غم کا موسم خوشی کی تقریب

خود کش حملہ محرم کے جلوس میں نہ ہوا تو کیا ہوا۔ وہ واہگہ کی سرحدی چوکی کے قریب ہو گیا۔


Intezar Hussain November 07, 2014
[email protected]

عشرہ ہوا تمام شہ مشرقین کا۔ مطلب یہ کہ اب کے محرم کا چاند بہت اندیشوں کے بیچ چڑھا تھا۔ لیکن کم و بیش خیر خیریت ہی رہی۔ ارے کہاں رہی ؎

جویاں نہ چڑھ سکے وہ وہاں جا کے دم ہوئے

خود کش حملہ محرم کے جلوس میں نہ ہوا تو کیا ہوا۔ وہ واہگہ کی سرحدی چوکی کے قریب ہو گیا۔ اور کس قیامت کا حملہ ہوا کہ لاشوں کی قطار لگ گئی۔ ایک ایک گھر سے کتنے جنازے نکل گئے۔ اپنی سرحد کے پاسبانوں کی پریڈ دیکھنے گئے تھے۔ وہاں جشن مرگ ہو گیا۔ ایک کہرام مچ گیا۔ حسب دستور بیان دینے والی شخصیتوں نے اپنے فرض کو پہچانا اور مذمتی بیان جاری کیے۔ کتنے سخت لفظوں میں اس واقعہ کی مذمت کی۔ مختصراً مار پیچھے پکار بہت ہوئی۔ مگر وارداتئے مذمتی بیان نہیں پڑھتے۔ انھیں جو کرنا تھا کر ڈالا۔ آپ مار پیچھے پکار کرتے رہئے۔

چلتے چلتے ہم نے کسی چینل پر اس واقعہ پر ایک بحث بھی سن لی۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ ایک منہ سے ہم نے یہ بات سنی۔ کوئی مسلمان ایسی واردات نہیں کر سکتا۔ ایسے موقعوں پر جب یہ ظالم فقرہ کہا جاتا ہے۔ تو سمجھ لیجیے کہ وہ زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کرتا ہے۔ یہاں بحث میں سیفما کے امتیاز عالم بھی شریک تھے۔ انھوں نے اس بیان پر گرفت کی۔ تب اس بزرگ نے اپنے بیان کی وضاحت کی۔ کہا کہ میرا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ایسی قبیح حرکت کر لے کیا وہ مسلمان کہلانے کا مستحق ہے۔ خوب ۔ کیا پینترا بدلا ہے۔

ویسے یہ پوچھ لینے میں کیا مضائقہ ہے کہ ایسے فعل کا ارتکاب کرنے والوں سے یہ استحقاق کب چھینا گیا اور کیسے چھینا جاتا۔ آخر مسلمان بھی بنی آدم ہی ہیں۔ فرشتے تو نہیں ہیں۔ تو مسلمان بھی اپنی بساط کے مطابق اچھے برے فعل کر کے عذاب ثواب کماتے رہے ہیں۔ اگرچہ عذاب والے کاموں کا پلہ بالعموم بھاری رہا۔ عذاب نازل ہو نہ ہو' یہ الگ مسئلہ ہے' قاتلان حسین سے بڑھ کر لعنت ملامت کس پر ہوئی ہو گی۔ مگر ان کے بارے میں بھی اتنا ہی کہا جاتا رہا ہے کہ یہ کیسے مسلمان تھے کہ انھوں نے نبی کے نواسے کو اس بیدردی سے قتل کیا۔ یہ کبھی نہیں کہا گیا کہ وہ مسلمان نہیں تھے یا اس ارتکاب جرم کے بعد دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے۔ یہ آج کے ستم ایجاد ہیں جنہوں نے یہ معنی خیز فقرہ ایجاد کیا ہے۔ کرو خود، عذاب ثواب کسی غیر کی گردن پر ڈال دو، جب پکڑ ہو تو صفائی پیش کرو کہ مطلب یہ تا کہ ایسے فعل کا ارتکاب کرنے والا تو مسلمان کہلانے کا مستحق ہی نہیں ہے۔

محرم میں شہیدان کربلا کا غم' یہ تو روایت ہوئی۔ انھیں ایام غم کے بیچ ستم ایجادوں نے کیا خوب گل کھلایا کہ ایسا بم پھاڑا کہ کشتوں کے پشتے لگ گئے اور کتنے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی۔

ویسے اس بیچ ایک خوشی کی تقریب بھی پیدا ہوئی تھی۔ ارے ہم تو کرکٹ ہی کے سہارے مرتے اور جیتے ہیں۔ پچھلے کتنے دنوں سے ہماری کرکٹ پر نحوست چھائی ہوئی تھی۔ جس سے مقابلہ ٹھہرا اس سے پِٹ کر آئے۔ مگر اچانک کیسی کایا پلٹ ہوئی وہ جو کہا جاتا تھا کہ کرکٹ بائی چانس۔ یعنی کہ کرکٹ اتفاقات کا کھیل ہے۔ ہوا موافق ہوئی تو آپ کی گُڈی چڑھ گئی۔ ہوا الٹی چل پڑی تو آپ زمین چاٹتے رہ گئے۔ حریف بازی لے گیا۔ تو اتنی شکستوں کے بعد دم کے دم میں کیسے بخت جاگے کے سنچری' پھر سنچری' اور پھر سنچری۔ کہتے ہیں کہ بس یونس خان کو غصہ آ گیا۔ حریف درپئے آزار تھے۔ کھچڑی پک رہی تھی کہ اس کھلاڑی نے بہت کھیل کھیل لیا۔ اب اس کی چھٹی ہو جانی چاہیے۔ ایسے تاؤ آ گیا۔ فیلڈ میں اترتے ہی اس نے سنچریوں کا ڈھیر لگانا شروع کر دیا۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔

ادھر ٹیم کے کپتان مصباح الحق کا ستارہ بھی گردش میں تھا۔ حریف اسے بھی نو دو گیارہ کرنے کے جتن کر رہے تھے۔ یونس خاں کو بپھرا دیکھ کر وہ بھی بپھر پڑا۔ کہاں تو اس کے خلاف پروپیگنڈا یہ بھی تھا کہ فیلڈ میں جا کر ٹپ ٹپ کرتا رہتا ہے۔ تیز رفتاری کے دور میں ایسی ٹپ ٹپ۔ اسے بھی رخصت کرو۔ تو لیجیے اس نے بھی عجب گل کھلایا کہ سینچری کے بعد ایسی سینچری کہ اتنی تھوڑی گیندوں میں سینچری بنائی کہ تیز رفتاری کے اگلے پچھلے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ اور کیسے موذی کو پچھاڑا ہے۔ یعنی اسٹریلیا کو۔

لیجیے زمین چاٹتی ٹیم ایک دم سے بام فلک پہ پہنچ گئی۔ فتح بھی اور اتنی دھوم کی فتح کہ اب اسٹریلیا کے منجھے ہوئے کھلاڑی زمین چاٹ رہے تھے۔ اتنی بڑی خوشی مگر آئی بھی تو غم کے موسم کے بیچ۔ کرکٹ کے رسیا ہاتھ مل رہے تھے کہ موسم غم کا ہے' جشن فتح کیسے منائیں۔ اب غم کی گھٹا ذرا چھٹی ہے تو وہ جو تازہ تازہ خوشی کا نشہ تھا وہ آخر کتنی دیر رہتا۔

خیر جشن فتح منایا جا سکے یا نہ مٹایا جا سکے۔ بہر حال سوکھے دھانوں پہ پانی پڑ گیا ہے۔ پاکستانی کرکٹ کا پھر بول بالا ہے۔ آخر یہ کرکٹ ہے۔ یہاں سدا ایک موسم تو نہیں رہتا۔ ؎

زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

اس سے خیال آیا کہ ارے موسم تو یوں بھی بدل گیا ہے۔ جاڑے کی سواری آخر کے تئیں آن پہنچی ہے۔؎

پھر جاڑے کی رُت آئی
چھوٹے دن اور لمبی رات

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں