فخر پاکستان عبدالستار ایدھی

ایدھی صاحب کی شہرت اور مقبولیت کے ڈنکے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ چار دانگ عالم میں بج رہے ہیں۔


Shakeel Farooqi November 04, 2014
[email protected]

زرپرستی کے موجودہ دور میں جہاں اخلاقی قدریں تیزی سے پامال ہو رہی ہیں وہاں بہت سے الفاظ کے معنی بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر بڑا آدمی وہ کہلاتا ہے جس کے پاس کسی پوش علاقے میں بہت بڑا بنگلہ ہو، نئے سے نئے ماڈل کی شان دار گاڑیاں ہوں، بہت بڑا عہدہ یا کاروبار ہو اور مال و دولت کی بے تحاشا ریل پیل ہو۔ اگر اسی کو بڑے آدمی کی Definition تسلیم کر لیا جائے تو وطن عزیز میں ایک سے بڑھ کر ایک بڑا آدمی موجود ہے۔ لیکن بھگت کبیر کے درج ذیل دوہے کی کسوٹی پر اگر اس طرح کے بڑے آدمیوں کو جانچا اور پرکھا جائے تو آپ کو پورے ملک میں بڑے آدمیوں کا قحط الرجال ہی نظر آئے گا۔

برا ہوا تو کیا ہوا، جیسے پیڑ کھجور
پنتھی کو چھایا نہیں پھل لاگے آتی دور

بے فیض بڑا آدمی کھجور کے درخت جیسا ہوتا ہے جس کے نتیجے مسافر کو سایہ بھی میسر نہیں آتا اور اس کے پھل بھی انتہائی دور لگے ہوئے ہوتے ہیں جوکہ عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں۔ ذرا سوچیے تو یہ بات آپ کی سمجھ میں نہایت آسانی کے ساتھ آجائے گی کہ خالق کائنات نے انسان کو دنیا میں اشرف المخلوقات بناکر بھیجا ہی صرف اس لیے ہے کہ وہ دوسروں کی تن من دھن سے بے لوث خدمت انجام دے دکھیاروں کے زخموں پر ہمدردی کا مرہم رکھے۔ بقول شاعر:

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

اگر اس معیار پر لوگوں کو جانچا جائے تو وطن عزیز میں آپ کو گنتی کے صرف چند لوگ ہی نظر آئیں گے جن میں عبدالستار ایدھی یقیناً سرفہرست ہیں۔ ہمیں جہاں تک یاد پڑتا ہے، ماضی بعید میں ایدھی صاحب نے بھی صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لے کر کوچہ سیاست میں قدم رکھنے کی غلطی کی تھی مگر ان کی ناکامی ان کے لیے خیر مستور یعنی Blessing in Disguise بن کر ایک Turning Point ثابت ہوئی جس کے بعد خدمت خلق کے میدان میں قدم رنجہ فرماکر انھوں نے وہ مقام حاصل کیا کہ اور کوئی ان کا مدمقابل نہیں۔ ایدھی صاحب کی شہرت اور مقبولیت کے ڈنکے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ چار دانگ عالم میں بج رہے ہیں مگر موصوف صلہ اور ستائش کی تمنا سے بالکل ہی بے نیاز ہیں۔

Charity Begins at Home انگریزی کی ایک مشہور کہاوت ہے جسے ایدھی صاحب نے عملیت کا لباس پہناکر حرف بہ حرف درست ثابت کر دکھایا۔ اگرچہ بنیادی طور پر ان کا تعلق ایک کاروباری برادری سے تھا مگر انھوں نے اپنے آبائی پیشے کو ترک کرکے خدمت خلق کا بار گراں اپنے کندھوں پر اٹھالیا۔ انھوں نے جوڑ توڑ کرکے ایک ایمبولینس خریدلی اور ہنگامی صورتحال کے شکار زخمیوں اور بیماروں کو اسپتال پہنچانے کے کارخیر کی شروعات کردی۔

یہ قطعی طور پر ایک One Man Show تھا کیونکہ وہ ہر کام تن تنہا ہی انجام دے رہے تھے۔ اس کارخیر میں اپنا حصہ ڈالنے والوں کے لیے انھوں نے ایدھی سینٹر کے آگے ایک Money Box رکھ دیا جسے عرف عام میں گلک کہا جاتا ہے۔ مخیر حضرات حسب توفیق اس میں روپے پیسے ڈالنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے خدمت خلق کا یہ کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا چلا گیا۔

ہمت مرداں مرد خدا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایدھی صاحب نے دیگر شعبوں کا اضافہ کرنا بھی شروع کردیا جس میں نوزائیدہ بچوں کی نگہداشت اور پرورش اور گمشدہ بچوں کی تلاش کا شعبہ بھی شامل ہے۔ ''یہ بچہ کس کا بچہ ہے'' کے زیر عنوان ایدھی صاحب کا اسپانسر کیا ہوا پروگرام عرصہ دراز تک نہایت پابندی کے ساتھ ریڈیو پاکستان سے مسلسل نشر ہوتا رہا جس کی بدولت ہزاروں بچھڑے ہوئے بچے صحیح سلامت اپنے اپنے گھروں کو واپس پہنچ گئے۔ اسی طرح ایدھی صاحب نے بے آسرا بچوں کے لیے چلڈرن ہوم اور نادار حاملہ خواتین کے لیے ''ایدھی میٹرنٹی ہوم'' بھی قائم کیے۔ ایدھی صاحب کا بے مثل ادارہ ایدھی فاؤنڈیشن اور بھی بہت سے فلاحی کام انجام دے رہا ہے جن کی تفصیلات کا یہ مختصر سا کالم متحمل نہیں ہوسکتا۔

جن تعفن آمیز اور سڑتی ہوئی لاشوں کے قریب جانے سے مردوں کے لواحقین بھی کتراتے ہیں انھیں سنبھالتے ہوئے ایدھی صاحب ذرا بھی نہیں ہچکچاتے اور سب سے بڑا کمال یہ کہ وہ یہ کام بلا لحاظ مذہب و ملت نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ آندھی ہو یا بارش، دن ہو یا رات، لڑائی جھگڑا ہو یا ہنگامہ آرائی ایدھی کی ایمبولینس سروس ہر گھڑی ہر آن خدمت خلق کے جذبے سے سرشار مصروف کار نظر آتی ہے۔ رنگ و نسل اور مذہب و ملت کی تفریق کیے بنا انسانیت کی روز و شب بے لوث خدمت کرنا ہی ایدھی صاحب کا مقصد حیات اور زندگی کا مشن ہے۔

خدمت خلق کے حوالے سے ایدھی صاحب کو اگر Trend Setter کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا کیونکہ آج ہمیں جو بہت سارے خدمتی ادارے کام کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں وہ سب کے سب ایدھی صاحب سے ہی Inspired ہیں۔ دوسروں کے نیک کاموں کو دیکھ دیکھ کر متاثر ہونا ایک صحت مند روایت ہے جسے جاری و ساری رہنا چاہیے۔ ایدھی صاحب کی ایمانداری اور دیانت داری بھی مثل ہے۔ آج کے اس پرآشوب دور میں جب بھائی بھائی پر اور باپ بیٹے پر اعتماد کرتے ہوئے ڈرتا ہے لوگ ایدھی صاحب کو بلا رسید طلب کیے ہوئے ہزاروں لاکھوں روپے کے عطیات دیتے ہوئے اندھا اعتماد کرتے ہیں کیونکہ انھیں پختہ یقین ہے کہ ان کی رقومات محفوظ ہاتھوں میں جا رہی ہیں۔

22 اکتوبر بدھ کے دن کراچی میں مشہور و معروف یورولوجسٹ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے زیر نگرانی کراچی میں واقع SIUT کے ادارے کے زیر انتظام قائم کیے جانے والے عظیم الشان اور جدید ترین ٹرانسپلانٹ آپریٹنگ تھیٹر کمپلیکس کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ عبدالستار ایدھی اس پر وقار تقریب کے مہمان اعزازی تھے۔ سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس آپریٹنگ تھیٹر کمپلیکس کا نام ایدھی کی جوڑی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ چنانچہ اس تقریب میں نہ صرف بیگم بلقیس ایدھی بلکہ ایدھی فیملی کے چشم و چراغ فیصل ایدھی نے بھی شرکت کی۔

ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے ایدھی فیملی کو خراج عقیدت و تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ کمپلیکس جو ایدھی خاندان کی مالی اعانت سے تعمیر کیا گیا ہے گردوں کے مریضوں کے علاج معالجے میں بہت معاون ثابت ہوگا۔ اس موقع پر ڈاکٹر رضوی نے 19 اکتوبر کے اس انتہائی ناخوشگوار اور شرمناک واقع کا بھی ذکر کیا جب 8 مسلح ڈاکوؤں نے صبح 10 بجے ایدھی صاحب کے کھارادر، کراچی کے آفس میں داخل ہوکر ایدھی صاحب کے سر پر پستول رکھنے کے بعد لاکرز توڑے اور 5 کلو سونا اور کروڑوں روپے لوٹ کرلیے گئے۔

ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ ہمارا معاشرہ اس قدر بے حس ہوچکا ہے کہ اس نے ایدھی صاحب جیسے شخص کو بھی نہیں بخشا، جس نے اپنی پوری زندگی دوسروں کی خدمت کے لیے وقف کی ہوئی ہے۔ ایدھی صاحب جنھیں علالت کے باعث وہیل چیئر کی مدد سے اسٹیج تک پہنچایا گیا دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ شکر ہے کہ ڈاکوؤں نے مجھے جان سے نہیں مارا۔ اگر وہ مجھے مار ڈالتے تو میں بھلا ان کا کیا بگاڑ سکتا تھا۔ انھوں نے ڈاکوؤں سے اپیل کی کہ وہ لوٹا ہوا روپیہ اور بیش قیمت مال واپس کردیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈاکوؤں نے یہ ڈاکا ان کی جیب پر نہیں ڈالا بلکہ اس حرکت کا ارتکاب کرکے انھوں نے ملک کے ان غریب عوام کو خدمت سے محروم کردیا ہے جن کی امداد کے لیے سخت محنت اور مشقت کے ذریعے یہ خطیر سرمایہ اکٹھا کیا گیا تھا۔ مخیر اور انسان دوست پاکستانیوں نے یہ گراں قدر عطیات اپنے ہم وطن غریب غربا مریضوں کے علاج معالجے کے لیے اپنی خون پسینے کی کمائی سے ادا کرکے جمع کرائے تھے۔

سب سے زیادہ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ڈکیتی کا یہ واقعہ دن دہاڑے کھارادر جیسے گنجان آباد علاقے میں ایدھی صاحب جیسے شخص کے ساتھ پیش آیا جو فخر پاکستان ہے۔ اس انتہائی شرمناک واقعے کی مذمت کے طور پر نہ کسی کو صدائے احتجاج بلند کرنے کی توفیق ہوئی اور نہ دھرنا دینے کی۔ یہ واقعہ علاقے کی پولیس کے منہ پر زوردار طمانچہ اور حکمرانوں کی بے حسی اور ناکامی کا منہ بولتا ہوا ثبوت ہے۔ اس سانحہ عظیم کے حوالے سے اس کے سوائے بھلا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ:

جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔