نعرہ جمہوریت
ہم اس جمہوری نظام کا حصہ ہیں یا یہ صرف عوام کو بے وقوف بنانے اور انھیں پست رکھنے کے لیے ایک نعرہ ہے۔
جمہوریت ایک بہترین نظام ہے پاکستان کے لیے، سنتے چلے آرہے ہیں کئی سال سے، جو بھی پارٹی حکومت میں آتی ہے وہ یہی کہتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ اپنے پورے پانچ سال نکال لیں یا پورے کرلیں اور گاتی رہی کہ پاکستان میں جمہوریت بہترین نظام ہے۔
جمہوریت ہے کیا، کیا واقعی پاکستان ایک جمہوری فلاحی ریاست ہے؟ ایک ہم اس جمہوری نظام کا حصہ ہیں یا یہ صرف عوام کو بے وقوف بنانے اور انھیں پست رکھنے کے لیے ایک نعرہ ہے۔
جمہوریت میں حقوق سب کے لیے، آئین اور اخلاق میں رہتے ہوئے آزادی سب کے لیے، بنیادی ضروریات سب کے لیے، علاج و معالجہ، تعلیم، صحت، سب کے لیے ہو، جس میں حکمراں اور عوام ایک ہی صف میں کھڑے ہوں کہ انسان تو ہم سب ہیں۔ پاکستان جیسے معدنیات سے بھرے ہوئے خوبصورت ملک میں عوام بغیر غذا کے مرجائیں، بچے علاج کی سہولتیں نہ ہونے پر مرجائیں، کہیں اسپتالوں میں بچے کو چوہے کھا جائیں، خیرپور میں کتا بچے کو کاٹ کر کھا جائے، تھرپارکر میں یہ اشرف المخلوقات جانوروں کی طرح زندگی گزاریں اور کئی سال سے یہ سلسلہ جاری ہو اور جمہوری حکومتیں بھی رواں دواں ہوں تو کیا یہ جمہوریت ہے؟
16 لاکھ آبادی والے تھرپارکر میں قحط سالی ہو اور بڑے بڑے شہروں میں امرا اور حکومتی ارکان بڑے بڑے لاکھوں کے عشائیے سے لطف اندوز ہوں۔ یہ کیسی بے حسی والی جمہوریت ہے جس میں عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہ ہو، دو وقت کے کھانے کے لیے سیلانی میں، ایدھی میں لمبی لمبی لائنیں لگی ہوں، لوگ ایک آٹے کے تھیلے کے لیے دھکم پیل کریں اور گتھم گتھا ہوجائیں؟
1947 سے 2014 تک کتنی جمہوریتیں نظر آتی ہیں اور کتنے فلاحی کام نظر آتے ہیں؟ 2014 تک عوام کو، ان کے حقوق کو، ان کی آزادی کو کچلا ہی جا رہا ہے۔ جو آواز اٹھائے اس کو مٹا دو، جو شعور کی بات کرے اس کو پاگل بنا دو۔ آخر کب تک اس طرح کی جمہوریت رہے گی اور ہم کب حقیقی جمہوریت میں داخل ہوں گے۔ ہر انسان کو خالی ہاتھ اس دنیا سے جانا ہے۔ سکندر اعظم نے آدھی دنیا فتح کرلی اور وصیت کی کہ جب میں مروں تو میرے دونوں ہاتھ باہر نکال دیے جائیں تاکہ دنیا دیکھ لے کہ آدھی دنیا کو فتح کرنے والا سکندر اعظم اس دنیا سے خالی ہاتھ واپس جا رہا ہے۔ کتنی معنی خیز اور کتنی گہری مثال ہے یہ اور کتنی پریکٹیکل بھی۔ ہم میں سے ہر شخص کو خالی ہاتھ ہی جانا ہے۔
کوئی بھی معاشرہ قانون کے بغیر نہیں چلتا۔ معاشرے کو قانون کے تحت ہی چلنا ہوگا تو توازن قائم رہے گا۔ سیاح یا کاروباری حضرات جہاں بھی جاتے ہیں وہ اپنے ملکوں کے قوانین کے تابع رہتے ہیں، مگر عذاب یہ ہے کہ جمہوریت کا نعرہ بلند ہوتا رہا، اور معاشرہ اور قانون دونوں پیشوں کی طرف جاتے رہے۔ اور کبھی اچانک سے ایسا واقعہ ہوجاتا ہے کہ ہر آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ ہم کیا جنگلوں میں رہ رہے ہیں۔ خودغرضی، انا پرستی، لالچ، ہوس نے ہمیں اور ہمارے معاشرے کو اندھا بنا دیا ہے کہ کسی کی عزت، کسی کی زندگی محفوظ نہیں۔کئی سال پہلے تک جب کہیں فائرنگ ہوتی تھی یا کسی کو قتل کردیا جاتا تھا یا کوئی بڑا ایکسیڈنٹ ہوجاتا تھا تو شہر میں، لوگوں میں سناٹا چھا جاتا تھا، لوگ سہم جاتے تھے، مائیں بچوں کو اسکول سے خود لانے پہنچ جاتی تھیں، بازار سنسان ہوجاتے تھے، لوگوں کے چہروں پر افسردگی چھا جاتی تھی۔
اور اب اتنی ترقی یافتہ دنیا میں، جہاں ہم میں سے ہر کوئی اسمارٹ فون کا شیدائی ہے، نئی Logics ، نیا انداز زندگی، بے تحاشا آسانیاں، ہمارے ملک کے پڑوسی ترقی کرتے ہوئے کہاں سے کہاں جا رہے ہیں اور ہم ان کی ترقی پر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر حیران ہو رہے ہیں۔ جب صبح ہوتی ہے، اخبار پڑھے جاتے ہیں، خبروں پر نظر ڈالی جاتی ہے تو بے چینی کا عالم یہ ہے کہ 20، 15 لوگوں کے قتل کو بے جا قتل کو صرف نمبر شمار کیا جا رہا ہوتا ہے۔
صبح جو لوگ اپنے گھروں سے کام پر جا رہے ہوتے ہیں شام تک ان کے گھر والے ان کی خیر سے واپسی کی دعائیں کرتے رہتے ہیں اور ذرا بھی کسی تشدد کی لہر کا سنتے ہی بے چین ہوجاتے ہیں۔ بوڑھے والدین تڑپ تڑپ جاتے اور بے آسرا و سہارا اپنے بچوں کی خیر کے لیے پریشان ہوجاتے ہیں۔
اس سے زیادہ المیہ کیا ہوسکتا ہے کہ ایک زندہ قوم جس نے بڑی زبردست جدوجہد کرکے اپنے آپ کو غلامی کی زنجیروں سے چھڑایا، ہزاروں شہید ہوئے، بے گھر و بے سرو ساماں ہوئے، رشتے ، ناتے چھوٹے مگر آزادی کی نعمت حاصل کی گئی، اس زندہ و جاوید قوم کے لوگ اتنے بے حس اور بے بس ہوجائیں کہ ہمارے سامنے زندگیاں ختم ہوتی رہیں اور ہم تماشا دیکھتے رہیں۔ کیا اس کو ہم جمہوریت کہیں گے۔ کیا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے؟
بے شمار پڑھا لکھا طبقہ پاکستان سے باہر جاکر آباد ہورہا ہے اور وجہ جو سب سے اہم بن رہی ہے وہ یہی ہے کہ تمام لوگوں کو یکساں حقوق نہیں مل رہے۔ ظلم و زیادتی پھلتی پھولتی جا رہی ہے اور دولت کو تمام پریشانیوں کا حل سمجھا جا رہا ہے۔ اکیسویں صدی میں ہم کتنی پستی بھری زندگی گزار رہے ہیں کہ سوچ کر ہی ایک جھرجھری سی آجاتی ہے۔ کیسے کیسے الفاظ کے داؤ پیچ میں الجھا کر اپنی دکانوں کو چمکایا جا رہا ہے۔ سسکتے ہوئے، بھوک سے بلبلاتے ہوئے بچے، مجبور خواتین اور بے بس بزرگ، کیا یہی تسکین کا باعث ہے جمہوریت کا؟ کس طرح کے حکمران اور کس طرح کی طرز حکمرانی ہے یہ؟ ہم نے فرعون کا زمانہ نہیں دیکھا۔
ہم نے چنگیز خان کا زمانہ نہیں دیکھا، مگر جو ہم تاریخ پڑھتے ہیں تو محسوس یہی ہوتا ہے کہ شاید اس زمانے سے مختلف نہیں ہوگا۔ ہم تو خوش نصیب قوم ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے بزرگوں نے ایک عظیم جدوجہد کے بعد ایک آزاد ملک ہمارے لیے اس لیے نہیں بنایا کہ اس میں فرعونیت کو پروان چڑھائیں، حقوق غصب کیے جائیں، بے گناہ مارے جائیں بلکہ اس لیے بنایا گیا کہ تمام شہری آئین اور اخلاق کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ اپنی اپنی خواہشات کے تحت ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرسکیں اور جہاں ان کو مناسب لگے وہ اپنی زندگی گزار سکیں۔
اس جمہوریت کا ایک اور تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ کم تعلیم یافتہ لوگوں کو بڑے عہدوں سے نوازا جاتا رہا ہے، پارٹی کی بنا پر یا پھر کسی اور بنا پر، جس کو تجربہ ہی نہ ہو، جس کو معلومات ہی نہ ہو تو وہ عہدہ کیسے نبھا سکے گا۔ ہاں اپنے لیے اور اپنے لوگوں کے لیے اس عہدے سے جو مفادات ہوں گے وہ ضرور حاصل کرلے گا۔ اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے عہدوں سے اپنے آپ کو اپنے لوگوں کو اپنی پارٹیوں کو مضبوط کیا، مگر عوام اور ان کے حقوق اور ان کی سہولیات کو اس لیے سپورٹ نہیں کیا کہ ان کو محکوم بناکر ان پر حکمرانی کی جائے۔
صحت و صفائی جوکہ ہمارے ایمان کا نصف حصہ ہے وہ تو دور کی بات پینے کے لیے گندہ پانی، جس کو پینے سے یہ لوگ کئی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ معذور ہوجاتے ہیں، اندھے ہوجاتے ہیں، جلدی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ کتنا ظلم ہے یہ کہ انسانوں کو جانوروں سے بدتر ماحول ملے اور ریاست اپنے آپ کو جمہوریت کا علم بردار کہے۔ ریاست تو ایک ماں جیسی ہوتی ہے جو سب کو اپنی آغوش میں بھر لیتی ہے اور یہ جمہوری ریاست عوام کے ہاتھ پیر کاٹنے پر تلی ہوئی ہے۔ بنیادی ضرورتوں کو روتے روتے کئی سال گزر گئے اور اسی طرح ان کی نسلیں گزر جائیں گی کہ ہم اپنی نسل کو کیا دے کر جائیں گے؟ ایک ترقی یافتہ پاکستان کا صرف ایک خواب ہی رہے گا، ہمارے اعمال بھی ایسے ہوں گے کہ کوئی اعلیٰ حکمراں ہمیں ملے گا؟
جمہوریت ہے کیا، کیا واقعی پاکستان ایک جمہوری فلاحی ریاست ہے؟ ایک ہم اس جمہوری نظام کا حصہ ہیں یا یہ صرف عوام کو بے وقوف بنانے اور انھیں پست رکھنے کے لیے ایک نعرہ ہے۔
جمہوریت میں حقوق سب کے لیے، آئین اور اخلاق میں رہتے ہوئے آزادی سب کے لیے، بنیادی ضروریات سب کے لیے، علاج و معالجہ، تعلیم، صحت، سب کے لیے ہو، جس میں حکمراں اور عوام ایک ہی صف میں کھڑے ہوں کہ انسان تو ہم سب ہیں۔ پاکستان جیسے معدنیات سے بھرے ہوئے خوبصورت ملک میں عوام بغیر غذا کے مرجائیں، بچے علاج کی سہولتیں نہ ہونے پر مرجائیں، کہیں اسپتالوں میں بچے کو چوہے کھا جائیں، خیرپور میں کتا بچے کو کاٹ کر کھا جائے، تھرپارکر میں یہ اشرف المخلوقات جانوروں کی طرح زندگی گزاریں اور کئی سال سے یہ سلسلہ جاری ہو اور جمہوری حکومتیں بھی رواں دواں ہوں تو کیا یہ جمہوریت ہے؟
16 لاکھ آبادی والے تھرپارکر میں قحط سالی ہو اور بڑے بڑے شہروں میں امرا اور حکومتی ارکان بڑے بڑے لاکھوں کے عشائیے سے لطف اندوز ہوں۔ یہ کیسی بے حسی والی جمہوریت ہے جس میں عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہ ہو، دو وقت کے کھانے کے لیے سیلانی میں، ایدھی میں لمبی لمبی لائنیں لگی ہوں، لوگ ایک آٹے کے تھیلے کے لیے دھکم پیل کریں اور گتھم گتھا ہوجائیں؟
1947 سے 2014 تک کتنی جمہوریتیں نظر آتی ہیں اور کتنے فلاحی کام نظر آتے ہیں؟ 2014 تک عوام کو، ان کے حقوق کو، ان کی آزادی کو کچلا ہی جا رہا ہے۔ جو آواز اٹھائے اس کو مٹا دو، جو شعور کی بات کرے اس کو پاگل بنا دو۔ آخر کب تک اس طرح کی جمہوریت رہے گی اور ہم کب حقیقی جمہوریت میں داخل ہوں گے۔ ہر انسان کو خالی ہاتھ اس دنیا سے جانا ہے۔ سکندر اعظم نے آدھی دنیا فتح کرلی اور وصیت کی کہ جب میں مروں تو میرے دونوں ہاتھ باہر نکال دیے جائیں تاکہ دنیا دیکھ لے کہ آدھی دنیا کو فتح کرنے والا سکندر اعظم اس دنیا سے خالی ہاتھ واپس جا رہا ہے۔ کتنی معنی خیز اور کتنی گہری مثال ہے یہ اور کتنی پریکٹیکل بھی۔ ہم میں سے ہر شخص کو خالی ہاتھ ہی جانا ہے۔
کوئی بھی معاشرہ قانون کے بغیر نہیں چلتا۔ معاشرے کو قانون کے تحت ہی چلنا ہوگا تو توازن قائم رہے گا۔ سیاح یا کاروباری حضرات جہاں بھی جاتے ہیں وہ اپنے ملکوں کے قوانین کے تابع رہتے ہیں، مگر عذاب یہ ہے کہ جمہوریت کا نعرہ بلند ہوتا رہا، اور معاشرہ اور قانون دونوں پیشوں کی طرف جاتے رہے۔ اور کبھی اچانک سے ایسا واقعہ ہوجاتا ہے کہ ہر آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ ہم کیا جنگلوں میں رہ رہے ہیں۔ خودغرضی، انا پرستی، لالچ، ہوس نے ہمیں اور ہمارے معاشرے کو اندھا بنا دیا ہے کہ کسی کی عزت، کسی کی زندگی محفوظ نہیں۔کئی سال پہلے تک جب کہیں فائرنگ ہوتی تھی یا کسی کو قتل کردیا جاتا تھا یا کوئی بڑا ایکسیڈنٹ ہوجاتا تھا تو شہر میں، لوگوں میں سناٹا چھا جاتا تھا، لوگ سہم جاتے تھے، مائیں بچوں کو اسکول سے خود لانے پہنچ جاتی تھیں، بازار سنسان ہوجاتے تھے، لوگوں کے چہروں پر افسردگی چھا جاتی تھی۔
اور اب اتنی ترقی یافتہ دنیا میں، جہاں ہم میں سے ہر کوئی اسمارٹ فون کا شیدائی ہے، نئی Logics ، نیا انداز زندگی، بے تحاشا آسانیاں، ہمارے ملک کے پڑوسی ترقی کرتے ہوئے کہاں سے کہاں جا رہے ہیں اور ہم ان کی ترقی پر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر حیران ہو رہے ہیں۔ جب صبح ہوتی ہے، اخبار پڑھے جاتے ہیں، خبروں پر نظر ڈالی جاتی ہے تو بے چینی کا عالم یہ ہے کہ 20، 15 لوگوں کے قتل کو بے جا قتل کو صرف نمبر شمار کیا جا رہا ہوتا ہے۔
صبح جو لوگ اپنے گھروں سے کام پر جا رہے ہوتے ہیں شام تک ان کے گھر والے ان کی خیر سے واپسی کی دعائیں کرتے رہتے ہیں اور ذرا بھی کسی تشدد کی لہر کا سنتے ہی بے چین ہوجاتے ہیں۔ بوڑھے والدین تڑپ تڑپ جاتے اور بے آسرا و سہارا اپنے بچوں کی خیر کے لیے پریشان ہوجاتے ہیں۔
اس سے زیادہ المیہ کیا ہوسکتا ہے کہ ایک زندہ قوم جس نے بڑی زبردست جدوجہد کرکے اپنے آپ کو غلامی کی زنجیروں سے چھڑایا، ہزاروں شہید ہوئے، بے گھر و بے سرو ساماں ہوئے، رشتے ، ناتے چھوٹے مگر آزادی کی نعمت حاصل کی گئی، اس زندہ و جاوید قوم کے لوگ اتنے بے حس اور بے بس ہوجائیں کہ ہمارے سامنے زندگیاں ختم ہوتی رہیں اور ہم تماشا دیکھتے رہیں۔ کیا اس کو ہم جمہوریت کہیں گے۔ کیا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے؟
بے شمار پڑھا لکھا طبقہ پاکستان سے باہر جاکر آباد ہورہا ہے اور وجہ جو سب سے اہم بن رہی ہے وہ یہی ہے کہ تمام لوگوں کو یکساں حقوق نہیں مل رہے۔ ظلم و زیادتی پھلتی پھولتی جا رہی ہے اور دولت کو تمام پریشانیوں کا حل سمجھا جا رہا ہے۔ اکیسویں صدی میں ہم کتنی پستی بھری زندگی گزار رہے ہیں کہ سوچ کر ہی ایک جھرجھری سی آجاتی ہے۔ کیسے کیسے الفاظ کے داؤ پیچ میں الجھا کر اپنی دکانوں کو چمکایا جا رہا ہے۔ سسکتے ہوئے، بھوک سے بلبلاتے ہوئے بچے، مجبور خواتین اور بے بس بزرگ، کیا یہی تسکین کا باعث ہے جمہوریت کا؟ کس طرح کے حکمران اور کس طرح کی طرز حکمرانی ہے یہ؟ ہم نے فرعون کا زمانہ نہیں دیکھا۔
ہم نے چنگیز خان کا زمانہ نہیں دیکھا، مگر جو ہم تاریخ پڑھتے ہیں تو محسوس یہی ہوتا ہے کہ شاید اس زمانے سے مختلف نہیں ہوگا۔ ہم تو خوش نصیب قوم ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے بزرگوں نے ایک عظیم جدوجہد کے بعد ایک آزاد ملک ہمارے لیے اس لیے نہیں بنایا کہ اس میں فرعونیت کو پروان چڑھائیں، حقوق غصب کیے جائیں، بے گناہ مارے جائیں بلکہ اس لیے بنایا گیا کہ تمام شہری آئین اور اخلاق کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ اپنی اپنی خواہشات کے تحت ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرسکیں اور جہاں ان کو مناسب لگے وہ اپنی زندگی گزار سکیں۔
اس جمہوریت کا ایک اور تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ کم تعلیم یافتہ لوگوں کو بڑے عہدوں سے نوازا جاتا رہا ہے، پارٹی کی بنا پر یا پھر کسی اور بنا پر، جس کو تجربہ ہی نہ ہو، جس کو معلومات ہی نہ ہو تو وہ عہدہ کیسے نبھا سکے گا۔ ہاں اپنے لیے اور اپنے لوگوں کے لیے اس عہدے سے جو مفادات ہوں گے وہ ضرور حاصل کرلے گا۔ اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے عہدوں سے اپنے آپ کو اپنے لوگوں کو اپنی پارٹیوں کو مضبوط کیا، مگر عوام اور ان کے حقوق اور ان کی سہولیات کو اس لیے سپورٹ نہیں کیا کہ ان کو محکوم بناکر ان پر حکمرانی کی جائے۔
صحت و صفائی جوکہ ہمارے ایمان کا نصف حصہ ہے وہ تو دور کی بات پینے کے لیے گندہ پانی، جس کو پینے سے یہ لوگ کئی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ معذور ہوجاتے ہیں، اندھے ہوجاتے ہیں، جلدی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ کتنا ظلم ہے یہ کہ انسانوں کو جانوروں سے بدتر ماحول ملے اور ریاست اپنے آپ کو جمہوریت کا علم بردار کہے۔ ریاست تو ایک ماں جیسی ہوتی ہے جو سب کو اپنی آغوش میں بھر لیتی ہے اور یہ جمہوری ریاست عوام کے ہاتھ پیر کاٹنے پر تلی ہوئی ہے۔ بنیادی ضرورتوں کو روتے روتے کئی سال گزر گئے اور اسی طرح ان کی نسلیں گزر جائیں گی کہ ہم اپنی نسل کو کیا دے کر جائیں گے؟ ایک ترقی یافتہ پاکستان کا صرف ایک خواب ہی رہے گا، ہمارے اعمال بھی ایسے ہوں گے کہ کوئی اعلیٰ حکمراں ہمیں ملے گا؟