کوئی شہری محفوظ نہیں

غریب جب گھر سے باہر نکلتا ہے تو راستوں میں، بس اسٹاپ پر، بسوں، ویگنوں میں گھس کر ڈاکو انھیں لوٹ لیتے ہیں۔


Zaheer Akhter Bedari November 04, 2014
[email protected]

ہر ملک میں انتظام حکومت کی رہنمائی کے لیے ایک دستاویز بنائی جاتی ہے جسے آئین کہا جاتا ہے۔ آئین میں عوام اور حکومت کے حقوق اور فرائض کی وضاحت موجود ہوتی ہے۔ آئین میں شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی امتیازی پہلو موجود نہیں لیکن ہمارے طبقاتی معاشرے کی یہ خوبی ہے کہ غریب اپنی جان و مال کے تحفظ سے محروم رہتا ہے اور ملک کی ایلیٹ یعنی اشرافیہ کو سرکاری اور غیر سرکاری حوالوں سے جان و مال کا ہر طرح کا تحفظ حاصل ہوتا ہے مثلاً ایک وڈیرہ جاگیردار صنعت کار سرمایہ دار اپنی اور اپنے خاندان کے جان و مال کے تحفظ کے لیے جو سہولتیں جو اقدامات کرتا ہے۔

ان میں پہلا اقدام اس کی رہائش گاہ ہوتی ہے، اس محل کی دیواریں اتنی مضبوط اور اونچی ہوتی ہیں کہ کوئی چور ڈاکو انھیں عبور نہیں کرسکتا۔ محل کے دروازے پر مسلح گارڈ کا ایک دستہ موجود ہوتا ہے۔ ان پوش بستیوں میں پولیس کا مسلسل گشت جاری رہتا ہے اور اگر بندہ وی آئی پی ہو تو اس کے محل کے گیٹ پر پولیس گارڈ بھی لگادی جاتی ہے۔ یہ تو ہوا گھر کے اندر کا تحفظ، جب یہ اشرافیہ گھر سے باہر نکلتی ہے تو ان کی گاڑی بلٹ پروف ہوتی ہے اور گاڑی کے اندر اور گاڑی کے آگے پیچھے مسلح گارڈ موجود ہوتے ہیں اور جب یہ اپنے دفتر میں پہنچتے ہیں تو دفتر کے اندر اور دفتر کے باہر سیکیورٹی گارڈ کے دستے ہوتے ہیں۔

عام آدمی جن بستیوں، جن گھروں میں رہتے ہیں ان کے در و دیوار اس قدر غیر محفوظ ہوتے ہیں کہ چور ڈاکو آسانی سے انھیں پھلانگ کر گھروں میں گھس جاتے ہیں، بعض ڈاکو خواتین کی بے حرمتی بھی کرتے ہیں۔ یہ تو گھر کے اندر کے تحفظ کا حال ہے اگر کوئی شخص ہمت کرکے چوروں، ڈاکوؤں کی مزاحمت کرنے کی جسارت کرتا ہے تو چور، ڈاکو بلا تامل اس پر گولی چلادیتے ہیں۔ یوں ایسے بہادروں کی جان چلی جاتی ہے۔ ان بستیوں میں پولیس کا تحفظ تو دور کی بات ہے عموماً جرائم پیشہ لوگ پولیس کی پارٹنر شپ میں جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پولیس لوٹے جانے والے گھروں کی باضابطہ نشان دہی کرتی ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چوروں اور ڈاکوؤں کو پولیس اپنی موبائلوں میں لاتی، لے جاتی ہے۔

غریب جب گھر سے باہر نکلتا ہے تو راستوں میں، بس اسٹاپ پر، بسوں، ویگنوں میں گھس کر ڈاکو انھیں لوٹ لیتے ہیں اور اگر کوئی انھیں روکنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ گولیوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔ غریب بستیوں میں عموماً اسٹریٹ لائٹ نہیں ہوتیں، چور ڈاکو ان بستیوں میں بے خوف دندناتے پھرتے ہیں اور راہ چلتے گھروں سے کام پر جانے کے لیے نکلتے اور کام سے واپس آتے انھیں ہتھیاروں کی نوک پر لوٹ لیا جاتا ہے۔ غریب طبقات کو شادی ہال کے اندر بھی لوٹ لیا جاتا ہے اور شادی ہال سے واپس جاتے ہوئے بھی لوٹ لیا جاتا ہے۔ یوں وہ نہ گھروں کے اندر محفوظ ہوتے ہیں نہ گھروں کے باہر۔ آئین جس کے تقدس جس کے احترام کا درس دیا جاتا ہے ایک طبقاتی معاشرے میں دولت مندوں کو گھر کے اندر اور گھر کے باہر اپنے تحفظ کی تمام سہولتیں فراہم کرتا ہے اور غریب طبقات گھروں کے اندر اور گھروں کے باہر غیر محفوظ رہتے ہیں۔

کراچی کو اقتصادی حب کہا جاتا ہے اس حب کا عالم یہ ہے کہ یہاں تاجر اور صنعت کار بھی گھر سے نکلتے ہوئے خوف زدہ رہتے ہیں، اگرچہ ان کے ساتھ مسلح گارڈ موجود ہوتے ہیں، بھتہ جرائم کی دنیا میں متعارف کرایا جانے والا ایک ایسا جرم ہے جو اس قدر عام اور لازمی حیثیت اختیار کرگیا ہے کہ لوگ اسے ایک گورنمنٹ ٹیکس سمجھ کر خاموشی سے ادا کرتے ہیں کیوں کہ بھتہ خور بھتوں کی پرچی کے ساتھ بھتے کی ادائیگی، ٹائم فریم بھی دیتے ہیں اور معینہ مدت کے اندر اندر بھتے کی ادائیگی نہ کی جائے تو حکم عدولی کرنے والا جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

اس منافع کمانے والی انڈسٹری میں ایک اور پروڈکٹ جو اگرچہ پرانا ہے لیکن یہ دور حاضر میں اس قدر ترقی کر گیا ہے کہ ایلیٹ بھی اس سے محفوظ نہیں یہ اغوا برائے تاوان ہے اور یہ کاروبار اس قدر منافع بخش ہے کہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے لوگ بھی اس کی زد میں آرہے ہیں اور اغوا کیے جانے والے فرد کے سرپرستوں سے 50-50 لاکھ تاوان طلب کیا جاتا ہے اور مغوی کے ''لواحقین'' ایسی جگہ کھڑے ہوجاتے ہیں جہاں ایک طرف کنواں ہوتا ہے دوسری طرف کھائی۔ یہ سارے جرائم اگرچہ ملک بھر میں ہورہے ہیں لیکن کراچی کو اس حوالے سے جرائم کا دارالحکومت کہا جاتا ہے۔

عبدالستار ایدھی اپنی سماجی خدمات اور بے غرضانہ مزاج کی وجہ سے ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں، ایسے فقیر منش کو بھی ڈاکوؤں نے نہیں بخشا، نہ صرف ان کے مرکزی آفس سے 5کلو سونا اور لاکھوں روپے کی ملکی اور غیر ملکی کرنسی لوٹ کر لے گئے بلکہ ان کی بے توقیری بھی کی گئی، جس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اس معاشی حب میں عام آدمی کی جان و مال کس قدر غیر محفوظ ہے۔ کراچی میں جرائم کے خاتمے کے لیے اربوں روپے پولیس اور رینجرز پر خرچ کیے جارہے ہیں اور ہزاروں لوگوں کو پولیس میں بھرتی کیا جارہا ہے لیکن صورت حال ''مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی '' والی ہوتی جارہی ہے، شہر کا کوئی علاقہ، کوئی ٹاؤن، کوئی بستی، کوئی محلہ، کوئی گلی محفوظ نہیں ہے۔

جب اس حقیقت کو تسلیم کرلیا جاتا ہے کہ ملک خصوصاً کراچی کا کوئی شہری گھر کے اندر محفوظ ہے نہ گھر کے باہر اور جب اس حقیقت سے بھی اتفاق کرلیا جاتا ہے کہ پولیس وغیرہ ان جرائم کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں تو پھر گلی گلی پھیلے ہوئے ان خطرناک جرائم کو روکنے کے لیے کوئی متبادل اور موثر طریقہ اختیار کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی کا کوئی علاقہ، کوئی ٹاؤن، کوئی محلہ، کوئی گلی جرائم سے محفوظ نہیں پولیس کا کردار کتنا ہی قابل اعتراض کیوں نہ ہو یہ ممکن نہیں کہ کراچی جسے سیکڑوں میل پر پھیلے اور لاکھوں بستیوں پر مشتمل شہر پر کوئی بھی سرکاری فورس کنٹرول کر پائے۔

گلی گلی تک پھیلے ہوئے جرائم کی روک تھام صرف ایسی جماعت یا جماعتیں ہی کرسکتی ہیں جن کی تنظیمیں گلی گلی تک وسیع ہوں، سابقہ بلدیاتی نظام میں جو تنظیمی ڈھانچہ کھڑا کیا گیا تھا وہ کونسلر سے لے کر سٹی نظام تک وسیع تھا اور ہر علاقے، ہر گلی تک اس کی رسائی تھی۔ بعض سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جن کی تنظیم کا دائرہ گلی محلوں تک پھیلا ہوا ہے۔

سیاسی مسائل کو بالائے طاق رکھ کر تنظیمی صلاحیت اور نیٹ ورک رکھنے والی جماعتیں انتظامیہ کے اشتراک سے اگر ایک منظم منصوبہ بندی اور موثر حکمت عملی کے ساتھ جرا ئم کے خلاف آپریشن شروع کردیں تو ایسا آپریشن موثر ثابت ہوسکتاہے اور اس آپریشن کی رہنمائی کرنے والی جماعتوں کو عوام کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے، جس کے سیاسی فوائد الیکشن میں حاصل ہوسکتے ہیں۔ افسوس اور شرم کی بات یہ ہے کہ سیاسی مفادات کی خاطر آئین کا واویلا کرنے والے آئین کی اس شق کی طرف دیکھنے کے لیے بھی تیار نہیں جس میں عوام کی جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں