پہلی اینٹ
فساد کی اصل جڑ ہماری وہ پرائمری یا ابتدائی تعلیم ہے جس کی ٹیڑھی اینٹ پر ہم نے اس عمارت کو تعمیر کیا ہے۔
پاکستان میں رائج نظام تعلیم بلکہ نظام ہائے تعلیم کے بارے میں بات کرتے وقت پتہ نہیں کیوں شیخ سعدی کا ایک شعر ذہن میں گونجنے لگتا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے اس کا محرک ہمارا یہی نظام تعلیم ہو جس کا الٹا سیدھا کسی کی سمجھ میں نہیں آتا، ہم اس بات پر پریشان ہوتے رہتے ہیں کہ ایف اے اور ایف ایس سی کے امتحانات پاس کرنے اور مسلسل بارہ برس اردو اور انگریزی کو لازمی مضامین کے طور پر پڑھنے کے باوجود ہمارے بیشتر بچے ان دونوں زبانوں میں چار جملے صحیح طور پر بولنے یا لکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اور ہمیں اس سوال کا مناسب جواب نہیں ملتا جب کہ اس پریشانی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم غلط جگہ پر جواب ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں اس کا اصل جواب شیخ سعدی کے اس شعر میں مضمر ہے کہ
خشت اول چو نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
(اگر کسی عمارت کی بنیاد کی پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھی جائے تو آسمان کی بلندیوں تک پہنچ کر بھی وہ دیوار ٹیڑھی ہی رہے گی)یعنی فساد کی اصل جڑ ہماری وہ پرائمری یا ابتدائی تعلیم ہے جس کی ٹیڑھی اینٹ پر ہم نے اس عمارت کو تعمیر کیا ہے۔ ابتدائی تعلیم کا اصل مقصد حرف شناسی اور ارد گرد کی چیزوں کے ناموں اور خواص سے تعارف اور ان کا وہ شعور ہے جس سے اشیا کے بارے میں بچوں کے بنیادی Concepts متعین اور واضح ہوتے ہیں مگر ہمارے نظام تعلیم کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے بنانے والوں کے ذہن خود ہی ان Concepts کے ضمن میں واضح نہیں ہیں۔
مثلاً ان کی سمجھ میں یہ بنیادی اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ حقیقت ہی نہیں آتی کہ ابتدائی تعلیم کے لیے مادری یا گھروں میں بولی جانے والی زبان سے بہتر کوئی ذریعہ تعلیم نہیں، وہ اس حقیقت کو بھی ماننے پر تیار نہیں کہ دنیا بھر میں کوئی ترقی یافتہ قوم ایسی نہیں جو اپنے بچوں کو سات یا آٹھ سال کی عمر سے پہلے کسی غیر زبان کی تعلیم دیتی ہو (اور وہ بھی صرف زبان کی حد تک۔ کسی نے بھی اس کو ذریعہ تعلیم نہیں بنایا)
فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ مڈل اور میٹرک تک لازمی تعلیم کے باوجود ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 20% بچے کسی اسکول کی شکل ہی نہیں دیکھ پاتے جب کہ باقی 80% میں سے نصف سے زیادہ پرائمری یا مڈل یعنی آٹھویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے اس مدار سے باہر نکل جاتے ہیں اور ان میں بہت زیادہ تعداد سرکاری اور اردو میڈیم اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی ہوتی ہے اور یوں مڈل سے آگے کی منزل تک رسائی پانے والوں میں سے بیشتر کا تعلق ایک یا دو نمبر کے انگلش میڈیم اسکولوں سے ہوتا ہے جن کی اکثریت میٹرک کے بجائے A اور O لیول کے امتحانات پاس کر کے آگے بڑھتی ہے۔
ان بچوں کی کتابیں اور طریقہ تعلیم سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں سے بہت مختلف ہوتا ہے اور اس طرح ایک ہی ملک اور ایک ہی جماعت میں پڑھنے والے بچے ایک ایسی طبقاتی تقسیم کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے پورا معاشرہ ایک شدید الجھاؤ کا شکار ہو جاتا ہے کہ سرکاری اسکولوں کے بچے غیر تسلی بخش نصاب تعلیم' کم تربیت یافتہ اساتذہ اور ناقص امتحانی نظام کی وجہ سے رٹے بازی اور اکیڈمیوں کے چکر میں پھنس جاتے ہیں اور انگلش میڈیم میں پڑھنے والے اپنے ملک کی تہذیب' تاریخ' زبان' معاشرت اور جذبہ حب الوطنی سے دور کر دیے جاتے ہیں ۔ یہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر نما صورت حال ایک ایسے معاشرے کو جنم دیتی ہے جو قافلے کے بجائے ایک بے قابو بھیڑ اور ہجوم کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت وطن عزیز میں چار سے دس برس تک کی عمر کے بچے کم از کم چار نظام ہائے تعلیم میں بٹے ہوئے ہیں جن کی درجہ بندی کچھ اس طرح سے کی جا سکتی ہے۔
-1 سرکاری اسکول-2 دینی مدارس-3 نیم پختہ اور نام نہاد گلی محلہ ٹائپ انگلش میڈیم اسکول-4 بھاری فیسوں والے باقاعدہ انگلش میڈیم اسکول۔ یہ چوتھی اور آخری قسم گزشتہ 30 برس سے مسلسل پھل پھول رہی ہے کہ ترقی اور ملازمتوں کے بیشتر راستے اسی سے وابستہ کر دیے گئے ہیں یہ اشرافیہ' طبقہ امرا یا نو دولتیوں کا دائرہ استحقاق بنا دیا گیا ہے جس میں درمیانہ طبقے کے وہ چند فی صد سرکاری افسر یا با اثر لوگ بھی شامل کیے جا سکتے ہیں جو اپنے بچوں کی بہتر اور منافع بخش تعلیم کے لیے اپنا یا دوسروں کا پیٹ کاٹ کر ان کی بھاری فیس ادا کرتے ہیں یہ بچے غلط سلط انگریزی بول کر اور دور دراز ملکوں کے نرسری رائٹر اور کہانیاں رٹ کر ایک ایسی دنیا کے شہری بن جاتے ہیں۔
جس کے مقابلے میں ان کا اپنا ملک اس کی زبان اور تہذیب دو نمبر کا درجہ اختیار کر لیتے ہیں، میں نے پہلے بھی انھی کالموں میں کئی بار لکھا ہے کہ ہماری یہ نوجوان اور بظاہر تعلیم یافتہ نسل ملازمت کے حصول کے لیے وضع کردہ پہلی دنیا کے معیارات پر تو پورا اترنے میں کامیاب ہو جاتی ہے لیکن اس دوران میں ان کا اپنا آپ اگر کھو نہیں جاتا تو الجھاؤ کا شکار ضرور ہو جاتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پورے ملک میں کم از کم پرائمری کی سطح پر ایک ہی نصاب تعلیم رائج کیا جائے اور انگریزی کو بطور ایک زبان کے نرسری کے بجائے تیسری یا چوتھی جماعت سے پڑھانا شروع کیا جائے البتہ آٹھویں جماعت یعنی مڈل کے امتحانات کے بعد یہ آزادی دی جا سکتی ہے کہ ان کی آیندہ تعلیم انگلش میں انگریزی بطور ذریعہ تعلیم استعمال کی جا سکے مختلف وجوہات کی بنا پر اردو کو فی الوقت سائنس اور ٹیکنالوجی کی اعلیٰ تعلیم کے لیے لازمی کرنا ممکن نہیں (یہ اور بات ہے کہ اگر سنجیدگی سے کوشش کی جائے تو آیندہ چند برسوں میں اس کا معقول بندوبست بھی کیا جا سکتا ہے) ۔
اس کمی کو دور کرنے کے لیے مناسب طریقہ یہی ہے کہ مڈل تک سائنس اور ٹیکنالوجی یا دیگر مضامین میں استعمال ہونے والی علمی اصلاحات کو ترجمہ کرنے کے بجائے من و عن ان کی اصل صورت میں پڑھایا جائے (اور جہاں ممکن ہو وہاں ان کے آسان اور بامعنیمترادفات بھی استعمال کیے جائیں) تاکہ آگے چل کر جب یہ طالب علم انگلش میڈیم میں تعلیم حاصل کریں تو متعلقہ Terminology سے ان کی آنکھیں اور کان پہلے سے آشنا ہوں۔
پرائمری کی سطح پر پورے ملک میں انگریزی کو بطور ذریعہ تعلیم نافذ کرنے کی احمقانہ کوشش دیگر وجوہات سے قطع نظر اس لیے بھی کامیاب نہیں ہو سکتی کہ یہ اپنی بنیاد میں غیر منطقی ہے یہ اور بات ہے کہ اس کے باوجود بعض بزرجمہر ہر زمانے میں اس کا راگ الاپتے رہتے ہیں چند برس پہلے جب میں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ میں ڈائریکٹر (نصاب) تھا اس وقت بھی ایک جرنیل وزیر صاحب نے بغیر اس مضمون کے ماہرین سے مشورہ کیے اعلان فرما دیا تھا کہ جدید زمانے اور آئی ٹی کے اثر کے پیش نظر پاکستان کے ہر اسکول میں انگریزی زبان کو پہلی جماعت سے ذریعہ تعلیم بنا دیا جائے گا ۔
ان سے درخواست کی گئی کہ اس حکم کی تعمیل اس وجہ سے بھی ممکن نہیں کہ اس وقت جو اساتذہ پرائمری اسکولوں میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ان میں سے 90% سے زیادہ اس تدریسی استعداد سے محروم ہیں جو انگریزی کو بطور ذریعہ تعلیم نافذ کرنے کے لیے ضروری ہے۔ جواب دیا گیا کہ ہم ان اساتذہ کی مرحلہ وار Capacity Building کریں گے تاکہ یہ اپنے طلبہ کو انگریزی میں پڑھانے کے قابل ہو جائیں' دوبارہ عرض کی گئی کہ جناب ان اساتذہ کی تعداد تین لاکھ سے زیادہ ہے جن میں سے بیشتر ذہنی اور استعداد کی سطح پر اس تبدیلی کے لیے تیار اور موزوں نہیں ہیں اور یہ کہ اتنی بڑی تعداد کی تربیت کے لیے موجودہ وسائل کے اعتبار سے کئی برس درکار ہوں گے۔ جرنیل وزیر صاحب نے ہر بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کو ایسا کرنا پڑے گا ورنہ میں سب کو گھر بھیج دوں گا باقی رہی تربیت کی بات تو اس کے لیے ایک Crash Plan بنایا جائے گا اور اب آپ لوگ شٹ اپ ہو جاؤ۔
قصہ مختصر یہ کہ اساتذہ کی Capacity Building بلاشبہ بہت ضروری ہے اور وقتاً فوقتاً ان کے لیے ریفرشر کورسز کا بھی اہتمام ہونا چاہیے انگریزی زبان میں ان کی مہارت اور استعداد بڑھانے میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن برائے خدا اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم اسی زبان یا زبانوں میں دیجیے جن سے ان کے کان پہلے سے آشنا ہیں اور ان کو وہ کچھ پڑھائیے جس سے آگے چل کر وہ جدید اور ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ ہم قدم ہو کر چلنے کے قابل تو ضرور ہوں مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کا اپنا قومی تشخص بھی قائم ہو تاکہ وہ اقوام عالم کی بھیڑ میں بے نام اور بے شکل نہ ہوں بلکہ ان کی ایک اپنی پہچان ہو جو ان کو دنیا کی دوسری قوموں سے ممیز اور ممتاز کر سکے۔
خشت اول چو نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
(اگر کسی عمارت کی بنیاد کی پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھی جائے تو آسمان کی بلندیوں تک پہنچ کر بھی وہ دیوار ٹیڑھی ہی رہے گی)یعنی فساد کی اصل جڑ ہماری وہ پرائمری یا ابتدائی تعلیم ہے جس کی ٹیڑھی اینٹ پر ہم نے اس عمارت کو تعمیر کیا ہے۔ ابتدائی تعلیم کا اصل مقصد حرف شناسی اور ارد گرد کی چیزوں کے ناموں اور خواص سے تعارف اور ان کا وہ شعور ہے جس سے اشیا کے بارے میں بچوں کے بنیادی Concepts متعین اور واضح ہوتے ہیں مگر ہمارے نظام تعلیم کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے بنانے والوں کے ذہن خود ہی ان Concepts کے ضمن میں واضح نہیں ہیں۔
مثلاً ان کی سمجھ میں یہ بنیادی اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ حقیقت ہی نہیں آتی کہ ابتدائی تعلیم کے لیے مادری یا گھروں میں بولی جانے والی زبان سے بہتر کوئی ذریعہ تعلیم نہیں، وہ اس حقیقت کو بھی ماننے پر تیار نہیں کہ دنیا بھر میں کوئی ترقی یافتہ قوم ایسی نہیں جو اپنے بچوں کو سات یا آٹھ سال کی عمر سے پہلے کسی غیر زبان کی تعلیم دیتی ہو (اور وہ بھی صرف زبان کی حد تک۔ کسی نے بھی اس کو ذریعہ تعلیم نہیں بنایا)
فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ مڈل اور میٹرک تک لازمی تعلیم کے باوجود ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 20% بچے کسی اسکول کی شکل ہی نہیں دیکھ پاتے جب کہ باقی 80% میں سے نصف سے زیادہ پرائمری یا مڈل یعنی آٹھویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے اس مدار سے باہر نکل جاتے ہیں اور ان میں بہت زیادہ تعداد سرکاری اور اردو میڈیم اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی ہوتی ہے اور یوں مڈل سے آگے کی منزل تک رسائی پانے والوں میں سے بیشتر کا تعلق ایک یا دو نمبر کے انگلش میڈیم اسکولوں سے ہوتا ہے جن کی اکثریت میٹرک کے بجائے A اور O لیول کے امتحانات پاس کر کے آگے بڑھتی ہے۔
ان بچوں کی کتابیں اور طریقہ تعلیم سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں سے بہت مختلف ہوتا ہے اور اس طرح ایک ہی ملک اور ایک ہی جماعت میں پڑھنے والے بچے ایک ایسی طبقاتی تقسیم کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے پورا معاشرہ ایک شدید الجھاؤ کا شکار ہو جاتا ہے کہ سرکاری اسکولوں کے بچے غیر تسلی بخش نصاب تعلیم' کم تربیت یافتہ اساتذہ اور ناقص امتحانی نظام کی وجہ سے رٹے بازی اور اکیڈمیوں کے چکر میں پھنس جاتے ہیں اور انگلش میڈیم میں پڑھنے والے اپنے ملک کی تہذیب' تاریخ' زبان' معاشرت اور جذبہ حب الوطنی سے دور کر دیے جاتے ہیں ۔ یہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر نما صورت حال ایک ایسے معاشرے کو جنم دیتی ہے جو قافلے کے بجائے ایک بے قابو بھیڑ اور ہجوم کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت وطن عزیز میں چار سے دس برس تک کی عمر کے بچے کم از کم چار نظام ہائے تعلیم میں بٹے ہوئے ہیں جن کی درجہ بندی کچھ اس طرح سے کی جا سکتی ہے۔
-1 سرکاری اسکول-2 دینی مدارس-3 نیم پختہ اور نام نہاد گلی محلہ ٹائپ انگلش میڈیم اسکول-4 بھاری فیسوں والے باقاعدہ انگلش میڈیم اسکول۔ یہ چوتھی اور آخری قسم گزشتہ 30 برس سے مسلسل پھل پھول رہی ہے کہ ترقی اور ملازمتوں کے بیشتر راستے اسی سے وابستہ کر دیے گئے ہیں یہ اشرافیہ' طبقہ امرا یا نو دولتیوں کا دائرہ استحقاق بنا دیا گیا ہے جس میں درمیانہ طبقے کے وہ چند فی صد سرکاری افسر یا با اثر لوگ بھی شامل کیے جا سکتے ہیں جو اپنے بچوں کی بہتر اور منافع بخش تعلیم کے لیے اپنا یا دوسروں کا پیٹ کاٹ کر ان کی بھاری فیس ادا کرتے ہیں یہ بچے غلط سلط انگریزی بول کر اور دور دراز ملکوں کے نرسری رائٹر اور کہانیاں رٹ کر ایک ایسی دنیا کے شہری بن جاتے ہیں۔
جس کے مقابلے میں ان کا اپنا ملک اس کی زبان اور تہذیب دو نمبر کا درجہ اختیار کر لیتے ہیں، میں نے پہلے بھی انھی کالموں میں کئی بار لکھا ہے کہ ہماری یہ نوجوان اور بظاہر تعلیم یافتہ نسل ملازمت کے حصول کے لیے وضع کردہ پہلی دنیا کے معیارات پر تو پورا اترنے میں کامیاب ہو جاتی ہے لیکن اس دوران میں ان کا اپنا آپ اگر کھو نہیں جاتا تو الجھاؤ کا شکار ضرور ہو جاتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پورے ملک میں کم از کم پرائمری کی سطح پر ایک ہی نصاب تعلیم رائج کیا جائے اور انگریزی کو بطور ایک زبان کے نرسری کے بجائے تیسری یا چوتھی جماعت سے پڑھانا شروع کیا جائے البتہ آٹھویں جماعت یعنی مڈل کے امتحانات کے بعد یہ آزادی دی جا سکتی ہے کہ ان کی آیندہ تعلیم انگلش میں انگریزی بطور ذریعہ تعلیم استعمال کی جا سکے مختلف وجوہات کی بنا پر اردو کو فی الوقت سائنس اور ٹیکنالوجی کی اعلیٰ تعلیم کے لیے لازمی کرنا ممکن نہیں (یہ اور بات ہے کہ اگر سنجیدگی سے کوشش کی جائے تو آیندہ چند برسوں میں اس کا معقول بندوبست بھی کیا جا سکتا ہے) ۔
اس کمی کو دور کرنے کے لیے مناسب طریقہ یہی ہے کہ مڈل تک سائنس اور ٹیکنالوجی یا دیگر مضامین میں استعمال ہونے والی علمی اصلاحات کو ترجمہ کرنے کے بجائے من و عن ان کی اصل صورت میں پڑھایا جائے (اور جہاں ممکن ہو وہاں ان کے آسان اور بامعنیمترادفات بھی استعمال کیے جائیں) تاکہ آگے چل کر جب یہ طالب علم انگلش میڈیم میں تعلیم حاصل کریں تو متعلقہ Terminology سے ان کی آنکھیں اور کان پہلے سے آشنا ہوں۔
پرائمری کی سطح پر پورے ملک میں انگریزی کو بطور ذریعہ تعلیم نافذ کرنے کی احمقانہ کوشش دیگر وجوہات سے قطع نظر اس لیے بھی کامیاب نہیں ہو سکتی کہ یہ اپنی بنیاد میں غیر منطقی ہے یہ اور بات ہے کہ اس کے باوجود بعض بزرجمہر ہر زمانے میں اس کا راگ الاپتے رہتے ہیں چند برس پہلے جب میں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ میں ڈائریکٹر (نصاب) تھا اس وقت بھی ایک جرنیل وزیر صاحب نے بغیر اس مضمون کے ماہرین سے مشورہ کیے اعلان فرما دیا تھا کہ جدید زمانے اور آئی ٹی کے اثر کے پیش نظر پاکستان کے ہر اسکول میں انگریزی زبان کو پہلی جماعت سے ذریعہ تعلیم بنا دیا جائے گا ۔
ان سے درخواست کی گئی کہ اس حکم کی تعمیل اس وجہ سے بھی ممکن نہیں کہ اس وقت جو اساتذہ پرائمری اسکولوں میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ان میں سے 90% سے زیادہ اس تدریسی استعداد سے محروم ہیں جو انگریزی کو بطور ذریعہ تعلیم نافذ کرنے کے لیے ضروری ہے۔ جواب دیا گیا کہ ہم ان اساتذہ کی مرحلہ وار Capacity Building کریں گے تاکہ یہ اپنے طلبہ کو انگریزی میں پڑھانے کے قابل ہو جائیں' دوبارہ عرض کی گئی کہ جناب ان اساتذہ کی تعداد تین لاکھ سے زیادہ ہے جن میں سے بیشتر ذہنی اور استعداد کی سطح پر اس تبدیلی کے لیے تیار اور موزوں نہیں ہیں اور یہ کہ اتنی بڑی تعداد کی تربیت کے لیے موجودہ وسائل کے اعتبار سے کئی برس درکار ہوں گے۔ جرنیل وزیر صاحب نے ہر بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کو ایسا کرنا پڑے گا ورنہ میں سب کو گھر بھیج دوں گا باقی رہی تربیت کی بات تو اس کے لیے ایک Crash Plan بنایا جائے گا اور اب آپ لوگ شٹ اپ ہو جاؤ۔
قصہ مختصر یہ کہ اساتذہ کی Capacity Building بلاشبہ بہت ضروری ہے اور وقتاً فوقتاً ان کے لیے ریفرشر کورسز کا بھی اہتمام ہونا چاہیے انگریزی زبان میں ان کی مہارت اور استعداد بڑھانے میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن برائے خدا اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم اسی زبان یا زبانوں میں دیجیے جن سے ان کے کان پہلے سے آشنا ہیں اور ان کو وہ کچھ پڑھائیے جس سے آگے چل کر وہ جدید اور ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ ہم قدم ہو کر چلنے کے قابل تو ضرور ہوں مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کا اپنا قومی تشخص بھی قائم ہو تاکہ وہ اقوام عالم کی بھیڑ میں بے نام اور بے شکل نہ ہوں بلکہ ان کی ایک اپنی پہچان ہو جو ان کو دنیا کی دوسری قوموں سے ممیز اور ممتاز کر سکے۔