نسلوں کی کہانی

دریائے سندھ کے پانی، تھر کی ریت سے لے کر لاہور کے لوگوں تک سے ان کی ایک خاص انسیت ہے۔


منظور ملاح November 07, 2014

میں پہلے ہی ان صفحات پر عرض کر چکا ہوں کہ میرے بچپن کے استاد قصہ خوانی کا فن رکھنے والے میرے گاؤں کے بزرگ لوگ تھے، لیکن جب میں سمجھ بوجھ والا بنا اور دنیا کو سمجھنے کی کوشش کی، تب مجھے ایک اور استاد ملے، جنھوں نے زندگی کی حقیقتوں کو پرکھنا سکھایا اور عالمی ادب کی دنیا سے متعارف کروایا۔

یہ استاد سندھ کے معروف صحافی نثار کھوکھر کے بقول، ان کے پاس اسٹوری ٹیلنگ کا ایسا فن ہے کہ امریکن اور یورپین اسے گریٹ اسٹوری ٹیلر کہہ سکتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر انور سجاد وہ جنوبی ایشیا کے بہت بڑے ڈرامہ نگار ہیں۔ سندھ میں ان کے حلقہ احباب میں بہت سے یونیورسٹی کے پڑھے لکھے نوجوان لڑکے، لڑکیاں شامل ہیں، جو اسے استاد یا گرو کہتے ہیں۔ وہ ہمیشہ ان کے گھیرے میں رہے ہیں، نوجوان رائٹرز بھی ان سے سیکھنے آتے ہیں۔

دریائے سندھ کے پانی، تھر کی ریت سے لے کر لاہور کے لوگوں تک سے ان کی ایک خاص انسیت ہے۔ ان کے بولنے کا اپنا ایک اسٹائل ہے، ہاتھ کی درمیانی انگلیوں میں سگریٹ پکڑ کر زور سے کش مارکر پھر اسٹیشن سے چھوٹتی ہوئی ریل گاڑی کی طرح آہستہ آہستہ اپنی بات کو بڑھاتے جاتے ہیں، جس میں کئی تخلیقی رنگ، کڑوی حقیقتیں اور سمندر جیسی گہرائی نظر آئے گی۔

ان کے ڈرامے چھوٹی سی دنیا، دیواریں، سیڑھیاں، کارواں، پچھلی نسل کے ذہنوں میں تیرتے رہتے ہیں بلکہ آج کی نسل بھی اپنے موبائلز اور انٹرنیٹ پر ان سے محظوظ ہوتی ہے۔ ٹینس کی سپر اسٹار جرمنی کی اسٹیفی گراف ان کی فینٹیسی رہی ہیں، جنھوں نے ان کے ڈرامے چھوٹی سی دنیا کو جرمن زبان میں نشر ہونے کے بعد بہت پسند کیا۔ وہ مٹی اور پانی کی پیدائش ہیں، اس لیے ان کی شخصیت اور تصنیفات پر اس امتزاج کا رنگ غالب ہے۔ خاندانی اتار چڑھاؤ کی وجہ سے تصانیف میں ناسٹلجیا ڈیرے ڈالتے ہوئے نظر آئے گی۔ جوانی میں ان کے سندھ کے ممتاز دانشور ابراہیم جویو کو لکھے گئے خط اور ان کی کتاب ''در در جا مسافر'' پڑھ کر ان کے انداز بیاں، مشاہدات اور تخلیقی پاور پر رشک آتا ہے۔

آج کے سندھ میں میرے نزدیک چند پڑھے لکھے رائٹرز میں سے ایک ہیں، جنھوں نے سندھی نثر کو ایک نئی قوت بخشی۔ دو بار پرائیڈ آف پرفارمنس اور کئی ایوارڈ حاصل کرنے والے یہ رائٹر عبدالقادر جونیجو ہیں، جو ایک طرف تھر کے بیابان کی لوک زندگی کا حصہ رہے ہیں، تو دوسری طرف تھر کے ساتھ ساتھ کبھی موجیں مارنے والے دریائے ہاکڑو کی محبت میں گرفتار نظر آتے ہیں۔ انھوں نے سندھی افسانے، مضامیں، خاکے بھی لکھے ہیں اور عالمی ادب کی تصنیفات بھی ترجمہ کی ہیں۔ وہ عالمی ادب کے کل سے لے کر آج سے بھی پوری طرح اپ ٹو ڈیٹ ہیں، کیونکہ انھوں نے ساری زندگی کتابوں سے دوستی رکھ لی ہے۔

پہلے سندھی اور اردو کو اپنے خیالات کے اظہار کے لیے ذریعہ بنایا اور اب انگریزی کے میدان میں کود پڑے ہیں، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ کوئی بھی تخلیقی دماغ ادبی جمود کا شکار نہیں ہو سکتا۔ ان کی باتوں اور قلم میں اتنی روانی ہے کہ سننے یا پڑھنے والے حیران رہ جاتے ہیں، کیونکہ تھر کے باسیوں کا قصے سنانے کا ایک الگ ہی انداز ہوتا ہے، جو وہ ٹھنڈی راتوں میں آگ کے قریب بیٹھ کر سناتے تھے۔ بچپن ہاکڑو دریا کے کناروں پر گزرا تو بڑھاپا دریائے سندھ کے پانی اور ٹھنڈی ہواؤں کی آغوش میں۔ ان کی شخصیت اور تصنیفات میں بھی ایسی گہرائی پائی جاتی ہے، اس لیے ان کے اس ناول میں بھی کئی دریا دل کردار پائے جاتے ہیں۔

انگریزی زبان کے اس ناول کا نام ہے "The Dead River"۔ اس ناول میں سندھ کے صحرا تھر اور اب ویران دریائے ہاکڑو کے کناروں پر رہنے والوں کی لوک زندگی کے چھپے ہوئے گوشوں کو نمایاں کیا گیا ہے۔ یہ ناول نسلوں کی کہانی ہے، جس کا مرکزی کردار خود رائٹر ہے، جو اپنے چچا ریٹائرڈ پولیس افسر کھنگار خان اور در در کی ٹھوکریں کھانے والے دوست جوگی جوہر ناتھ کے ساتھ سندھ کی لوک تاریخ، اینتھراپالوجی، ماحولیات، لوک دانش، آبپاشی نظام، کلچر، ثقافت، تہذیب، آرکیالوجی اور سوشیالوجی پر Narrative کے انداز میں ایک نئے تکنیک میں بیان کرتا جاتا ہے۔

اس ناول میں سکھاں سے لے کر من بائی تک بہادر عورت کے کردار بیان کیے گئے ہیں، جو تھر کے کسی گاؤں میں سرداری گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، جن کی پہلی ترجیح ان کے اپنے لوگ ہیں، یہ کردار عورت کے حقیقی اور اقتصادی آزادی کے علمبردار نظر آتے ہیں، نہ کہ آج کے یورپین اسٹائل فیمنسٹوں کی طرح، تو دوسری طرف پیار کرنے والی عورتوں کی کہانیاں، میاں بیوی کے رشتوں کی نفسیات اور محبت کے قصے شامل ہیں، جن کی مدد سے آپ پرانے دور کی گھریلو خواتین کے شعور میں بھی جھانک سکتے ہیں۔اس ناول کے اور کردار پولیس افسران ہیں، جن میں قابل ذکر ہمیر خان کا کردار ہے ۔

جن کے اپنے اصول تھے، انگریز دور کے ایسے پولیس افسران جو بیگناہ قتل اور زنا کے معاملے میں تگڑے انصاف کے قائل تھے، جنھوں نے تھر اور راجستھان کے بارڈر پر ڈیوٹی دینے کے دوران اسمگلروں کی نیندیں حرام کیں، اس لیے وہ بارڈر سے لے کر بلوچستان سے لگنے والے شمالی سندھ تک بدلی ہوتے رہے، جہاں بھی رہے، وہاں کی لوک زندگی کی جھلکیاں اس ناول میں آپ کو ضرور ملیں گی، وہ کاروکاری ہو یا انگاروں پر چلنے کی رسم، قبائلی نظام، جاگیرداری نظام یا پولیس کی حکمرانی، انگریز دور سے لے کر آج تک پوری صدی کی باتیں آپ کو پڑھنے کے لیے ملیں گی۔

عبدالقادر جونیجو نے برصغیر کے خانہ بدوشوں کی زندگی کے کئی رخ بھی بیان کیے ہیں، ایسے خانہ بدوش جو 1965 میں چلتی ہوئی جنگ، جہازوں کی اڑانوں اور گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی اپنا سفر بارڈر کے ساتھ جاری رکھے ہوئے تھے، جو ایسٹ یورپ تک پھیل چکے ہیں۔ انھوں نے کبوتروں، کوچڑوں، گرگلوں اور جوگیوں کی لوک زندگیوں کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اور وقت کے ساتھ ان کی زندگی میں آنیوالی تبدیلیوں کو بھی فوکس کیا ہے۔

یہ وہ جپسی ہیں جن سے بھگت کبیر، میراں بائی سے لے کر لطیف سائیں کے لیے شاعری اور راگ میں رومانس کا ذریعہ رہے ہیں، اس ناول کے کردار فطری طور پر کھرے اور سیدھے سادے ہیں جو ماضی کے سندھ کی روایات کے امین تھے۔

اس کتاب میں سندھ میں وقت کے ساتھ آنے والی سماجی، ماحولیاتی، اقتصادیاتی اور ثقافتی تبدیلیوں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ ناول کے لوک رنگوں میں سندھ سے رات کے پیٹ میں تھر کراس کرکے راجستھان پہنچنے والی برق رفتار ڈھاٹن اونٹنی، اس پر سوار ڈھاٹی ڈاکوؤں، تیز رفتار گھوڑیوں، کھوجیوں، تاجروں، چرواہوں، چوروں، کتوں کی مختلف نسلوں، جیل گزارنے والے قیدیوں، تھر کے ماحولیاتی تبدیلیوں کا ادراک رکھنے والے جانوروں اور سندھ، خاص طور پر تھر کی لوک زندگی میں آنے والی تبدیلیوں پر بھی قلم آزمایا گیا ہے۔ اس ناول کی ڈکشن اور تخلیقی پاور اتنا زبردست ہے کہ پڑھنے والا بھی اس میں گم ہوجاتا ہے، یہ کتاب خاص طور پر ان مضامین میں تحقیق کرنیوالوں کے لیے انتہائی کارگر ثابت ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔