دیوانے لوگ
پاکستان ابھی تک اس جمہوریت سے زیادہ پسماندہ نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام میں پھنسا ہوا ہے۔
NEW DELHI:
پچھلے دنوں برادرم اشتیاق اعظمی اور شفیع شیخ نے ہمیں ایک کتاب دی جس کا نام ''دیوانے لوگ'' ہے، اس کتاب کے مرتبین اشتیاق اعظمی اور ناصر نوشاد ہیں، اس کتاب کو دیکھتے ہی ہماری نظروں میں مدثر عسکری مرحوم کا چہرہ گھوم گیا۔ اصل میں یہ خیال مدثر کے ذہن ہی میں آیا تھا کہ انیس ہاشمی مرحوم کی اسی نام سے لکھی ہوئی کتاب میں کچھ اضافہ کر کے دیوانے لوگوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔
انیس ہاشمی نے دیوانے لوگ کے نام سے جو کتاب لکھی تھی اس میں نوآبادیاتی نظام کے خلاف دیوانہ وار جدوجہد کرنے والے کچھ کارکنوں کا مختصر تعارف تھا جن میں حسرت موہانی، بھگت سنگھ، ڈاکٹر اشرف، مخدوم محی الدین وغیرہ شامل ہیں۔ جب یہ کتاب مدثر عسکری کے ہاتھ لگی تو وہ فوری میرے پاس آئے اور یہ کتاب برائے مطالعہ میرے حوالے کی۔ میں نے بھی اس خیال سے اتفاق کیا کہ پاکستان میں استحصالی نظام کے خلاف جن جرأت مندوں نے بے تکان جدوجہد کی ان کے تعارف پر مبنی ایک کتاب شایع ہونی چاہیے جس سے دو مقاصد پورے ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ ترقی پسند سیاسی کارکنوں کو اپنے سینئر ساتھیوں کی کاوشوں اور قربانیوں سے واقفیت حاصل ہو گی، دوسرے یہ کہ یہ کتاب جری دوستوں کی جدوجہد اور قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ذریعہ بن جائے گی۔
یہ کام بہت کٹھن تھا کیونکہ بہت سارے ساتھی اس دنیا میں نہیں رہے تھے اور جو تھے وہ ملک کے مختلف شہروں میں رہتے تھے، جن تک فرداً فرداً رسائی اور انٹرویو ایک مشکل کام تھا لیکن مدثر عسکری مرحوم نے اس اہم کام کو انجام دینے کا بیڑہ اٹھایا اور اس حوالے سے کچھ ساتھیوں کے بارے میں تفصیلات جمع کرنے میں کامیابی بھی حاصل کر لی۔ پھر اس کی اشاعت کی جستجو میں لگ گئے لیکن وائے قسمت مدثر کی زندگی نے ان کا ساتھ نہ دیا، وہ کوئٹہ سے چند دنوں کے لیے کراچی آئے تھے کہ دل کی تکلیف کا شکار ہو گئے اور ڈاکٹروں کی پوری کوشش کے باوجود جانبر نہ ہو سکے۔
مدثر کی اچانک وفات سے یہ کام وقتی طور پر رک گیا۔ لیکن اشتیاق اعظمی اور ناصر نوشاد اور کچھ مخلص دوستوں کی کوششوں سے پورا ہوا اور 142 صفحات پر مشتمل یہ کتاب چھپ کر تیار ہو گئی اس کتاب میں 21 سیاسی کارکنوں، رہنماؤں، دانشوروں کا مختصر تعارف موجود ہے جن میں سید سجاد ظہیر، مرزا ابراہیم، سی آر اسلم، دادا فیروز الدین منصور، نذیر عباسی، ڈاکٹر حسان، بیرسٹر سید عبدالودود، غلام نبی کلو وغیرہ شامل ہیں۔ بدقسمتی سے یہ سارے دوست اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن یہ کتاب ''دیوانے لوگ'' ان کی یاد تازہ کرتی رہے گی۔
پاکستان میں سیکڑوں سے زیادہ سیاسی کارکن رہنما اور دانشور ایسے ہیں اور تھے جنھوں نے اپنی ساری زندگی عوام کے حقوق اور جاگیردارانہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد میں لگا دی ان سب کے تعارف کے لیے بہت بڑی کوششوں اور وسائل کی ضرورت ہے اور اب کوئی ایسی شخصیت نظر نہیں آتی جو اس بڑے کام کا بیڑہ اٹھا سکے۔ کچھ غیر سرکاری تنظیمیں بہرحال ایسی ہیں جن کے پاس وسائل اور افرادی قوت موجود ہے لیکن غالباً یہ ''فالتو قسم کا کام'' ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔
میں نے اسی حوالے سے پائلر کو ایک مشورہ دیا تھا کہ وہ ہر سال ایسے زندہ اور مرحومین کو ایوارڈ دینے کا سلسلہ شروع کرے جنھوں نے عوام کے حقوق اور حلقوم پر پنجہ گاڑے ظلم و استحصال کے نظام کے خاتمے کے لیے انتھک جدوجہد کی اور بڑی قربانیاں دیں۔ ایک سال اس حوالے سے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا، پھر اس اہم کام کا سلسلہ رک گیا۔
جن دوستوں نے اپنی ساری زندگی اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے وقف کر دی اگر اس کا اعتراف ایک ایوارڈ کی شکل میں کیا جائے تو ایسے بڑے لوگوں کی خدمت میں یہ چھوٹا سا اعتراف خدمات ہو گا۔ میں نے مزدور تحریکوں سے وابستہ اور مزدوروں کے حقوق کی جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے محنت کشوں کے لیے سائٹ اور لانڈھی، کورنگی کے صنعتی علاقوں میں یادگاریں قائم کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ لیکن یہ مشورہ بھی صدا بہ صحرا ہی ثابت ہوا حالانکہ ایسی مزدور تنظیمیں موجود ہیں جو یہ کام بڑی آسانی سے انجام دے سکتی ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بائیں بازو کے کارکنوں اور رہنماؤں سے زیادہ کسی نے قربانیاں نہیں دیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بایاں بازو مستقل انتشار، ٹوٹ پھوٹ اور گروپ بندیوں کا شکار رہا جس کی وجہ سے وہ پاکستانی سیاست میں بہت کم فعال رہا، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ تیزی سے بدلتی ہوئی سیاست میں بایاں بازو انقلابی رومانیت کا شکار رہا اور پارلیمانی سیاست کو روایتی انقلاب سے متصادم سمجھتا رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بورژوا سیاست اور جمہوریت گندگی کا ایک ڈھیر ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ روایتی انقلابی فلسفوں کا کوئی متبادل نہیں، پھر روس کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد تو انقلاب کا روایتی تصور معدوم ہو گیا ہے۔
اب روس اور چین جیسے انقلابات کے لیے نہ حالات سازگار ہیں نہ کوئی رہنمائی موجود ہے، اس سونے پر سہاگہ یہ کہ روس چین سمیت دوسرے تمام سابق سوشلسٹ ملکوں نے نہ صرف سرمایہ دارانہ معیشت کو اپنا لیا ہے بلکہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کا چولا بھی اوڑھ لیا ہے جس کا آغاز کرپشن سے ہوتا ہے اور کرپشن پر اختتام ہوتا ہے، اس فراڈ جمہوریت نے ساری دنیا میں لوٹ مار کا ایسا بازار گرم کر دیا ہے کہ لوٹ مار بددیانتی ضمیر فروشی اس نظام کے خون میں شامل ہو گئی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نظام کے علاوہ بائیں بازو کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس جمہوریت کو اپنانا کان نمک میں داخل ہونے سے مختلف نہیں ہے لیکن پاکستان ابھی تک اس جمہوریت سے زیادہ پسماندہ نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام میں پھنسا ہوا ہے، اس دلدل سے پاکستان کو نکالنا اس ملک کی اولین ضرورت ہے اور بایاں بازو انفرادی اور اجتماعی طور پر اس قابل نہیں کہ وہ ملک کو اس دلدل سے تنہا نکال سکے۔ اس صورت حال کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایسے اتحاد میں شریک ہو جو ملک سے جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ اور خاندانی جمہوریت کے خلاف ہو اور سامراج مخالف ہو۔ اس مرحلے سے گزرے بغیر ملک میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔
مدثر عسکری جیسے ہزاروں کارکن اپنی زندگیوں کا بڑا حصہ معاشرتی اور معاشی نظام کو تبدیل کرنے میں لگاتے رہے اس دھن میں ان کے گھر بار اجڑ گئے لیکن جب وہ منزل کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو انھیں یہ احساس پریشان کرتا ہے کہ وہ 50 سال پہلے جہاں کھڑے تھے اب وہ اس سے بہت پیچھے جا چکے ہیں۔ یہ احساس منطقی طور پر انھیں مایوسی کی طرف دھکیل دیتا ہے اسی احساس مایوسی نے 1970ء کی دہائی میں انھیں پیپلز پارٹی کی طرف دھکیل دیا تھا لیکن پیپلز پارٹی میں بھی انھیں مایوسی کا سامنا اس لیے کرنا پڑا کہ پیپلز پارٹی مزدور کسان راج کے بجائے وڈیرہ شاہی راج کی طرف چلی گئی تھی، بھٹو صاحب نعرے تو مزدور کسان راج کے دیتے رہے لیکن وہ اپنے طبقاتی کردار کے حوالے سے اسٹیٹس کو کے حامی تھے۔ اب تو پیپلز پارٹی اس سے بھی بہت آگے چلی گئی ہے۔
بائیں بازو کی ناکامیوں میں سب سے بڑی ناکامی ایسی قیادت کا فقدان رہا ہے جو حالات حاضرہ اور وقت کے تقاضوں کے مطابق فیصلے کر سکے۔ المیہ یہ ہے کہ بایاں بازو اب بھی انقلاب کی تلاش میں سرگرداں ہے لیکن وہ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ پاکستانی معاشرہ 67 سال سے اسٹیٹس کے جس دلدل میں پھنسا ہوا ہے، پہلے اسے اس دلدل سے نکالنا ضروری ہے اور اس جرأت مندانہ بڑے کام کو انجام دینے کے لیے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے تا کہ معاشرہ اس دلدل سے نکل سکے اور بایاں بازو فعال ہو کر عوام میں اپنی شناخت بنا سکے، اس کام کے لیے جہاں سیاسی بصیرت کی حامل قیادت کی ضرورت ہے وہیں مدثر عسکری جیسے کارکن بھی درکار ہیں۔ ''دیوانے لوگ'' جیسی کتابیں مدثر عسکری جیسے کارکن پیدا کر سکتی ہیں ۔