تجلیاں
حشام احمد سید کے اس مجموعہ کلام میں ایک مخصوص طرز فکر اور جذبات و احساسات کی شاعری ہے
نعت اور غزل دونوں کا طرز اور اسلوب ایک جیسا ہے۔ دونوں میں احساسات اور کیفیات کو جمالیاتی لب و لہجہ میں پیش کیا جاتا ہے۔ دونوں میں تخیلات اور تفکرات دل اور جذبے سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔
بقول ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط یہاں ذہن کی کھڑکیاں دل کے صحن میں کھلتی ہیں۔ دونوں میں جنون اور وجدان کی ایسی رنگ آمیزی ہوتی ہے کہ ایک کا رنگ دوسرے کا تکملہ ہوتا ہے، دونوں میں لطیف جذبات کی شگفتہ کلیاں فرحت و نشاط آگئیں تبسم لبوں پر سجائے ہوئے ہوتی ہیں۔ فرق البتہ یہ ہوتا ہے کہ نعت کے گلشن میں عقیدت شبنم افشانی کرتی ہے، غزل میں عقیدت کی خنکی نہیں ہوتی۔ حشام احمد سید کے مجموعہ نعت و غزل ''تجلیاں'' میں یہ فرق صاف نظر آتا ہے۔
سید صاحب کا تعلق انجینئرنگ اور بزنس مینجمنٹ کے شعبے سے ہے لیکن ان کی دلچسپی کا محور شاعری اور ادب ہے۔ انھوں نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں اور پروان چڑھے اس میں انھوں نے خاندان کے بیشتر افراد کو اپنی پیشہ ورانہ تعلیم کے ساتھ دیگر دنیاوی اور دینی علوم اور ادب سے متعلق پایا۔ وہ قلم کار، سخن ور اور سخن شناس تھے اور ہیں۔ حشام احمد سید لکھتے ہیں۔ ''میرے شعوری سفر کے اولین رہنما خود میرے والد محترم اور والدہ محترمہ ہیں۔ والدہ مجھ سے بچپن میں اور جوانی میں اکثر کہا کرتی تھیں کہ۔ رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ، اور میں نے اس بات کو گھٹی میں باندھ لیا ہے ہمارے والدین اور بزرگوں نے اپنے جد حضورؐ کی سیرت اور اپنے اسلاف کے کارناموں اور دنیا میں بڑے لوگوں کی قربانیوں کا ذکر کر کے دل سے دنیا کی رنگینیوں میں دلچسپی ہی ختم کر دی اور یہ احساس دلا دیا کہ زندگی کی قدر کرو اور اسے بامقصد بناؤ''۔
حشام احمد سید کے اس مجموعہ کلام میں ایک مخصوص طرز فکر اور جذبات و احساسات کی شاعری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بات تو ساری دل کے تاروں کو چھیڑنے کی اور فکری ہم آہنگی کی ہے۔ مقصد اپنے آپ کو شاعر یا کوئی دانشور اور مصنف منوانا نہیں۔ بس خواہش یہ ہے کہ ''اے کاش! کسی دل کو بھی چھو جائے میری بات''
حشام احمد کی زندگی کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ یہ وہ ہے جسے قرآن میں سلوک اور احسان سے تعبیر کیا گیا ہے اور بعد میں جس کی اصلاح تصوف معروف ہو گئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ صالح اور درویش والدین کے ساتھ ایسے صاحب دل اور صاحب حال افراد سے بھی تعلق قائم ہوا جن کی بدولت حضورؐ سے میری روحانی نسبت مستحکم ہو گئی اور ان کی دعاؤں نے میری زندگی کا شعوری سفر آسان کر دیا'' ان کا ایک شعر ہے:
کھل گئی ہے کتا ب ہستی کی
ہے عجب چیز خود شناسائی
کلیم چغتائی سید صاحب کے حمدیہ اور نعتیہ کلام پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں ''حمد و نعت کہنا کار نازک ہے۔ یہ کام وہی کر سکتاہے جسے مالک کائنات کی ہمہ گیر ذات پاک، اس کے منفرد اوصاف، مخلوقات سے اس کی بے پناہ محبت اور اس کے وسیع اختیارات کا شعور ہو۔ اس کے علاوہ وہ سرور کائناتؐ کی ذات گرامی، آپؐ کے نبی آخرالزماں اور تمام عالم کے لیے رحمت خداوندی اور ہادی ہونے پر کامل ایمان رکھتا ہوں اور آپؐ سے بے پناہ محبت کے ساتھ ساتھ آپؐ کی ہدایات اور تعلیم پر دل و جان سے عمل کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہو''
حشام احمد سید کہتے ہیں:
وہ نور حق ہے نگاہوں کو خواب دیتا ہے
خزاں بھی ہو تو وہ تازہ گلاب دیتا ہے
خوش فکر و خوش نوا نعت گو شاعر عاصی کرنالی سے ایک مرتبہ ان کے ایک دوست نے پوچھا، تمہیں کون سا پھول سب سے زیادہ پسند ہے، عاصی نے برجستہ جواب دیا ''گلاب'' دوست نے سوال کیا کیوں؟ اس پھول میں کیا خاص بات ہے؟ اس کی کون سی خوبی تمہیں اپنی طرف کھینچتی ہے؟'' عاصی تردد میں پڑ گئے، وہ سوچنے لگے کہ گلاب کا رنگ، اس کی خوشبو، اس کی نرم پتیاں یا اس کی ادائے شگفتگی، اس کے حسن کا مناسب یا اس کی رعنائی اور زیبائی، آخر کون سا عنصر یا خوبی زیادہ کشش انگیز ہے۔ وہ کوئی فیصلہ نہ کر سکے، انھوں نے اپنی دوست سے کہا ''میرے لیے اس پھول کے ہر جزو میں، ہر کیفیت میں کشش ہے۔ میں اس کا الگ الگ تجزیہ نہیں کر سکتا۔ بس یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجھے ہر طرح سے گلاب پسند ہے''۔
اپنی شعری فکر کے بارے میں حشام احمد سید لکھتے ہیں ''تلا ش، جستجو، مسرت، دکھ، درد، غم و اندوہ، تنہائی، امید، بیم و رجا کی ساری کیفیات میری شاعری کا حصہ ہیں۔ میں کسی مصنوعی طرز یا مستعار انداز فکر یا نئی تمثیلات و استعارات یا مروجہ انداز بیان کا شعوری سہارا نہیں لیا ہے بلکہ دل میں جو بات اتری ہے اسے اسی سادگی سے قارئین یا سامعین تک پہنچایا ہے۔ میں فکری شاعری کا قائل ہوں، خالق کل، حسن ازل سے محبت اور اس کے محبوب کی الفت ہی میرا سرمایہ ہے اور میری فکری جہت کا مرکزی نکتہ بھی یہی ہے''
حشام کہتے ہیں :
حاصل ہمیں اس ذات سے ہی علم و یقیں ہے
وہ حرف صداقت ہے، امینوں کا امیں ہے
اپنی دلی کیفیات کا اظہار وہ یوں کرتے ہیں
ملتے تو ہیں حضورؐ خیالوں میں خواب میں
یہ عمر کٹ رہی ہے مگر اضطراب میں
اور...
جب بھی میں ہاتھ اٹھاؤں تو بھلا کیا مانگوں
ایک ہی لب پہ دعا صل علیٰ آتی ہے
''تجلیات'' میں کچھ غزلیں اور نظمیں بھی شامل ہیں۔ غزل کا شعر ہے:
پرندے اب اترتے ہی نہیں ہیں
کسے امید ہو سوکھے شجر سے
دریاؤں کی گہرائی کا اندازہ نہیں تھا
ڈوبے تو خموشی کا سبب جان گئے ہیں
حشام احمد سید نے پا بند شاعری کے ساتھ آزاد شاعری بھی کی ہے۔ ان کے ہاں سادگی کلام ہے اور ان کا سادہ لہجہ متاثر کن ہے۔ دیکھئے:
میں کیسے نعت لکھوں
میں عاجز و بے بس و بے چارہ
افکار ہیں میرے آوارہ
صحرائے جنوں کا بنجارہ
ہوں دل کے ہاتھوں کا مارا
میں دل کی ان سے بات کہوں یا نعت لکھوں
میں سوچتا ہوں، میں نعت کہوں
یا ان کے ادب میں چپ ہی رہوں
بقول ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط یہاں ذہن کی کھڑکیاں دل کے صحن میں کھلتی ہیں۔ دونوں میں جنون اور وجدان کی ایسی رنگ آمیزی ہوتی ہے کہ ایک کا رنگ دوسرے کا تکملہ ہوتا ہے، دونوں میں لطیف جذبات کی شگفتہ کلیاں فرحت و نشاط آگئیں تبسم لبوں پر سجائے ہوئے ہوتی ہیں۔ فرق البتہ یہ ہوتا ہے کہ نعت کے گلشن میں عقیدت شبنم افشانی کرتی ہے، غزل میں عقیدت کی خنکی نہیں ہوتی۔ حشام احمد سید کے مجموعہ نعت و غزل ''تجلیاں'' میں یہ فرق صاف نظر آتا ہے۔
سید صاحب کا تعلق انجینئرنگ اور بزنس مینجمنٹ کے شعبے سے ہے لیکن ان کی دلچسپی کا محور شاعری اور ادب ہے۔ انھوں نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں اور پروان چڑھے اس میں انھوں نے خاندان کے بیشتر افراد کو اپنی پیشہ ورانہ تعلیم کے ساتھ دیگر دنیاوی اور دینی علوم اور ادب سے متعلق پایا۔ وہ قلم کار، سخن ور اور سخن شناس تھے اور ہیں۔ حشام احمد سید لکھتے ہیں۔ ''میرے شعوری سفر کے اولین رہنما خود میرے والد محترم اور والدہ محترمہ ہیں۔ والدہ مجھ سے بچپن میں اور جوانی میں اکثر کہا کرتی تھیں کہ۔ رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ، اور میں نے اس بات کو گھٹی میں باندھ لیا ہے ہمارے والدین اور بزرگوں نے اپنے جد حضورؐ کی سیرت اور اپنے اسلاف کے کارناموں اور دنیا میں بڑے لوگوں کی قربانیوں کا ذکر کر کے دل سے دنیا کی رنگینیوں میں دلچسپی ہی ختم کر دی اور یہ احساس دلا دیا کہ زندگی کی قدر کرو اور اسے بامقصد بناؤ''۔
حشام احمد سید کے اس مجموعہ کلام میں ایک مخصوص طرز فکر اور جذبات و احساسات کی شاعری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بات تو ساری دل کے تاروں کو چھیڑنے کی اور فکری ہم آہنگی کی ہے۔ مقصد اپنے آپ کو شاعر یا کوئی دانشور اور مصنف منوانا نہیں۔ بس خواہش یہ ہے کہ ''اے کاش! کسی دل کو بھی چھو جائے میری بات''
حشام احمد کی زندگی کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ یہ وہ ہے جسے قرآن میں سلوک اور احسان سے تعبیر کیا گیا ہے اور بعد میں جس کی اصلاح تصوف معروف ہو گئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ صالح اور درویش والدین کے ساتھ ایسے صاحب دل اور صاحب حال افراد سے بھی تعلق قائم ہوا جن کی بدولت حضورؐ سے میری روحانی نسبت مستحکم ہو گئی اور ان کی دعاؤں نے میری زندگی کا شعوری سفر آسان کر دیا'' ان کا ایک شعر ہے:
کھل گئی ہے کتا ب ہستی کی
ہے عجب چیز خود شناسائی
کلیم چغتائی سید صاحب کے حمدیہ اور نعتیہ کلام پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں ''حمد و نعت کہنا کار نازک ہے۔ یہ کام وہی کر سکتاہے جسے مالک کائنات کی ہمہ گیر ذات پاک، اس کے منفرد اوصاف، مخلوقات سے اس کی بے پناہ محبت اور اس کے وسیع اختیارات کا شعور ہو۔ اس کے علاوہ وہ سرور کائناتؐ کی ذات گرامی، آپؐ کے نبی آخرالزماں اور تمام عالم کے لیے رحمت خداوندی اور ہادی ہونے پر کامل ایمان رکھتا ہوں اور آپؐ سے بے پناہ محبت کے ساتھ ساتھ آپؐ کی ہدایات اور تعلیم پر دل و جان سے عمل کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہو''
حشام احمد سید کہتے ہیں:
وہ نور حق ہے نگاہوں کو خواب دیتا ہے
خزاں بھی ہو تو وہ تازہ گلاب دیتا ہے
خوش فکر و خوش نوا نعت گو شاعر عاصی کرنالی سے ایک مرتبہ ان کے ایک دوست نے پوچھا، تمہیں کون سا پھول سب سے زیادہ پسند ہے، عاصی نے برجستہ جواب دیا ''گلاب'' دوست نے سوال کیا کیوں؟ اس پھول میں کیا خاص بات ہے؟ اس کی کون سی خوبی تمہیں اپنی طرف کھینچتی ہے؟'' عاصی تردد میں پڑ گئے، وہ سوچنے لگے کہ گلاب کا رنگ، اس کی خوشبو، اس کی نرم پتیاں یا اس کی ادائے شگفتگی، اس کے حسن کا مناسب یا اس کی رعنائی اور زیبائی، آخر کون سا عنصر یا خوبی زیادہ کشش انگیز ہے۔ وہ کوئی فیصلہ نہ کر سکے، انھوں نے اپنی دوست سے کہا ''میرے لیے اس پھول کے ہر جزو میں، ہر کیفیت میں کشش ہے۔ میں اس کا الگ الگ تجزیہ نہیں کر سکتا۔ بس یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجھے ہر طرح سے گلاب پسند ہے''۔
اپنی شعری فکر کے بارے میں حشام احمد سید لکھتے ہیں ''تلا ش، جستجو، مسرت، دکھ، درد، غم و اندوہ، تنہائی، امید، بیم و رجا کی ساری کیفیات میری شاعری کا حصہ ہیں۔ میں کسی مصنوعی طرز یا مستعار انداز فکر یا نئی تمثیلات و استعارات یا مروجہ انداز بیان کا شعوری سہارا نہیں لیا ہے بلکہ دل میں جو بات اتری ہے اسے اسی سادگی سے قارئین یا سامعین تک پہنچایا ہے۔ میں فکری شاعری کا قائل ہوں، خالق کل، حسن ازل سے محبت اور اس کے محبوب کی الفت ہی میرا سرمایہ ہے اور میری فکری جہت کا مرکزی نکتہ بھی یہی ہے''
حشام کہتے ہیں :
حاصل ہمیں اس ذات سے ہی علم و یقیں ہے
وہ حرف صداقت ہے، امینوں کا امیں ہے
اپنی دلی کیفیات کا اظہار وہ یوں کرتے ہیں
ملتے تو ہیں حضورؐ خیالوں میں خواب میں
یہ عمر کٹ رہی ہے مگر اضطراب میں
اور...
جب بھی میں ہاتھ اٹھاؤں تو بھلا کیا مانگوں
ایک ہی لب پہ دعا صل علیٰ آتی ہے
''تجلیات'' میں کچھ غزلیں اور نظمیں بھی شامل ہیں۔ غزل کا شعر ہے:
پرندے اب اترتے ہی نہیں ہیں
کسے امید ہو سوکھے شجر سے
دریاؤں کی گہرائی کا اندازہ نہیں تھا
ڈوبے تو خموشی کا سبب جان گئے ہیں
حشام احمد سید نے پا بند شاعری کے ساتھ آزاد شاعری بھی کی ہے۔ ان کے ہاں سادگی کلام ہے اور ان کا سادہ لہجہ متاثر کن ہے۔ دیکھئے:
میں کیسے نعت لکھوں
میں عاجز و بے بس و بے چارہ
افکار ہیں میرے آوارہ
صحرائے جنوں کا بنجارہ
ہوں دل کے ہاتھوں کا مارا
میں دل کی ان سے بات کہوں یا نعت لکھوں
میں سوچتا ہوں، میں نعت کہوں
یا ان کے ادب میں چپ ہی رہوں