نے اپنی تاریخ کو دنیا کے سامنے قابل فخر انداز میں پیش کیا ہے۔ ایسی قومیں بھی ہیں جن کے ماضی کو دنیا میں کبھی عروج حاصل نہیں رہا لیکن ان کے سیاسی مدبر اور مورخ نے اپنے سیکولر مزاج ہونے کے باوجود اپنی تاریخ کو دنیا کی شاندار تاریخ قرار دیا ہے۔ لیکن مسلمان اپنے عروج کو قابل فخر انداز سے پیش کریں تو اسے قابل اعتراض سمجھا جاتا ہے۔
اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کو غیر ضروری اور طلبا پر عملی بوجھ سمجھنے والوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جس طرح چیچک کا ٹیکہ لازمی اور جبری قرار دیا گیا ہے، یہ ٹیکہ اس شخص کے حق میں کسی طرح نقصان دہ نہیں ہوسکتا جس کو یہ ٹیکہ لگایا گیا ہے۔ دنیا میں گمراہ کن نظریات چیچک کی طرح پھیلے ہوئے ہیں اس لیے اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کا لازمی مضمون ہی طلبا کو مختلف نظریات کی چیچک سے محفوظ رکھ سکتے ہیں، اسے قابل اعتراض نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ ہے دونوں قوتوں کا نقطہ نظر، کون درست ہے اس کا فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں۔
میری ذاتی رائے میں ہمارا نصاب تعلیم ایسا ہونا چاہیے جو ہماری ملی، قومی اور مقامی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ وہائٹ ہیڈ کا مقولہ ہے ''علم زیادہ ہے زندگی چھوٹی، اس لیے بہت زیادہ مضامین مت پڑھائیں لیکن جو کچھ پڑھائیں بھرپور پڑھائیں۔'' ہمیں اپنا نصاب اس مقولے کی روشنی میں ترتیب دیا جانا چاہیے۔ عمرانی اور سماجی علوم زندگی کا شعور عطا کرتے ہیں ان علوم سے تہذیبیں جنم لیتی ہیں۔ مل جل کر رہنے کی فضا فراہم ہوتی ہے۔ مذہب انسان میں یقین کی قوت پیدا کرتا ہے۔ زندگی کو معنی عطا کرتا ہے جس سے انسان فکری انتشار سے محفوظ رہتا ہے۔ ادب انسان میں احساس کی قوت جگاتے ہیں اس لیے پرائمری تا میٹرک کی تعلیم کو ان علوم سے منسوب کیا جائے۔
ایک اچھے نصاب کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف طالبعلم کو خواندہ بناتا ہے بلکہ طالبعلم کو اس کے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے اور معاشی سرگرمیوں سے عہدہ برآ ہونے کے قابل بھی بناتا ہے اور اس کے ذریعے طالبعلم کی کردار سازی کے ذریعے اس کی فکری، تمدنی اور تہذیبی تربیت بھی کی جاتی ہے۔
اس کا اولین مقصد ذہن کی ایسی تربیت کرنا ہے جس سے طالبعلم آزادانہ اور تمام متعلقہ مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے صحیح رائے قائم کرسکے اور اس کی اس صلاحیت کو ترقی دی جاتی ہے جس کی مدد سے وہ مستقبل کے مسائل کا تدبر سے سامنا کر سکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا نصاب تعلیم ان تمام خوبیوں کا حامل ہے؟ یقینا اس کا جواب نفی میں ہوگا کیونکہ ہم ایسے طالب علموں کی اکثریت پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں جو کوئی بھی بات کریں وہ تحقیق اور تصدیق کے ساتھ کریں اور وہ بات حقائق پر مبنی ہو۔ یہی ایک تعلیم یافتہ شخص کی پہچان ہے۔
ہمارا نصاب تعلیم اور طریقہ تعلیم کچھ ایسا ہے جس میں ہم نے سارا زور یادداشت کو تیز تر کرنے میں صرف کیا ہوا ہے۔ یادداشت بذات خود عقل نہیں ہے، وہ ذہن کی ایک صلاحیت ہے۔ ہمارا نظام امتحان ایسا ہے جس میں ہم طالبعلم کی یادداشت کا امتحان لیتے ہیں، صلاحیت کا نہیں۔ اس طرح ہم اپنے نصاب تعلیم اور طریقہ امتحانات کے ذریعے ایک اچھے اور دیرپا یادداشت رکھنے والے طوطے پیدا کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ راقم التحریر کے نزدیک اس کی صرف ایک وجہ ہے، وہ کہ ہمارے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کی کوئی سمت متعین نہیں ہے، ہم اب تک یہ تعین ہی نہیں کر سکے ہیں کہ ہمیں اپنے طالبعلم کو کیا پڑھانا ہے؟ اور کس طرح پڑھانا ہے؟ جب تک یہ بات واضح نہیں کی جائے گی یہ معاملہ موجود رہے گا۔
اس سلسلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ دو طبقات میں تقسیم ہے ایک سیکولر اور لبرل قوتیں ہیں، دوسری قوتیں دینی اور مذہبی ہیں۔ ان دونوں قوتوں کے مابین اس معاملے میں فکری ٹکراؤ ہے جس کی وجہ سے ہم اپنے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کی کوئی سمت متعین نہیں کرسکے ہیں، بس تعلیم کے معاملے میں بے مقصد تجربات کیے جا رہے ہیں۔
سیکولر قوتوں کے نزدیک تعلیم آزادی فکر کے ساتھ دی جانی چاہیے۔ عقائد کی نظر سے دی جانیوالی تعلیم میں صداقتیں دھندلا جاتی ہیں، جب صحیح دیکھ نہیں پائینگے تو فیصلے بھی غلط ہوں گے اور نتائج بھی اپنے ہی خلاف نکلیں گے، اس لیے تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ وہ آزادانہ فکر کے ساتھ دی جائے۔ علم اس وقت تک وجود میں نہیں آتا جب تک وہ ٹھوس حقائق، دلائل، تنقید اور تجربے کی کسوٹی پر پورا نہ اترے۔
بدنصیبی سے عمرانی اور سماجی علوم کو چھوڑیے ہم سائنس جیسے مضمون جو اپنی فطرت میں ہی سیکولر ہے اسے مذہبی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم اپنی درسی کتب میں سائنس کے ذریعے مذہب کی حقانیت اور سچائی کو ثابت کرتے ہیں۔ سائنس کے حقائق و نظریات چند صدیوں بعد تبدیل ہونے کا ریکارڈ رکھتے ہیں جب کہ مذہب میں پہلے سے طے شدہ عقائد کو درست تسلیم کرنا اور ان پر ایمان و یقین لانا ضروری ہوتا ہے یعنی مذہب کے قوانین اٹل ہوتے اور اس کی نفی کی اجازت نہیں ہوتی۔
جب ہم سائنس اور مذہب کو ایک ہی قرار دیتے ہیں تو اس سے مذہب کا تقدس متاثر ہوتا ہے پھر ہم تاویل کا سہارا لیتے ہیں۔ اس طرح ہمارے اندر ایک غیر سائنسی سوچ جنم لیتی ہے جس کی وجہ سے ہم سائنس کی افادیت سے ہمیشہ محروم رہے ہیں۔ سائنس کے شعبے میں ہمارا کردار ''صفر'' ہے۔ کچھ یہی معاملہ تاریخ کے مضمون کے ساتھ ہے۔ تاریخ ہم سے تحقیق، غیر جانبداری اور سائنسی فکر کا مطالبہ کرتی ہے۔ جب ہم تاریخ کو عقیدے کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم تاریخ کو اپنی خواہشات کے مطابق موڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہم تاریخی شعور سے ہی محروم ہیں۔ حقائق سے نظریں چرانا ہماری روزمرہ عادات میں شامل ہوچکا ہے۔ ہم دنیا میں تاریخی شعور سے عاری ایک جذباتی قوم تصور کیے جاتے ہیں۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہم نے اپنے سفر کا آغاز کہاں سے کیا اور اب ہم کہاں کھڑے ہیں۔ بحیثیت انسان ہر تہذیب اپنے ارتقا سے گزری ہے اور بعض تہذیبوں نے عروج بھی حاصل کیا ہے۔ ہم مسلمانوں بالخصوص عربوں کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں دوسری قوموں کی تاریخ کو نہ ہم تاریخ کا حصہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی اسے اپنے مطالعے میں لاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہم دوسری تہذیبوں جنھوں نے اپنے ارتقا سے گزر کر جو ترقی حاصل کی ہے اس کے استفادے سے محروم رہتے ہیں۔
دینی اور مذہبی قوتیں سیکولر اور لبرل قوتوں کے اس فلسفہ تعلیم کو مسترد کرتی ہیں۔ دینی اور مذہبی قوتوں کے نزدیک سیکولر اور لبرل قوتوں کی جانب سے جو نظام تعلیم اور نصاب تعلیم پیش کیا جاتا ہے وہ مغرب کے تجربات ہیں۔ ہم یہ دیکھے بغیر کہ اس مٹی میں یہ پودا لگ بھی سکتا ہے یا نہیں ہم اپنی نسل پر اسے برابر آزمانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اس عمل کی بدولت معاشرہ ایک طرف جا رہا ہے تعلیم ہمیں دوسری طرف لے جا رہی ہے اس سے داخلی تضاد پیدا ہو رہا ہے۔
مغرب ایک مادہ پرست معاشرہ ہے۔ اس کا نصب العین ہمارے معاشرے سے مختلف ہے، ہم روح کو نظر انداز کرکے صرف مادیت پر اپنے طالب علم کی فکر کو استوار نہیں کرسکتے۔ ہم دین کے بغیر کسی فلسفہ زندگی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہمیں مغربی علوم اور ان کے سوچنے کے انداز فکر سے استفادے میں یہ بات لازمی دیکھنی ہوگی کہ کون کون سی چیزیں ہمارے معاشرے کے لیے مفید ہیں اور کون سی نقصان دہ۔ باہر سے لائی ہوئی ہر چیز کو اپنے معاشرے میں سمویا نہیں جاسکتا۔
جہاں تک تاریخ کے مضمون کا تعلق ہے تو آپ تمام دنیا کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں، چاہے وہ رومی ہوں یا یونانی، چینی ہوں یا جاپانی، یورپین ہوں یا امریکن، ہر قوم نے اپنی تاریخ کو دنیا کے سامنے قابل فخر انداز میں پیش کیا ہے۔ ایسی قومیں بھی ہیں جن کے ماضی کو دنیا میں کبھی عروج حاصل نہیں رہا لیکن ان کے سیاسی مدبر اور مورخ نے اپنے سیکولر مزاج ہونے کے باوجود اپنی تاریخ کو دنیا کی شاندار تاریخ قرار دیا ہے۔ لیکن مسلمان اپنے عروج کو قابل فخر انداز سے پیش کریں تو اسے قابل اعتراض سمجھا جاتا ہے۔
اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کو غیر ضروری اور طلبا پر عملی بوجھ سمجھنے والوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جس طرح چیچک کا ٹیکہ لازمی اور جبری قرار دیا گیا ہے، یہ ٹیکہ اس شخص کے حق میں کسی طرح نقصان دہ نہیں ہوسکتا جس کو یہ ٹیکہ لگایا گیا ہے۔ دنیا میں گمراہ کن نظریات چیچک کی طرح پھیلے ہوئے ہیں اس لیے اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کا لازمی مضمون ہی طلبا کو مختلف نظریات کی چیچک سے محفوظ رکھ سکتے ہیں، اسے قابل اعتراض نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ ہے دونوں قوتوں کا نقطہ نظر، کون درست ہے اس کا فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں۔
میری ذاتی رائے میں ہمارا نصاب تعلیم ایسا ہونا چاہیے جو ہماری ملی، قومی اور مقامی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ وہائٹ ہیڈ کا مقولہ ہے ''علم زیادہ ہے زندگی چھوٹی، اس لیے بہت زیادہ مضامین مت پڑھائیں لیکن جو کچھ پڑھائیں بھرپور پڑھائیں۔'' ہمیں اپنا نصاب اس مقولے کی روشنی میں ترتیب دیا جانا چاہیے۔ عمرانی اور سماجی علوم زندگی کا شعور عطا کرتے ہیں ان علوم سے تہذیبیں جنم لیتی ہیں۔ مل جل کر رہنے کی فضا فراہم ہوتی ہے۔ مذہب انسان میں یقین کی قوت پیدا کرتا ہے۔ زندگی کو معنی عطا کرتا ہے جس سے انسان فکری انتشار سے محفوظ رہتا ہے۔ ادب انسان میں احساس کی قوت جگاتے ہیں اس لیے پرائمری تا میٹرک کی تعلیم کو ان علوم سے منسوب کیا جائے۔