عوام بمقابلہ اسٹیٹس کو

ہمارے ملک میں امیر اشرافیہ کے لیے کچھ لگے بندھے اصول ہیں، جو جتنا زیادہ جھوٹ بولے گا وہ اتنا ہی امیر ہوگا۔


Doctor Nasir Mustehsan November 04, 2014

ROME: پاکستان کے قیام کے بعد سے آج تک پاکستان کے عوام پر چند افراد پر مشتمل ایک ٹولہ قابض ہے جن کو زندگی کی ہر آسائش و سہولت باآسانی مہیا ہے، انصاف ان کے گھر کی باندھی ہے، پولیس کا یہ فرض اولین ہے کہ وہ ان کی حفاظت کے لیے ان کے پاس رہے، ان کے لیے پینے کا پانی بھی فرانس سے آتا ہے، اشیائے خورونوش دنیا بھر کے ممالک سے منگوائی جاتی ہیں، ان کے محلات لوڈ شیڈنگ سے مبرا ہیں۔ گرمیوں میں ان کے محل یخ بستہ رہتے ہیں اور سردیوں میں گرم۔ ان کے سبزہ زاروں کے لیے مالیوں کی ایک پوری فوج ہوتی ہے۔ دنیا کی مہنگی ترین گاڑیاں ان کی دسترس میں ہیں۔ ہر محکمہ چٹکی بجاتے ہی ان کی خدمت میں حاضر ہوجاتا ہے۔

ہمارے ملک میں امیر اشرافیہ کے لیے کچھ لگے بندھے اصول ہیں، جو جتنا زیادہ جھوٹ بولے گا وہ اتنا ہی امیر ہوگا۔ جو جتنا زیادہ کرپٹ ہوگا وہ اتنا ہی طاقتور تسلیم کیا جائے گا، جو جتنے ضمیروں کا سودا کرے گا وہ اتنا ہی باضمیر ہوگا۔ ایسے لوگ 25 دسمبر، 14 اگست، 11 ستمبر، 23 مارچ، اقبال ڈے، عید کے موقع پر جو تقاریر کرتے ہیں وہ بھی کوئی ان کو لکھ کر دیتا ہے، ان کی زبان سے لفظ پاکستان تب ہی نکلتا ہے جب کوئی خاص موقع ہوتا ہے۔ وہ قائداعظمؒ کے ایمان، اتحاد اور یقین محکم کے فرمان بھول کر مغربی رہنماؤں کے افکار اپناتے ہیں، جن کا ایک ہی مقصد ہے، تقسیم کرو اور حکمرانی کرو۔ جو عورت کو معاشرے کا کمزور رکن سمجھتے ہوئے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں، وہ خواتین کے دن پر سالانہ تقریبات میں عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں، ڈائیز پر ہاتھ مار مار کر کہتے ہیں۔

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔ ان کی کتنی جائیدادیں ملک کے اندر ہیں اور کتنی باہر اس کا حساب کتاب رکھنے کے لیے بھی غریب ایم بی اے کو نوکری پر رکھا جاتا ہے، انھوں نے عوام و ملک سے کھربوں روپے کمائے، لیکن ٹیکس نہیں دیتے اور اگر انکم ٹیکس ریٹرن بھرتے بھی ہیں تو رتی برابر، ان سے کہیں زیادہ ٹیکس ایک نوکری پیشہ شخص کو دینا پڑتا ہے جس کی تنخواہ پچیس ہزار سے لے کر چالیس ہزار تک ہوتی ہے اور اس کو اس میں اپنے بیوی بچے، ماں باپ، بھائی بہنوں کے جملہ تمام فرائض ادا کرنے ہوتے ہیں اور اگر ایسے میں کوئی سخت بیمار پڑجائے تو مہینے کا سارا بجٹ تتر بتر ہوجاتا ہے۔ اور اگر سیاستدانوں کے ساتھ کچھ ایسا ہوجائے تو ان کو میڈیکل الاؤنس کی مد میں وہ بھاری رقم ملتی ہے جس کی جعلی رسیدیں وہ اسپتال کے حکام سے مل کر بناتا ہے، حد تو یہ ہے کہ اگر دوا پر 100 روپے بھی اس کے خرچ ہوئے ہیں تو اس کو بھی آڈیٹر سے لے لیتے ہیں ، ان کے کتوں کے لیے بھی شیمپوز یورپ سے آتے ہیں اور پالتو جانوروں کتے و بلی کے لیے پیڈیگری Pedigree بھی یورپ سے آتے ہیں۔

اس تمام تفریق سے تو ایک ہی بات عقل سلیم میں آتی ہے کہ ان سیاستدانوں کے ہوتے ہوئے رعایا کی حالت دنیا کے کسی مہذب ترقی یافتہ جمہوری ملک میں رہنے والے لوگوں کی طرح ہے۔ انسانیت کو نہایت اعلیٰ مدارج حاصل ہیں لہٰذا انسانوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ جانوروں سے بھی اچھا سلوک کیا جاتا ہے۔ یہاں تو انسانیت سسکیاں لے رہی ہے اور ابلیسیت اس کا مذاق اڑا کر ہنس رہی ہے، آج ہم پر 68 سال سے قابض حکمراں Status Quo میں آنے والی ہر جماعت، انصاف کے خلاف ہے، مساوات و بھائی چارہ جیسی اصطلاحات کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے، جمہوریت صرف ان کے لیے مختص ہے، ایک مزدور، کسان و دہقاں جیسے نیچ طبقے کے لیے نہیں۔

اگر وہ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے تگ و دو بھی کرتے ہیں تو ان کی سانسوں کو ان کے سینے سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔قائداعظمؒ نے تو ہر مذہب، ہر نسل، ہر فرقے، ہر ذات کے لیے پاکستان بنایا تھا اور آج پاکستان کے عوام اپنے نہایت ہی بنیادی حقوق کے لیے سڑکوں پر ہیں۔ ہم ابھی تک غلامی کی غلام گردش میں ہیں۔ نظر نہ آنے والی بیڑیاں پیروں میں ہیں، نظر نہ آنے والی ہتھکڑیاں ہاتھوں میں ہیں، لب سلے ہوئے ہیں، اذہان سوئے ہوئے ہیں۔ 68 سال سے ہم ہر صبح، آنے والی روشن سحر کا انتظار کرتے ہیں۔ ہم ہر رات، ایک کالی رات کے گزر جانے کا انتظار کرتے ہیں، ہمیں فرعونوں نے جکڑ رکھا ہے، ہم شدادوں کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔

میں پوچھتا ہوں کہ 18 کروڑ کی آبادی والے ملک میں چند ایسے لوگ بھی نہیں ہیں جو انصاف فراہم کرسکیں۔ ہم کب تک حکمرانوں کی عیاشیوں کو بھریں گے۔ ہم 80 فیصد عوام غریب ہیں۔ جن کی بچیاں جہیز جیسی لعنت کے نہ ہوتے ہوئے اپنے ماں باپ کے گھر میں بوڑھی ہو رہی ہیں، ہمارے نوجوان روزگار نہ ہونے کے سبب نشے کے عادی ہوگئے ہیں، نوجوان خودسوزی کر رہے ہیں، اور ایک طرف ہمارے وزرا، مشیر علاج کے لیے بیرون ملک جا رہے ہیں۔ کیا یہی جمہوریت ہے جس کے راگ الاپے جا رہے ہیں۔ جمہوریت ہمارے کرتا دھرتاؤں نے بیرون ملک جاکر ضرور دیکھی ہوگی جب انگلینڈ کے ایک علاقے شیفیلڈ (Sheffield) جو لندن سے باہر کا علاقہ ہے۔

وہاں کے ایک ممبر پارلیمان جوناتھن ایگلٹن (Jonathan Eagleton) نے محض 40 پینس یعنی 55 روپے پاکستانی حکومت سے غیر دانستہ یا دانستہ طور پر بڑھا کر حکومت انگلشیہ سے وصول کیے، اس پر تحقیقات ہوئیں تو پتا چلا کہ 55 روپے زیادہ ہیں، اس ایک چھوٹی سی غلطی پر اس وزیر کو گھر کا راستہ دیکھنا پڑا تھا۔ اب ذرا آنکھیں بند کرکے سوچیے کہ آپ کی پارلیمان میں ایسے کتنے لوگ ہیں۔ بند آنکھوں میں آپ پارلیمان کو خالی دیکھ رہے ہیں ناں۔ بالکل صحیح ہم یورپ، امریکا، برطانیہ کی مثال کیوں دیں، جن ہستیوں نے جمہوریت کی داغ بیل ڈالی تھی وہ ہمارے آقاؐ کے غلام تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ سے جو اس وقت خلیفہ وقت بھی تھے۔

کسی نے اٹھ کر سوال کیا کہ اے عمرؓ! تم نے یہ کرتا کیسے پہنا جب کہ آپ کی جسامت کے اعتبار سے یہ عام آدمی سے کہیں زیادہ بڑا ہے، تو حضرت عمرؓ جنھوں نے ساری دنیا کو جمہوریت دی انھوں نے جواب دیا کہ ہاں میرا کرتا زیادہ گز کپڑے میں سلتا ہے لہٰذا زائد کپڑا مجھے میرے بیٹے نے دیا ہے۔ کیا بات ہے، اور ہم ہر معاملے میں جھوٹ بولتے ہیں، قوم کو اندھیروں میں رکھتے ہیں۔اب آخر میں، میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں کیا ہمیں انصاف ملتا ہے، کیا ہمارے تحفظ کے لیے یہ پولیس اتنی ہی مستعدی دکھاتی ہے جتنی جلد وہ وزیروں کی حفاظت پر جاتی ہے، کیا ہمیں پینے کا صاف پانی دستیاب ہے۔

کیا ہمیں ذہنی، جسمانی، نفسیاتی سکون حاصل ہے، کیا مہنگائی کے عفریت نے ہماری ہڈیوں کو وقت سے پہلے کمزور نہیں کردیا، کیا ہم اپنے ووٹ کے ذریعے پارلیمنٹ میں براجمان ہونے والے وزیر سے مل سکتے ہیں، کیا ہم اپنے حقوق کے لیے قانون کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں، کیا ہم جب بیمار ہوں تو اس کا براہ راست اثر ہمارے مہینے بھر کے بجٹ پر نہیں پڑتا؟ کیا ہماری سڑکیں ہمارے ٹیکسز کے بعد بھی اس قابل ہیں کہ ہم وقت سے پہلے اپنے اپنے دفاتر جاسکیں۔ کیا کسی بھی میونسپل کارپوریشن کی عمارت میں جاکر ہم بغیر رشوت دیے اپنا کام کرواسکتے ہیں؟ خدارا! گھروں سے باہر نکلیے، ایک بہتر پاکستان کے لیے، ایک روشن پاکستان کے لیے۔

حکمراں تو صرف اپنا Status Quo قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان تو آزاد ہوگیا لیکن قوم نہیں۔ پاکستان تو وجود میں آگیا مگر نظام نہیں اور نہ ہی ریاست کی تشکیل ہوئی۔ بس یہ ہوا کہ انگریزوں کے ہاتھ سے اقتدار مقامی لوگوں میں منتقل ہوگیا۔ باقی کچھ نہ بدلا۔ لیکن اب بدلے گا، ہمارا ملک ترقی کرے گا، دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرے گا، لیکن اس کے لیے حقیقی آزادی لینی پڑے گی۔ چاہے قربانیاں دے کر، چاہے انقلاب لاکر۔ بے حسی کے بت پاش پاش ہوں گے اور ایک ایسا پاکستان وجود میں آئے گا جیساکہ قائداعظمؒ چاہتے تھے، جو اقبال کا خواب تھا، جو سرسید کی تحریک تھا، جو آزادی کے متوالوں کی منزل تھا۔ ایک نیا سویرا ہونے کو ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں