لوکل گورنمنٹ کہلانے والا نظام
لوکل گورنمنٹ کا بااختیار نظام دنیا کے بڑے شہروں میں عشروں سے نہ صرف رائج ہے بلکہ بااختیار ہونے کی وجہ سے...
پاکستان میں بلدیاتی اداروں کا حاکم محکمہ بلدیات چلا آرہا ہے، جسے گورنمنٹ ریکارڈ میں لوکل گورنمنٹ کا نام دیا جاتا ہے اور اردو میں محکمہ بلدیات کہلاتا ہے۔
جس کی ماتحتی میں تمام بلدیاتی ادارے جن میں بلدیہ عظمیٰ سے یونین کونسلیں ہیں شامل ہیں۔ پہلے محکمۂ بلدیات میں رہایشی مسائل کے حل کا ذمے دار محکمہ ہائوسنگ اور فراہمی و نکاسی کا صوبائی سطح پر کام کرنے والا محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے علاوہ محکمہ کچی آبادی بھی شامل تھا۔ محکمہ بلدیات کے اثر کو ختم کرنے اور وزارتوں کی بندربانٹ کے لیے اس اہم محکمے کو چار وزارتوں میں تقسیم کردیا گیا، جن میں زیادہ اہمیت اب بھی محکمۂ بلدیات کی ہے جو دنیا میں اور انگریزی میں لوکل گورنمنٹ کے نام سے لکھا جاتا ہے اور حکمرانوں کے ایک قریبی ساتھی بلدیات کے وزیر چلے آرہے ہیں۔
جو 1988 میں بھی بلدیات کے وزیر رہے ہیں۔ ٹی وی کے ایک پروگرام میں ایک سینیئر پارلیمنٹرین اور پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی ظفر علی شاہ نے بلدیاتی اداروں کی سربراہی کرنے والے محکمۂ بلدیات کے انگریزی نام لوکل گورنمنٹ پر اعتراض کیا تھا کہ یہ مقامی حکومت کیوں کہلاتا ہے۔ ایک قابل اور سینئر رکن قومی اسمبلی کے اس اعتراض پر اکثر کو حیرت ہوئی تھی کہ انھیں مقامی حکومت یا لوکل گورنمنٹ کے نام پر اعتراض کیوں ہے۔پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ مقامی حکومتوں کی حامی ہے اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اپنی دوسری انتخابی مہم میں ڈسٹرکٹ گورنروں کے نظام کا اعلان کیا تھا مگر دوسرے دورِ حکومت میں بھی انھوں نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے تھے۔
لوکل گورنمنٹ کا بااختیار نظام دنیا کے بڑے شہروں میں عشروں سے نہ صرف رائج ہے بلکہ بااختیار ہونے کی وجہ سے کامیابی سے چل رہا ہے اور مقامی حکومت کے نظام میں وہاں منتخب لارڈ میئر یا میئر کو مالی و انتظامی اختیارات مکمل طور پر حاصل ہیں اور وہاں کی مقامی پولیس بھی میئر کے ماتحت ہوتی ہے۔ عوامی مسائل کے حل کے لیے بنیادی سہولتوں، تعلیم، صحت، مواصلات کے محکموں سمیت بلدیاتی سہولتیں فراہم کرنے والے ادارے مقامی حکومتوں میں عوام کے منتخب نمایندوں کی ماتحتی میں کام کرتے ہیں۔ وہاں مقامی حکومتوں کے مقررہ مدت میں انتخابات ہوتے ہیں اور ان ہی اداروں سے منتخب ہونے والے کامیاب میئر بعد میں اپنے ملکوں کے سربراہ بھی بنے ہیں اور وہاں کے عوام نے جب انھیں مقامی حکومتوں میں کامیاب پایا تو بعد میں انھیں ہی اپنا صدر بھی منتخب کیا، جس کی دو واضح مثالیں ہمارے برادر ملک ایران اور ترکی کی ہیں۔
دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں 65 برسوں میں قائم ہونے والی جمہوری حکومتوں میں کوئی ایک بھی ایسی اہل نہیں تھی جو اپنے ملک کو کوئی بلدیاتی نظام ہی دے سکتیں۔ ان نام نہاد جمہوری حکومتوں نے مقامی حکومتوں کو نظرانداز کیا اور اپنے دور میں کبھی مقامی حکومتوں کو ترجیح دی، نہ کبھی ان کے انتخابات کرائے۔ ان جمہوریت کی دعوے دار حکومتوں نے جمہوریت کی اصل نرسری اور مستقبل کے حکمرانوں کی ابتدائی سیاسی تربیت گاہ مقامی حکومتوں کو پنپنے نہیں دیا۔
بلکہ ان کا گلا گھونٹا اور کوشش کی کہ ان کی نااہلی کے باعث مارشل لاء لگا کر آنے والے تین فوجی جنرلوں نے ملک کو جو بلدیاتی نظام دیے تھے اور اپنے ادوار میں جو سات بلدیاتی انتخابات کراکر عوام کو نچلی سطح پر مقامی حکومتوں کے اقتدار کا موقع جو تھا وہ عوام سے چھین لیا اور تمام جمہوری حکومتوں میں بلدیاتی ادارے عوام کے منتخب نمایندوں کے بجائے سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کی سربراہی میں چلائے اور عوام کو اپنے بلدیاتی نمایندے منتخب کرنے کا موقع نہیں دیا۔ ساری جمہوری حکومتیں بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی بنیاد اور نرسری تو قرار دیتی ہیں مگر اس بنیاد اور نرسری کو آگے نہیں بڑھنے دیتیں۔
جمہوری حکومتوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات اور نظام کو کامیاب نہ ہونے دینے کے ذمے دار ارکان اسمبلی ہوتے ہیں جو منتخب تو قانون سازی کے لیے ہوتے ہیں مگر انھیں قانون سازی سے زیادہ دلچسپی بلدیاتی امور سے ہوتی ہے، وہ اس لیے عوام کے بنیادی مسائل حل کرانے کے نام پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے ہر سال کروڑوں روپے کے فنڈ اپنے حلقۂ انتخاب میں سڑکیں، نالیاں، پارک، فراہمی و نکاسیٔ آب و دیگر بلدیاتی مسائل کے حل کے لیے مختص کراتے ہیں اور اپنی مرضی سے استعمال کرتے ہیں جو غلط ہے۔
کیونکہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کا یہ کام نہیں ہے مگر ایسے سالانہ فنڈ سے اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام کرانا، اپنوں کو نوازنا، اقربا پروری اور پسندیدہ ٹھیکے داروں کو فائدہ پہنچا کر فائدے حاصل کرنا ہوتا ہے اس لیے ارکان اسمبلی بلدیاتی معاملات میں سب سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور اسمبلی چھوڑ کر بلدیاتی اداروں میں آنا پسند کرتے ہیں، جہاں نہ صرف فنڈ ہوتا ہے بلکہ ہزاروں سرکاری ملازمین بھی ان کی ماتحتی میں آجاتے ہیں اور وہ وہاں کوئی کرپشن نہ کریں اور صرف تعمیری کاموں میں ملنے والے کمیشن پر ہی گزارا کرلیں تو ان کے علاقوں کی حالت بدل جائے۔
پہلے صوبائی حکومتیں شور مچاتی تھیں کہ اہم محکمے وفاق نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ اب اختیارات ملنے کے بعد کوئی صوبائی حکومت نچلی سطح کے بلدیاتی اختیارات بھی بلدیاتی اداروں کو دینے پر تیار نہیں ہے۔ محکمہ بلدیات تمام بلدیاتی اداروں کو اپنا ماتحت رکھنا چاہتا ہے جب کہ ضلعی نظام میں ایسا نہیں تھا۔ اب وزیر بلدیات اپنے صوبہ کا بادشاہ ہے۔ بلدیاتی عہدے داروں اور ان کے انجینئروں کے تقرر و تبادلے محکمہ بلدیات کا اختیار ہے، جہاں لاکھوں روپے کی رشوت پر تبادلہ اور تقرریاں کی جاتی ہیں۔ بلدیاتی اداروں کے انتخابات نہ کراکر سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کے ذریعے من مانیاں کی جاتی ہیں۔ ملک میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں تو ہیں مگر مقامی حکومتوں کو برداشت نہیں کیا جارہا اور اب صوبائی حکومتیں مقامی حکومت کہلانے والے اداروں پر سانپ بنی بیٹھی ہیں۔