ال۔دورادو۔۔۔۔۔ ایک شہرِ بے مثال
جس کے در و دیوار سونے کے تھے۔
ممکن ہے ''سفرالاسفار'' والے ابنِ بطوطہ آپ کے سامنے پانی بھرتے ہوں۔
عین ممکن ہے آپ پانچوں براعظموں پر خرام فرما چکے ہوں لیکن ہمارا دعویٰ کہ جس شہر کا احوال ہم آپ کو سنانے جا رہے ہیں وہ آپ کی نظر سے نہیں گزرا اور آپ ہی کیا، جن لوگوں نے یہ شہر دوسروں کو دکھایا خود انہوں نے بھی اسے نہیں دیکھا۔ یہ ایسا حیرت افزا شہر ہے کہ اسے آپ جیسا دیکھنا چاہیں یہ ویسا ہی ہوجاتا ہے۔
ہم بات کر رہے ہیں شہر زریں اَل۔ دو رادوکی۔ یہ ایک ایسا تحیر خیز اور تحریص فزاء قریہ ہے جس کے فرش و در ودیوار سونے کے ہیں، یاقوت و زمرد اور پکھراج اس کے گلی کوچوں میں بے مایہ پتھروں کی طرح بکھرے پڑے رہتے ہیں۔ آیے! ہم آپ کو اس شہر زریں میں لیے چلتے ہیں لیکن آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ شہر ''دریافت'' کب ہوا تھا۔
اس شہر کے حوالے سے سن گن پہلی بار سولہویں صدی عیسوی میں ملی۔ یہ تاریخ تو دہرانے کی اب کوئی ضرورت نہیں رہی کہ امریکا ہسپانویوں نے دریافت کیا اور وہاں کے اوّلیں قابض بھی رہے۔ اس شہر کے مہا پجاری سے ملاقات کا پہلی بار ذکر 1531 میں ہسپانوی فوج کے ایک لیفٹیننٹ مارٹی نیز (Martinez) نے کیا۔ اس کا بیان ہے کہ وہ ایک سمندری سفر پر کولمبیا جارہا تھا کہ ایک مقام پر اس کا بحری جہاز غرقاب ہو گیا تاہم الفِ لیلیٰ و لیلہ والے سندباد کی طرح لیفٹیننٹ مارٹی بھی بچ گیا، ساحل پر آنکھ کھلی تو خود کو ایک ایسے قبیلے میں پایا جس کا نام اسے بعد میں میوئسکا اور اس کے سردار کا نام، جو قبیلے کا مہاپجاری بھی تھا، ال۔دورادو بتایا گیا، بعد کو باہر کی دنیا میں اس قریے کا نام بھی ال۔دورادو ہی مشہور ہوا۔ لیفٹیننٹ مارٹی نے واپسی پر آ کر بتایا کہ یہ ایک زریں شہر ہے اور اس کے بادشاہ ال۔دورادو نے اس کی خاطر تواضح کی۔
ہسپانوی زبان میں دورادو ایسی چیز کو کہا جاتا ہے جس کا رنگ سنہری ہوتا ہے، اسپینی زبان میں اَل کا اضافہ غالباً عربوں کی طویل ''خلافت'' کے دوران ہوا۔ اس رنگ میں دراصل موئسکا قبیلے کے مہاپجاری کو دیکھا گیا تھا۔ جس کا احوال بعد میں ایک وقائع نگار جوآن روڈریگیز فریلے نے یوں لکھا ہے کہ قبیلہ میوئسکا کا بوڑھا مہاپجاری مر گیا اور اس کی جگہ لینے کے لیے ایک نیا سردار اور پجاری منتخب کیا گیا۔ اس موقع پر جو رسم ادا کی گئی وہ کچھ یوں تھی کہ اپنا مقدس منصب سنبھالنے سے پہلے مہا پجاری نے، جسے بعد میں ال۔دورادو کا نام دیا گیا، ایک معینہ عرصہ عالم تنہائی میں گزارا۔
تنہائی کا یہ دورانیہ اس نے علاقے کے ایک دور افتادہ غار میں کاٹا۔ اس دوران اس پر عورت اور نمک کا استعمال قطعاً حرام رہا، اس پر یہ بھی پابندی رہی کہ وہ دن کی روشنی میں اپنی تاریک غار سے باہر نکلنا تو درکنار باہر جھانکے گا بھی نہیں۔ یہ رسم ان کے ہاں صدیوں سے چلی آ رہی تھی۔ انسانی آبادی سے دوری خون میں ابال پیدا کرنے والی خوراک کا امتناع اور تاریکی، ان کے خیال میں مہا پجاری کی اندر کی آنکھوں کو روشن کرتی اور روح میں نور بھرتی ہے۔ ال۔دورادو جب اس رسم کی تکمیل سے کام یاب گزر لیا اور اہل قبیلہ کو یقین آ گیا کہ اس کی چشم باطن روشن اور دل نور سے شاد ہو چکا ہے تو اس سے اگلی رسم کی ادائی کا مرحلہ شروع ہوا۔
وہ ایک دن کے آغاز پر اپنی تاریک غار سے برآمد ہوا تو قبیلہ اس کے استقبال میں نعرہ زن تھا۔ وہ اپنے مقدس خرام کے ساتھ باوقار انداز میں پہاڑی کی اوبڑکھابڑ راہوں سے نیچے اترا تو اسے بڑے احترام کے ساتھ آبادی میں لایا گیا۔ اب اسے گوآتا ویتا دیوی کی قربان گاہ پر حاضری دینا اور وہاں نذرانے چڑھانا تھے، جس کے یہ پوجنے والے تھے۔ یہ رسم ایک بڑی جھیل کے عین درمیان میں ادا کی جانا تھا جہاں ایک بجرے کے ذریعے پہنچایا جانا تھا، یہ بجرا بھی اسی موقع پر کھپچیوں سے تیار کرکے سجایا جانا تھا لہٰذا بجرے کی تیاری تیزی سے شروع کر دی گئی۔
بجرا اندر سے گہرا رکھا گیا اور اسے قیمتی اشیاء سے سجا دیا گیا۔ پھر عود و لوبان سلگا دیا گیا۔ اس موقع پر ال۔دورادو کو مقامی طور پر کشید کیے گئے خوش گوار عطریات سے نہلایا گیا لیکن اس عمل سے پہلے عود ولوبان اور دوسری خوش بو دار اشیاء کو سلگا کر ماحول کو اس قدر دھواں دھار بنا دیا گیا کہ دن میں رات کا سماں بندھ گیا اور اسی تاریکی کے ماحول میں ال۔دورادو کے جسم کے تمام بال مونڈے گئے یا کسی محلول کے ذریعے صاف کیے گئے اور جب اس کا جسم بالکل شفاف ہو گیا تو خاص طرح سے تیار کیا گیا رقیق گارا اس کے جسم پر مل دیا گیا جس سے اس کا بدن ''چپک دار'' ہو گیا۔
ایک روایت کے مطابق اس گارے میں سونے کا برادہ ملایا گیا تھا لیکن ایک اور روایت کے مطابق یہ چپکیلا گارا لگانے کے بعد سونے کا برادہ بڑی مقدار میں لایا گیا اور ال۔دورادو سے اس برادے میں لوٹنیاں لگوائی گئیں یہاں تک کہ اس کے جسم کا کوئی عضو ایسا نہ بچا جس پر سونا چپک نہ گیا۔ اب وہ سونے کا ایک جیتا جاگتا انسان نظر آتا تھا۔
اس عالم میں اسے اب تک تیار ہو چکنے والے بجرے میں سوار کر دیا گیا اور اس کے قدموں میں سونے کا اتنا برادہ ڈھیر کیا گیا کہ وہ اس میں گھٹنوں تک ڈوب گیا، اس کی پہنچ میں زمرد کی ایک ڈھیری بھی لگائی گئی۔ بجرے میں وہ اکیلا نہ تھا بل کہ اس کے ساتھ قبیلے کے چار بزرگ ترین افراد بھی سوار تھے جن کے سروں پر سونے کے تاج، کلائیوں میں سونے کے کنگن، گلے میں جواہرات کے کنٹھے اور کانوں میں سونے کے بڑے بڑے آویزے تھے اور یہ سب بھی مستقبل کے مہا پجاری کی طرح بے لباس تھے، ہر ایک نے اپنے اپنے حصہ کے نذرانے تھام رکھے تھے۔
بجرہ دھیرے دھیرے ساحل سے رواں ہوا تو ساحل پر کھڑے تمام اہل قبیلہ یک سر خاموش ہو گئے۔ اس موقع پر انہیں بلند سانس بھی لینے کی اجازت نہ تھی۔ یہ ایک پرہول خاموشی تھی اتنی کہ سوئی بھی گر کر چھناکا پیدا کرتی، بجرے میں سوار مردانِِ پیر نے بھی ایسے پرچم بلند کر رکھے تھے جن پر خاموش رہنے کا اشارہ تھا۔ بجرہ چلتے چلتے کشادہ اور گہری مدور جھیل کے ایسے مقام پر پہنچ گیا جہاں سے اس کا فاصلہ ساحل سے ہر طرف یک ساں تھا یعنی عین مرکز میں۔
یہاں پہنچ کر سنہری آدمی ال۔ دورادو نے قدموں میں لگا سونے کا ڈھیر نیلے پانیوں میں گرا دیا اور اپنی دست رس میں رکھے زمرد کی ڈھیری بھی گوآتا ویتا دیوی کی نذر کرتے ہوے پانی میں پھینک دی۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے چاروں بزرگوں نے بھی اپنے اپنے قیمتی نذرانے نذر کیے اور پانی میں ڈال دیے۔ اس رسم کی ادائی کے بعد چاروں نے اپنے اپنے ہاتھوں میں تھامے خاموشی کے پھریرے جھکا دیے جو اس بات کی علامت تھی کہ تمام رسومات کام یابی سے ادا کی جا چکی ہیں یعنی اب نئے مہا پجاری کے نام کے نعرے بلند کیے جا سکتے ہیں۔ اس پر اہلِ قبیلہ نے نعرے بھی لگائے اور گوآتاویتا دیوی کی عظمت کے گیت گانا شروع کیے، سنکھ پھونکے گئے، بانسریاں بجائی گئیں اور رقص کا آغاز ہوا۔ اسی نشاطیہ شور و شغب میں بجرہ آہستہ آہستہ ساحل کی سمت سفر آغاز ہوا۔ جھیل کے وسط کی طرف ایک سنہرا آدمی گیا جو لوٹا تو اپنی دیوی اور دوسرے دیوتائوں کا چہیتا اوِیتار تھا۔
وقائع نگار کا بیان اس باب میں یہاں آ کر ختم ہوتا ہے لیکن اس سے براعظم کو کچھ اور پیغام پہنچا۔ یہ واقعات اس نے 1638 میں رقم کرکے گوآتاویتا کے گورنر کو بھیجے تھے۔ یہ گوآتاویتا، کولمبیا کے علاقے بوگوتا میں واقع ہے اور یقیناً اسی قبیلے یعنی میوئسکا کی دیوی کے نام سے موسوم ہے جہاں لیفٹیننٹ مارٹی اپنے بحری جہاز کی غرقابی کے بعد 1531 میں پہنچا تھا۔ یہ اسپین میں شاہ چارلس اول کا عہد تھا اور کولمبیا کے قریبی وینزوئلا میں اس کا ایجنٹ کلائین اور وینڈگ فروکش تھا۔
مذکورہ کہانی ہوتے ہوتے پورے براعظم یورپ میں پھیل گئی، پھر جیسا کہ ہوتی آئی ہے ایک منہ سے دوسرے منہ تک اور ایک کان سے اگلے کان تک پہنچتے پہنچتے کچھ کی کچھ بن جاتی ہے۔ ال۔دورادو ایک شخص تھا، جو پھیلتے پھیلتے ایک شہر بن گیا۔ ال۔دورادو ممکن ہے ہر سال ''سونا اوڑھنے'' کی رسم ادا کرتا رہا ہو یا عین ممکن ہے کہ اپنا مقدس منصب سنبھالنے کے لیے زندگی بھر میں ایک ہی بار سونے سے رنگا گیا ہو، اس کے نام کا شہر بہ ہرحال سونے کا بن گیا، جس کی کہانیاں آج بھی پڑھی، سنی اور سنائی جاتی ہیں۔
خیر بات جب پورے براعظم کے منہ پر آ گئی تو سونے کے مہم جو متلاشی جوق در جوق عازم امریکا ہوے جب کہ ان کے پہنچنے سے بہت پہلے ہسپانوی فاتحین (Conquistadores) نے میوئسکا قبیلے کے سونے کے ذخائر ان سے چھین چھان لیے۔ یہ سونا اور جواہرات اہل قبیلہ بیرونی دنیا کے ساتھ تجارت یعنی مال کے بدلے مال کی صورت میں حاصل کرکے جمع کیا کرتے تھے۔ ہسپانویوں نے قبیلے کے علاقے بھی اپنے قبضے میں لے لیے، معصوم قبائلی یا تو مارے گئے یا ہجرت کر گئے یا رعایا بنا لیے گئے۔ ان کا علاقہ، جو ان کی دیوی گوآتا ویتا کے نام پر ہے، آج بھی کولمبیا کے علاقے بوگوتا میں موجود ہے۔
1540 میں اِنکا (Inca) سلطنت کے ہسپانوی فاتح فرانسسکو پیزارو کے سوتیلے بھائی گونزالو پیزارو ایکویدور کے شمالی صوبے کوئٹو کا گورنر بنا کر بھیجا گیا۔ گونزالو نے وہاں کے باشندوں سے سنا کہ دور مشرق کی سمت ایک ایسی وادی ہے جو دارچینی اور سونے کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ یہ باتیں تواتر سے سننے کے بعد گونزالو کے دل میں قسمت آزمانے کی سمائی سو اس نے 340 سپاہی تیار کیے اور اپنے صوبے کے 4 ہزار افراد لیے اور 1541 میں سمتِ مشرق روانہ ہوا۔ اس کے ساتھ اس کا بھتیجا فرانسسکو دی اوریلانا بھی تھا۔
کام خاصا دشوار نکلا، رستے میں بھوک، پیاس، بیماریوں اور حملہ آوروں نے اس کے بہت سے ہم راہی مار دیے جس پر اس نے ایک مقام پر خود تو ہتھیار ڈال دیے البتہ اپنے بھتیجے کو مہم جاری رکھنے کا حکم دیا۔ اوریلانا کو کچھ ملایا نہیں البتہ چلتے چلتے اس نے ایمے زون کا علاقہ دریافت کر لیا۔ یہ لٹا پٹا لشکر جب اس علاقے میں پہنچا تو عورتوں کی ایک فوج نے ان پر حملہ کر دیا، اس پر اوریلانا نے انہیں ایمے زون کا نام دیا۔ یونانی دیومالا میں جنگ جُو عورتوں کی ایک قوم کا ذکر ہے جسے یونانی زبان میں ایمے زونی خواتین کا نام دیا جاتا ہے۔ اس علاقے میں بہنے والے دریا کا نام بھی ایمے زون پڑ گیا جو دنیا کا دوسرا سب سے طویل دریا تسلیم کیا جاتا ہے۔
اس مہم کی ناکامی کے بعد سولہویں صدی کے وسط میں وینزوئلا کے ساحل کورو سے ایک گروہ اور دوسرا بوگوتا سے ال۔دورادو کے گورنر کی سربراہی میں اس شہرِ زریں کی تلاش میں نکلا۔
سب سے اہم تحقیق اپنے وقت کے بہت بڑے عالم فاضل، محقق، فلسفی اور شاعر سروالٹر ریلی نے 1595 میں کی۔ انہوں نے دریافت کیا کہ ال۔دورادو نام کا ایک شہر جنوبی امریکا کی ریاست گیانا کے دریائے اوری نوکو سے دور دراز پاریمے نامی ایک بڑی جھیل کے کنارے واقع ہے۔ ال۔دورادو ایک عرصے تک اس تحقیق کے باعث برطانوی اور دوسرے یورپی نقشوں کی زینت بنز رہا تاہم بعد میں اٹھارہویں صدی کے اواخر میں ایک جرمن محقق الیگزاندر فان ہمبولٹ نے خود لاطینی امریکا کا سفر کیا اور ال۔دورادو کے وجود کا انکار کیا جس کے بعد یورپی نقشوں پر سے اس شہر ناموجود کو ہٹایا گیا۔ ادب و شعر کے علاوہ اس شہر پر درجن بھر فلمیں بھی بن چکی ہیں۔
یہ تو ثابت ہو گیا کہ اس شہر کا کوئی وجود نہیں ہے تاہم ال۔دورادو ایک استعارہ بن گیا۔ کسی ایسے مقام کا استعارہ، جہاں دولت حاصل کرنے کے مواقع سہل اور سریع ہوں۔ امریکا کی بہت سی ریاستوں کو ال۔دورادوکے نام سے پکارا جاتا ہے مثال کے طور پر کیلی فورنیا (الڈوریڈو کاؤنٹی) وغیرہ۔ ال۔دورادو آسمان سے گرا ہوا مقدس قیمتی پتھر (ہولی گریل) کا متبادل استعارہ بھی ہے کیوں کہ اس آسمانی پتھر کی تلاش پر بھی ادب تخلیق ہوا ہے۔ یہ آبِ حیات کے ا فسانوی چشمے کا متبادل بھی قرار پاتا ہے۔ بہ ہرحال ال۔ دورادو پر مغربی ادیبوں اور شاعروں نے طبع آزمائی کی اور اعلیٰ ادب تخلیق کیا۔
معروف فرانسیسی ادیب والٹیئر کا شہرہ آفاق ناول کینڈائڈ (Candide) ہے۔ اس ناول کا ایک اچھا ترجمہ اردو زبان میں ''امید پرست'' کے نام سے ہو چکا ہے جو اب کم یاب ہے۔ اس پر ایڈگرایلن پوکی نظم ''ال۔دورادو'' بھی خاصے کی چیز ہے۔ اس کے علاوہ (The Loss of El dorado) کے نام سے نوبل انعام یافتہ ادیب و مورخ وی ایس نئی پال نے بھی ایک کتاؓب لکھی ہے تاہم یہ وینزویلا اور ٹرینی ڈاڈ کے حوالے سے اسپینی اور برطانوی نو آبادیاتی رقابت کی تاریخ پر مبنی ہے۔
ال۔دورادو کو انگریزوں نے الڈوریڈو کا تلفظ دے رکھا ہے۔ ہر چند یہ ایک شہر لاحاصل تھا لیکن اس نے اہل مغرب کو اپنے عشق میں مبتلا کیے رکھا ہے۔ میوئسکا قبیلے کی زریں رسم کی یاد میں کولمبیا کے عجائب خانے نے خاصا اہتمام کیا ہے۔ کولمبیا کے دارالحکومت بوگوتا کے عجائب گھر میں ایک کمرہ مختص کیا گیا ہے جس میں ایک بلوریں صندوق میں پانی کے اندر اس بجرے کو تیرتے دکھایا گیا ہے جس پر ال۔دورادو گوآتا ویتا دیوی کے حضور قربانیاں پیش کرتا ہے۔ یہ بجرہ لگ بھگ آٹھ انچ لمبا، چار انچ چوڑا اور چار انچ اونچا ہے۔ اس پر ال دورادو اور اس کے ہم راہی چار دوسرے افراد کے مجسمے بھی ہیں۔ جو سونے اور تانبے کے اختلاط سے بنائے گئے ہیں۔
عین ممکن ہے آپ پانچوں براعظموں پر خرام فرما چکے ہوں لیکن ہمارا دعویٰ کہ جس شہر کا احوال ہم آپ کو سنانے جا رہے ہیں وہ آپ کی نظر سے نہیں گزرا اور آپ ہی کیا، جن لوگوں نے یہ شہر دوسروں کو دکھایا خود انہوں نے بھی اسے نہیں دیکھا۔ یہ ایسا حیرت افزا شہر ہے کہ اسے آپ جیسا دیکھنا چاہیں یہ ویسا ہی ہوجاتا ہے۔
ہم بات کر رہے ہیں شہر زریں اَل۔ دو رادوکی۔ یہ ایک ایسا تحیر خیز اور تحریص فزاء قریہ ہے جس کے فرش و در ودیوار سونے کے ہیں، یاقوت و زمرد اور پکھراج اس کے گلی کوچوں میں بے مایہ پتھروں کی طرح بکھرے پڑے رہتے ہیں۔ آیے! ہم آپ کو اس شہر زریں میں لیے چلتے ہیں لیکن آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ شہر ''دریافت'' کب ہوا تھا۔
اس شہر کے حوالے سے سن گن پہلی بار سولہویں صدی عیسوی میں ملی۔ یہ تاریخ تو دہرانے کی اب کوئی ضرورت نہیں رہی کہ امریکا ہسپانویوں نے دریافت کیا اور وہاں کے اوّلیں قابض بھی رہے۔ اس شہر کے مہا پجاری سے ملاقات کا پہلی بار ذکر 1531 میں ہسپانوی فوج کے ایک لیفٹیننٹ مارٹی نیز (Martinez) نے کیا۔ اس کا بیان ہے کہ وہ ایک سمندری سفر پر کولمبیا جارہا تھا کہ ایک مقام پر اس کا بحری جہاز غرقاب ہو گیا تاہم الفِ لیلیٰ و لیلہ والے سندباد کی طرح لیفٹیننٹ مارٹی بھی بچ گیا، ساحل پر آنکھ کھلی تو خود کو ایک ایسے قبیلے میں پایا جس کا نام اسے بعد میں میوئسکا اور اس کے سردار کا نام، جو قبیلے کا مہاپجاری بھی تھا، ال۔دورادو بتایا گیا، بعد کو باہر کی دنیا میں اس قریے کا نام بھی ال۔دورادو ہی مشہور ہوا۔ لیفٹیننٹ مارٹی نے واپسی پر آ کر بتایا کہ یہ ایک زریں شہر ہے اور اس کے بادشاہ ال۔دورادو نے اس کی خاطر تواضح کی۔
ہسپانوی زبان میں دورادو ایسی چیز کو کہا جاتا ہے جس کا رنگ سنہری ہوتا ہے، اسپینی زبان میں اَل کا اضافہ غالباً عربوں کی طویل ''خلافت'' کے دوران ہوا۔ اس رنگ میں دراصل موئسکا قبیلے کے مہاپجاری کو دیکھا گیا تھا۔ جس کا احوال بعد میں ایک وقائع نگار جوآن روڈریگیز فریلے نے یوں لکھا ہے کہ قبیلہ میوئسکا کا بوڑھا مہاپجاری مر گیا اور اس کی جگہ لینے کے لیے ایک نیا سردار اور پجاری منتخب کیا گیا۔ اس موقع پر جو رسم ادا کی گئی وہ کچھ یوں تھی کہ اپنا مقدس منصب سنبھالنے سے پہلے مہا پجاری نے، جسے بعد میں ال۔دورادو کا نام دیا گیا، ایک معینہ عرصہ عالم تنہائی میں گزارا۔
تنہائی کا یہ دورانیہ اس نے علاقے کے ایک دور افتادہ غار میں کاٹا۔ اس دوران اس پر عورت اور نمک کا استعمال قطعاً حرام رہا، اس پر یہ بھی پابندی رہی کہ وہ دن کی روشنی میں اپنی تاریک غار سے باہر نکلنا تو درکنار باہر جھانکے گا بھی نہیں۔ یہ رسم ان کے ہاں صدیوں سے چلی آ رہی تھی۔ انسانی آبادی سے دوری خون میں ابال پیدا کرنے والی خوراک کا امتناع اور تاریکی، ان کے خیال میں مہا پجاری کی اندر کی آنکھوں کو روشن کرتی اور روح میں نور بھرتی ہے۔ ال۔دورادو جب اس رسم کی تکمیل سے کام یاب گزر لیا اور اہل قبیلہ کو یقین آ گیا کہ اس کی چشم باطن روشن اور دل نور سے شاد ہو چکا ہے تو اس سے اگلی رسم کی ادائی کا مرحلہ شروع ہوا۔
وہ ایک دن کے آغاز پر اپنی تاریک غار سے برآمد ہوا تو قبیلہ اس کے استقبال میں نعرہ زن تھا۔ وہ اپنے مقدس خرام کے ساتھ باوقار انداز میں پہاڑی کی اوبڑکھابڑ راہوں سے نیچے اترا تو اسے بڑے احترام کے ساتھ آبادی میں لایا گیا۔ اب اسے گوآتا ویتا دیوی کی قربان گاہ پر حاضری دینا اور وہاں نذرانے چڑھانا تھے، جس کے یہ پوجنے والے تھے۔ یہ رسم ایک بڑی جھیل کے عین درمیان میں ادا کی جانا تھا جہاں ایک بجرے کے ذریعے پہنچایا جانا تھا، یہ بجرا بھی اسی موقع پر کھپچیوں سے تیار کرکے سجایا جانا تھا لہٰذا بجرے کی تیاری تیزی سے شروع کر دی گئی۔
بجرا اندر سے گہرا رکھا گیا اور اسے قیمتی اشیاء سے سجا دیا گیا۔ پھر عود و لوبان سلگا دیا گیا۔ اس موقع پر ال۔دورادو کو مقامی طور پر کشید کیے گئے خوش گوار عطریات سے نہلایا گیا لیکن اس عمل سے پہلے عود ولوبان اور دوسری خوش بو دار اشیاء کو سلگا کر ماحول کو اس قدر دھواں دھار بنا دیا گیا کہ دن میں رات کا سماں بندھ گیا اور اسی تاریکی کے ماحول میں ال۔دورادو کے جسم کے تمام بال مونڈے گئے یا کسی محلول کے ذریعے صاف کیے گئے اور جب اس کا جسم بالکل شفاف ہو گیا تو خاص طرح سے تیار کیا گیا رقیق گارا اس کے جسم پر مل دیا گیا جس سے اس کا بدن ''چپک دار'' ہو گیا۔
ایک روایت کے مطابق اس گارے میں سونے کا برادہ ملایا گیا تھا لیکن ایک اور روایت کے مطابق یہ چپکیلا گارا لگانے کے بعد سونے کا برادہ بڑی مقدار میں لایا گیا اور ال۔دورادو سے اس برادے میں لوٹنیاں لگوائی گئیں یہاں تک کہ اس کے جسم کا کوئی عضو ایسا نہ بچا جس پر سونا چپک نہ گیا۔ اب وہ سونے کا ایک جیتا جاگتا انسان نظر آتا تھا۔
اس عالم میں اسے اب تک تیار ہو چکنے والے بجرے میں سوار کر دیا گیا اور اس کے قدموں میں سونے کا اتنا برادہ ڈھیر کیا گیا کہ وہ اس میں گھٹنوں تک ڈوب گیا، اس کی پہنچ میں زمرد کی ایک ڈھیری بھی لگائی گئی۔ بجرے میں وہ اکیلا نہ تھا بل کہ اس کے ساتھ قبیلے کے چار بزرگ ترین افراد بھی سوار تھے جن کے سروں پر سونے کے تاج، کلائیوں میں سونے کے کنگن، گلے میں جواہرات کے کنٹھے اور کانوں میں سونے کے بڑے بڑے آویزے تھے اور یہ سب بھی مستقبل کے مہا پجاری کی طرح بے لباس تھے، ہر ایک نے اپنے اپنے حصہ کے نذرانے تھام رکھے تھے۔
بجرہ دھیرے دھیرے ساحل سے رواں ہوا تو ساحل پر کھڑے تمام اہل قبیلہ یک سر خاموش ہو گئے۔ اس موقع پر انہیں بلند سانس بھی لینے کی اجازت نہ تھی۔ یہ ایک پرہول خاموشی تھی اتنی کہ سوئی بھی گر کر چھناکا پیدا کرتی، بجرے میں سوار مردانِِ پیر نے بھی ایسے پرچم بلند کر رکھے تھے جن پر خاموش رہنے کا اشارہ تھا۔ بجرہ چلتے چلتے کشادہ اور گہری مدور جھیل کے ایسے مقام پر پہنچ گیا جہاں سے اس کا فاصلہ ساحل سے ہر طرف یک ساں تھا یعنی عین مرکز میں۔
یہاں پہنچ کر سنہری آدمی ال۔ دورادو نے قدموں میں لگا سونے کا ڈھیر نیلے پانیوں میں گرا دیا اور اپنی دست رس میں رکھے زمرد کی ڈھیری بھی گوآتا ویتا دیوی کی نذر کرتے ہوے پانی میں پھینک دی۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے چاروں بزرگوں نے بھی اپنے اپنے قیمتی نذرانے نذر کیے اور پانی میں ڈال دیے۔ اس رسم کی ادائی کے بعد چاروں نے اپنے اپنے ہاتھوں میں تھامے خاموشی کے پھریرے جھکا دیے جو اس بات کی علامت تھی کہ تمام رسومات کام یابی سے ادا کی جا چکی ہیں یعنی اب نئے مہا پجاری کے نام کے نعرے بلند کیے جا سکتے ہیں۔ اس پر اہلِ قبیلہ نے نعرے بھی لگائے اور گوآتاویتا دیوی کی عظمت کے گیت گانا شروع کیے، سنکھ پھونکے گئے، بانسریاں بجائی گئیں اور رقص کا آغاز ہوا۔ اسی نشاطیہ شور و شغب میں بجرہ آہستہ آہستہ ساحل کی سمت سفر آغاز ہوا۔ جھیل کے وسط کی طرف ایک سنہرا آدمی گیا جو لوٹا تو اپنی دیوی اور دوسرے دیوتائوں کا چہیتا اوِیتار تھا۔
وقائع نگار کا بیان اس باب میں یہاں آ کر ختم ہوتا ہے لیکن اس سے براعظم کو کچھ اور پیغام پہنچا۔ یہ واقعات اس نے 1638 میں رقم کرکے گوآتاویتا کے گورنر کو بھیجے تھے۔ یہ گوآتاویتا، کولمبیا کے علاقے بوگوتا میں واقع ہے اور یقیناً اسی قبیلے یعنی میوئسکا کی دیوی کے نام سے موسوم ہے جہاں لیفٹیننٹ مارٹی اپنے بحری جہاز کی غرقابی کے بعد 1531 میں پہنچا تھا۔ یہ اسپین میں شاہ چارلس اول کا عہد تھا اور کولمبیا کے قریبی وینزوئلا میں اس کا ایجنٹ کلائین اور وینڈگ فروکش تھا۔
مذکورہ کہانی ہوتے ہوتے پورے براعظم یورپ میں پھیل گئی، پھر جیسا کہ ہوتی آئی ہے ایک منہ سے دوسرے منہ تک اور ایک کان سے اگلے کان تک پہنچتے پہنچتے کچھ کی کچھ بن جاتی ہے۔ ال۔دورادو ایک شخص تھا، جو پھیلتے پھیلتے ایک شہر بن گیا۔ ال۔دورادو ممکن ہے ہر سال ''سونا اوڑھنے'' کی رسم ادا کرتا رہا ہو یا عین ممکن ہے کہ اپنا مقدس منصب سنبھالنے کے لیے زندگی بھر میں ایک ہی بار سونے سے رنگا گیا ہو، اس کے نام کا شہر بہ ہرحال سونے کا بن گیا، جس کی کہانیاں آج بھی پڑھی، سنی اور سنائی جاتی ہیں۔
خیر بات جب پورے براعظم کے منہ پر آ گئی تو سونے کے مہم جو متلاشی جوق در جوق عازم امریکا ہوے جب کہ ان کے پہنچنے سے بہت پہلے ہسپانوی فاتحین (Conquistadores) نے میوئسکا قبیلے کے سونے کے ذخائر ان سے چھین چھان لیے۔ یہ سونا اور جواہرات اہل قبیلہ بیرونی دنیا کے ساتھ تجارت یعنی مال کے بدلے مال کی صورت میں حاصل کرکے جمع کیا کرتے تھے۔ ہسپانویوں نے قبیلے کے علاقے بھی اپنے قبضے میں لے لیے، معصوم قبائلی یا تو مارے گئے یا ہجرت کر گئے یا رعایا بنا لیے گئے۔ ان کا علاقہ، جو ان کی دیوی گوآتا ویتا کے نام پر ہے، آج بھی کولمبیا کے علاقے بوگوتا میں موجود ہے۔
1540 میں اِنکا (Inca) سلطنت کے ہسپانوی فاتح فرانسسکو پیزارو کے سوتیلے بھائی گونزالو پیزارو ایکویدور کے شمالی صوبے کوئٹو کا گورنر بنا کر بھیجا گیا۔ گونزالو نے وہاں کے باشندوں سے سنا کہ دور مشرق کی سمت ایک ایسی وادی ہے جو دارچینی اور سونے کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ یہ باتیں تواتر سے سننے کے بعد گونزالو کے دل میں قسمت آزمانے کی سمائی سو اس نے 340 سپاہی تیار کیے اور اپنے صوبے کے 4 ہزار افراد لیے اور 1541 میں سمتِ مشرق روانہ ہوا۔ اس کے ساتھ اس کا بھتیجا فرانسسکو دی اوریلانا بھی تھا۔
کام خاصا دشوار نکلا، رستے میں بھوک، پیاس، بیماریوں اور حملہ آوروں نے اس کے بہت سے ہم راہی مار دیے جس پر اس نے ایک مقام پر خود تو ہتھیار ڈال دیے البتہ اپنے بھتیجے کو مہم جاری رکھنے کا حکم دیا۔ اوریلانا کو کچھ ملایا نہیں البتہ چلتے چلتے اس نے ایمے زون کا علاقہ دریافت کر لیا۔ یہ لٹا پٹا لشکر جب اس علاقے میں پہنچا تو عورتوں کی ایک فوج نے ان پر حملہ کر دیا، اس پر اوریلانا نے انہیں ایمے زون کا نام دیا۔ یونانی دیومالا میں جنگ جُو عورتوں کی ایک قوم کا ذکر ہے جسے یونانی زبان میں ایمے زونی خواتین کا نام دیا جاتا ہے۔ اس علاقے میں بہنے والے دریا کا نام بھی ایمے زون پڑ گیا جو دنیا کا دوسرا سب سے طویل دریا تسلیم کیا جاتا ہے۔
اس مہم کی ناکامی کے بعد سولہویں صدی کے وسط میں وینزوئلا کے ساحل کورو سے ایک گروہ اور دوسرا بوگوتا سے ال۔دورادو کے گورنر کی سربراہی میں اس شہرِ زریں کی تلاش میں نکلا۔
سب سے اہم تحقیق اپنے وقت کے بہت بڑے عالم فاضل، محقق، فلسفی اور شاعر سروالٹر ریلی نے 1595 میں کی۔ انہوں نے دریافت کیا کہ ال۔دورادو نام کا ایک شہر جنوبی امریکا کی ریاست گیانا کے دریائے اوری نوکو سے دور دراز پاریمے نامی ایک بڑی جھیل کے کنارے واقع ہے۔ ال۔دورادو ایک عرصے تک اس تحقیق کے باعث برطانوی اور دوسرے یورپی نقشوں کی زینت بنز رہا تاہم بعد میں اٹھارہویں صدی کے اواخر میں ایک جرمن محقق الیگزاندر فان ہمبولٹ نے خود لاطینی امریکا کا سفر کیا اور ال۔دورادو کے وجود کا انکار کیا جس کے بعد یورپی نقشوں پر سے اس شہر ناموجود کو ہٹایا گیا۔ ادب و شعر کے علاوہ اس شہر پر درجن بھر فلمیں بھی بن چکی ہیں۔
یہ تو ثابت ہو گیا کہ اس شہر کا کوئی وجود نہیں ہے تاہم ال۔دورادو ایک استعارہ بن گیا۔ کسی ایسے مقام کا استعارہ، جہاں دولت حاصل کرنے کے مواقع سہل اور سریع ہوں۔ امریکا کی بہت سی ریاستوں کو ال۔دورادوکے نام سے پکارا جاتا ہے مثال کے طور پر کیلی فورنیا (الڈوریڈو کاؤنٹی) وغیرہ۔ ال۔دورادو آسمان سے گرا ہوا مقدس قیمتی پتھر (ہولی گریل) کا متبادل استعارہ بھی ہے کیوں کہ اس آسمانی پتھر کی تلاش پر بھی ادب تخلیق ہوا ہے۔ یہ آبِ حیات کے ا فسانوی چشمے کا متبادل بھی قرار پاتا ہے۔ بہ ہرحال ال۔ دورادو پر مغربی ادیبوں اور شاعروں نے طبع آزمائی کی اور اعلیٰ ادب تخلیق کیا۔
معروف فرانسیسی ادیب والٹیئر کا شہرہ آفاق ناول کینڈائڈ (Candide) ہے۔ اس ناول کا ایک اچھا ترجمہ اردو زبان میں ''امید پرست'' کے نام سے ہو چکا ہے جو اب کم یاب ہے۔ اس پر ایڈگرایلن پوکی نظم ''ال۔دورادو'' بھی خاصے کی چیز ہے۔ اس کے علاوہ (The Loss of El dorado) کے نام سے نوبل انعام یافتہ ادیب و مورخ وی ایس نئی پال نے بھی ایک کتاؓب لکھی ہے تاہم یہ وینزویلا اور ٹرینی ڈاڈ کے حوالے سے اسپینی اور برطانوی نو آبادیاتی رقابت کی تاریخ پر مبنی ہے۔
ال۔دورادو کو انگریزوں نے الڈوریڈو کا تلفظ دے رکھا ہے۔ ہر چند یہ ایک شہر لاحاصل تھا لیکن اس نے اہل مغرب کو اپنے عشق میں مبتلا کیے رکھا ہے۔ میوئسکا قبیلے کی زریں رسم کی یاد میں کولمبیا کے عجائب خانے نے خاصا اہتمام کیا ہے۔ کولمبیا کے دارالحکومت بوگوتا کے عجائب گھر میں ایک کمرہ مختص کیا گیا ہے جس میں ایک بلوریں صندوق میں پانی کے اندر اس بجرے کو تیرتے دکھایا گیا ہے جس پر ال۔دورادو گوآتا ویتا دیوی کے حضور قربانیاں پیش کرتا ہے۔ یہ بجرہ لگ بھگ آٹھ انچ لمبا، چار انچ چوڑا اور چار انچ اونچا ہے۔ اس پر ال دورادو اور اس کے ہم راہی چار دوسرے افراد کے مجسمے بھی ہیں۔ جو سونے اور تانبے کے اختلاط سے بنائے گئے ہیں۔