دہشت گردی کی جڑیں
نواز شریف حکومت کو حقائق کو محسوس کرنا چاہیے، جنون کی فضا کے خاتمے کے لیے حقیقی اقدامات کرنے چاہئیں۔
PESHAWAR:
آپریشن ضرب عضب ابھی مکمل نہیں ہوا دہشت گردوں نے کارروائیاں شرو ع کر دیں ۔ کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے بعد واہگہ بارڈر کی پارکنگ میں خودکش حملے میں 60 سے زائد بے گناہ افراد کو شہید اور 175 افراد کو زخمی کر دیا ۔ واہگہ بارڈر پر حملے میں کئی خاندان مکمل طور پر ختم ہو گئے ۔
ایک معصوم بچہ دنیا میں تنہا رہ گیا، اس کے والدین اور قریبی رشتے دار حملے میں شہید ہو گئے ۔ واہگہ بارڈر پر حملے کے خطرناک مضمرات برآمد ہوں گے، اس حملے کے نتیجے میں نہ صرف ملک میں اندرونی سیکیورٹی کی ناکامی ثابت ہوئی، دوسری طرف بھارت سے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔ اگرچہ رینجرز کے لاہور کے سربراہ اس حملے کو سیکیورٹی کی ناکامی قرار نہیں دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حفاظتی اقدامات کی بنا پر خودکش حملہ آور پارکنگ ایریا سے آگے نہیں جا سکا، ورنہ جب پاکستان بھارت کے فوجی جوان پریڈ کر رہے تھے اور پاکستان کے اسٹیڈیم میں 8 ہزار افراد اس پریڈ کو دیکھ رہے تھے تو یہ حملہ اسٹیڈیم میں ہوتا تو بے تحاشا نقصان ہوتا، شاید دھماکے کے اثرات سرحد کی دوسری طرف بھارتی اسٹیڈیم پر بھی پڑ سکتے تھے۔ مگر اس حقیقت کو فراموش کیا جا رہا ہے کہ وزارت داخلہ ایک دن قبل واہگہ بارڈر پر دھماکے کی وارننگ جاری کر چکی تھی، لاہور پولیس نے سہ پہر کو ممکنہ خودکش حملہ آور کا خاکہ جاری کیا تھا ۔ اس صورتحال میں لاہور کی سڑکوں پر سفر کرنے والا خودکش حملہ آور کامیابی سے اپنے ہدف پر پہنچا ، اس سے مزید کئی نئے سوالات پیدا ہو گئے ہیں ۔
نائن الیون کی دہشت گردی کے واقعات کے بعد جب امریکی اور اتحادی فوجوں نے کابل پر حملہ کیا اور طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا تو القاعدہ اور طالبان کو قبائلی علاقوں، شمالی وزیرستان ،خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پختون علاقوں میں محفوظ ٹھکانے میسر آئے۔ افغانستان اور بھارت کے زیر اہتمام کشمیر میں مجاہدین بھیجنے والی جہادی تنظیموں کا انتہاپسند تنظیموں کے ساتھ نیٹ ورک مضبوط ہوا، مخصوص طبقے نے مقامی جہادی گروپوں کو مضبوط کرنے کے لیے مالیاتی اور افرادی قوت فراہم کی۔ چند سال قبل غیر معمولی حالات میں قتل ہونے والے ایک صحافی نے اپنی کتاب میں انتہا پسند تنظیموں کی صورتحال کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔
سندھ میں حکومت کی نااہلی سے القاعدہ اور طالبان نے کراچی کی مختلف آبادیوں میں جن میں ڈیفنس، کلفٹن، گلشن اقبال، گلستان جوہر وغیرہ شامل ہیں، اپنے اڈے قائم کر رکھے تھے۔ وکی لیکس کی جاری کردہ دستاویزات میں کراچی کے ان مکانات کی نشاندہی کی گئی تھی جہاں اسامہ بن لادن کا خاندان مقیم رہا، پھر یہ خاندان ایبٹ آباد میں ایک حویلی نما مکان حاصل کرنے کے بعد وہاں منتقل ہو گیا تھا۔ اسامہ کی بیویوں نے اسلام آباد میں ہونے والی پوچھ گچھ میں کراچی میں قیام کی تصدیق کی تھی ۔ اس سے قبل کراچی ہی سے بعض القاعدہ رہنما گرفتار بھی ہوئے، تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ 2008ء میں لاہور، ملتان، فیصل آباد میں خوفناک دھماکے ہوئے، ان دھماکوں میں عسکری، سول خفیہ ایجنسیوں کی عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا مگر پھر اخبارات میں خبریں شایع ہوئیں کہ حکومت اور انتہاپسندوں میں مفاہمت ہو گئی ہے۔
مسلم لیگ ن کے بعض امید واروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے بعض انتہاپسند تنظیموں کی مدد سے الیکشن جیتے۔ ذرایع ابلاغ پر یہ خبریں بھی مسلسل شایع ہوئیں کہ جنوبی پنجاب میں انتہاپسند اپنا نیٹ ورک مستحکم کر رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت نے جب بھی متنازعہ قوانین میں تبدیلی، مدرسوں کو ریگولرائز کرنے، تعلیمی اداروں کے نصاب سے مواد نکالنے کے لیے کوئی کوشش کی تو مسلم لیگ ن مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر ان کوششوں کو ناکام بنانے میں لگ گئی۔ پنجاب میں انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ اس جنون کی فضا کا نشانہ روشن خیالی، ترقی حلقے بنے۔ 7 مئی 2014ء کو ملتان میں انسانی حقوق کے کارکن راشد رحمٰن ایڈووکیٹ قتل ہوئے ۔
پنجاب میں ہر مہینے ایک یا دو افراد اس جنونیت کا شکار ہوتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ کراچی میں جنونی حملہ آور اور نیوی کے جہازوں کے فلیٹ پر حملہ کر کے بھارت کے کسی بحری اڈے کو نشانہ بنانا چاہتے تھے ۔ اگر حملہ آور کا ہدف پورا ہوجاتا تو نواز شریف اور وزیراعظم مودی حکومتوں کے درمیان اتنی بڑی خلیج پید ا ہو جاتی تھی جتنی بڑی خلیج صدر زرداری اور وزیراعظم من موہن سنگھ حکومت کے درمیان ممبئی دہشت گردی کے واقعے کے بعد ہوئی تھی ۔
اس طرح اتوار کو اگر خود کش حملہ آور کے دھماکے سے بھارتی شہری متاثر ہو جاتے تو کنٹرول لائن میں ہونے والی کشیدگی مزید پھیل جاتی ، شاید واہگہ کے راستے تجارت کا معاملہ متاثر ہو سکتا تھا ۔ رینجرز کے سربراہ کی بات میں یہ حقیقت تو ہے کہ خودکش حملہ آور اسٹیڈیم پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوا مگر سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ اس حملہ آور کو کسی کیمپ میں تربیت دی گئی اور اتنا زیادہ گولہ بارود لاہور تک کیسے پہنچا اور خودکش حملہ آور کو اس کے ساتھیوں نے واہگہ بارڈر کس طرح پہنچایا ، پھر یہ سب کچھ محرم کی واضح سیکیورٹی میں کیسے ممکن ہوا ۔
نواز شریف حکومت کو حقائق کو محسوس کرنا چاہیے، جنون کی فضا کے خاتمے کے لیے حقیقی اقدامات کرنے چاہئیں۔ وزیراعظم نوازشریف کو منتخب اراکین قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے سیکیورٹی کی نئی پالیسی بنانا چاہیے، اس پالیسی میں کے پی کے اور بلوچستان سے اسلحے کی فراہمی، دہشت گرد تنظیموں کے ملک بھر میں خاتمے، ملک میں عام طور پر اور پنجاب میں قائم جنون کی فضا کے خاتمے کے لیے حقیقی اقدامات کرنے چاہئیں۔