دہشت گردی تدارک کیوں نہ ہو سکا
خودکش بمباروں کے ذریعے پھیلائی دہشت اور تباہی پاکستان کے لیے کوئی انوکھی بات نہیں رہی
فرانزفینن ایک سیاہ فام دانشور تھا۔ نسبتاً خوش حال گھرانے سے تعلق کی بنا پر افریقہ سے فرانس آکر نفسیات کی اعلیٰ ڈگریاں لینے کے قابل ہوا اور بہت زیادہ علم حاصل کرنے کے بعد ایک انتہائی کامیاب نفسیاتی معالج کے طورپر مشہور بھی ہوگیا۔ قطعی پیشہ ورانہ انداز میں اپنے سیاہ فام لوگوں کا علاج کرتے ہوئے اس نے بالآخر دریافت کیا کہ اس کی قوم کے تمام نفسیاتی مسائل کی وجہ سامراج کا مسلط کردہ نوآبادیاتی نظام ہے۔
نت نئی ایجادات کی بدولت سرمایہ دارانہ نظام کی کمال تک پہنچنے کے بعد برطانیہ، فرانس اور ہالینڈ جیسے یورپی ممالک کو بے تحاشہ صارفین کی ضرورت محسوس ہوئی اور ساتھ ہی ایسے مزدوروں کا انبوہ جو سستی اجرت لے کر تقریباً غلاموں کی طرح ان کے لیے صنعتی اور زرعی مصنوعات پیدا کرتے رہیں۔ یورپ سے باہر نکل کر سامراجیوں نے ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکا میں نوآبادیوں کی تلاش شروع کردی۔
وجوہات سامراجی قبضوں کی صرف اور صرف معاشی رہیں مگر اپنے ضمیر کو تسلی دینے کے لیے گوروں نے جواز یہ گھڑے کہ وہ ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکا کے ''افتادگانِ خاک'' کو پڑھا لکھا کر ''مہذب'' بنا رہے ہیں۔ محکوم لوگوں کو ''مہذب'' بنانے کے عمل نے مگر نوآبادیاتی ملکوں میں بتدریج ایک ایسی مخلوق تیار کی ''جس کی جلد تو کالی تھی مگر وہ خود کو گوروں جیسا بنانے کے خبط میں مبتلا ہوکر'' لاعلاج ذہنی مریض بن گئے۔ یہ سب حقائق دریافت کرنے کے بعد فینن نے خود کو سامراجی نظام کے خلاف جنگ کے لیے وقف کردیا۔
فی الوقت فینن کے علمی اور سیاسی کام سے زیادہ مجھے وہ دُعا یاد آرہی ہے جس کے ذریعے وہ ہمیشہ یہ فریاد کرتا رہتا کہ اس کا ذہن آنکھوں کو دِکھنے والی حقیقتوں کے بارے میں ہمیشہ سوال کرتا رہے۔ سوال ہی کرنے کی عادت کو فروغ دینے کے لیے سقراط اپنے شاگردوں کو اپنے افکار سے لدے بھاشن نہیں دیا کرتا تھا۔ ان کے ساتھ مکالمہ کرتا اور بجائے اپنی کوئی حتمی رائے دینے کے مسلسل سوالات کیے جاتا۔
چند دنوں سے لیکن میں اس خوف میں مبتلا ہوچکا ہوں کہ بحیثیتِ قوم ہم سوال کرنے کی عادت سے محروم ہوچکے ہیں۔ ٹھوس حقائق پر نگاہ ڈال کر ان کی وجوہات اور نتائج کو دریافت کرنے کا ٹھیکہ ہم نے دین کے نام پر سیاست کرنے والوں کو بہت برسوں سے دے رکھا تھا۔ پھر آگئے، کالم نگار اور عقل کل اینکر پرسنز۔ ان کی تحریریں پڑھیں یا ٹاک شوز دیکھیں تو یہ کالم نگار اور عقل کل اینکر حضرات ہر موقع کی غزل منہ زبانی یاد رکھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ گنجلک ترین معاملہ ان کے سامنے رکھ دیجیے۔ کمال رعونت اور تفخر کے ساتھ وہ آسان ترین الفاظ میں اس کی تفہیم آپ کو فی الفور فراہم کردیں گے۔
خودکش بمباروں کے ذریعے پھیلائی دہشت اور تباہی پاکستان کے لیے کوئی انوکھی بات نہیں رہی۔ اتوار کی شام واہگہ بارڈر پر ایسا ہی ایک اور واقعہ ہوا۔ اس واقعہ کے چند ہی گھنٹوں کے بعد ایک نہیں تین تنظیموں نے اس کی ذمے داری بھی قبول کرلی۔ دعوے کرنے والوں کے مختصر بیانات کا سرسری نظر سے لیا جائزہ بھی لیکن اس تنظیم کے دعویٰ کو زیادہ سنجیدگی سے لے گا جس نے اپنے تئیں مبینہ خودکش کا نام بھی لے دیا اور یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ بہت جلد واہگہ بارڈر پر کی گئی واردات کی ویڈیو لوگوں کے سامنے پیش کردے گی۔
پیر کی شام اپنے گھر میں تنہاء بیٹھے ہوئے میں نے پورے خلوص سے اپنا ریموٹ اٹھایا اور اپنے ہمہ وقت مستعد ہونے کے دعوے دار اینکر حضرات کے ٹاک شوز کو دیکھنا شروع کردیا۔ ایک سی دوسری، وہاں سے تیسری اور پھر گھومتے گھماتے پہلی اسکرین پر واپسی ہوتی رہی۔ برسوں سے دہرائی باتوں کی تکرار کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ سب سے زیادہ اذیت البتہ ان مخصوص چہروں کی باتیں سن کر محسوس ہوئی جنھیں اینکر حضرات اس خیال سے بڑے اہتمام کے ساتھ مدعو کرتے ہیں کہ شاید کچھ سیکیورٹی اداروں کے لیے برسوں کام کرنے کے بعد وہ اپنے گرانقدر تجربات کی روشنی میں پاکستان کے بے خبر عوام کو کوئی نئی Insight فراہم کرسکیں گے۔
ان تمام حضرات نے مختلف اسکرینوں پر مگرایک ہی بات پر زور دیا اور وہ یہ کہ ''کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو'' دہشت گردی کا نشانہ نہیں بناسکتا۔ پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر بنی ایک یکتا ریاست ہے۔ اس کے وسائل بے شمار ہیں اور لوگ بہت ہی ذہین اور محب وطن۔ ان کی ذہانت اور حب الوطنی نے ہماری مملکت کو عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی قوت بھی بنا دیا۔ اس لیے بھارت جیسا ازلی دشمن تو رہا ایک طرف امریکا اور اسرائیل بھی 24 گھنٹے سر جوڑے اس کی تباہی کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ خود کش بمباری بھی ایسا ہی ایک منصوبہ ہے۔
فرض کرلیں ان حضرات کی پھیلائی داستان قطعی درست ہے تو سوال یہ بھی اٹھانا چاہیے کہ اتنے برسوں سے اپنے دشمنوں کے بنائے منصوبوں کی تمام تر تفاصیل کو پوری طرح جان لینے کے باوجود ہم ابھی تک ان کے تدارک کا کوئی معقول بندوبست کیوں نہ کرسکے۔ یہ سوال کسی نے سنجیدگی سے اٹھانے کی مگر جرأت ہی نہ دکھائی۔ جواب کیسے ملتے۔
ایک اندوہناک واردات کے بعد برسوں پہلے بنائے مسلسل استعمال ہوتے فارمولے کے ذریعے اینکر حضرات نے ایک بار پھر قوم کو یہ افیون بیچ ڈالی کہ ''عظیم تر'' ہونے کی وجہ سے ہم دشمنوں کے مسلسل نشانے پر ہیں۔ چونکہ ''وڈھے لوگوں'' کے ساتھ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں لہذا صبر کیجیے اور داد دیجیے ''زندہ دلانِ لاہور'' کی اس فطری جرأت و بہادری کو جس کا مظاہرہ انھوں نے خود کش دھماکے کے عین ایک دن بعد بہت بھاری تعداد میں موقعہ واردات پر جمع ہوکر روایتی تقریب کے دوران پاکستان زندہ باد کے پرجوش نعرے بلند کرکے دیا۔
یقین مانیں اتوار کی رات سے میرا دل بہت اداس اور پریشان تھا۔ ایک سخت جان رپورٹر ہوتے ہوئے بھی اکثر اس خیال سے آنکھوں میں آنسو اُمڈ آتے کہ جانے کتنے بچے اور نوجوان کس چاؤ سے واہگہ بارڈر کی روایتی تقریب کو دیکھنے گئے ہوں گے اور بغیر کسی تقصیرکے ایک وحشی خودکش کا نشانہ بن کر اپنے پیاروں کو ناقابل تلافی دُکھ دے گئے۔ پیر کی شام بھگتے ''تجزیاتی پروگراموں'' کے بعد لیکن میرا ذہن مکمل طورپر ماؤف ہوگیا ہے۔ اپنی اجتماعی ڈھٹائی اور بے حسی سے خوفزدہ ہوکر مردہ ذہن ہوگیا ہوں۔ فینن کی طرح بار بار رسمِ دُعا یاد نہ رکھنے کے باوجود فریاد کناں ہوں کہ ربّ کریم ہمیں بس صحیح سوالات بروقت اٹھانے کی صلاحیت عطاء کردے۔
نت نئی ایجادات کی بدولت سرمایہ دارانہ نظام کی کمال تک پہنچنے کے بعد برطانیہ، فرانس اور ہالینڈ جیسے یورپی ممالک کو بے تحاشہ صارفین کی ضرورت محسوس ہوئی اور ساتھ ہی ایسے مزدوروں کا انبوہ جو سستی اجرت لے کر تقریباً غلاموں کی طرح ان کے لیے صنعتی اور زرعی مصنوعات پیدا کرتے رہیں۔ یورپ سے باہر نکل کر سامراجیوں نے ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکا میں نوآبادیوں کی تلاش شروع کردی۔
وجوہات سامراجی قبضوں کی صرف اور صرف معاشی رہیں مگر اپنے ضمیر کو تسلی دینے کے لیے گوروں نے جواز یہ گھڑے کہ وہ ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکا کے ''افتادگانِ خاک'' کو پڑھا لکھا کر ''مہذب'' بنا رہے ہیں۔ محکوم لوگوں کو ''مہذب'' بنانے کے عمل نے مگر نوآبادیاتی ملکوں میں بتدریج ایک ایسی مخلوق تیار کی ''جس کی جلد تو کالی تھی مگر وہ خود کو گوروں جیسا بنانے کے خبط میں مبتلا ہوکر'' لاعلاج ذہنی مریض بن گئے۔ یہ سب حقائق دریافت کرنے کے بعد فینن نے خود کو سامراجی نظام کے خلاف جنگ کے لیے وقف کردیا۔
فی الوقت فینن کے علمی اور سیاسی کام سے زیادہ مجھے وہ دُعا یاد آرہی ہے جس کے ذریعے وہ ہمیشہ یہ فریاد کرتا رہتا کہ اس کا ذہن آنکھوں کو دِکھنے والی حقیقتوں کے بارے میں ہمیشہ سوال کرتا رہے۔ سوال ہی کرنے کی عادت کو فروغ دینے کے لیے سقراط اپنے شاگردوں کو اپنے افکار سے لدے بھاشن نہیں دیا کرتا تھا۔ ان کے ساتھ مکالمہ کرتا اور بجائے اپنی کوئی حتمی رائے دینے کے مسلسل سوالات کیے جاتا۔
چند دنوں سے لیکن میں اس خوف میں مبتلا ہوچکا ہوں کہ بحیثیتِ قوم ہم سوال کرنے کی عادت سے محروم ہوچکے ہیں۔ ٹھوس حقائق پر نگاہ ڈال کر ان کی وجوہات اور نتائج کو دریافت کرنے کا ٹھیکہ ہم نے دین کے نام پر سیاست کرنے والوں کو بہت برسوں سے دے رکھا تھا۔ پھر آگئے، کالم نگار اور عقل کل اینکر پرسنز۔ ان کی تحریریں پڑھیں یا ٹاک شوز دیکھیں تو یہ کالم نگار اور عقل کل اینکر حضرات ہر موقع کی غزل منہ زبانی یاد رکھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ گنجلک ترین معاملہ ان کے سامنے رکھ دیجیے۔ کمال رعونت اور تفخر کے ساتھ وہ آسان ترین الفاظ میں اس کی تفہیم آپ کو فی الفور فراہم کردیں گے۔
خودکش بمباروں کے ذریعے پھیلائی دہشت اور تباہی پاکستان کے لیے کوئی انوکھی بات نہیں رہی۔ اتوار کی شام واہگہ بارڈر پر ایسا ہی ایک اور واقعہ ہوا۔ اس واقعہ کے چند ہی گھنٹوں کے بعد ایک نہیں تین تنظیموں نے اس کی ذمے داری بھی قبول کرلی۔ دعوے کرنے والوں کے مختصر بیانات کا سرسری نظر سے لیا جائزہ بھی لیکن اس تنظیم کے دعویٰ کو زیادہ سنجیدگی سے لے گا جس نے اپنے تئیں مبینہ خودکش کا نام بھی لے دیا اور یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ بہت جلد واہگہ بارڈر پر کی گئی واردات کی ویڈیو لوگوں کے سامنے پیش کردے گی۔
پیر کی شام اپنے گھر میں تنہاء بیٹھے ہوئے میں نے پورے خلوص سے اپنا ریموٹ اٹھایا اور اپنے ہمہ وقت مستعد ہونے کے دعوے دار اینکر حضرات کے ٹاک شوز کو دیکھنا شروع کردیا۔ ایک سی دوسری، وہاں سے تیسری اور پھر گھومتے گھماتے پہلی اسکرین پر واپسی ہوتی رہی۔ برسوں سے دہرائی باتوں کی تکرار کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ سب سے زیادہ اذیت البتہ ان مخصوص چہروں کی باتیں سن کر محسوس ہوئی جنھیں اینکر حضرات اس خیال سے بڑے اہتمام کے ساتھ مدعو کرتے ہیں کہ شاید کچھ سیکیورٹی اداروں کے لیے برسوں کام کرنے کے بعد وہ اپنے گرانقدر تجربات کی روشنی میں پاکستان کے بے خبر عوام کو کوئی نئی Insight فراہم کرسکیں گے۔
ان تمام حضرات نے مختلف اسکرینوں پر مگرایک ہی بات پر زور دیا اور وہ یہ کہ ''کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو'' دہشت گردی کا نشانہ نہیں بناسکتا۔ پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر بنی ایک یکتا ریاست ہے۔ اس کے وسائل بے شمار ہیں اور لوگ بہت ہی ذہین اور محب وطن۔ ان کی ذہانت اور حب الوطنی نے ہماری مملکت کو عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی قوت بھی بنا دیا۔ اس لیے بھارت جیسا ازلی دشمن تو رہا ایک طرف امریکا اور اسرائیل بھی 24 گھنٹے سر جوڑے اس کی تباہی کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ خود کش بمباری بھی ایسا ہی ایک منصوبہ ہے۔
فرض کرلیں ان حضرات کی پھیلائی داستان قطعی درست ہے تو سوال یہ بھی اٹھانا چاہیے کہ اتنے برسوں سے اپنے دشمنوں کے بنائے منصوبوں کی تمام تر تفاصیل کو پوری طرح جان لینے کے باوجود ہم ابھی تک ان کے تدارک کا کوئی معقول بندوبست کیوں نہ کرسکے۔ یہ سوال کسی نے سنجیدگی سے اٹھانے کی مگر جرأت ہی نہ دکھائی۔ جواب کیسے ملتے۔
ایک اندوہناک واردات کے بعد برسوں پہلے بنائے مسلسل استعمال ہوتے فارمولے کے ذریعے اینکر حضرات نے ایک بار پھر قوم کو یہ افیون بیچ ڈالی کہ ''عظیم تر'' ہونے کی وجہ سے ہم دشمنوں کے مسلسل نشانے پر ہیں۔ چونکہ ''وڈھے لوگوں'' کے ساتھ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں لہذا صبر کیجیے اور داد دیجیے ''زندہ دلانِ لاہور'' کی اس فطری جرأت و بہادری کو جس کا مظاہرہ انھوں نے خود کش دھماکے کے عین ایک دن بعد بہت بھاری تعداد میں موقعہ واردات پر جمع ہوکر روایتی تقریب کے دوران پاکستان زندہ باد کے پرجوش نعرے بلند کرکے دیا۔
یقین مانیں اتوار کی رات سے میرا دل بہت اداس اور پریشان تھا۔ ایک سخت جان رپورٹر ہوتے ہوئے بھی اکثر اس خیال سے آنکھوں میں آنسو اُمڈ آتے کہ جانے کتنے بچے اور نوجوان کس چاؤ سے واہگہ بارڈر کی روایتی تقریب کو دیکھنے گئے ہوں گے اور بغیر کسی تقصیرکے ایک وحشی خودکش کا نشانہ بن کر اپنے پیاروں کو ناقابل تلافی دُکھ دے گئے۔ پیر کی شام بھگتے ''تجزیاتی پروگراموں'' کے بعد لیکن میرا ذہن مکمل طورپر ماؤف ہوگیا ہے۔ اپنی اجتماعی ڈھٹائی اور بے حسی سے خوفزدہ ہوکر مردہ ذہن ہوگیا ہوں۔ فینن کی طرح بار بار رسمِ دُعا یاد نہ رکھنے کے باوجود فریاد کناں ہوں کہ ربّ کریم ہمیں بس صحیح سوالات بروقت اٹھانے کی صلاحیت عطاء کردے۔