اداروں کی بالادستی کی جنگ

سیاسی اشرافیہ میں بھی ہمیں جو دو مختلف سوچوں اور خیالات کا ٹکراو نظر آتا ہے ، وہ بھی اسی نقطہ کو اپنی بنیاد بناتا ہے۔


سلمان عابد November 04, 2014
[email protected]

اداروں کی بالادستی کی جنگ میں بنیادی سوال یہ ہوتا ہے کہ افراد اوراداروں میں کون کس کے تابع ہوگا ۔ ہم اداروں کے تابع بن کر چلنے کے بجائے سیاسی سہارا تلاش کرنے کی کوشیش کرتے ہیں ۔ وہ بالادست طبقہ جو طاقت کے مرکز میں اپنی سیاسی حیثیت رکھتا ہے ، اداروں کی مضبوطی کو اپنی سیاسی کمزوری کے طور پر دیکھتا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بالادست طبقات اپنے آپ کو اور اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر سیاسی حکمت عملیاں اور پالیسیاں اختیار کرتے ہیں ۔ سیاسی اشرافیہ میں بھی ہمیں جو دو مختلف سوچوں اور خیالات کا ٹکراو نظر آتا ہے ، وہ بھی اسی نقطہ کو اپنی بنیاد بناتا ہے۔

یہ کسی ایک حکومت یا سیاسی جماعت کا المیہ نہیں ، بلکہ جو بھی سیاسی یا غیر سیاسی قوتیں طاقت کے مراکز میں حصہ دار بنیںان کا سیاسی وطیرہ افراد کو طاقت فراہم کرنا مقصود تھا ۔ اس حکمت عملی کا نتیجہ ہمیں اداروں کو افراد کے تابع بن کر دیکھنا پڑرہا ہے ، جب کہ عملا افراد کو اداروں کے تابع بننا ہوتا ہے ۔

ہمارے حالیہ سیاسی بحران میں اس میں کچھ اسی طرح کے سیاسی نعرے غالب نظر آتے ہیں ۔ وہ سیاسی طبقات جو حکمرانی میں حصہ دار ہیں ، اورجو حکمرانی کے نظام میں باہر بیٹھے ہیں، اسی تضاداتی سیاست میں تقسیم نظر آتے ہیں ۔ جب کہ اس کے برعکس اداروں نے عملا اپنے ہاتھ کھڑے کردیے ہیں ۔ اس کا ایک نتیجہ معاشرے میں وہ افراد جو سیاسی ، سماجی اورمعاشی طور پر کمزور ہیں اور جن کا بڑا انحصار اداروں کی مضبوطی سے جڑا ہوتا ہے ، کو برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ عمومی طور پر ادارے کمزور طبقات کا سہارا بنتے ہیں ، جب کہ اس کے برعکس ہماری صورتحا ل میں ادارے طاقتور افراد کے سیاسی شکنجے میں جکڑ کر عام لوگوں کا استحصال کرتے ہیں ۔ یہ عمل عام لوگوں میں اداروں کے بارے میں بداعتمادی کی کیفیت کو نمایاں کرتا ہے ۔

جب ہمارے سیاسی دانشور یا سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ ہماری ناکامی کی ایک بڑی وجہ ریاست، حکومت، اداروں اور عوام کے درمیان تیزی سے بڑھتی ہوئی خلیج ہے ، تو یہ غلط رائے نہیں ۔یہ جو خلیج ہے اس کی وجہ لوگوں میں کوئی نفسیاتی بیماری یا پیدائشی بغاوت کا عنصر نہیں ، بلکہ یہ ہمیں بالادست قوتوں کے طرز عمل کے ساتھ جڑا ہوا نظر آتا ہے ۔ہماری سیاسی قوتیں ، حکمران طبقات اور ریاستی اداروں کے بڑے ذمے دران یہ بھول رہے ہیں کہ حالات اب ماضی سے بالکل مختلف ہیں ۔

اگر ان کا خیال ہے کہ یہ کھیل پرانی سیاسی و انتظامی حکمت عملیوں کے تحت کھیلا جاسکتا ہے ، تو انھیں اپنی رائے کو تبدیل کرنا ہوگا ۔آج کی سیاست میں جس تیزی سے لوگوں میں دھرنا سیاست نے موجودہ نظام کو چیلنج کیا ہے ، اس کی اب کئی سیاسی جھلکیاں ہمیں مختلف طور طریقوں سے نظر آرہی ہیں ۔اس وقت کسی نظریاتی جنگ کا ہمیں سامنا نہیں ، بلکہ لوگ موثر اور شفاف حکمرانی کا ایسا نظام چاہتے ہیں۔

جس میں وہ برابر کے حصہ دار ہوں ۔لوگوں اور بالخصوص نوجوان طبقہ میں اب یہ سیاسی و سماجی شعور بڑھ رہا ہے کہ ہم اداروں کی بدحالی کا شکار ہیں ، اور اس کی وجہ ہمارا حکمران اور بیوروکریسی کا طبقہ ہے۔بدقسمتی سے حکمران طبقہ معاشرے میں اب جو کچھ نیا پن سامنے آرہا ہے اس کو سمجھنے سے قاصر ہے ۔قیادت کی خوبی یہ ہی ہوتی ہے کہ وہ حالات پر گہری نظر رکھتا ہے ، اور سماج یا سیاست میں بدلتی ہوئی صورتحال کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل کرکے اصلاحات کی طرف بڑھتا ہے ۔ اس کے برعکس ہماری سیاسی قیادت اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی صلاحیت سے محروم نظر آتی ہے ۔

لیکن اب صورتحال بدل رہی ہے ، اس کا ایک کریڈیٹ ہمیں دھرنے کی سیاست کو بھی دینا ہوگا۔آپ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سے لاکھ سیاسی تعصب رکھیں یا ان کی سیاسی حکمت عملی پر تنقید کریں ، لیکن اداروں کی مضبوطی کی جنگ کو انھوں نے عام آدمی کی بحث کا حصہ بنادیا ہے ، جو قابل قدر ہے ۔ابھی یہ کہنا بہت مشکل ہوگا کہ سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے ، یا جلد ٹھیک ہوجائے گا ۔ اداروں کو مضبوط کرنے کاجو سیاسی بخار لوگوں میں چڑھا ہے ، اس کو اور زیادہ طاقت فراہم کرنا ہوگی۔ یہ طاقت محض جذباتی نہیں ہونی چاہیے ، بلکہ اس کو عقلی بنیادوں پر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔

اس وقت جو ہماری اپنی داخلی حالت ہے وہ فوری طرز کے بڑے بڑے سیاسی و انتظامی اقدامات کا تقاضہ کرتے ہیں ۔ لوگوں میں جو غم وغصہ ہے اس کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ فوری کرکے دکھاکر عام لوگوں کا اعتماد بحا ل کرنا ہوگا ۔ اداروں کی جنگ کو طاقت فراہم کرنا سیاسی اشرافیہ کے طبقوں کی اہم ذمے داری ہوتی ہے ، لیکن وہ خود بڑی سیاسی طاقتوں اور ریاستی اداروں کے دم چھلا بن کر اداروں کے نظام کے مقابلے میں افراد کو طاقت فراہم کرکے اپنے مفادات کو بھی تقویت دیتا ہے ،جو حکمرانوں کو بے لگام کرنے کا بھی سبب بنتا ہے ۔

اس لیے وہ لوگ ، جماعتیں یا سیاسی قیادتیں سمیت اشرافیہ کا طبقہ جو ملک میں افراد کے مقابلے میں اداروں کی بالادستی کا حامی ہے ، اس کو اپنی جدوجہد کو نئے سرے سے ترتیب دے کر سب کواس جدوجہد میں منظم کرنا ہوگا۔اچھی بات یہ ہے کہ اس وقت لوگ واقعی تبدیلی چاہتے ہیں ، تبدیلی سے ان کی مراد ایک منصفانہ ، شفاف اور انصاف پر مبنی نظام اور ادارے ہیں۔ اس لیے اگر ہم اپنی سیاسی جدوجہد کو ایک نئی اور بہتر سمیت دینے میں کامیاب ہوگئے تو اداروں کی بالادستی کی جنگ کو جیتنا ناممکن نہیں ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں