موازنہ نہرو اور پٹیل
اگرایک دفعہ بھارت مذہبی بنیادوں پرتقسیم ہو گیا تو ہندو مسلمانوں کوکہیں گے کہ تم نےاپنا حصہ لےلیا ہے،اب پاکستان چلےجاؤ۔
پنڈت جواہر لعل نہرو اور سردار ولہب بھائی پٹیل دونوں ہی تحریک آزادی کے دو چمکتے ستارے ہیں۔ ایک کا جھکاؤ مرکز سے بائیں جانب تھا دوسرے کا مرکز سے دائیں جانب تھا (یعنی ایک لیفٹسٹ دوسرا رائٹسٹ) لیکن انھوں نے آزادی حاصل کرنے کی خاطر اپنے نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیا تھا۔ آزادی کے بعد نہرو کے خیالات نے عوام کو متاثر کرنا شروع کر دیا کیونکہ وہ بہت مقبول لیڈر تھا اور اس کے خیالات ملک کی اجتماعیت کے عمومی جذبات سے میل کھاتے تھے۔
ظاہر ہے کہ سردار پٹیل کا نام پس منظر میں چلا گیا۔ تاہم وزیر اعظم نریندر مودی نے قصہ پارینہ کی بازخوانی کرتے ہوئے سردار پٹیل کی سالگرہ منا کر اس کا نام پھر اجاگر کر دیا ہے۔ پٹیل کی سالگرہ ''راشٹریا ایکتا ڈے'' کے موقع پر منائی گئی۔ ایک کریڈٹ بہر حال مودی کو جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی پارٹی بی جے پی کی طرح نہرو کے اس کردار کو گھٹانے کی کوشش نہیں کی جو انھوں نے ملک کو آزاد کرانے اور اس کی تعمیر و ترقی میں ادا کیا۔ بی جے پی نے تو اپنے منشور میں تحریک آزادی کے حوالے سے جن اہم شخصیات کے نام درج کیے ہیں ان میں نہرو کا نام ہی شامل نہیں ہے۔ بعض لوگوں کو یقین ہے کہ اگر نہرو کی جگہ پٹیل کو ملک کا وزیر اعظم بنایا جاتا تو یہ ملک کے زیادہ بہتر مفاد میں ہوتا۔ اس امکانی مفروضے کا ذکر وزیر اعظم نریندر مودی نے اس وقت کیا تھا جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔
دیگر لیڈروں میں سے مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی نہرو کی بطور انتظامی سربراہ کے کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد یہی نتیجہ اخذ کیا، حالانکہ نہرو کے نزدیک مولانا آزاد کی حیثیت ایک گائیڈ اور فلاسفر کی تھی۔ آزاد نہرو کی کابینہ میں تھے اور اس اعتبار سے انھوں نے نہرو کو بڑے قریب سے دیکھا۔ آزاد نے اپنے سیکریٹری ہمایوں کبیر سے کہا تھا کہ نہرو کو ملک کا صدر بنانا چاہیے تھا اور پٹیل کو وزیر اعظم۔
اس حوالے سے دیکھا جائے تو آزاد بھی پٹیل اور اس کے فلسفے کے قائل تھے۔ قومی تحریک کے دوران یہ دونوں لیڈر ایک دوسرے سے یکسر مختلف خیالات کے حامل تھے اور آپس میں انتہائی دوری پر تھے۔ ان کے نکتہ نظر سے سب لوگ آگاہ تھے۔ پٹیل ہندو نواز تھے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اجتماعیت پسند بھی تھے۔ آزاد سیکولر تھے جنہوں نے بڑی بہادری سے اس الزام کا سامنا کیا کہ وہ تو ہندوؤں کے ''شو بوائے'' ہیں۔ یہ الزام مسلم لیگ نے ان پر عائد کیا تھا۔ انھوں نے برسرعام یہ اعلان کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی کہ قیام پاکستان مسلمانوں کے مفاد کے لیے نقصان دہ ہو گا۔
تقسیم سے قبل وہ کہتے تھے کہ مسلمان اس ملک میں فخر کے ساتھ اپنا سر اونچا کر کے چل سکتے ہیں کیونکہ ان کے حقوق سب کے برابر ہیں حالانکہ ان کی تعداد مقابلتاً بہت تھوڑی ہے۔ لیکن اگر ایک دفعہ بھارت مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہو گیا تو ہندو مسلمانوں کو کہیں گے کہ تم نے اپنا حصہ لے لیا ہے، اب پاکستان چلے جاؤ۔ تقسیم کے 67 سال بعد بھی یہ سوچ نہ بھارت میں ختم ہوئی ہے نہ پاکستان میں۔ بعدازاں پاکستان نے تقریباً تمام ہندوؤں کو نکال باہر کیا تاہم بھارت میں مسلمان بدستور جنونیوں کے ہدف پر ہیں۔
جب بھی دونوں ملکوں میں کوئی کشیدگی پیدا ہوتی ہے تو بہت سے ہندو مسلمانوں کو پاکستانی ہونے کا طعنہ دیتے ہیں لیکن اس نکتے پر زور دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ تقسیم کے زخم ابھی تک نہیں بھر سکے اور دونوں برادریوں کے لوگ مذہب کے نام پر استحصال کا نشانہ بنائے چلے جا رہے ہیں۔
اگر پٹیل کو اختیار دیا جاتا تو یقینی بات ہے کہ وہ تقسیم کو قبول کرنے سے پہلے آبادی کا تبادلہ کرواتے۔ نہرو کا خیال مختلف تھا۔ وہ مذہب کو سیاست یا ریاست سے ملوث نہیں کرتے تھے۔ ان دونوں کی سوچ اور طرز عمل میں اسقدر فرق تھا کہ مہاتما گاندھی نے جو خود تحریک آزادی کی قیادت کر رہے تھے نہرو کو اپنا جانشین نامزد کر دیا۔ گاندھی جی کے نزدیک ہندو مسلم اتحاد ان کے عقیدے کا حصہ تھا محض پالیسی کی بات نہیں تھی۔ گاندھی جی اور پٹیل کا تعلق ایک ہی ریاست یعنی گجرات سے تھا۔ وہ ایک جیسی خوراک کھاتے تھے اور اپنی ریاست کی روایات کو مختلف انداز سے پیش کرتے تھے۔
اس کے باوجود گاندھی جی نے نہرو کو پٹیل پر ترجیح دی۔ گاندھی جانتے تھے کہ نہرو خواب بھی انگریزی میں دیکھتے ہیں اور یہ کہ ان کی ساری دلچسپی بین الاقوامی امور سے ہے۔ لیکن گاندھی جی کو یہ بھی پتہ تھا کہ نہرو ہندو مسلم اتحاد کے ان کے فلسفے کی زیادہ وفاداری کے ساتھ تعبیر و تشریح کریں گے اور عدم تشدد کے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے انھیں نافذ کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس ضمن میں خصوصی مثال ٹریونکور (Trovencore) کی دی جا سکتی ہے۔ اس نے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا اور علیحدگی کے عمل کا آغاز کر دیا۔ وی پی VP)) کے ہمراہ ایک خاکی وردی والا تھا جب وہ ٹریونکور کے مہاراجا کو ملنے گیا۔
اس نے علیحدگی کی دستاویز پر دستخط کر دیے۔ بعدازاں اس نے وضاحت کی کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ اور ان کے اہل خانہ باقی کے سال جیل میں بسر کریں۔ گاندھی جی کو یہ اعتماد بھی تھا کہ ان کے سیکولر خیالات نہرو کے ہاتھوں میں محفوظ رہیں گے۔ گاندھی جی کی بات اس وقت درست ثابت ہوئی جب پٹیل نے 64 کروڑ روپے کی رقم پاکستان کو دینے سے انکار کر دیا حالانکہ اثاثوں کی تقسیم کے حوالے سے یہ پہلے ہی طے پا چکا تھا کہ پاکستان کے حصے کی رقوم اور دیگر اثاثے اس کے حوالے کر دیے جائیں گے لیکن پٹیل نے یہ موقف اختیار کیا کہ پاکستان کو بھلا کس طرح یہ رقم دی جا سکتی ہے جب کہ اس کی فوج کشمیر میں جنگ کر رہی ہے۔ اور پٹیل کو آمادہ کرنے کے لیے گاندھی جی کو مرن برت رکھنا پڑا یعنی تا مرگ بھوک ہڑتال۔ اب موہن بھگوت نے کھلے عام کہہ دیا ہے کہ ان کی تنظیم سیاست میں حصہ لے گی۔
نہرو نے آر ایس ایس کے دوغلے پن کو بے نقاب کر دیا تھا۔ جب آزاد نے نہرو کو صدر کے طور پر تجویز کیا تو انھیں اعتماد تھا کہ فرقہ وارانہ عناصر کو کچلا جا چکا ہے۔ وہ پٹیل کی عملیت پسندی کی خوبی کو سراہتے تھے اور ان کو یہ بھی اعتماد تھا کہ پٹیل سیکولر فلسفے کو جاری رکھیں گے لیکن مودی پٹیل کے اس تاثر کو فروغ دے رہے ہیں جس سے کہ معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہوتا ہے، جو کہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔ پٹیل چونکہ عملی آدمی تھے لہٰذا وہ یہ سمجھ گئے ہونگے کہ بھارت کی منزل جمہوری سیکولر سیاست میں ہے۔ ممکن ہے ان کو وزیر اعظم بنایا جاتا تو وہ جمہوریت اور سیکولرازم کی بنیادیں نہرو کی نسبت اور زیادہ گہری کر دیتے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)