متحدہ اپوزیشن کا دھرنا
عوام بجا طور پر حیران ہو رہے ہیں کہ آج اچانک متحدہ اپوزیشن کو مزدوروں پر ہونے والے مظالم آئی ایم ایف کی مسلط کردہ۔۔۔
SWAT:
29 اکتوبر کو اوجی ڈی سی ایل کے مزدوروں پر ہونے والے ظلم اور پولیس تشدد کے خلاف ''متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے واک آؤٹ بھی کیا اور اسمبلی کے سامنے دھرنا بھی دیا 30 اکتوبر کو بھی''متحدہ اپوزیشن'' کا احتجاج اور دھرنا جاری رہا ۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ مزدوروں پر ہونے والے ظلم برداشت نہیں کریں گے اور کسی قومی ادارے کی نجکاری نہیں ہونے دیں گے۔
پیپلز پارٹی کی ایک رہنما شازیہ مری نے حکومت کی پالیسیوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر حکومت نے اپنی عوام دشمن، مزدور دشمن پالیسیاں نہیں بدلیں تو جو لوگ آج اسمبلی میں بیٹھے ہیں وہ کل ہمارے دھرنے اور احتجاج میں شامل ہوجائیں گے۔ شازیہ مری اور نفیسہ شاہ نے وزیر داخلہ پر الزام لگایا کہ وہ مہینوں اسمبلی کے اجلاس سے غائب رہتے ہیں اور جب آتے ہیں تو آستینیں چڑھاتے ہوئے آتے ہیں پھر غائب ہوجاتے ہیں۔ متحدہ اپوزیشن کے معزز رہنماؤں نے وزیر داخلہ پر الزام لگایا اور وارننگ بھی دی کہ وہ اپنے حقوق مانگنے والے غریب مزدوروں پر تشدد کرانے سے باز آجائیں ورنہ انھیں اپنی عوام دشمن پالیسیوں کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اپنے احتجاج کے دوران متحدہ اپوزیشن کے رہنماؤں نے حکومت پر یہ الزام بھی لگایا کہ عمران اور قادری دو ماہ سے زیادہ عرصے سے دھرنا دیے بیٹھے رہے اس دوران وہ پارلیمنٹ ہاؤس وزیر اعظم ہاؤس اور ریڈیو پاکستان پر قبضے کی غیر آئینی غیر قانونی کوشش بھی کرتے رہے لیکن حکومت نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اب جب او جی ڈی سی ایل کے غریب مزدور اپنا حق مانگنے آئے ہیں تو ان پر ڈنڈے برسائے جا رہے ہیں ان کا خون بہایا جا رہا ہے ہم حکومت کی اس مزدور کش پالیسی کی مذمت کرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ایک محترم رہنما رضا ربانی اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے راجہ ظفر الحق کی اس وضاحت پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ اوجی ڈی سی ایل کے صرف 23 کارکنوں کو گرفتار کیا گیا اور ان پر درجن بھر سے زیادہ دفعات لگائی گئیں ۔
سب سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ رہنما جس اپوزیشن کو ''متحدہ اپوزیشن'' کہہ رہے ہیں وہ صرف تین جماعتوں پیپلز پارٹی اے این پی اور جماعت اسلامی پر مشتمل ہے جب کہ عمران اور قادری کے مطالبات کے خلاف پارلیمنٹ میں جو متحدہ اپوزیشن دھرنا دیے بیٹھی تھی اس میں 11 جماعتیں شامل تھیں اس حوالے سے دوسری وضاحت طلب بات یہ ہے کہ 14 اگست سے شروع ہونے والی عمران اور قادری کی تحریک پر حکومت خاموش نہیں بیٹھی تھی بلکہ صرف ماڈل ٹاؤن میں حکومتی گولیوں سے طاہر القادری کے 14 کارکن ہلاک اور نوے سے زیادہ زخمی ہوئے تھے اسلام آباد میں ریاستی جبر سے کئی لوگ جاں بحق اور زخمی ہوئے تھے۔
اخباری خبروں کے مطابق حکومت دھرنوں کے شرکا کے خلاف جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، آپریشن کے لیے تیار تھی لیکن تیسری طاقت کی مداخلت پر اسے اپنے مجوزہ آپریشن کو روکنا پڑا اس کے علاوہ تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے درجنوں کارکنوں کو ملک کے مختلف شہروں سے گرفتار کیا گیا ۔ پھر ''متحدہ اپوزیشن'' یہ کیسے کہہ رہی ہے کہ حکومت نے دھرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ؟
متحدہ اپوزیشن کے رہنماؤں کا ارشاد ہے کہ انھوں نے جمہوری اصولوں پر چلتے ہوئے عمران اور قادری کے مطالبوں کی مخالفت اور حکومت کی حمایت کی تھی لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم حکومت کی جابرانہ پالیسیوں کی حمایت کریں ۔ متحدہ اپوزیشن جس کی سربراہی غالباً پیپلز پارٹی کر رہی ہے اسے یاد ہونا چاہیے کہ مزدوروں پر یہ ظلم نہ پہلا ہے نہ اس کا ارتکاب صرف مسلم لیگ (ن) اکیلی کر رہی ہے مزدوروں پر ظلم تو ہر دور میں ہوا اور نجکاری بھی پچھلی کئی حکومتوں کی پالیسی رہی ہے، آئی ایم ایف پر آج متحدہ اپوزیشن جو الزام لگا رہی ہے کیا ان الزامات یا جرائم کا ارتکاب آئی ایم ایف نے پہلی بار کیا ہے یا یہ جرائم وہ پاکستان کے مختلف دور حکمرانی کے دوران جن میں پی پی کا دور حکومت بھی شامل ہے کرتی رہی ہے ؟
متحدہ اپوزیشن کی طرف سے مزدوروں کی حمایت اور حکومتی جابرانہ پالیسیوں اور آئی ایم ایف کی مذمت بلاشبہ قابل ستائش اقدام ہے لیکن عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ پاکستان کی معیشت پر آئی ایم ایف نے ابھی قبضہ کیا ہوا ہے اور آئی ایم ایف کی شرائط مان کر عوام کی جو کھال کھینچی جاتی رہی ہے، کیا یہ پہلا واقعہ ہے یا پاکستان کی تاریخ آئی ایم ایف کے ظلم اور جرائم سے اور حکومتوں کی ہمنوائی سے بھری ہوئی ہے؟ پاکستان کے عوام جس قیامت خیز مہنگائی، جس انسان کش بے روزگاری اور جس اعصاب شکن بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ سے دوچار ہیں یہ عذاب ان پر عشروں سے مسلط ہیں اور ہر حکومت ان عذابوں کے لیے آئی ایم ایف کی حصہ دار رہی ہے۔
عوام بجا طور پر حیران ہو رہے ہیں کہ آج اچانک متحدہ اپوزیشن کو مزدوروں پر ہونے والے مظالم آئی ایم ایف کی مسلط کردہ نجکاری کی پالیسیوں کا احساس کیوں ہو رہا ہے؟ بلاشبہ آئی ایم ایف امریکا اور اس کے مغربی حلیفوں کے استحصال کا سب سے بڑا ذریعہ بنی ہوئی ہے اور اس ملک کی عوام دوست سیاسی جماعتیں کسی مصلحت یا سیاسی مفادات اور سیاسی ضرورتوں کے تحت آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کے خلاف آواز نہیں اٹھاتی رہیں بلکہ اسے عوام کی سب سے بڑی استحصالی طاقت سمجھ کر ہمیشہ اس کے خلاف جنگ کرتی رہی ہیں اور حکمران طبقات اس کے زرخرید غلاموں کی طرح اس کے احکامات پر عملدرآمد کرتے رہے ہیں۔ لیکن بہ ایں ہمہ یہ بات بڑی خوش آیند ہے کہ متحدہ اپوزیشن کو مزدوروں پر ہونے والے مظالم کا احساس اور نجکاری اور اس کے پیسے کے استحصال کا ادراک ہوا ۔
یہ 1973-1972 کی بات ہے ایوب خان اور یحییٰ خان کے مظالم سے تنگ آئے ہوئے مزدور اس قدر طاقتور ہوگئے تھے کہ مالکان کو ان کی اجازت لے کر اپنے ملوں، کارخانوں میں آنا پڑتا تھا مالکان مزدوروں کی اس طاقت سے سخت خوفزدہ تھے اور حکومت کو مجبور کر رہے تھے کہ وہ ان باغی مزدوروں کے خلاف سخت آپریشن کرے اور حکومت نے جب یہ آپریشن کیا تو بے شمار مزدور حکومتی گولیوں سے شہید ہوئے اور ہزاروں مزدوروں اور مزدور رہنماؤں کو لمبی لمبی سزائیں دے کر جیلوں میں بند کردیا گیا کہ ملک سے ٹریڈ یونین اور مزدور تحریک ہی ختم ہوکر رہ گئی ۔
اس سے قبل ایوب خان اور یحییٰ خان نے اور اس کے بعد ضیا الحق نے بھی ایسی ہی داستانیں رقم کی تھیں ایوب خان ، یحییٰ خان اور ضیا الحق تو آمر تھے وہ یہی کرسکتے تھے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جمہوری حکومتوں نے مزدوروں پر جو ظلم کیے اور آج متحدہ اپوزیشن مزدوروں پر ہونے والے جن مظالم پر سرتا پا احتجاج بنی ہوئی ہے یہ مظالم جمہوری حکومتوں کے دوران ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں اور آج بھی ہو رہے ہیں ۔
متحدہ اپوزیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی حمایت اور مخالفت جمہوری اصولوں پر مبنی ہوتی ہے یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 14 اگست 2014 سے جو تحریک چل رہی ہے اس تحریک کے قائدین ملک سے جس 67 سالہ Status Quo کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں کیا یہ کوشش جمہوری اصولوں اور غلام بناکر 67 سال سے رکھے ہوئے عوام کے خلاف ہے یا ان کے حق میں ہے؟ جمہوریت عوامی مفادات سے مشروط ہوتی ہے کیا متحدہ اپوزیشن کے اکابرین خلوص نیت کے ساتھ اس تحریک کا جائزہ لے کر اس کی حمایت یا مخالفت پر کاربند ہیں؟
سوال صرف خلوص نیت اور عوام کی بھلائی اور ملک و قوم کے بہتر مستقبل کا ہے اگر 67 سالہ اسٹیٹس کو عوام کے مفادات کے مطابق ہے تو متحدہ اپوزیشن کو اسٹیٹس کو توڑنے کی کوشش کرنے والوں کی مخالفت کرنا چاہیے اگر یہ عوامی مفادات کے خلاف ہے تو اس کی بلا امتیاز حمایت کرنا چاہیے ۔ اس کے لیے جس اخلاقی جرأت کی ضرورت ہے کیا وہ حکومت کے اتحادیوں کے پاس ہے ؟
29 اکتوبر کو اوجی ڈی سی ایل کے مزدوروں پر ہونے والے ظلم اور پولیس تشدد کے خلاف ''متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے واک آؤٹ بھی کیا اور اسمبلی کے سامنے دھرنا بھی دیا 30 اکتوبر کو بھی''متحدہ اپوزیشن'' کا احتجاج اور دھرنا جاری رہا ۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ مزدوروں پر ہونے والے ظلم برداشت نہیں کریں گے اور کسی قومی ادارے کی نجکاری نہیں ہونے دیں گے۔
پیپلز پارٹی کی ایک رہنما شازیہ مری نے حکومت کی پالیسیوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر حکومت نے اپنی عوام دشمن، مزدور دشمن پالیسیاں نہیں بدلیں تو جو لوگ آج اسمبلی میں بیٹھے ہیں وہ کل ہمارے دھرنے اور احتجاج میں شامل ہوجائیں گے۔ شازیہ مری اور نفیسہ شاہ نے وزیر داخلہ پر الزام لگایا کہ وہ مہینوں اسمبلی کے اجلاس سے غائب رہتے ہیں اور جب آتے ہیں تو آستینیں چڑھاتے ہوئے آتے ہیں پھر غائب ہوجاتے ہیں۔ متحدہ اپوزیشن کے معزز رہنماؤں نے وزیر داخلہ پر الزام لگایا اور وارننگ بھی دی کہ وہ اپنے حقوق مانگنے والے غریب مزدوروں پر تشدد کرانے سے باز آجائیں ورنہ انھیں اپنی عوام دشمن پالیسیوں کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اپنے احتجاج کے دوران متحدہ اپوزیشن کے رہنماؤں نے حکومت پر یہ الزام بھی لگایا کہ عمران اور قادری دو ماہ سے زیادہ عرصے سے دھرنا دیے بیٹھے رہے اس دوران وہ پارلیمنٹ ہاؤس وزیر اعظم ہاؤس اور ریڈیو پاکستان پر قبضے کی غیر آئینی غیر قانونی کوشش بھی کرتے رہے لیکن حکومت نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اب جب او جی ڈی سی ایل کے غریب مزدور اپنا حق مانگنے آئے ہیں تو ان پر ڈنڈے برسائے جا رہے ہیں ان کا خون بہایا جا رہا ہے ہم حکومت کی اس مزدور کش پالیسی کی مذمت کرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ایک محترم رہنما رضا ربانی اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے راجہ ظفر الحق کی اس وضاحت پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ اوجی ڈی سی ایل کے صرف 23 کارکنوں کو گرفتار کیا گیا اور ان پر درجن بھر سے زیادہ دفعات لگائی گئیں ۔
سب سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ رہنما جس اپوزیشن کو ''متحدہ اپوزیشن'' کہہ رہے ہیں وہ صرف تین جماعتوں پیپلز پارٹی اے این پی اور جماعت اسلامی پر مشتمل ہے جب کہ عمران اور قادری کے مطالبات کے خلاف پارلیمنٹ میں جو متحدہ اپوزیشن دھرنا دیے بیٹھی تھی اس میں 11 جماعتیں شامل تھیں اس حوالے سے دوسری وضاحت طلب بات یہ ہے کہ 14 اگست سے شروع ہونے والی عمران اور قادری کی تحریک پر حکومت خاموش نہیں بیٹھی تھی بلکہ صرف ماڈل ٹاؤن میں حکومتی گولیوں سے طاہر القادری کے 14 کارکن ہلاک اور نوے سے زیادہ زخمی ہوئے تھے اسلام آباد میں ریاستی جبر سے کئی لوگ جاں بحق اور زخمی ہوئے تھے۔
اخباری خبروں کے مطابق حکومت دھرنوں کے شرکا کے خلاف جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، آپریشن کے لیے تیار تھی لیکن تیسری طاقت کی مداخلت پر اسے اپنے مجوزہ آپریشن کو روکنا پڑا اس کے علاوہ تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے درجنوں کارکنوں کو ملک کے مختلف شہروں سے گرفتار کیا گیا ۔ پھر ''متحدہ اپوزیشن'' یہ کیسے کہہ رہی ہے کہ حکومت نے دھرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ؟
متحدہ اپوزیشن کے رہنماؤں کا ارشاد ہے کہ انھوں نے جمہوری اصولوں پر چلتے ہوئے عمران اور قادری کے مطالبوں کی مخالفت اور حکومت کی حمایت کی تھی لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم حکومت کی جابرانہ پالیسیوں کی حمایت کریں ۔ متحدہ اپوزیشن جس کی سربراہی غالباً پیپلز پارٹی کر رہی ہے اسے یاد ہونا چاہیے کہ مزدوروں پر یہ ظلم نہ پہلا ہے نہ اس کا ارتکاب صرف مسلم لیگ (ن) اکیلی کر رہی ہے مزدوروں پر ظلم تو ہر دور میں ہوا اور نجکاری بھی پچھلی کئی حکومتوں کی پالیسی رہی ہے، آئی ایم ایف پر آج متحدہ اپوزیشن جو الزام لگا رہی ہے کیا ان الزامات یا جرائم کا ارتکاب آئی ایم ایف نے پہلی بار کیا ہے یا یہ جرائم وہ پاکستان کے مختلف دور حکمرانی کے دوران جن میں پی پی کا دور حکومت بھی شامل ہے کرتی رہی ہے ؟
متحدہ اپوزیشن کی طرف سے مزدوروں کی حمایت اور حکومتی جابرانہ پالیسیوں اور آئی ایم ایف کی مذمت بلاشبہ قابل ستائش اقدام ہے لیکن عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ پاکستان کی معیشت پر آئی ایم ایف نے ابھی قبضہ کیا ہوا ہے اور آئی ایم ایف کی شرائط مان کر عوام کی جو کھال کھینچی جاتی رہی ہے، کیا یہ پہلا واقعہ ہے یا پاکستان کی تاریخ آئی ایم ایف کے ظلم اور جرائم سے اور حکومتوں کی ہمنوائی سے بھری ہوئی ہے؟ پاکستان کے عوام جس قیامت خیز مہنگائی، جس انسان کش بے روزگاری اور جس اعصاب شکن بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ سے دوچار ہیں یہ عذاب ان پر عشروں سے مسلط ہیں اور ہر حکومت ان عذابوں کے لیے آئی ایم ایف کی حصہ دار رہی ہے۔
عوام بجا طور پر حیران ہو رہے ہیں کہ آج اچانک متحدہ اپوزیشن کو مزدوروں پر ہونے والے مظالم آئی ایم ایف کی مسلط کردہ نجکاری کی پالیسیوں کا احساس کیوں ہو رہا ہے؟ بلاشبہ آئی ایم ایف امریکا اور اس کے مغربی حلیفوں کے استحصال کا سب سے بڑا ذریعہ بنی ہوئی ہے اور اس ملک کی عوام دوست سیاسی جماعتیں کسی مصلحت یا سیاسی مفادات اور سیاسی ضرورتوں کے تحت آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کے خلاف آواز نہیں اٹھاتی رہیں بلکہ اسے عوام کی سب سے بڑی استحصالی طاقت سمجھ کر ہمیشہ اس کے خلاف جنگ کرتی رہی ہیں اور حکمران طبقات اس کے زرخرید غلاموں کی طرح اس کے احکامات پر عملدرآمد کرتے رہے ہیں۔ لیکن بہ ایں ہمہ یہ بات بڑی خوش آیند ہے کہ متحدہ اپوزیشن کو مزدوروں پر ہونے والے مظالم کا احساس اور نجکاری اور اس کے پیسے کے استحصال کا ادراک ہوا ۔
یہ 1973-1972 کی بات ہے ایوب خان اور یحییٰ خان کے مظالم سے تنگ آئے ہوئے مزدور اس قدر طاقتور ہوگئے تھے کہ مالکان کو ان کی اجازت لے کر اپنے ملوں، کارخانوں میں آنا پڑتا تھا مالکان مزدوروں کی اس طاقت سے سخت خوفزدہ تھے اور حکومت کو مجبور کر رہے تھے کہ وہ ان باغی مزدوروں کے خلاف سخت آپریشن کرے اور حکومت نے جب یہ آپریشن کیا تو بے شمار مزدور حکومتی گولیوں سے شہید ہوئے اور ہزاروں مزدوروں اور مزدور رہنماؤں کو لمبی لمبی سزائیں دے کر جیلوں میں بند کردیا گیا کہ ملک سے ٹریڈ یونین اور مزدور تحریک ہی ختم ہوکر رہ گئی ۔
اس سے قبل ایوب خان اور یحییٰ خان نے اور اس کے بعد ضیا الحق نے بھی ایسی ہی داستانیں رقم کی تھیں ایوب خان ، یحییٰ خان اور ضیا الحق تو آمر تھے وہ یہی کرسکتے تھے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جمہوری حکومتوں نے مزدوروں پر جو ظلم کیے اور آج متحدہ اپوزیشن مزدوروں پر ہونے والے جن مظالم پر سرتا پا احتجاج بنی ہوئی ہے یہ مظالم جمہوری حکومتوں کے دوران ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں اور آج بھی ہو رہے ہیں ۔
متحدہ اپوزیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی حمایت اور مخالفت جمہوری اصولوں پر مبنی ہوتی ہے یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 14 اگست 2014 سے جو تحریک چل رہی ہے اس تحریک کے قائدین ملک سے جس 67 سالہ Status Quo کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں کیا یہ کوشش جمہوری اصولوں اور غلام بناکر 67 سال سے رکھے ہوئے عوام کے خلاف ہے یا ان کے حق میں ہے؟ جمہوریت عوامی مفادات سے مشروط ہوتی ہے کیا متحدہ اپوزیشن کے اکابرین خلوص نیت کے ساتھ اس تحریک کا جائزہ لے کر اس کی حمایت یا مخالفت پر کاربند ہیں؟
سوال صرف خلوص نیت اور عوام کی بھلائی اور ملک و قوم کے بہتر مستقبل کا ہے اگر 67 سالہ اسٹیٹس کو عوام کے مفادات کے مطابق ہے تو متحدہ اپوزیشن کو اسٹیٹس کو توڑنے کی کوشش کرنے والوں کی مخالفت کرنا چاہیے اگر یہ عوامی مفادات کے خلاف ہے تو اس کی بلا امتیاز حمایت کرنا چاہیے ۔ اس کے لیے جس اخلاقی جرأت کی ضرورت ہے کیا وہ حکومت کے اتحادیوں کے پاس ہے ؟