پاکستان ایک نظر میں کہانی محبت کی ہے مختصر
محبت کا لفط سنتے ہی آپ کیسا محسوس کریں گے؟ ہر طرف پھول ہی پھول کھلے ہوں، ہلکی بارش، تیز ہوا، رومانوی موسم اور بیک گراؤنڈ میں وائلن کی دھنیں بچ رہی ہوں۔ یہ وہ واحد لفظ ہے جس کی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ میں بھی اس محبت کی کہانی کا انجام جاننے کے لئے دانتوں میں انگلیاں دبائے میں ٹی وی کے سامنے بُت بنے بیٹھی تھی۔ خبر ہی کچھی ایسی تھی جناب کہ 4 گھنٹے کب گزر کئے پتا ہی نہیں چلا ۔
سنا تھا کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے لیکن آج اس کا عملی مظاہرہ سامنے دیکھ کر میں دنگ رہ گئی، جب سینٹرل جیل ملتان میں قتل کے الزام میں قید غلام محمد کی اپنی محبوبہ نج بہا سے ملاقات کی فرمائش لئے خود سوزی کے لئے 200 فٹ بلند پانی کی ٹنکی پر چڑھ گیا، اور پولیس کی جانب سے تاخیر کے نتیجے میں گلے میں پھندا لگا کر ٹنکی سے چھلانگ لگادی۔ تاہم دلچسپ بات تو یہ ہے کہ مرد عاشق کی محبوبہ بھی وومن جیل ملتان میں قید ہے۔ واہ محبت ہو تو ایسی، جنون کی حد تک ایسے دوسرے کو چاہنے والی، ایک دوسرے کے خاطر سب کچھ کر گزرنے والی۔ ہر لڑکی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا محبوب اُسے اپنی جان سے بڑھ کر چاہے اور غلام محمد نے اپنی جان داؤ پر لگا کر عاشقوں کی فہرست میں پہلے درجے پر اپنا نام درج کرا دیا۔
ہمارے ملک میں عاشقوں کی کمی نہیں، دراصل ہم ہیں ہی محبت کرنے والے لوگ ۔ منٹوں کیا سیکنڈز میں ہمیں محبت کا بخار چڑھ جاتا ہے۔ پاکستان کے کونے کونے میں آپ کو محبت کرنے والے لوگ ملیں گے۔ اگر آپ سندھ میں آجائیں تو ہمارے سندھی بھائی چاہئے سارا دن آرام طلبی اور حکم چلانے میں گزاریں لیکن آگر کوئی دوشیزہ ان سے ٹکراجائے تو وہ اسے اپنی بڑائی اور محبت کا یقین دلانے کے لئے دنیا جہاں کی قسمیں کھالیں گے۔ اگر خیبر پختونخوا کی بات کی تو پختون تو محبت میں ایسے واری صدقے جاتے جس کی مثال پورے خطے میں ملنا مشکل ہے۔ دوسری جانب ہمارے پنجابی اور بلوچی لوگ بھی محبت میں پلکیں بچھاتے بلکہ سر آنکھوں پر بٹھالیتے ہیں۔ یعنی ملک کے کونے کونے سے محبت کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔
محبت بھرے اس ملک میں اگر ایک مجرم کو اپنی محبوبہ سے ملوانے کی اجازت دینی تھی تو پہلے ہی دے دیتے آخر 5 گھنٹے تک ڈرامہ کرنے اور میڈیا پر براہ راست دیکھا کر لوگوں کا وقت برباد کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا ایک مجرم کے اس بے تکے کرتب کی لائیو کوریج دینا اُس کے حوصلے اورہمت کو بڑھانے کے برابر نہیں؟ اگر کل کوئی اور مجرم اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے خود سوزی کی دھمکی دے گا یا ایسی کوئی حرکت کرے گا تو قانون اس کے سامنے بھی اسی طرح ہار ماننے پر مجبور ہوجائے گا؟ نہیں نا۔
ملک میں توہین رسالت کا مسئلہ سر اٹھائے کھڑا، فوج آپریشن ضرب عضب کی کارروائیوں میں مصروف ہے، شہر شہر دھرنے جاری ہیں، تھر میں معصوم زندگیاں سسک رہی ہیں، ہر شام کسی نہ کسی گھر میں صفِ ماتم بچھی ہے اور ہمارا میڈیا گانے بجاتے، عاشقی کے قصے سناتے مزے لے رہا ہے۔ ہمارا میڈیا 5 گھنٹے تک مرچ مسالا کا تڑکا ویرو (غلام محمد) اور بسنتی (نج بہا) کی کہانی سناتا رہا اور لوگ سنتے اور خوش ہوتے رہے۔
نجانے کتنے ہی بچے ہیں جو پیٹ کا دوزخ بجھانے کے لئے سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں، نجانے کتنی لڑکیاں اپنی عصمت بچانے کی خاطر اپنی جان دے دیتی ہیں، کتنے بوڑھے والدین آج بھی لاپتہ نوجوانوں کے منتظر ہیں۔ ان مسائل کا حل تلاش کرنے، امن و امان کی صورتحال برقرار رکھے، معاشی بحران پر قابو پانے کے بجائے ہم ویرو اور بسنتی کی کہانی میں مشغول ہیں۔ کیا کریں جناب اصل بات تو یہ ہے کہ ہم سب مجبور ہیں کیونکہ یہ دل والوں کی بستی ہے اور یہاں صرف محبت کا راج چلتا ہے۔
دل عشق میں بے پایاں، سودا ہو تو ایسا ہو
دریا ہو تو ایسا ہو، صحرا ہو تو ایسا ہو
اس درد میں کیا کیا ہے، رسوائی بھی لذّت بھی
کانٹا ہو تو ایسا ہو، چھبتا ہو تو ایسا ہو
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔