انجلی

IPS کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہرسال 1000لڑکیاں زبردستی مذہب تبدیل کرتی ہیں ان میں700ہندو اور300 کرسچن لڑکیاں ہیں۔

ان کے بس میں پکارنا تھا، وہ پکارتے رہے، ان کے بس میں رونا تھا، وہ روتے رہے، ان کے بس میں آہیں بھرنا تھا اور وہ آہیں بھرتے رہے، ان کے بس میں قانون کا دروازہ کھٹکھٹانا تھا تو وہ کھٹکھٹاتے رہے۔ لیکن ہوا وہ جو ہمیشہ غریب اور استحصالی طبقوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ حالت زار ان والدین کی ہے جوکہ مذہبی اقلیت کہلاتے ہیں۔ ایسے والدین جن کی بچیاں اغوا ہوتی ہیں پھر جب ظاہر ہوتی ہیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ اپنا مذہب تبدیل کرکے پسند کی شادی کرچکی ہیں۔

12 سال کی انجلی کے والدین اور میگھواڑ احتجاج کرتے رہے لیکن انجلی کو حاصل نہیں کرسکے، انجلی کے والد کندن لال کا کہنا ہے کہ انجلی اغوا ہوئی ہے، اس کے اغوا کی ایف آئی آر ڈھرکی تھانے میں درج ہے، جس میں 7 افراد نامزد ہیں۔ 5 کے نام لکھوائے گئے ہیں لیکن 2 افراد نامعلوم ہیں۔ ناانصافی کی ابتدا ادھر ہی سے ہوچکی تھی جب انجلی کو برآمد کیا گیا لیکن اغوا کرنے والے گرفتار نہ ہوسکے۔

یہ بتایا گیا کہ انجلی اپنا مذہب تبدیل کرچکی ہے اور اپنی مرضی سے ریاض سیال سے شادی کرچکی ہے۔ جرم ہمیشہ طاقت کے بل بوتے پر ہوتا ہے۔ وہ طاقت سیاسی ہو یا مذہبی دونوں کی پشت پناہی پر جرم کیے جاتے ہیں۔ جب رنکل کماری کا حادثہ ہوا تو اس وقت بھی رنکل کماری نے عدالت میں بیان دیا۔ اس کی ماں روتی رہی، بلکتی رہی لیکن اس کو اپنی بیٹی سے ملنے نہیں دیا گیا۔ سیکڑوں ہتھیاربند ٹولوں کی موجودگی میں اس کا بیان ہوا، اور وہ ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے جلوس کی شکل میں شہر میں خوشیاں مناتے رہے۔ جب رنکل نے کراچی میں پریس کانفرنس کی اس وقت بھی وہ ہتھیاروں کے سائے میں تھی ۔

چند ماہ پہلے میرپورخاص کی دو بچیاں جمنا اور پوجا گھر سے غائب ہوگئیں ، وہ مٹی کے کھلونے بناکر بیچتی تھیں، جب پولیس نے ان کو برآمد کر کے عدالت میں پیش کیا تو وہ اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر رہی تھیں ۔ جمنا 6 سال کی تھی، اس کو تو ماں کے حوالے کیا گیا لیکن پوجا 10 سال کی تھی اور اس کو دارالامان منتقل کیا گیا ۔

IPS کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 1000 لڑکیاں زبردستی مذہب تبدیل کرتی ہیں ان میں 700 ہندو اور 300 کرسچن لڑکیاں بتائی جاتی ہیں ۔ یہ لڑکیاں کم عمر ہوتی ہیں اور مذہب کی تبدیلی کے ساتھ ان کی شادی کا اعلان بھی کیا جاتا ہے ۔ اس جرم کے پس پردہ بہت سے عوامل ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ سندھ میں سیکڑوں لڑکیاں ماحول اور سماج سے بغاوت کر کے پسند کی شادی کرتی ہیں ۔ کئی جوڑے عدالت میں تحفظ کی اپیل کرتے ہیں ۔ میڈیا کے ذریعے اپنی جان بچانے کی اپیل کرتے ہیں ۔ کئی لڑکیوں کے سر قلم ہوجاتے ہیں ۔ کئی لڑکیاں قید کردی جاتی ہیں ۔ کئی لڑکیاں قبائلی رسموں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں ۔

کئی لڑکیاں جرگوں کے فیصلوں کے تحت کاری کرکے مار دی جاتی ہیں ۔ زندہ زمین میں گاڑھ دی جاتی ہیں ۔ لیکن آج تک یہ نہیں سنا گیا کہ کسی مذہبی تنظیم یا سیاسی تنظیم نے اپنے ہتھیار بند افراد بھیج کر ان کی حفاظت کی ہو ، نہ کوئی عدالت کے باہر ان کو بچانے کے لیے پہنچتا ہے ۔ کئی لڑکیاں تو عدالت کے سامنے قتل ہوجاتی ہیں ۔ کون کہتا ہے کہ پسند کی شادی عورت کا قانونی حق ہے، کبھی کسی درگاہ کے متولی نے ان کو اپنی درگاہ میں پناہ نہیں دی ، کبھی ان کو مدرسوں میں تحفظ نہیں دیا جاتا ۔ کسی کے دروازے ان بے قصور لڑکیوں کی زندگی بچانے کے لیے نہیں کھلتے ۔


اس وقت مذہبی اقلیتوں میں ہندو کم عمر لڑکیوں کی زبردستی شادی اور مذہب تبدیل کرنے میں ایک مشہور درگاہ کا نام لیا جا رہا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مشہور سیاسی اور مذہبی شخصیت کا انجلی اور دوسری کئی لڑکیوں کی تبدیلی مذہب میں ہاتھ ہے ۔ ایسی شخصیات جن کے پاس دہری طاقت ہو اس کو قانون کے دائرے میں لانا ناممکن ہوتا ہے۔ جو بھی وڈیرے ہیں، جاگیردار ہیں، پیر ہیں، سید ہیں، وہ قانون کے دائروں سے باہر ہوتے ہیں ۔

انجلی کی حفاظت کے پیش نظر اس کو شیلٹر ہوم میں منتقل کیا گیا ہے ۔ انجلی کے والد کندن لال کے پاس انجلی کی پیدائش کا سرٹیفکیٹ اور اسکول کا سرٹیفکیٹ موجود ہے جس سے انجلی کی عمر کی تصدیق ہوتی ہے ۔ آزادی سے گھومنے پھرنے کی عمر میں انجلی حفاظتی قید خانے میں رہنے پر مجبور ہے ۔ 12 سال کی عمر میں زندگی کے سنگین تجربات سے گزر رہی ہے ۔ انسانی حقوق، عورتوں کے حقوق، بچوں کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق پر کام کرنے والی ساری تنظیموں کے آگے انجلی ایک دل دہلانے والا سوال ہے ۔ معصوم ڈرا ہوا چہرہ ، جھکی ہوئی آنکھیں اپنے غیر واضح مستقبل کی طرف دیکھ رہی ہیں ۔

انجلی، پوجا، آشا، رنکل اور دوسری بہت سی ہندو مذہب اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں آج انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے لیے بہت بڑا چیلنج ہیں ۔ ایسے واقعات پر خاموشی کی اصل وجہ ایسے قانون ہیں جو سوچتے ذہنوں اور بولتی زبانوں پر تالے لگا دیتے ہیں ۔ ایسے قوانین کی موجودگی میں کسی بھی مذہبی جبر اور دہشت گردی پر بات کرنا جرم بن جاتا ہے ۔ جب 2013 میں گوری بھیل اور پرتاب بھیل نے مذہب تبدیل کر کے پسند کی شادی کی تب وہ اپنی حفاظت کے لیے جگہ جگہ پھرتے رہے ۔ ان کو کہیں بھی پناہ نہیں ملی ، گوری 8 بچوں کی ماں تھی اس کا نیا نام ''بے نظیر'' رکھا گیا تھا اور پرتاب ''آصف'' بن گیا تھا ۔ پھر کیا ہوا اچانک 3 جنوری 2014 کو گوری کی لاش سامارو میں درخت سے لٹکتی ہوئی ملی ۔ محبت کی کہانی تو انجام کو پہنچی لیکن اس نو مسلم سمجھدار خاتون کے قتل یا خودکشی کی کسی نے بھی تفتیش نہیں کی ۔

انجلی کے ساتھ ہونے والے واقعے کو شادی کا نام دیا جا رہا ہے ، جب کہ اگر اس کے والد کندن کے پاس جو سرٹیفکیٹ ہیں وہ درست ہیں تو اس بنا پر ملکی قانون کی رو سے 18 سال سے کم عمر کی لڑکی کی شادی جرم ہے اور اس کا نکاح پڑھانے والے بھی سزا کے مستحق ہیں ۔ اس کو اغوا کرنے والے بھی مجرم ہیں ، جرم کو کروانے میں ساتھ دینے والے بھی مجرم ہیں ۔ اس وقت مذہبی اقلیتوں میں اور سندھ میں رہنے والے باشعور طبقوں میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے ۔

موجودہ جمہوریت مختلف قسم کی آمریتوں کے پنجے میں قید آخری سانسیں لے رہی ہے ۔ اس کے وجود میں نئی روح پھونکنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ معصوم لڑکیوں کے مسائل پر سندھ حکومت سنجیدگی سے کوئی پالیسی مرتب کرے ۔ ایسے واقعات کے ذمے دار افراد کو بنا کسی تفریق کے قانون کے مطابق سزا دی جائے ۔ ہمیشہ غریب اور استحصال کا شکار طبقوں پر ناانصافی کے مسلط ہونے والی رسموں اور ریتوں کا خاتمہ شاید حکومت کی کھوئی ہوئی مقبولیت کو واپس دلا سکے ۔ انجلی کی بحفاظت واپسی کئی خاندانوں کی قانون اور انصاف پر سے ختم ہوتی ہوئی امیدیں بحال کروائے گی ۔

شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات!
Load Next Story