فلک والے تماشا دیکھتا جا غم کے ماروں کا
معاشرے میں اسے غنڈہ، بدمعاش کہا جاتا، مگر دراصل وہ کردار درد مند دل رکھنے والے نوجوان کا کردار تھا۔
یہ اس گیت کا مکھڑا ہے جو بطور فلمی نغمہ نگار حبیب جالب کا پہلا گیت تھا۔ (گیت نگاری خصوصاً فلمی گیت نگاری میں گیت کے ابتدائیے کو مکھڑا کہا جاتا ہے۔) یہ بات ہے 1952-53کی جالب صاحب ان دنوں کراچی میں اپنے خاندان کے ساتھ رہ رہے تھے۔
اداکار آزاد (ہندوستان، پاکستان کے معروف کیریکٹر ایکٹر اور ان کی ایک اور وجہ شہرت بھی ہے کہ وہ قائداعظم محمد علی جناح کے ڈرائیور تھے) صاحب نے بطور فلم ساز ایک فلم بنانے کا اعلان کیا۔ اس فلم کا نام تھا ''طوفان کے بعد'' انھی دنوں موسیقار خلیل احمد کا بھی اداکار آزاد صاحب سے آمنا سامنا ہوگیا۔ نوجوان خلیل احمد سے آزاد صاحب نے پوچھا ''باجا (ہارمونیم) بجا لیتے ہو؟'' خلیل احمد نے جواب دیا ''جی ہاں، بجا لیتا ہوں'' آزاد صاحب نے یہ سن کر نوجوان خلیل سے کہا ''تو آج سے تم میوزک ڈائریکٹر ہوگئے اور میری فلم کے گانے تم ہی کمپوز کروگے۔''
ابھی تین چار سال پہلے موسیقار خلیل احمد کے بھائی کفیل احمد سے آرٹس کونسل کراچی کے سالانہ الیکشن والے دن ملاقات ہوئی تو انھوں نے مجھے بتایا کہ ''جالب صاحب کا وہ گیت بھائی خلیل احمد نے اسی دھن میں ریکارڈ کیا تھا جو بعد کو فلم ''لوری'' کے لیے حمایت علی شاعر کا لکھا ہوا گیت ''خداوند یہ کیسی آگ سی جلتی ہے سینے میں'' ریکارڈ کیا گیا۔ حمایت علی شاعر فلم لوری کے فلم ساز بھی تھے اور اس خوبصورت گیت کو مہدی حسن صاحب نے گایا تھا۔ خیر آزاد صاحب کی فلم ''طوفان کے بعد'' تو نہ بن سکی مگر ریکارڈ پر یہ بات آگئی کہ بطور فلمی نغمہ نگار حبیب جالب بطور موسیقار خلیل احمد کی پہلی فلم ''طوفان کے بعد'' تھی۔
اداکار علاؤالدین کا لاہور سے کراچی آنا جانا رہتا تھا۔ کراچی میں شاعر عارف جلالی رہتے تھے۔ اداکار علاؤ الدین اور عارف جلالی بٹوارے سے پہلے بمبئی میں اکٹھے گھومتے پھرتے تھے اور دوستی کا یہ رشتہ پاکستان بننے کے بعد بھی قائم رہا۔ ان دنوں جالب صاحب اس شہر ''کراچی'' میں غم عشق کے مارے رسا چغتائی، فرید جاوید، عارف جلالی، جمال پانی پتی، اطہر نفیس کے ساتھ گھومتے پھرتے تھے اور ان سب شاعروں پر میر جواد حسین کا دست شفقت تھا۔ میر صاحب نابینا تھے مگر مراد آبادی سے ایسی قربت تھی کہ جگر صاحب ہر تازہ غزل پہلے میر جواد کو سناتے۔ میر صاحب جس شعر کو خارج کرتے جگر صاحب بلا چوں و چرا شعر نکال دیتے۔
1951-52 میں اداکار علاؤ الدین کی مشہور و کامیاب فلم ''آس پاس'' ریلیز ہوئی۔ علاؤ الدین نے اس فلم میں ایک ایسے نوجوان کا کردار ادا کیا تھا جو سڑکوں، گلیوں میں آوارہ پھرتا ہے، مگر کسی غریب کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر ظالم کے خلاف ڈٹ جاتا ہے، معاشرے میں اسے غنڈہ، بدمعاش کہا جاتا، مگر دراصل وہ کردار درد مند دل رکھنے والے نوجوان کا کردار تھا۔ فلم آس پاس میں اداکار علاؤ الدین نے اسکرپٹ سے ہٹ کر جالب صاحب کا شعر پڑھا۔ وہ منظر اس قدر جان دار تھا اور کردار کا مکمل احاطہ کیے ہوئے تھا۔ فلم کے ہدایتکار نے اس شعر کو فلم میں شامل رکھا۔ علاؤ الدین صاحب نے جو شعر پڑھا تھا وہ یہ تھا:
ایک ہمیں آوارہ کہنا، کوئی بڑا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں
فلم آس پاس کے جاندار کردار کی عمدہ ادائیگی پر اداکار علاؤ الدین صاحب کو عوام نے ''عوامی اداکار'' کا خطاب عطا کیا اور فلم آس پاس کے ذریعے جالب صاحب بھی فلم نگر میں متعارف ہوئے۔ انھی دنوں کی بات ہے، جالب صاحب لاہور گئے ہوئے تھے۔ اداکار آزاد کے ساتھ ہی جالب صاحب ٹھہرے ہوئے تھے، مختصر واقعہ جالب صاحب کی زبانی سنیے۔
''مشہور فلم ساز مرتضیٰ جیلانی ''دو آنسو'' فلم کے ڈائریکٹر تھے، ان کے ساتھ انورکمال پاشا ہوا کرتے تھے جو حکیم احمد شجاع پاشا کے بیٹے تھے۔ حکیم صاحب خود ایک بلند پایہ ادیب تھے اور فلم کی کہانی پر ان کا نام ہی لکھا جاتا تھا۔ مرتضیٰ جیلانی علی گڑھ کے فارغ التحصیل تھے، ایم اے تھے۔ بڑے سخن شناس اور سخن فہم تھے۔ فیض صاحب کے بھی مداح تھے۔ انھوں نے ایک دن مجھ سے کہا ''ایک مصرعہ ہے اس پر گرہ لگاؤ''
اک حال میں ہمیشہ رہتا نہیں زمانہ
اتفاق سے فوراً ہی دوسرا مصرعہ ہوگیا:
کیوں ہنس رہی ہے دنیا سن کر مرا فسانہ
اس کے تین شعر تھے، فلم ''دو آنسو'' کے لیے لکھا تھا۔ پیسے تو مجھے ملے تھے لیکن نام طالب بدایونی کا دیا گیا تھا'' (ماخوذ از جالب بیتی صفحہ نمبر 318)
اداکار آزاد صاحب کی فلم ''طوفان کے بعد'' کے گیت فلم آس پاس میں اداکار علاؤ الدین کا شعر پڑھنا اور پھر فلم ''دو آنسو'' کے لیے گیت کے تین شعر لکھنا۔ یہ حبیب جالب کا فلم نگر کی جانب سفر کا آغاز تھا۔
اداکار علاؤ الدین دل و جان سے چاہتے تھے کہ جالب فلموں کے لیے گیت لکھے۔ آخر انھوں نے جالب صاحب کو باقاعدہ لاہور آنے کا کہہ دیا۔ جالب صاحب ان کے کہنے پر لاہور چلے گئے اور انھی کے گھر قیام کیا۔
یہ 1956 کی بات ہے۔ اداکار علاؤ الدین روزانہ جالب صاحب کو پانچ روپے دیتے اور کہتے شہر میں گھومو پھرو۔ اور ہم تمہارے لیے کام کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اسی دوران ایک روز جالب صاحب لکشمی چوک میں ایک پان کی ؎دکان کے پاس کھڑے تھے کہ ایک شخص آیا اور جالب صاحب سے کہا ''آپ کو ہدایتکار جعفر شاہ بخاری بلا رہے ہیں۔'' جالب صاحب نے اس شخص سے کہا ''انھیں کہیں وہ خود یہاں آجائیں'' تھوڑی دیر کے بعد ایک موٹرکار آکر رکی۔ اس میں ہدایتکار جعفر شاہ بخاری اور ان کی بیگم اپنے زمانے کی معروف ہیروئن اداکارہ یاسمین بیٹھے تھے۔
جعفر شاہ بخاری نے جالب صاحب سے کہا ''علاؤ الدین صاحب نے آپ کے لیے کہا ہے'' اور پھر بات اداکارہ یاسمین نے پکڑ لی ''اور ہم بھی چاہتے ہیں کہ آپ ہماری فلم کے لیے گیت لکھیں'' یوں جالب صاحب کو لاہور میں پہلی فلم ملی۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ بطور کہانی نویس یہی فلم ریاض شاہد کی بھی پہلی فلم تھی۔ فلم ''بھروسہ'' کی مضبوط کہانی ریاض شاہد کی لکھی تھی اور گیت حبیب جالب نے۔ اور آگے چل کر اس جوڑی نے پاکستان فلم انڈسٹری میں انقلاب برپا کردیا۔ زرقا، خاموش رہو، یہ امن جیسی فلمیں بنائیں۔ فلم بھروسہ کے لیے ایک خاص موڑ پر حبیب جالب نے گیت لکھا، جسے گلوکار منیر حسین نے گایا تھا اور موسیقار اے حمید تھے۔ گیت کے بول تھے:
اک بھول سمجھ کر ہم دل کی الفت کا زمانہ بھول گئے
کیا ہم نے کہا تھا، کیا تم نے، سارا فسانہ بھول گئے
ایک طویل عرصہ ہدایتکار جعفر شاہ بخاری نے ریاض شاہد کی اسی کہانی کو ''سماج'' کے نام سے بنایا اور سماج میں پھر فلم کے اسی خاص موڑ کے لیے گیت لکھا جس کے بول تھے:
یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
اس مقبول گیت کو مہدی حسن صاحب نے گایا تھا اور موسیقار تھے وہی ''بھروسہ'' والے اے حمید۔ فی الحال اتنا ہی باقی پھر کبھی سہی۔