آج بھی سوچتا ہوں کہ وہ شخص کون تھا

ایک چرواہے کا نسخہ عارف شفیق کو لاعلاج مرض سے نجات دلاگیا معروف شاعر اور صحافی کی حیرت بیتی ۔

زندگی کو سڑک کے کنارے، فٹ پاتھ پر بیٹھ کر سمجھنے اور برتنے والے عارف شفیق نے شاعری کے میدان میں خوب نام کمایا۔ فوٹو : فائل

زندگی کو سڑک کے کنارے، فٹ پاتھ پر بیٹھ کر سمجھنے اور برتنے والے عارف شفیق نے شاعری کے میدان میں خوب نام کمایا۔

کوچۂ صحافت میں وقت گزارا اور بے خوف ہو کر اپنے افکار و خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے ناقابل فراموش واقعات ہم سے شیئر کیے، جو آپ کی نذر ہیں۔

1964میں عارف شفیق کے ذہن کے پردے پر دو ایسے سوالات نمودار ہوئے، جنھیں وہ نظر انداز نہیں کر سکے اور آج بھی ان سے جواب کا تقاضا کرتے ہیں۔

عارف شفیق کو الجھن میں ڈالتے ان سوالات سے متعلق وہ کہتے ہیں:
ان دنوں مادرِ ملت فاطمہ جناح اور ایوب خان کے درمیان انتخابی معرکہ ہونے کو تھا۔ لیاقت آباد نمبر دس سے متصل شریف آباد اُس وقت آباد ہو رہا تھا اور زیادہ تر سنسان رہتا تھا۔ سیاسی میدان گرم تھا اور اس کے اثرات عوام پر دیکھے جا سکتے تھے۔ عوام میں ایک طرف محترمہ فاطمہ جناح کی بھرپور حمایت جاری تھی اور دوسری جانب ایوب خان کے حامیوں کا شور تھا۔

یہ معامہ صرف ان شخصیات کے حق میں نعروں اور ریلیوں تک محدود نہیں رہا، بلکہ اس میں تشدد کا عنصر بھی شامل ہو چکا تھا۔ فاطمہ جناح کے حامیوں پر مخالفین کے حملے بڑھ رہے تھے۔ روز کوئی افسوس ناک واقعہ پیش آتا اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔

زن واقعات نے میرے ذہن پر بھی اثرات مرتب کیے اور ایک روز اپنے والد صاحب کے ساتھ ان کی گاڑی میں سفر کے دوران میں نے شدید خوف محسوس کیا۔ دراصل والد صاحب محترمہ فاطمہ جناح کی سرپرستی میں نکلنے والے ادبی پرچے ''خاتون پاکستان'' کے مدیر تھے اور ان کی گاڑی کے پیچھے ''خاتون پاکستان'' لکھا تھا۔ مجھے اس بات کا خوف تھا کہ کہیں ہم مادر ملت کے مخالفین کی نظر میں نہ آجائیں۔ ہماری طرف ان دنوں حملہ آوروں سے اہلِ علاقہ کو خبردار کرنے کے لیے رات کے وقت کھمبے بجائے جاتے تھے۔

مقامی لوگ متوقع حملے کا جواب دینے کے لیے پتھر جمع کر کے رات کے وقت چھتوں پر جاگتے تھے۔ میں بھی اپنے بڑے بھائی کے ساتھ پتھر چُنتا اور گھر لے جاتا۔ رات ہوتی تو ہم چھت پر ان کا ڈھیر لگا کر بیٹھ جاتے تھے کہ ضرورت پڑنے پر پتھروں سے حملہ آوروں کو جواب دیں گے۔ اس دوران میرے ذہن نے دو سوالوں کو جنم دیا، جو مجھے اب بھی پریشان کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ حملہ آوروں کے پاس بندوقیں ہیں، ان کا مقابلہ ہم ان پتھروں سے کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ مجھے نہایت عجیب لگتا، بلکہ ایک احمقانہ کوشش معلوم ہوتی تھی۔

دوسری بات یہ تھی کہ ہم نے اپنے ماں باپ اور بزرگوں سے ہندوؤں کا مسلمانوں پر حملہ آور ہونا تو سنا تھا اور یہ بھی کہ ہندوؤں کو جواب دینے کے لیے مسلمان ایک ہوجاتے تھے، لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ تھا۔ مسلمان ہی مسلمان پر حملہ کر رہا تھا اور یہ بات مجھے حیرت میں ڈالتی اور پریشان رکھتی تھی۔ میں سوچتا تھا کہ یہ کیسے مسلمان ہیں جو اپنے ہی بھائی پر حملہ کر رہے ہیں۔ یہ وہ دو سوال ہیں جنھوں نے آج بھی میرا احاطہ کر رکھا ہے۔

عارف شفیق نے اپنی والدہ سے متعلق ایک تکلیف دہ یاد کے خوب صورت احساس میں تبدیل ہونے کا ذکر کچھ اس طرح کیا:

'' میرا بڑا بھائی خاصا تشدد پسند تھا، وہ مجھے مارتا پیٹتا تھا، لیکن میری والدہ اسے کچھ نہیں کہتی تھیں۔ اس وجہ سے میں یہ سمجھنے لگا تھا کہ انھیں بڑے بھائی سے زیادہ محبت ہے اور میرے لیے ان کے دل میں کوئی جگہ نہیں۔ بڑا بھائی مجھے مارتا تو والدہ مجھے بچاتی بھی نہیں تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ میں زیادہ تر گھر سے باہر رہنے لگا تھا۔ اس دوران اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے کبھی الیکٹریشن، پلمبر اور مستری بنا اور کبھی کام نہ ملا تو بھوکا بھی رہا۔ شریف آباد کی ایک مسجد کے برابر میں دودھ دہی کا کیبن تھا، جس پر ایک خوش شکل شخص بیٹھتا تھا، جو ہری چادر اوڑھے رکھتا تھا۔

میں اکثر وہاں سے گزرتا تھا اور وہ مجھے پہچاننے لگا تھا۔ اس کی دکان پر 'بن' بھی ہوتا تھا، جو میری بھوک مٹا سکتا تھا۔ ایک روز میں بھوک سے نڈھال تھا اور کیبن کے سامنے کھڑا ہو کر للچائی ہوئی نظروں سے بن کو دیکھ رہا تھا۔ دکان دار نے مجھے اس طرح کھڑا دیکھا تو آواز دے کر بلا لیا اور پوچھا کہ کیا بات ہے۔ میں نے اسے اپنے بھوکے ہونے کا بتایا۔ وہ کہنے لگا کہ تم میری دکان سے ادھار پر اشیاء لے سکتے ہو۔ جب رقم آئے تو لوٹا دیا کرنا۔ اب میں اس سے دہی کے ساتھ دو بن ادھار پر لے کر بھوک مٹانے لگا اور جب پیسے آتے، ادھار چکا دیتا تھا۔


ایک روز اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں کہاں رہتا ہوں۔ میں نے اسے اپنا گھر دکھایا تو وہ بہت حیران ہوا۔ غالباً ہمارے گھر کو دیکھ کر اس نے اندازہ کر لیا تھا کہ میں ایک خوش حال فیملی سے تعلق رکھتا ہوں۔ ایک روز تجسس نے اسے میرے بارے میں مزید جاننے پر اکسایا اور وہ پوچھ بیٹھا کہ آخر میرا مسئلہ کیا ہے۔ میں نے بچوں کی طرح اپنی کہانی اسے سنا ڈالی۔ میں نے اسے بتایا کہ گھر میں بھائی کی مار سہتا ہوں اور میری والدہ اس کی حمایت کرتی ہیں۔

میں نے یہ بھی بتایا کہ میں پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہوں، لیکن میری والدہ کا کہنا ہے کہ خدا تمھاری عبادت قبول نہیں کرے گا، کیوں کہ میں تم سے ناراض ہوں۔ میری بات سن کر اس نے مجھے کئی نصیحتیں کیں اور نماز جاری رکھنے کی تلقین کی۔ اس نے کہا کہ خدا کے لیے سب برابر ہیں، سب کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ تم نماز پڑھنا مت چھوڑو۔ ہر مسئلہ حل ہو جائے گا۔

اس دکان دار نے عارف شفیق کو روحانیت کا درس دیا اور یہی نہیں بلکہ ماں کی عظمت اور اولاد سے اس کی محبت پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ان کی سوچ میں مثبت تبدیلی لانے کی کوشش بھی کی، لیکن اس وقت ان باتوں کا عارف شفیق پر کوئی خاص اثر نہ ہوا۔ تاہم ایک روز کان میں پڑنے والا والدہ کا ایک جملہ ان کے خیالات میں تبدیلی لے آیا!

وہ بتاتے ہیں، دکان دار نے کہا تھا کہ ماں تم سے نفرت نہیں کرتی، کیوں کہ خدا نے ماؤں میں یہ جذبہ ہی نہیں رکھا، لیکن مجھے اس بات پر یقین نہ تھا۔ تاہم ایک دن مجھے خوش گوار حیرت کا سامنا کرنا پڑا۔ میں چھت پر سوتا تھا اور ایک روز جب میں بیدار ہونے کے بعد سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا تو چھوٹے بھائی تسنیم شفیق کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی جو والدہ سے پوچھ رہا تھا:'' یہ زردہ جو پلیٹ میں رکھا ہے، کیا میں کھا لوں۔۔۔؟''

میری والدہ نے اسے جواب دیا۔

''اسے ہاتھ نہ لگانا، یہ میں نے عارف کے لیے رکھا ہے، اسے بہت پسند ہے!''

ان کے لہجے میں میرے لیے محبت تھی۔ یہ وہ جملہ تھا جس نے مجھے خوشی اور مسرت سے بھر دیا۔ اس روز میں نے جانا کہ دکان دار کی بات سو فی صد درست تھی۔ میں اس سے ملنے گیا، تاکہ اس کے سامنے تسلیم کروں کہ اس کی بات ٹھیک تھی، ماں نفرت نہیں کرتی۔

لیکن کیبن بند تھا۔ مجھے یاد آیا کہ اس نے آخری ملاقات میں پاکستان میں اپنے افغانستان جانے کا ذکر کیا تھا۔ آج بھی مجھے اس کا چہرہ یاد ہے۔ اس کی نصیحت اور اس کے خیالات مجھے کبھی نہیں بھولیں گے۔

عارف شفیق نے ایک حیران کُن اور ناقابلِ یقین واقعے کی یاد تازہ کرتے ہوئے بتایا، میرا ایک دوست زعیم جعفری اور میں ایک زمانے میں ''ٹی بی گلینڈ'' کے مرض میں مبتلا ہو گئے تھے۔ میں زیادہ تر گھر سے باہر رہنے لگا اور ان دنوں شریف آباد میں ایک جھونپڑی نما چائے کا ہوٹل میرا ٹھکانا بن گیا۔

والد صاحب کو میری بیماری کا علم ہوا تو مجھے علاج کی غرض سے جناح اسپتال لے گئے۔ وہاں ڈاکٹر نیر عزیز مسعودی نے میرا علاج شروع کیا اور چھے ماہ کا کورس تجویز کرتے ہوئے ایک دوا بذریعہ انجکشن میرے جسم میں داخل کر دی گئی، لیکن طبی وجوہ کی بناء پر اس کا 'ری ایکشن' ہو گیا۔ میرے معالج پریشان ہو گئے۔ تمام ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ یہ واحد دوا تھی جو اس مرض سے نجات دلا سکتی تھی، لیکن مریض کو چوں کہ 'ری ایکشن' ہو رہا ہے، اس لیے اسے مزید جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ میرے والد صاحب اس تمام صورت حال میں پریشان اور بہت مایوس نظر آئے۔

میں حضرت علیؓ کا عقیدت مند اور ان سے محبت رکھنے والا شخص ہوں۔ اُس موقعے پر میں نے یہ کہا کہ 'مولا سب ٹھیک کر دے گا!' اس کے بعد میں مطمئن ہو گیا اور خود کو زندگی میں گُم کر لیا۔ میرے دوست زعیم جعفری اسپتال میں زیر علاج رہے اور دو سال بعد اسی بیماری میں ان کا انتقال ہو گیا۔ میں بتا چکا ہوں کہ اس بیماری کی وجہ سے گھر سے بالکل دور ہو گیا تھا اور اس چائے کے ہوٹل پر رہتا تھا۔ ایک روز وہاں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک چرواہا میرے برابر آکر بیٹھ گیا۔ سامنے ہی اس کی بکریاں چرنے میں مصروف تھیں۔ چرواہے نے مجھے دیکھا اور مسکراتے ہوئے کھانا کھانے کی دعوت دی۔ میں نے بہانہ کیا کہ میرا پیٹ بھرا ہوا ہے، لیکن اس نے پورے وثوق سے کہا: مجھے معلوم ہے، تم اس وقت بھوکے ہو۔

مجھے اس کی بات پر شدید حیرت ہوئی اور اسی دوران اس نے زبردستی روٹی کا ایک ٹکڑا میرے ہاتھ میں تھما دیا اور یوں اس کے ساتھ مجھے بھی کھانے میں شریک ہونا پڑا۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد جب وہ جانے لگا تو ایک مرتبہ پھر مجھ سے مخاطب ہوا اور بولا: کیکڑے کا سوپ پیو، ٹھیک ہو جاؤ گے! میں نے اس کی بات پر عمل کیا اور حیرت انگیز طور پر پندرہ دن بعد میں ٹھیک ہو گیا۔ اس کے بعد میں اپنے معالج کے پاس دوبارہ گیا اور اپنا چیک اپ کروایا تو معلوم ہوا کہ میری بیماری دور ہو گئی ہے۔

میں آج بھی سوچتا ہوں کہ وہ شخص کون تھا، اسے کیسے معلوم ہو گیا کہ میں اس وقت بھوکا تھا اور پھر اس کا پراسرار انداز اور میری بیماری کا علاج بتانا، یہ سب میرے لیے ایک معما ہے۔
Load Next Story