خوشیوں کے جگنو
ہمارے ملک میں ہرجگہ اور ہرلیول پر"میرٹ" کاعدم وجود ہماری فکری اساس ختم کرچکا ہے۔
ISLAMABAD:
ہماراپورامعاشرہ ایک سوگوارڈگرپر چل رہا ہے۔ آپ اپنے اردگردنظرڈالیے!آپکوقنوطیت اورڈپریشن بام عروج پر نظرآتی ہے۔غریب کاتوخیرخوشی سے دوردورکابھی کوئی تعلق نہیں مگرہماراامیرطبقہ بھی ذہنی آسودگی کامالک نہیں ہے۔
آپ کسی ماہرنفسیات کے پاس جائیے۔آپ دیکھ کر حیران رہ جائینگے کہ ہرڈاکٹرکے پاس ذہنی پریشانی میں مبتلا ہزاروں مریض موجودہیں۔ان کی تعدادمیں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ہرلمحہ،ہرپل،ہرمنٹ کوئی مردیاعورت اس خطرناک بیماری کاشکاربن رہاہے۔میں کئی باراس کی وجوہات پر غور کرنے کی ناکام کوشش کرتاہوں۔
ایسے لگتاہے کہ ہمارے ملک میں ہرمعمولی سے معمولی کام کوبھرپورمشکل بنادیا گیا ہے۔ پورے ملکی نظام کا مقصدمحض یہ نظرآتاہے کہ لوگوں کوکس طرح مسلسل تکلیف میں رکھاجائے!بنیادی طورپرہم میں سے اکثریت ایک عجیب وغریب قسم کے منفی رویہ Sadism کا شکارہوچکی ہے۔ آسانیاں پیدا کرنا تو دور کی بات،یہاں تو مشکلات کوذاتی تکلیف میں بدلنے کی بھرپور کوشش کیجاتی ہے۔
ہم لوگ صرف اورصرف مثبت بیانات کی حدتک زندہ ہیں۔باقی رہی نظام کی بات،توہرشخص جانتاہے کہ نظرنہ آنے والااصل نظام کیاہے اوراس کی طاقت کتنی زیادہ ہے!امریکا سے آٹھ سال قبل میراچچازادبھائی اوران کی امریکی اہلیہ لورالائی تشریف لائے۔اس امریکی لڑکی کا یہ پاکستان کاپہلادورہ تھا۔ فیصل آباد سے لورالائی تقریباًبارہ سے سولہ گھنٹے کا سفرتھا۔وہ ذاتی جیپ میں سفرکررہے تھے۔
آج توخیرتصوربھی نہیں کیا جاسکتاکہ ڈیرہ غازی خان سے آگے بلوچستان میں معقول حفاظتی انتظام کے بغیر سفرکیاجاسکتاہے۔ہرجانب ڈاکوؤں کا راج ہے اوروہ اپنی مرضی سے بڑے اطمینان سے مسافروں کولوٹتے ہیں۔خیرجب وہ لوگ لورالائی پہنچے تواگلے دن میں نے اس امریکی خاتون سے ایک سوال کیاکہ آپکوہماراملک کیسالگا؟وہ بہت سوچ کرکہنے لگی کہ اس نے اپنے خاوندکے ہمراہ پانچ چھ سوکلومیٹرکاسفرکیاہے۔
راستے میں لاکھوں مرد، عورتیں،بچے اوربوڑھے دیکھے ہیں۔کسی ایک چہرے پر،جی ہاں!کسی ایک بھی چہرے پرکسی قسم کی کوئی مسکراہٹ نہیں تھی۔ میں یہ جواب سنکر حیران ہوگیاکیونکہ اس طرح کی بات مجھ سے پہلے کسی نے بھی نہیں کہی تھی۔یہ حقیقت ہے کہ ہم لوگ بہت کم خوش ہوتے ہیں یاشائد کبھی بھی نہیں ہوتے!
آپ امریکا کے آئین کامطالعہ کیجیے۔اس کے پہلے یا دوسرے پیرے میں حکومت کے بنیادی کام درج ہیں۔اس میں سے ایک اہم ترین ذمے داری،محض یہ ہے کہ حکومت، عام لوگوں کوخوش رہنے میں بھرپورمعاونت کیسے کریگی۔ آئین میں جولفظ استعمال ہواہے وہPursuit of Happinessکاہے۔آپ پاکستان پر ایک تنقیدی نظرڈالیے۔آپکوہراَمراس کلیے کے بعینہ ہی الٹ نظرآئیگا۔ یہاں ہر حکومتی ادارہ یادفترلوگوں کوایذاپہنچانے میں یدطولیٰ رکھتاہے!ہم لوگ بہت کم سچ بولنے یا سننے کی ہمت رکھتے ہیں لہذابنیادی طورپر اکثرلوگ دوہری یاتہری شخصیت کے حامل ہوچکے ہیں۔رمضان کے مبارک مہینہ میں مساجد عبادت کے لیے بھری ہونگی۔
مگراسی مقدس مہینے میںتاجرطبقہ اس بے دردی سے لوگوں کی جیب کاٹتاہے کہ تکلیف ہوتی ہے۔ ہرچیزکی قیمت کئی گنازیادہ وصول کرنے میں کسی قسم کی کوئی شرم یاجھجھک محسوس نہیں کیجاتی۔باہرکے ملکوں میں ہرتہوارکے نزدیک عام خریدوفروخت کی چیزوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی کیجاتی ہے۔اوریہ بالکل معمول کی بات ہے۔
ویسے تواس حقیقت پرہزاروں صفحے کالے کیے جاسکتے ہیں۔ہمارااصل مسئلہ ہرسطح پر"انصاف کا فقدان"ہے۔میں محض عدالتی انصاف کی بات نہیں کررہا۔وہ تومحض ایک سراب ہے!ہمارے ملک میں ہرجگہ اورہرلیول پر"میرٹ" کاعدم وجودہماری فکری اساس ختم کرچکاہے۔تمام بیانات، باتیں، ٹی وی ٹاک شوزاورنعرے لاحاصل ہیں۔ہماری سیاست سے لے کرذاتی زندگیوں تک ایک دوسرے کے ساتھ عدل کرنے کی استطاعت خطرناک حدتک کم ہوچکی ہے۔مجھے توایسے معلوم ہوتاہے کہ ہرشخص شعوری طریقے سے دوسرے کونقصان پہنچا کرمنفی طریقے سے خوش ہوناچاہتاہے۔ایک جمودہے! دور دورسے کوئی آوازسنائی نہیں دیتی!
دوہفتے پہلے لندن سے میرے ایک دوست،ان کی اہلیہ اورچاربچے لاہورآئے ہوئے تھے۔انھیں لاہورمیں اپنے بیٹے کے رشتہ کے لیے ایک گھرجاناتھا۔یہ لوگ پانچ بجے شام کوگاڑی میں جوہرٹاؤن کی ایک بیکری پررکے۔مقصدصرف کیک خریدناتھا۔جیسے ہی وہ خاندان رکا۔موٹرسائیکل پر دونوجوان پستول لے کران کے سرپرکھڑے ہوگئے۔تمام موبائلز فون،گھڑیاں،پیسے اورزیورات سات سے آٹھ منٹ کے اندر لوٹ کرغائب ہوگئے۔اس وقت ہرطرف روشنی تھی۔ٹریفک کا سیل رواں جاری تھا۔لوگ اردگرد پیدل بھی گھوم رہے تھے۔ مگراس واردات کے ہوتے ہوئے کوئی شخص بھی مددکے لیے نزدیک تک نہیں آیا۔وہ لوگ لندن سے چھ سال بعدپاکستان آئے تھے۔
انھیں لاہوردس بارہ دن ٹھہرناتھا۔مگروہ اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ ایک دن بعدواپس چلے گئے۔واپسی پر مجھے فون کرکے میرے دوست نے کہاکہ اب وہ کبھی بھی پاکستان نہیں آئیگا۔ان کی ڈکیتی کی کوئی رپورٹ درج نہیں ہوئی۔ان کے خلاف ڈاکہ کا کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔انھوں نے پولیس سے کوئی رابطہ نہیں کیاکیونکہ وہ محض وقت کاضیاع اورلاحاصل اَمرتھا۔آپ تھوڑاساغورکیجیے،کہ ہمارانظام کیاہے!دنیاکے ہرملک میں جرائم ہوتے ہیں۔
مگروہاں مجرم گرفتارہوتے ہیں اورانکوبھرپورسزادیجاتی ہے!ہمارے ملک میں یہ فقرے محض سراب ہیں!ایک خاندان سرِبازارلوٹ لیا جائے،پھربھی کسی کے کان پر جُوں تک نہیں رینگتی!ہم تمام لوگ ایک جنگل میں رہ رہے ہیں۔کس کی باری کس وقت آجائے!کون کس وقت کسی درندہ کے ہاتھ لگ جائے،اس بدقسمتی کے بارے میںکچھ نہیں کہاجاسکتا!یہاں اوپرسے لے کرنیچے تک ہرشخص غیرمحفوظ، لاچار اورناخوش ہے!ہرشہر،قصبہ اورمحلہ کایہی حال ہے!آپ کچھ نہیں کرسکتے،کیونکہ سننے والا بھی کوئی نہیں اورکسی قسم کاکوئی مستنداورغیرجانبدارنظامِ حکومت بھی موجودنہیں!
مگرسکہ کے ایک اوررخ پربھی غورکرناچاہیے،ہمارے ملک کی اوائل عمری میں درجنوں فلمیں بنتی تھیں جنکابنیادی مقصد لوگوں کوخوش کرنایاہنساناہوتاتھا۔ہماری مزاحیہ فلمیں اس قدرکامیاب تھیں کہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری ہماری ہر کامیاب فلم کاچربہ بنانے پرمجبورتھی۔ہمارے پاس ایسے ایسے نایاب اورقابل قدرفنکارتھے جنکی آج تک مثال نہیں ملتی۔ میں آج کی پاکستانی فلم انڈسٹری کی بات نہیں کررہا،یہ توکب کی دم توڑچکی ہے۔میں پچاس،ساٹھ،ستراوراَسی کی دہائی کے متعلق عرض کررہاہوں۔
سفیراللہ صدیقی کی مثال لیجیے۔ آپ اس شخص کو"لہری" کے نام سے جانتے ہیں۔وہ کانپور سے کراچی منتقل ہواتھا۔ ابتداء میں کراچی ریڈیو سے منسلک رہا۔1950ء سے لے کر 80ء کی دہائی تک وہ انتہائی "شائستہ" مزاح کانشان بن چکا تھا۔اس کی اردوفلمیں حددرجہ کامیاب ہوتی تھیں۔اسے گیارہ بار"نگارایوارڈ"سے نوازاگیا۔وہ اپنے چھوٹے چھوٹے جملوں میں ایسی چاشنی استعمال کرتاتھاکہ لوگ مسکرائے بغیرنہیں رہ سکتے تھے۔
اسکالہجہ تقریباًایک طرح کارہتاتھا۔وہ زورزورسے نہیں بولتاتھا۔اس کے جملوں کی ادائیگی کاکمال تھاکہ شستہ طریقے سے لوگوں کے دلوں میں مزاح کی پھلجڑیاں برپا کر دیتاتھا۔صحت خراب ہونے کے بعداسکووزیر اعظم کیجانب سے محض2500روپے ماہانہ ملتے تھے۔آپکی حکومتی بے حسی کااندازہ لگائیے کہ یہ معمولی رقم مرتے دم تک بڑھائی نہیں گئی۔وہ شخص جولوگوں میں مسکراہٹیں اورقہقہے بکھیرتا رہا۔
انتہائی مشکل حالات میں جہان فانی سے2012ء میں کوچ کرگیا۔اس کی خدمات کاصلہ تودورکی بات،آج اسکو بہت کم لوگ جانتے ہونگے؟آپ منورظریف کی زندگی کودیکھیے۔وہ محض چھتیس برس کی عمر لایاتھا۔گوجرنوالہ سے تعلق رکھنے والایہ شخص حیران کن صلاحیتوں کامالک تھا۔سولہ برس کی قلیل مدت میں اس نے تین سوفلموں میں کام کیا۔وہ1964ء سے لے کر1976ء تک اپنے فن کابادشاہ رہا۔ایک انتہائی عجیب وصف اس شخص میں موجودتھاکہ اس کے مزاح، ڈائیلاگ بولنے کاطریقہ اور جسم کی منفرد حرکات کوآج تک کوئی فنکارنقل تک نہیں کرسکا۔بہت سے لوگوں نے ٹی وی اسکرین پراس جیساکام کرنے کی گزشتہ چارپانچ سال میں بے حدکوشش کی مگرکوئی اس کی گردکوبھی نہیں چُھوسکا۔منورظریف اردواورپنجابی فلموں دونوں میں یکسوئی سے کام کرتاتھا۔
وہ دونوں زبانوں پرمکمل قادرالکلام تھا۔اس کی مزاحیہ فلموں کوایک طرف رکھیے۔آپ ان فلموں کودیکھیے جس میں وہ ہیروکے طورپرکام کرتاتھا۔ان تمام فلموں میں کوئی ایکٹربھی اس کے معیارکے برابرکاکام نہیں کرسکا۔آپ چند فلموں پرغور کیجیے۔ "پردے میں رہنے دو،"بنارسی ٹھگ"اوراس طرح کی بیشمار انمول فلمیں آج بھی موجودہیں اوراس اداکارکے لافانی اورمنفرد کام کی دلیل ہیں۔ہوسکتا ہے کہ آج کی نوجوان نسل کواسکانام بھی معلوم نہ ہو؟بمبئی میں اس کی تمام فلموں کی چربہ کاپیاں بنائی گئیں مگر انڈیاکے بہترین اداکاربھی منور ظریف کے برابرکی اداکاری کرنے میں مکمل ناکام رہے۔یہ خداداد صلاحیت یقیناقابل داداورقابل تحسین ہے۔
وہ سولہ سال لوگوں کومسلسل ہنسانے کی خدمت کرتارہااورانتہائی نوجوانی میں فوت ہوگیا۔بہت کم لوگوں کوعلم ہوگاکہ مزاح پرمبنی جملے اس پراترتے تھے۔وہ خودبخودایسے جملے بولناشروع کردیتا تھاجو کہیں بھی لکھے نہیں ہوتے تھے۔ان تمام جملوں کاموجدوہ خود ہوتا تھا۔ اکثر مقامات پروہ بغیرکسی اسکرپٹ کے پرمزاح جملے کہنے شروع کردیتا تھا۔اس کے اردگرد لوگ حیران رہ جاتے تھے کہ یہ فقرے وہ کیسے کہہ رہاہے اوران کی ادائیگی میں اتنی پختگی کیسے ہے؟اس اہلیت کافنکاربہت مشکل سے پیداہوتاہے!وہ ہمارے ملک کاایک انتہائی قیمتی اثاثہ تھا۔
آپ رفیع خاورکی مثال لیجیے۔یہ"ننھے"کے طورپر جانا جاتاہے۔اس شخص نے ٹی وی کے طنزومزاح کے پروگرام "الف نون"کواَمرکردیا۔پروگرام اتناکامیاب تھاکہ لوگ اس کا بے قراری سے انتظارکرتے تھے۔ننھے کی غیرمعمولی سادہ اداکاری اس ٹی وی شوکاخاصہ تھی۔اس کی لاتعدادقسطیں بنیں۔ ہر قسط دوسرے سے بڑھ کر خوبصورت اورنفیس تھی۔غیرمعمولی اداکاری کی بنیاداس کی اپنی ذاتی شخصیت میں سادہ دلی اور کشادگی تھی۔اگرآج بھی آپ"الف نون"کی کوئی پرانی قسط دیکھ لیں توگھنٹوں مسکراتے رہینگے۔وہ ٹی وی پرجتناکامیاب تھا،اتناہی کامیاب فلم میں بھی رہا۔"دبئی چلو"اس کی ایک کامیاب ترین فلم تھی۔70ء اور 80ء کی دہائی میں ننھا فلموں کی کامیابی کی ضمانت تھا۔
آپ تھوڑی سی تحقیق کریں۔آپکوفی الفوراندازہ ہو جائیگا کہ مزاحیہ اداکاری میں ابتدائی تیس سال کے عرصے میں ہمارے پاس انتہائی کامیاب اورمنجھے ہوئے اداکار تھے۔ اور بہت لوگ تھے جولوگوں کے چہروں پر مسلسل مسکراہٹیں بکھیرتے رہے۔جیسے علی اعجاز،سعیدخان رنگیلا اورظریف فیملی کے سارے افراد۔
آپ یقین فرمائیے،میں ہالی وڈکی کئی فلمیں دیکھتا ہوں۔میں ان کے مزاحیہ اداکاروں پرنظردوڑاتاہوں تومجھے ایک بھی ایکٹرہمارے اداکاروں کاہم پلہ معلوم نہیں ہوتا!مگران لوگوں کاقصورصرف یہ تھاکہ یہ ایک غریب ملک کی سسکتی ہوئی فلم انڈسٹری سے منسلک تھے۔یہی لوگ اگرہالی وڈمیں ہوتے توان کے فن کی قدراتنی زیادہ ہوتی کہ ہم تصوربھی نہیں کرسکتے! ہالی وڈکے کامیاب اداکاروں کی طرح ان کے مجسمے بھی جگہ جگہ آویزاں ہوتے!ان کے اعزازمیں اَن گنت تقریبات منعقدکی جاتیں!مگریہ محض ایک خواب یاخواہش ہے!ہمارے غم زدہ معاشرے میں جہاں دکھ اورتکالیف کی بھرمار ہیں۔
ان عظیم فنکاروں نے خوشیوں اورمسکراہٹوں کے لازوال چراغ جلائے!یہ ایسے منفردچراغ تھے جوکبھی بھی بجھنے نہیں پائینگے!یہ لوگ آج بھی کم ازکم میری نسل کے لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہیں!انکامحض نام ذہن میں آجائے توچہرے پر خودبخود مسکراہٹ آجاتی ہے!یہ بھی ایک طرح کی نیکی ہے!عام لوگوں کی انمول خدمت!یہ لازوال فنکار میری نظرمیں ہمارے تکلیف زدہ معاشرے میں جگنوکی حیثیت رکھتے ہیں!یہ دراصل خوشیوں کے جگنوتھے!
ہماراپورامعاشرہ ایک سوگوارڈگرپر چل رہا ہے۔ آپ اپنے اردگردنظرڈالیے!آپکوقنوطیت اورڈپریشن بام عروج پر نظرآتی ہے۔غریب کاتوخیرخوشی سے دوردورکابھی کوئی تعلق نہیں مگرہماراامیرطبقہ بھی ذہنی آسودگی کامالک نہیں ہے۔
آپ کسی ماہرنفسیات کے پاس جائیے۔آپ دیکھ کر حیران رہ جائینگے کہ ہرڈاکٹرکے پاس ذہنی پریشانی میں مبتلا ہزاروں مریض موجودہیں۔ان کی تعدادمیں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ہرلمحہ،ہرپل،ہرمنٹ کوئی مردیاعورت اس خطرناک بیماری کاشکاربن رہاہے۔میں کئی باراس کی وجوہات پر غور کرنے کی ناکام کوشش کرتاہوں۔
ایسے لگتاہے کہ ہمارے ملک میں ہرمعمولی سے معمولی کام کوبھرپورمشکل بنادیا گیا ہے۔ پورے ملکی نظام کا مقصدمحض یہ نظرآتاہے کہ لوگوں کوکس طرح مسلسل تکلیف میں رکھاجائے!بنیادی طورپرہم میں سے اکثریت ایک عجیب وغریب قسم کے منفی رویہ Sadism کا شکارہوچکی ہے۔ آسانیاں پیدا کرنا تو دور کی بات،یہاں تو مشکلات کوذاتی تکلیف میں بدلنے کی بھرپور کوشش کیجاتی ہے۔
ہم لوگ صرف اورصرف مثبت بیانات کی حدتک زندہ ہیں۔باقی رہی نظام کی بات،توہرشخص جانتاہے کہ نظرنہ آنے والااصل نظام کیاہے اوراس کی طاقت کتنی زیادہ ہے!امریکا سے آٹھ سال قبل میراچچازادبھائی اوران کی امریکی اہلیہ لورالائی تشریف لائے۔اس امریکی لڑکی کا یہ پاکستان کاپہلادورہ تھا۔ فیصل آباد سے لورالائی تقریباًبارہ سے سولہ گھنٹے کا سفرتھا۔وہ ذاتی جیپ میں سفرکررہے تھے۔
آج توخیرتصوربھی نہیں کیا جاسکتاکہ ڈیرہ غازی خان سے آگے بلوچستان میں معقول حفاظتی انتظام کے بغیر سفرکیاجاسکتاہے۔ہرجانب ڈاکوؤں کا راج ہے اوروہ اپنی مرضی سے بڑے اطمینان سے مسافروں کولوٹتے ہیں۔خیرجب وہ لوگ لورالائی پہنچے تواگلے دن میں نے اس امریکی خاتون سے ایک سوال کیاکہ آپکوہماراملک کیسالگا؟وہ بہت سوچ کرکہنے لگی کہ اس نے اپنے خاوندکے ہمراہ پانچ چھ سوکلومیٹرکاسفرکیاہے۔
راستے میں لاکھوں مرد، عورتیں،بچے اوربوڑھے دیکھے ہیں۔کسی ایک چہرے پر،جی ہاں!کسی ایک بھی چہرے پرکسی قسم کی کوئی مسکراہٹ نہیں تھی۔ میں یہ جواب سنکر حیران ہوگیاکیونکہ اس طرح کی بات مجھ سے پہلے کسی نے بھی نہیں کہی تھی۔یہ حقیقت ہے کہ ہم لوگ بہت کم خوش ہوتے ہیں یاشائد کبھی بھی نہیں ہوتے!
آپ امریکا کے آئین کامطالعہ کیجیے۔اس کے پہلے یا دوسرے پیرے میں حکومت کے بنیادی کام درج ہیں۔اس میں سے ایک اہم ترین ذمے داری،محض یہ ہے کہ حکومت، عام لوگوں کوخوش رہنے میں بھرپورمعاونت کیسے کریگی۔ آئین میں جولفظ استعمال ہواہے وہPursuit of Happinessکاہے۔آپ پاکستان پر ایک تنقیدی نظرڈالیے۔آپکوہراَمراس کلیے کے بعینہ ہی الٹ نظرآئیگا۔ یہاں ہر حکومتی ادارہ یادفترلوگوں کوایذاپہنچانے میں یدطولیٰ رکھتاہے!ہم لوگ بہت کم سچ بولنے یا سننے کی ہمت رکھتے ہیں لہذابنیادی طورپر اکثرلوگ دوہری یاتہری شخصیت کے حامل ہوچکے ہیں۔رمضان کے مبارک مہینہ میں مساجد عبادت کے لیے بھری ہونگی۔
مگراسی مقدس مہینے میںتاجرطبقہ اس بے دردی سے لوگوں کی جیب کاٹتاہے کہ تکلیف ہوتی ہے۔ ہرچیزکی قیمت کئی گنازیادہ وصول کرنے میں کسی قسم کی کوئی شرم یاجھجھک محسوس نہیں کیجاتی۔باہرکے ملکوں میں ہرتہوارکے نزدیک عام خریدوفروخت کی چیزوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی کیجاتی ہے۔اوریہ بالکل معمول کی بات ہے۔
ویسے تواس حقیقت پرہزاروں صفحے کالے کیے جاسکتے ہیں۔ہمارااصل مسئلہ ہرسطح پر"انصاف کا فقدان"ہے۔میں محض عدالتی انصاف کی بات نہیں کررہا۔وہ تومحض ایک سراب ہے!ہمارے ملک میں ہرجگہ اورہرلیول پر"میرٹ" کاعدم وجودہماری فکری اساس ختم کرچکاہے۔تمام بیانات، باتیں، ٹی وی ٹاک شوزاورنعرے لاحاصل ہیں۔ہماری سیاست سے لے کرذاتی زندگیوں تک ایک دوسرے کے ساتھ عدل کرنے کی استطاعت خطرناک حدتک کم ہوچکی ہے۔مجھے توایسے معلوم ہوتاہے کہ ہرشخص شعوری طریقے سے دوسرے کونقصان پہنچا کرمنفی طریقے سے خوش ہوناچاہتاہے۔ایک جمودہے! دور دورسے کوئی آوازسنائی نہیں دیتی!
دوہفتے پہلے لندن سے میرے ایک دوست،ان کی اہلیہ اورچاربچے لاہورآئے ہوئے تھے۔انھیں لاہورمیں اپنے بیٹے کے رشتہ کے لیے ایک گھرجاناتھا۔یہ لوگ پانچ بجے شام کوگاڑی میں جوہرٹاؤن کی ایک بیکری پررکے۔مقصدصرف کیک خریدناتھا۔جیسے ہی وہ خاندان رکا۔موٹرسائیکل پر دونوجوان پستول لے کران کے سرپرکھڑے ہوگئے۔تمام موبائلز فون،گھڑیاں،پیسے اورزیورات سات سے آٹھ منٹ کے اندر لوٹ کرغائب ہوگئے۔اس وقت ہرطرف روشنی تھی۔ٹریفک کا سیل رواں جاری تھا۔لوگ اردگرد پیدل بھی گھوم رہے تھے۔ مگراس واردات کے ہوتے ہوئے کوئی شخص بھی مددکے لیے نزدیک تک نہیں آیا۔وہ لوگ لندن سے چھ سال بعدپاکستان آئے تھے۔
انھیں لاہوردس بارہ دن ٹھہرناتھا۔مگروہ اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ ایک دن بعدواپس چلے گئے۔واپسی پر مجھے فون کرکے میرے دوست نے کہاکہ اب وہ کبھی بھی پاکستان نہیں آئیگا۔ان کی ڈکیتی کی کوئی رپورٹ درج نہیں ہوئی۔ان کے خلاف ڈاکہ کا کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔انھوں نے پولیس سے کوئی رابطہ نہیں کیاکیونکہ وہ محض وقت کاضیاع اورلاحاصل اَمرتھا۔آپ تھوڑاساغورکیجیے،کہ ہمارانظام کیاہے!دنیاکے ہرملک میں جرائم ہوتے ہیں۔
مگروہاں مجرم گرفتارہوتے ہیں اورانکوبھرپورسزادیجاتی ہے!ہمارے ملک میں یہ فقرے محض سراب ہیں!ایک خاندان سرِبازارلوٹ لیا جائے،پھربھی کسی کے کان پر جُوں تک نہیں رینگتی!ہم تمام لوگ ایک جنگل میں رہ رہے ہیں۔کس کی باری کس وقت آجائے!کون کس وقت کسی درندہ کے ہاتھ لگ جائے،اس بدقسمتی کے بارے میںکچھ نہیں کہاجاسکتا!یہاں اوپرسے لے کرنیچے تک ہرشخص غیرمحفوظ، لاچار اورناخوش ہے!ہرشہر،قصبہ اورمحلہ کایہی حال ہے!آپ کچھ نہیں کرسکتے،کیونکہ سننے والا بھی کوئی نہیں اورکسی قسم کاکوئی مستنداورغیرجانبدارنظامِ حکومت بھی موجودنہیں!
مگرسکہ کے ایک اوررخ پربھی غورکرناچاہیے،ہمارے ملک کی اوائل عمری میں درجنوں فلمیں بنتی تھیں جنکابنیادی مقصد لوگوں کوخوش کرنایاہنساناہوتاتھا۔ہماری مزاحیہ فلمیں اس قدرکامیاب تھیں کہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری ہماری ہر کامیاب فلم کاچربہ بنانے پرمجبورتھی۔ہمارے پاس ایسے ایسے نایاب اورقابل قدرفنکارتھے جنکی آج تک مثال نہیں ملتی۔ میں آج کی پاکستانی فلم انڈسٹری کی بات نہیں کررہا،یہ توکب کی دم توڑچکی ہے۔میں پچاس،ساٹھ،ستراوراَسی کی دہائی کے متعلق عرض کررہاہوں۔
سفیراللہ صدیقی کی مثال لیجیے۔ آپ اس شخص کو"لہری" کے نام سے جانتے ہیں۔وہ کانپور سے کراچی منتقل ہواتھا۔ ابتداء میں کراچی ریڈیو سے منسلک رہا۔1950ء سے لے کر 80ء کی دہائی تک وہ انتہائی "شائستہ" مزاح کانشان بن چکا تھا۔اس کی اردوفلمیں حددرجہ کامیاب ہوتی تھیں۔اسے گیارہ بار"نگارایوارڈ"سے نوازاگیا۔وہ اپنے چھوٹے چھوٹے جملوں میں ایسی چاشنی استعمال کرتاتھاکہ لوگ مسکرائے بغیرنہیں رہ سکتے تھے۔
اسکالہجہ تقریباًایک طرح کارہتاتھا۔وہ زورزورسے نہیں بولتاتھا۔اس کے جملوں کی ادائیگی کاکمال تھاکہ شستہ طریقے سے لوگوں کے دلوں میں مزاح کی پھلجڑیاں برپا کر دیتاتھا۔صحت خراب ہونے کے بعداسکووزیر اعظم کیجانب سے محض2500روپے ماہانہ ملتے تھے۔آپکی حکومتی بے حسی کااندازہ لگائیے کہ یہ معمولی رقم مرتے دم تک بڑھائی نہیں گئی۔وہ شخص جولوگوں میں مسکراہٹیں اورقہقہے بکھیرتا رہا۔
انتہائی مشکل حالات میں جہان فانی سے2012ء میں کوچ کرگیا۔اس کی خدمات کاصلہ تودورکی بات،آج اسکو بہت کم لوگ جانتے ہونگے؟آپ منورظریف کی زندگی کودیکھیے۔وہ محض چھتیس برس کی عمر لایاتھا۔گوجرنوالہ سے تعلق رکھنے والایہ شخص حیران کن صلاحیتوں کامالک تھا۔سولہ برس کی قلیل مدت میں اس نے تین سوفلموں میں کام کیا۔وہ1964ء سے لے کر1976ء تک اپنے فن کابادشاہ رہا۔ایک انتہائی عجیب وصف اس شخص میں موجودتھاکہ اس کے مزاح، ڈائیلاگ بولنے کاطریقہ اور جسم کی منفرد حرکات کوآج تک کوئی فنکارنقل تک نہیں کرسکا۔بہت سے لوگوں نے ٹی وی اسکرین پراس جیساکام کرنے کی گزشتہ چارپانچ سال میں بے حدکوشش کی مگرکوئی اس کی گردکوبھی نہیں چُھوسکا۔منورظریف اردواورپنجابی فلموں دونوں میں یکسوئی سے کام کرتاتھا۔
وہ دونوں زبانوں پرمکمل قادرالکلام تھا۔اس کی مزاحیہ فلموں کوایک طرف رکھیے۔آپ ان فلموں کودیکھیے جس میں وہ ہیروکے طورپرکام کرتاتھا۔ان تمام فلموں میں کوئی ایکٹربھی اس کے معیارکے برابرکاکام نہیں کرسکا۔آپ چند فلموں پرغور کیجیے۔ "پردے میں رہنے دو،"بنارسی ٹھگ"اوراس طرح کی بیشمار انمول فلمیں آج بھی موجودہیں اوراس اداکارکے لافانی اورمنفرد کام کی دلیل ہیں۔ہوسکتا ہے کہ آج کی نوجوان نسل کواسکانام بھی معلوم نہ ہو؟بمبئی میں اس کی تمام فلموں کی چربہ کاپیاں بنائی گئیں مگر انڈیاکے بہترین اداکاربھی منور ظریف کے برابرکی اداکاری کرنے میں مکمل ناکام رہے۔یہ خداداد صلاحیت یقیناقابل داداورقابل تحسین ہے۔
وہ سولہ سال لوگوں کومسلسل ہنسانے کی خدمت کرتارہااورانتہائی نوجوانی میں فوت ہوگیا۔بہت کم لوگوں کوعلم ہوگاکہ مزاح پرمبنی جملے اس پراترتے تھے۔وہ خودبخودایسے جملے بولناشروع کردیتا تھاجو کہیں بھی لکھے نہیں ہوتے تھے۔ان تمام جملوں کاموجدوہ خود ہوتا تھا۔ اکثر مقامات پروہ بغیرکسی اسکرپٹ کے پرمزاح جملے کہنے شروع کردیتا تھا۔اس کے اردگرد لوگ حیران رہ جاتے تھے کہ یہ فقرے وہ کیسے کہہ رہاہے اوران کی ادائیگی میں اتنی پختگی کیسے ہے؟اس اہلیت کافنکاربہت مشکل سے پیداہوتاہے!وہ ہمارے ملک کاایک انتہائی قیمتی اثاثہ تھا۔
آپ رفیع خاورکی مثال لیجیے۔یہ"ننھے"کے طورپر جانا جاتاہے۔اس شخص نے ٹی وی کے طنزومزاح کے پروگرام "الف نون"کواَمرکردیا۔پروگرام اتناکامیاب تھاکہ لوگ اس کا بے قراری سے انتظارکرتے تھے۔ننھے کی غیرمعمولی سادہ اداکاری اس ٹی وی شوکاخاصہ تھی۔اس کی لاتعدادقسطیں بنیں۔ ہر قسط دوسرے سے بڑھ کر خوبصورت اورنفیس تھی۔غیرمعمولی اداکاری کی بنیاداس کی اپنی ذاتی شخصیت میں سادہ دلی اور کشادگی تھی۔اگرآج بھی آپ"الف نون"کی کوئی پرانی قسط دیکھ لیں توگھنٹوں مسکراتے رہینگے۔وہ ٹی وی پرجتناکامیاب تھا،اتناہی کامیاب فلم میں بھی رہا۔"دبئی چلو"اس کی ایک کامیاب ترین فلم تھی۔70ء اور 80ء کی دہائی میں ننھا فلموں کی کامیابی کی ضمانت تھا۔
آپ تھوڑی سی تحقیق کریں۔آپکوفی الفوراندازہ ہو جائیگا کہ مزاحیہ اداکاری میں ابتدائی تیس سال کے عرصے میں ہمارے پاس انتہائی کامیاب اورمنجھے ہوئے اداکار تھے۔ اور بہت لوگ تھے جولوگوں کے چہروں پر مسلسل مسکراہٹیں بکھیرتے رہے۔جیسے علی اعجاز،سعیدخان رنگیلا اورظریف فیملی کے سارے افراد۔
آپ یقین فرمائیے،میں ہالی وڈکی کئی فلمیں دیکھتا ہوں۔میں ان کے مزاحیہ اداکاروں پرنظردوڑاتاہوں تومجھے ایک بھی ایکٹرہمارے اداکاروں کاہم پلہ معلوم نہیں ہوتا!مگران لوگوں کاقصورصرف یہ تھاکہ یہ ایک غریب ملک کی سسکتی ہوئی فلم انڈسٹری سے منسلک تھے۔یہی لوگ اگرہالی وڈمیں ہوتے توان کے فن کی قدراتنی زیادہ ہوتی کہ ہم تصوربھی نہیں کرسکتے! ہالی وڈکے کامیاب اداکاروں کی طرح ان کے مجسمے بھی جگہ جگہ آویزاں ہوتے!ان کے اعزازمیں اَن گنت تقریبات منعقدکی جاتیں!مگریہ محض ایک خواب یاخواہش ہے!ہمارے غم زدہ معاشرے میں جہاں دکھ اورتکالیف کی بھرمار ہیں۔
ان عظیم فنکاروں نے خوشیوں اورمسکراہٹوں کے لازوال چراغ جلائے!یہ ایسے منفردچراغ تھے جوکبھی بھی بجھنے نہیں پائینگے!یہ لوگ آج بھی کم ازکم میری نسل کے لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہیں!انکامحض نام ذہن میں آجائے توچہرے پر خودبخود مسکراہٹ آجاتی ہے!یہ بھی ایک طرح کی نیکی ہے!عام لوگوں کی انمول خدمت!یہ لازوال فنکار میری نظرمیں ہمارے تکلیف زدہ معاشرے میں جگنوکی حیثیت رکھتے ہیں!یہ دراصل خوشیوں کے جگنوتھے!