دنیا بھر سے بال ایک بار پھر ری پبلیکن کے کورٹ میں

مڈ ٹرم الیکشن میں لاکھوں امریکیوں نے ووٹ ڈالے اوراپنی اُس رائے کا اظہار کردیا جو حکمراں سننے کیلئے ہرگز تیار نہیں تھے۔


سہیل اقبال خان November 06, 2014
اگرچہ امریکی عوام کو یہ اختیار تو حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے حکمرانوں کا انتخاب کرسکتی ہے مگر افسوس کے اُن کے پاس 2 ہی جماعتیں ہیں یا تو ایک کا انتخاب کریں یا پھر دوسری کا۔ فوٹو: فائل

جب بھی امریکہ سے الیکشن کی آواز سنائی دیتی ہے تو پوری دنیا کی نظریں سپر پاور کی جانب ہوجاتی ہے ۔ امریکہ میں صدارتی انتخابات ہوں یا مڈٹرم انتخاب،دنیا کے ہر کونے میں بحث و مباحثہ کا آغاز ہوجاتا ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والی پارٹی اپنی نئی پالیسی کا اعلان کرتی ہے جس سے یقینی طور پر پوری دنیا کی سیاست کسی نہ کسی حد تک ضرورت متاثر ہوتی ہے۔

اس بار بھی امریکہ کے حالیہ مڈٹرم الیکشن بہت اہمیت کے حامل تھے،خاص طور پر اس مڈٹرم الیکشن میں امریکی عوام کا ووٹ امریکی صدر کی پالیسز اور حکومت کی کارکردگی کا جواب کی صورت میں تھا۔ امریکہ کے حالیہ مڈ ٹرم الیکشن میں لاکھوں امریکی شہریوں نے ووٹ ڈالے اور اپنی اُس رائے کا اظہار کردیا جو حکمراں سننے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے۔

دنیا بھر میں سپر پاور کے حکمراں بارک اوباما پہلے ہی مقبولیت کی دور میں بہت پیچھے رہ گئے تھے مگر اب تو عوام نے وسط مدتی انتخابات میں یہ بھی بتادیا کہ صرف دنیا میں ہی نہیں بلکہ بارک اوبامہ اور اُن کی جماعت تو امریکا میں بھی غیر مقبول ہوتے جارہے ہیں۔

ڈیموکریٹس اور ری پبلیکن کے درمیان ایوان نمائندگان کے435،سینیٹ،اورگورنر کی 36،36 نشستوں کے لئے مقابلہ تھا۔اس وسط مدتی انتخاب میں مقابلہ اس لئے بھی سخت تھاکیونکہ الیکشن سے پہلے بھی یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ خود امریکی عوام اپنے صدر کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہیں۔امریکی عوام نے یہ سوچ کر بارک اوباما کو منتخب کیا تھا کہ شاید صدر بش کے مقابلے میں بارک اوباما کی پالیسیز زیادہ بہتر ہونگی لیکن جب امریکی عوام نے اوبامہ کی شکل میں بھی بش کو دیکھا تو پھر مایوسی دیکھنے کو ملی جس کا ثبوت ہمیں حالیہ مڈ ٹرم الیکشن کے نتائج سے بھی ملتا ہے جس میں امریکی عوام نے 8 سال بعد اپنے ووٹ سے ری پبلکنز کو ڈیموکریٹس پر برتری دلا دی اورایوان نمائندگان اور سینیٹ کے فیصلوں کا اختیار ری پبلکنز کے ہاتھ میں دے دیا۔

الیکشن میں ری پبلکنز نے سینیٹ کی 36نشستوں میں سے 22نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور اب اُن کی سینیٹ میں نشستوں کی تعداد 52ہو گئی۔اور ایوان نمائندگان میں بھی ری پبلکنز نے 435میں سے237نشستوں پر کا میابی حاصل کی۔دوسری جانب ڈیموکریٹس کی اس ناکامی کے بعد اس کی سینیٹ میں نشستوں کی تعداد44اورایوان نمائندگا ن کی تعداد 179رہ گئی۔اس طرح ڈیموکریٹس کو سینیٹ اور ایوان نمائندگان دونوں میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔

کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کی بنیاد جمہور ہوتی ہے اور جب جمہور اپنے حکمرانوں کے فیصلے سے ناراض ہوجائیں تو پھر حکمرانوں کے پاس اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ وہ جمہور کی خدمت کو اپنا شعار بنالے وگرنہ وہی ہوتا ہے جو امریکی عوام نے پنا فیصلہ سنا کر امریکی صدر سے تمام فیصلوں کا بدلہ لے لیا۔اب صدر اوباما کو تمام فیصلوں کے لئے اپوزیشن کی رضامندی حاصل کرنا ضروری ہو گی۔پہلے تو امریکی صدر اپنی مرضی سے امریکی کی معاشی،اقتصادی،دفاعی پالیسیز بناتے تھے،لیکن اب کی بار ان کو پالیسز میں ری پبلکننز کو بھی شامل کرنا ہو گا۔یاد رہے کہ امریکی صدر کے صرف دو ہی سال اب باقی ہیں،لیکن یہ دو سال امریکی صدر کے لئے نہایت مشکل ہیں کیونکہ اب وہ صدر ہو نے کے باوجود بھی اُن اختیارات کے حامل ہیں نہیں جو ایک صدر کے پاس ہو تے ہیں اور اب اوباما کو دنیا میں اپنی من مانیوں سے ہٹ کر اپوزیشن کے فیصلے پر چلنا ہو گا۔

یہ بات یقینی طور پر قابل ستائش ہے اور شاید ترقی یافتہ ممالک اِسی لیے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہیں کہ وہاں کی عوام کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کے اختیار سے کسی کو بھی حکمرانی کے منصب سے ہٹانے کی قوت رکھتی ہے۔ مگر ، مگر یہ کہ میں اب بھی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وہاں ہر بار مقابلہ بس دو جماعتوں کے درمیان ہی ہوتا ہے؟۔ اگر ری پبلیکن سے ناراض ہوئے تو نظر ڈیموکریٹس کی طرف اور اگر ناراضگی ڈیموکریٹس سے ہوئی تو پھر نظر ری پبلیکن کی طرف۔ بس یہ ایک چورنگی ہے جس کے گرد وہاں کی عوام گھومتی رہتی ہے ۔ اور اِس بار بھی بالکل ایسا ہی ہوا ، جو ری پبلیکن سے مایوسی کے بعد امید ڈیمورکیٹس سے لگی مگر دوبارہ مایوسی کے بعد پھر ری پبلیکن کو اُمیدوں بھری نظروں سے دیکھا جارہا ہے اب دیکھتے ہیں کہ اِس بار عوام کی سنی جاتی ہے یا نہیں ۔ ویسے یہی کچھ پاکستان میں بھی ہوتا ہے بس پاکستان اور امریکا کے انتخاب میں ایک فرق ہے کہ وہاں انتخاب کے بعد دھاندلی کا الزام نہیں لگتا جب کہ یہاں ایسا ممکن نہیں کہ انتخاب کے بعد دھاندلی کا الزام نہ لگے کیونکہ اِس بار تو امریکی عوام کو بھی وہ مسائل دیکھنے پڑے جو ہر انتخابات میں ہم دیکھتے ہیں جیسے کہیں عوام کو ووٹینگ کی الیکڑونک مشین خراب ملیں، تو کہیں بجلی کے نہ ہونے سے موجود مشین استعمال میں نہیں تھیں، کہیں عملہ نہیں تھا تو کہیں رجسڑڈ ووٹرز کی تصدیق نہیں ہو رہی تھی۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں