پولیو ایک وائرس یا عذاب

رواں سال سب سے زیادہ پولیو کیسوں کی تصدیق قبائلی علاقوں میں کی گئی جہاں 130 بچے پولیو وائرس کا شکار ہوئے

رواں سال سب سے زیادہ پولیو کیسوں کی تصدیق قبائلی علاقوں میں کی گئی جہاں 130 بچے پولیو وائرس کا شکار ہوئے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
پاکستان میں پولیو کے مرض کی بڑھتی ہوئی شدت فہمیدہ حلقوں کے لیے نہایت تشویش ناک ہے، پاکستان پولیو کیسز میں سرفہرست آچکا ہے۔ بدھ کو وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی صدارت میں انسداد پولیو کی اسٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے بھی شرکت کی۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ پولیو کا خاتمہ قومی ذمے داری ہے، پولیو کے خلاف لڑائی ہم نے ہر حال میں جیتنی ہے، یہ ایک بڑا چیلنج ہے، پاکستان کا ہر بچہ عزیز ہے، کسی کو معذور نہیں دیکھ سکتا، وزرائے اعلیٰ اور تمام فریقوں کی اس اجلاس میں موجودگی پولیو کے خاتمے کے لیے عزم کی عکاس ہے، وزرائے اعلیٰ پولیو کے خاتمے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کریں۔

وزیراعظم میاں نواز شریف نے پولیو کے خاتمے کے لیے کابینہ کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا جو دفاع، داخلہ اور صحت کے وزرا پر مشتمل ہوگی، یہ کمیٹی 15روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی ۔ پولیو کے حوالے سے گزشتہ دنوں انسداد پولیو کے عالمی ادارے کے خودمختار مانیٹرنگ بورڈ (آئی بی ایم) جو مختلف ممالک میں انسداد پولیو مہم کی کارکردگی سے متعلق رپورٹیں جاری کرتی ہے ، نے پاکستان سے متعلق اپنی رپورٹ پیش کی تھی جس میں ظاہر کیا گیا تھا کہ دنیا بھر میں اس سال پولیو کے 80 فیصد کیسز کا تعلق پاکستان سے نکلا ہے ۔

واضح رہے کہ پاکستان سے بیرون ملک سفر کرنے پر پولیو ویکسی نیشن کا مصدقہ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی سفارش بھی آئی بی ایم کی طرف سے پیش کی گئی تھی۔ پاکستان میں پولیو کیسز کا ایک نقصان یہ بھی ہوا ہے کہ اب بیرون ملک جانے والے تمام مسافروں کو خواہ ان کی عمر کتنی ہی ہو ایئرپورٹ پر پولیو قطرے پی کر تصدیقی سرٹیفکیٹ حاصل کرنا پڑتا ہے، ورنہ انھیں روانگی کی اجازت نہیں ملتی۔ پولیو کے خاتمے کے لیے حکومت پاکستان اپنی مقدور بھر کوششیں کر رہی ہے، عالمی برادری کو اس حوالے سے پاکستان کا ساتھ دینا چاہیے ۔


یہ حقائق چشم کشا ہیں کہ رواں سال کے دوران ملک بھر میں پولیو وائرس کا شکار ہونے والے بچوں کی مجموعی تعداد 220 ہوچکی ہے، سب سے زیادہ پولیو کیسوں کی تصدیق قبائلی علاقوں میں کی گئی جہاں 130 بچے پولیو وائرس کا شکار ہوگئے جب کہ خیبرپختونخوا، سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں بھی متعدد کیس رپورٹ ہوئے ہیں ۔ پاکستان اس وقت دنیا کے ان تین ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو ایک وبا کی صورت میں موجود ہے اور یہاں اس مہلک بیماری پر قابو نہ پائے جانے کی بڑی وجہ قبائلی علاقوں میں خصوصاً اور شہری علاقوں میں بھی بعض مسلکی بنیادوں پر انسداد پولیو مہم کی مخالفت اور انسداد پولیو کی ٹیموں پر دہشت گردوں کے حملے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے اپنی بریفنگ میں یہ بھی کہا کہ دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں انسداد پولیو مہم نہایت مشکل حالات میں جاری ہے ۔

انھوں نے پولیو ورکرز کو خراج تحسین بھی پیش کیا جو مشکل حالات میں بھی اپنے فرائض بخوبی نبھا رہے ہیں ۔ وزیراعظم نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ انشاء اﷲ ہم بہت جلد پاکستان کو پولیو سے پاک ملک بنائیں گے ۔ پولیو کے خلاف اس جنگ میں پاکستان کے دوست ممالک بھی اس کے ساتھ ہیں ، جاپانی سفیر نے وزیراعظم پاکستان کو پولیو کے خاتمے کے لیے جاپان کی جانب سے 55 کروڑ روپے فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے جب کہ اس سلسلے میں بل گیٹس فاؤنڈیشن پاکستان کو 37 ارب روپے دے گی۔ یقیناً یہ بڑی رقم انسداد پولیو مہم کو زیادہ موثر انداز سے جاری رکھنے میں معاون ثابت ہوگی لیکن انسداد پولیو مہم کو مزید فعال اور پولیو ورکرز کی حفاظت کو یقینی بنانا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ یہاں یہ المیہ بھی قابل ذکر ہے کہ وطن عزیز میں 64 پولیو ورکرز ہلاک اور 47 کو شدید زخمی کیا جا چکا ہے۔

دنیا بھر میں ایسی اور کوئی مثال نہیں۔ پولیو بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ جیسی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔ دشمنان پاکستان ملک کے مستقبل کو معذور کرنے کے درپے ہیں اور اپنی مذمومانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ، حکومت پاکستان کو نہ صرف پولیو وائرس بلکہ ان بیمار اذہان سے بھی جنگ لڑنی ہے جو انسداد پولیو مہم میں رکاوٹ ہیں۔ اس حوالے سے پولیو کے خلاف عوامی شعور کی بیداری کے لیے آگاہی مہم چلانے کی بھی ضرورت ہے، خاص کر قبائلی علاقوں میں جہاں پولیو کا مرض شدت اختیار کرچکا ہے اور لوگوں میں پولیو ویکسی نیشن کے خلاف ایک مخصوص طبقہ اپنے مریضانہ افکار کے پرچار میں مصروف عمل ہے۔

یہ بات قابل تحسین ہے کہ جنوبی وزیرستان ایجنسی میں وانا میں احمد زئی وزیر قبیلے کے جرگے نے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کا عزم ظاہر کیا ہے، دیگر قبائل کو بھی اس کی تقلید کرنی چاہیے اور قبائل کے بڑوں کو انسداد پولیو مہم میں شمولیت کا اعلان کرنے اور بچوں کو پولیو قطرے پلانے کی طرف راغب کرنا چاہیے، تاکہ انسداد پولیو مہم کامیابی سے ہمکنار ہوسکے۔ وزیراعظم کا پولیو مرض کے خلاف اعلان جنگ قابل مستحسن ہے، حکومت پاکستان کو اس حوالے سے ایک مربوط حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے تاکہ وطن عزیز سے اس مہلک مرض کا خاتمہ ہوسکے اور ملک دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوسکے۔
Load Next Story