بات کچھ اِدھر اُدھر کی کھرا سودا
ریلوے اسٹیشن لاہور، اس کے درو دیوار اور اس کے اردگرد بسا جہاں میرے لئے نیا نہیں۔ برسوں کے ساتھ ساتھ زندگی بھی گزر گئی ان شاہراؤں سے گزرتے ہوئے۔ میں جب بھی لاہورآؤں یا جاؤں اسٹیشن سے ہو کر ہی جاتا ہوں۔ اکثر اسٹیشن کے سامنے موجود چھوٹے سے پارک میں بیٹھ جاتا ہوں، مجھے یہ جگہ بے حد پسند ہے یہاں ایک نئی دنیا آباد ہے، کوئی سو رہا ہے، کوئی سگریٹ سلگا رہا ہے، کوئی وقت بتا رہا ہے، کوئی لوگوں کو باتیں سنا رہا ہے اور کوئی پُر امید نگاہوں سے گاہکوں کو بُلا رہا ہے۔ بس کچھ ایسا ہی منظر ہوتا ہے ہر بار۔ مجھے یہ سب دیکھنا، اس کا حصہ بننا بہت بھلا لگتا ہے، دل کو ایک سکون سا ملتا ہے اس جہاں میں کھو کر۔
یہاں اگر کچھ بدلتا ہے تو وہ لوگوں کے چہرے ہیں اور جو نہیں بدلتا وہ اُن دو شیزاؤں کا ٹولا ہے جو ہمیشہ وہ دور جنگلے کے پاس دکھائی دیتا ہے۔ زمانے کی شکست و ریخت اُن کی عمر بدل رہی ہے مگر ہیں وہ وہی جن کو میں نے پہلی بار دیکھا تھا اور اب تک دیکھتا آ رہا ہوں۔میں وہ دور بیٹھا سوچتا رہتا ہوں کہ یہ سدا سے یہاں کیوں آباد ہیں؟ یہاں کیا کرنے آتی ہیں؟ یہ گھر کیوں نہیں جاتیں؟ کیا ان کو باتوں کے علاوہ اور کوئی کام نہیں؟ مردوں سے باتیں کرنا، اُن کو اپنی جانب مائل کرنا ، اُن کے ساتھ گھومنا پھرنا ہی ان کا شوق ہے؟ ناجانے کتنے ہی ایسےسوال ہیں جومیں ہمیشہ خود سے پوچھتا رہتا ہوں ، پھر دل کی تسکین کی خاطر کوئی ناکوئی جواب بھی گھڑ لیتا ہوں اور کبھی کبھا ر ٹولے والیوں سے ہنسی مذاق کر کے میں خود اپنا دل بہلا لیتا ہوں۔
میں آج بھی اُن کے درمیان بیٹھا شغل لگا رہا تھا مگر میرا دل مجھے باربار کہہ رہاتھا؛"یہ جو سوالوں کی پوٹلی ہر وقت ساتھ اُٹھائے پھرتے ہو میں اس کا بوجھ اُٹھا اُٹھا کہ تنگ آچکا ہوں۔ آخر تم انہیں اُگل کیوں نہیں دیتے ؟ خود کو نہیں تو کم از کم مجھے ہی اس بوجھ سے آزاد کردو"۔
ہمیشہ کی طرح سب کاموڈ بہت اچھا تھا اور خوشگوار موسم نے اُسے اور بھی اچھا بنا دیا تھا۔ حوصلہ یکجا کرتے ہوئے آخرکار میں نے تمہید باندھ ہی لی، ''میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں''۔ وہ سب میری جانب متوجہ ہو گئیں۔
ہاں ! ہاں! ضرور پوچھو صاب! جو دل میں آئے پوچھو۔ یہ جواب میرے پاس بیٹھی غزالہ کی طرف سے تھا۔
میں نے جب بھی آپ کو دیکھا آپ لوگ ادَھر ہی ڈیرے جمائے ہوتے ہیں، آپ لوگ یہاں کیا کرتے ہیں اور گھر کیوں نہیں جاتے؟
اُس نے فٹ پاتھ پر پڑی ایک بوڑھی عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛ صاحب! ہم کوئی بیکار لوگ نہیں جو سارا سارا دن فٹ پاتھوں پہ پڑے رہتے ہیں۔ ہم بھی یہاں کام کرنے آتے ہیں مگر ہمارے کام کی نوعیت تھوڑی مختلف ہے، ہم خوشی کے بدلے لوگوں سے اُن کے غم خریدتے ہیں ، ہمارے دامن سے دنیا کے ستائے ہوئے لوگوں کو تسکین ملتی ہے اور جب وہ خوش ہو جاتے ہیں تو ہمیں معاوضہ دیتے ہیں۔
میں آپ کا مطلب کچھ سمجھا نہیں۔
سامنے بیٹھی نیلم نے میری پریشانی کو بھا نپتے ہوئےکہا؛ صاحب ! یہ پتا نہیں کیا اُلٹے سیدھے الفاظ میں خود کو چھپا رہی ہے ۔ میں بتاتی ہوں آپ کو سادا الفاظ میں۔
سب باتوں کی ایک بات ۔ ہم جسم فروش ہیں صاحب! لوگوں کو جسم بیچتے ہیں، جتنی کسی کی طلب ہواُس کے مطابق۔ ہم چوروں ،ڈاکوؤں، گداگروں کی طرح تیرے ملک کی معیشت پہ بوجھ نہیں ، ہم بیکار نہیں، ہم کھر اسودا دیتے ہیں ملاوٹ نہیں کرتے ۔ ہم جیسے باہرسے دکھائی دیتے ہیں اند رسے بھی ویسے ہی ہیں۔ ہر آنے والے کو اپنے تن من میں جگہ دیتے ہیں۔
وہ بو ل رہی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ تو غلط ہے۔
نیلم نے پیٹ پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، جانتے ہیں صاب یہ غلط ہے ،بُرائی کا کام ہے ، کرنے سے گناہ ہوتا ہے، اللہ میاں ناراض ہوتے ہیں۔ مگر جب یہاں آگ لگتی ہے نا تو پھر دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی خراب ہو جاتی ہے اور انسان راکھ کا ڈھیر بن کر رہ جاتا ہے۔ چلتی پھرتی زندہ راکھ۔
قبل اس سے کے میں کچھ بولتا۔ ڈھلتے ہوئے سائے کو دیکھتے ہوئے غزالہ نے کہا، اچھا صاب اب آپ جاؤ، ہماری بسم اللہ کا ٹائم ہو گیا ہے ، کوئی دوآ نے کی ہم بھی کر لیں۔ پھر ملیں گے ، خوب ہنسی مذاق ہو گا ،خوب باتیں ہوں گی اور خوب مزہ آئے گا۔
میں نے دیکھا سامنے سے ایک شخص مسکراتا ہوا اُن کی طرف آرہا تھا ، میں خاموشی سے اٹھا اور واپس جاتے ہوئے سوچنے لگا کہ صرف ایک پیٹ کی دوزخ بھرنے کے لئے غربت کے مارے یہ بے بس اور لاچار لوگ کس قد مجبور ہوجاتے ہیں ۔
خود ہی ہیں باعثِ تکلیف ہم اپنے لئے
نہ ہم ہوتے، نہ دل ہوتا ، نہ دل آزاریاں ہوتیں
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔