جنرل راحیل شریف کا دورہ کابل
نئے افغان صدر اشرف غنی کے اب تک کیے گئے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کرزئی حکومت کے بالکل برعکس سوچ کے حامل ہیں۔
پاکستان اور افغانستان بہتر تعلقات کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا دورہ کابل اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی ایک کڑی ہے۔ جنرل راحیل شریف کا یہ پہلا دورہ افغانستان ہے۔ دونوں ممالک کا دہشت گردی کو مشترکہ دشمن قرار دیتے ہوئے امن کے لیے کوششیں کرنا اہم پیشرفت ہے۔
نئی افغان حکومت کے آنے کے بعد جو واضح تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے وہ سابق کرزئی حکومت کے مخاصمانہ اور الزامات پر مبنی رویے کے برعکس پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ایک روزہ دورہ کابل کے موقع پر افغان صدر اشرف غنی' چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ' چیف آف جنرل اسٹاف جنرل شیر محمد کریمی' وزیر دفاع اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر سے الگ الگ ملاقاتیں کیں، افغان صدر کو نئی حکومت کی تشکیل پر مبارکباد دی اور اس توقع کا اظہار کیا کہ نئی حکومت کا قیام پاکستان اور افغانستان کے مراسم کو باہمی مفاد پر مبنی تعلقات میں تبدیل کرنے کا تاریخی موقع ثابت ہو گا اور تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔
انھوں نے افغان صدر اور فوجی قیادت سے ملاقاتوں میں افغانستان سے پاکستان میں ہونے والی دراندازی خاص طور پر ملا فضل اللہ گروپ کی طرف سے سیکیورٹی فورسز پر کیے جانے والے حملوں اور بعض افغان حکام کی جانب سے پاکستان پر مسلسل جھوٹے الزامات کا معاملہ پوری شدت سے اٹھایا اور واضح کیا کہ ایک ایسے موقع پر جب پاکستانی فوج شمالی وزیرستان سے دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے آپریشن کر رہی ہے افغان فورسز خطہ سے دہشت گردی کے خاتمہ کو یقینی بنانے کے لیے پاک فوج کا ساتھ دینے کے بجائے پاکستان سے بھاگے ہوئے دہشت گردوں کو افغانستان میں پناہ دے کر ان کی حوصلہ افزائی اور مدد کر رہی ہے۔
افغانستان سے دہشت گردوں نے سرحد پار کر کے پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر کئی بار حملے کیے اور پاکستان کے احتجاج کے باوجود افغان حکومت ان دراندازوں کو روکنے میں ناکام رہی۔ ایسے موقع پر بعض تجزیہ نگاروں کی یہ رائے بھی سامنے آئی کہ افغان حکومت ان دراندازوں کی پشت پناہی کر رہی اور بھارت بھی ان کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ یہ خبریں بھی منظر عام پر آئیں کہ بھارت نے افغانستان میں کیمپ قائم کر رکھے ہیں جہاں دہشت گردوں کو تربیت دی جاتی ہے اور یہ کیمپ افغان حکومت کی سرپرستی ہی میں قائم کیے گئے ہیں۔ لہٰذا سیکیورٹی کے خراب حالات کے باعث پاکستان کو اپنی شمال مغربی سرحد پر بھرپور توجہ مرکوز کرنا پڑی۔
کرزئی حکومت نے پاکستان کے خلاف زہر افشانی اور الزامات لگانا اپنا وتیرہ بنا رکھا تھا۔ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر کرزئی حکومت کے مخاصمانہ رویے کے باعث کوئی بھی کوشش بارآور نہ ہو سکی۔ پاکستان نے دراندازوں کے حملوں کا جب بھی مسئلہ اٹھایا کرزئی حکومت نے اسے روکنے کے لیے کبھی مثبت ردعمل ظاہر نہیں کیا بلکہ الٹا افغانستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کا الزام پاکستان پر لگانا شروع کر دیا۔ نئے افغان صدر اشرف غنی کے اب تک کیے گئے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کرزئی حکومت کے بالکل برعکس سوچ کے حامل ہیں انھوں نے الزام تراشی کے بجائے پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے کی پالیسی اپنائی ہے۔
اسی تناظر میں انھوں نے چین کا دورہ بھی کیا اور اب جنرل راحیل شریف سے بھی بات چیت کے دوران انھوں نے مثبت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہمارا برادر ملک ہے اس نے لاکھوں افغانوں کو پناہ دے کر جو احسانات کیے افغان اسے کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ خطے میں امن دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اور یقین دہانی کرائی کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
جنرل راحیل شریف کی افغان حکام کے ساتھ ملاقات کے دوران افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے پیش نظر افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کو سیکیورٹی ذمے داریاں منتقل کیے جانے' پاک افغان سرحد رابطہ میکنزم کو بہتر بنانے' خفیہ ملاقات کا تبادلہ اور شفافیت وغیرہ کا جائزہ لیا گیا۔ جنرل راحیل شریف نے واضح کیا کہ علاقائی امن کو یقینی بنانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ دہشت گردی کو مشترکہ دشمن سمجھتے ہوئے اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔
اس موقع پر دونوں ممالک کی افواج کے تعلقات میں اضافے اور مضبوطی پر بھی بات چیت کی گئی۔ جنرل راحیل شریف نے افغان سیکیورٹی فورسز کو پاکستان کے تربیتی اداروں میں جامع تربیتی کورسز اور سہولیات کی پیش کش کی۔ ان کے اس دورے سے پاکستان اور افغانستان میں بہتر تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔ افغان صدر اشرف غنی کے اقدامات سے بھی یہ عیاں ہوتا ہے کہ انھیں خطے میں ہونے والی دہشت گردی کا شدت سے احساس ہے اور وہ علاقے میں امن قائم کرنے کے خواہاں ہیں یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کہا کہ وہ جلد پاکستانی قیادت سے ملاقات کے لیے پاکستان کا دورہ کریں گے۔
اگر افغان حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان سے تعاون کرتی اور بہتر تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کرتی ہے تو اس سے نہ صرف پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر دراندازی کے خطرات میں نمایاں کمی ہونے سے دہشت گردی کا مسئلہ حل ہو گا بلکہ پورے خطے میں امن و امان کی صورت حال بھی بہتر ہو جائے گی۔
نئی افغان حکومت کے آنے کے بعد جو واضح تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے وہ سابق کرزئی حکومت کے مخاصمانہ اور الزامات پر مبنی رویے کے برعکس پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ایک روزہ دورہ کابل کے موقع پر افغان صدر اشرف غنی' چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ' چیف آف جنرل اسٹاف جنرل شیر محمد کریمی' وزیر دفاع اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر سے الگ الگ ملاقاتیں کیں، افغان صدر کو نئی حکومت کی تشکیل پر مبارکباد دی اور اس توقع کا اظہار کیا کہ نئی حکومت کا قیام پاکستان اور افغانستان کے مراسم کو باہمی مفاد پر مبنی تعلقات میں تبدیل کرنے کا تاریخی موقع ثابت ہو گا اور تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔
انھوں نے افغان صدر اور فوجی قیادت سے ملاقاتوں میں افغانستان سے پاکستان میں ہونے والی دراندازی خاص طور پر ملا فضل اللہ گروپ کی طرف سے سیکیورٹی فورسز پر کیے جانے والے حملوں اور بعض افغان حکام کی جانب سے پاکستان پر مسلسل جھوٹے الزامات کا معاملہ پوری شدت سے اٹھایا اور واضح کیا کہ ایک ایسے موقع پر جب پاکستانی فوج شمالی وزیرستان سے دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے آپریشن کر رہی ہے افغان فورسز خطہ سے دہشت گردی کے خاتمہ کو یقینی بنانے کے لیے پاک فوج کا ساتھ دینے کے بجائے پاکستان سے بھاگے ہوئے دہشت گردوں کو افغانستان میں پناہ دے کر ان کی حوصلہ افزائی اور مدد کر رہی ہے۔
افغانستان سے دہشت گردوں نے سرحد پار کر کے پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر کئی بار حملے کیے اور پاکستان کے احتجاج کے باوجود افغان حکومت ان دراندازوں کو روکنے میں ناکام رہی۔ ایسے موقع پر بعض تجزیہ نگاروں کی یہ رائے بھی سامنے آئی کہ افغان حکومت ان دراندازوں کی پشت پناہی کر رہی اور بھارت بھی ان کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ یہ خبریں بھی منظر عام پر آئیں کہ بھارت نے افغانستان میں کیمپ قائم کر رکھے ہیں جہاں دہشت گردوں کو تربیت دی جاتی ہے اور یہ کیمپ افغان حکومت کی سرپرستی ہی میں قائم کیے گئے ہیں۔ لہٰذا سیکیورٹی کے خراب حالات کے باعث پاکستان کو اپنی شمال مغربی سرحد پر بھرپور توجہ مرکوز کرنا پڑی۔
کرزئی حکومت نے پاکستان کے خلاف زہر افشانی اور الزامات لگانا اپنا وتیرہ بنا رکھا تھا۔ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر کرزئی حکومت کے مخاصمانہ رویے کے باعث کوئی بھی کوشش بارآور نہ ہو سکی۔ پاکستان نے دراندازوں کے حملوں کا جب بھی مسئلہ اٹھایا کرزئی حکومت نے اسے روکنے کے لیے کبھی مثبت ردعمل ظاہر نہیں کیا بلکہ الٹا افغانستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کا الزام پاکستان پر لگانا شروع کر دیا۔ نئے افغان صدر اشرف غنی کے اب تک کیے گئے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کرزئی حکومت کے بالکل برعکس سوچ کے حامل ہیں انھوں نے الزام تراشی کے بجائے پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے کی پالیسی اپنائی ہے۔
اسی تناظر میں انھوں نے چین کا دورہ بھی کیا اور اب جنرل راحیل شریف سے بھی بات چیت کے دوران انھوں نے مثبت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہمارا برادر ملک ہے اس نے لاکھوں افغانوں کو پناہ دے کر جو احسانات کیے افغان اسے کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ خطے میں امن دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اور یقین دہانی کرائی کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
جنرل راحیل شریف کی افغان حکام کے ساتھ ملاقات کے دوران افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے پیش نظر افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کو سیکیورٹی ذمے داریاں منتقل کیے جانے' پاک افغان سرحد رابطہ میکنزم کو بہتر بنانے' خفیہ ملاقات کا تبادلہ اور شفافیت وغیرہ کا جائزہ لیا گیا۔ جنرل راحیل شریف نے واضح کیا کہ علاقائی امن کو یقینی بنانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ دہشت گردی کو مشترکہ دشمن سمجھتے ہوئے اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔
اس موقع پر دونوں ممالک کی افواج کے تعلقات میں اضافے اور مضبوطی پر بھی بات چیت کی گئی۔ جنرل راحیل شریف نے افغان سیکیورٹی فورسز کو پاکستان کے تربیتی اداروں میں جامع تربیتی کورسز اور سہولیات کی پیش کش کی۔ ان کے اس دورے سے پاکستان اور افغانستان میں بہتر تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔ افغان صدر اشرف غنی کے اقدامات سے بھی یہ عیاں ہوتا ہے کہ انھیں خطے میں ہونے والی دہشت گردی کا شدت سے احساس ہے اور وہ علاقے میں امن قائم کرنے کے خواہاں ہیں یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کہا کہ وہ جلد پاکستانی قیادت سے ملاقات کے لیے پاکستان کا دورہ کریں گے۔
اگر افغان حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان سے تعاون کرتی اور بہتر تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کرتی ہے تو اس سے نہ صرف پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر دراندازی کے خطرات میں نمایاں کمی ہونے سے دہشت گردی کا مسئلہ حل ہو گا بلکہ پورے خطے میں امن و امان کی صورت حال بھی بہتر ہو جائے گی۔