سیّد شاہ امیر ابوالعلیؒ

آپ اگر کسی درویش کے آستانے پہ جائیں تو وہاں آپ کو بڑا سکون ملے گا۔

آپ اگر کسی درویش کے آستانے پہ جائیں تو وہاں آپ کو بڑا سکون ملے گا۔ فوٹو : فائل

آپ اگر کسی درویش کے آستانے پہ جائیں تو وہاں آپ کو بڑا سکون ملے گا۔

شاید کبھی کسی نے اس کا سبب جاننے کی کوشش بھی کی ہو۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ لوگ ہر وقت عبادات میں مشغول رہتے ہیں، ان کے اخلاص سے اﷲ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آتی ہے۔ پھر انھیں ان چیزوں سے بچالیا جاتا ہے جو بے چینی، بے قراری، افراتفری میں مبتلا کرتی ہیں۔ تو یوں انھیں سکون قلب حاصل ہوجاتا ہے۔

لوگ ان کے اطمینان کو دیکھ کر رشک کرتے ہیں اور ان کے درپے سکون کی دولت تلاش کرنے جاتے ہیں۔ مگر افسوس کہ وہاں سے کچھ لے کر نہیں آتے۔ اگر ان کی زندگی کو بغور دیکھیں تو وہاں لالچ نظر نہیں آئے گا۔ اگر کہیں لالچ نظر آئے تو پھر وہاں فقر و درویشی نہیں ہے۔ یہ پہچان بھی ہے۔ دنیا میں سب جھگڑے لالچ کے ہی ہیں۔ درویش اور دنیادار کی جو اصطلاح ہے۔ اس میں فرق یہ ہے کہ دنیا داری میں دنیاوی لالچ کے لیے خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے، جب کہ درویشی میں حصولِ رضائے الٰہی کا لالچ ہوتا۔ لالچ دونوں میں قدرِ مشترک ہے۔ دنیاوی لالچ میں آدمی رسوا ہوتا ہے، جب کہ حصولِ رضائے الٰہی کے لالچ سے استغناء حاصل ہوتا ہے۔

استغناء انسان کے لیے اﷲ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے۔ استغناء حاصل ہو تو یہ یقین ہوتا ہے کہ سب خزانوں کا مالک میرے ساتھ ہے۔ مجھے جیب بھرنے کی کیا ضرورت ہے؟ استغناء میں خالی پیٹ بھی بھرا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے بندہ آسانی سے دوسروں کو کھلا سکتا ہے۔ یہ سلسلہ پھر چلتا رہتا ہے۔ رکتا نہیں ہے۔ اس کی بڑی بڑی مثالیں تاریخِ انسانی میں موجود ہیں۔ قارون کا نام بھی سب نے سن رکھا ہے اور حاتم کا بھی۔ تاریخِ اسلام کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ حاتم طائی کی بیٹی جب ایک جنگ میں جنگی قیدی ہوئی اور اسے حضور رسول کریمؐ کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا گیا۔

تو آپؐ نے اسے یہ فرما کر آزاد فرمادیا کہ اس کا بات بہت سخی تھا۔ اس میں قارون کی پیروی کرنے والوں کے لیے درس عبرت ہے۔ اصل دولت استغناء ہے، جو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس سے معاشرے میں معاشی ناہمواری ختم ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں جرائم کی شرح کم ہوتی ہے۔ اگر وطنِ عزیز سے جرائم کو ختم کرنا ہے تو نسخہ آزما کر دیکھ لیں۔ اگر ہم یہ چاہیں کہ تجوریاں ہماری بھری رہیں اور جرائم ختم ہوجائیں تو ایسا کبھی ہوا نہیں ہے۔ وطنِ عزیز میں سب کچھ موجود ہے۔ ہماری تقسیم غلط ہے۔ تقسیم ٹھیک ہوجائے تو سب کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے۔

موقع پرستی اور ابن الوطنی ہمارا قومی کردار بن چکا ہے۔ حالاں کہ یہ انتہائی گھٹیا پن اور کمینی خصلت ہے۔ جب پاکستان معرض وجود میں آئے۔ صرف پانچ سال گزرے تھے تو فیصل آباد اس وقت کے لائل پور میں ایک صنعتی نمایش منعقد ہوئی تھی، جس میں راقم حاضر تھا اور ایک شاعر کی نظم سن رہا تھا۔ جس کے مطلع کا پہلا مصرع تھا، ''کاش! کوئی سمجھادے مجھ کو یہ کیسی آزادی ہے۔'' کیوںکہ ہم نے ''بٹ کے رہے گا ہندوستان''، ''لے کے رہیں گے پاکستان''، ''پاکستان کا مطلب کیا، لااِلٰہ اِلاّ اﷲ'' کے نعروں کے ساتھ آزادی حاصل کی تھی۔

ہمارا یہ وعدہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ تھا، جسے ہم نے فراموش کردیا۔ اﷲ جل جلالہ کا قانون یہ ہے کہ جو اسے فراموش کردیتے ہیں وہ انھیں فراموش کردیتا ہے، جو اسے یاد رکھتے ہیں وہ انھیں یاد رکھتا ہے۔ جو زمین پر اس کے ذکر کی محفلیں سجاتے ہیں، وہ افلاک پر ان کے نام کی محافل سجاتا ہے، جو اس کی طرف چل کر جاتا ہے، وہ اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہے۔ وہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ بندے اپنے اوپر خود ظلم کرتے ہیں۔ وہ بندوں سے منہ نہیں موڑتا۔ بندے خود اس کی رحمت سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ وہ بندوں کو عذاب میں مبتلا کرکے خوش نہیں ہوتا۔ بندے اپنی خوشی سے اپنے لیے عذاب کا انتخاب کرتے ہیں۔

سورۃ الحجر 15 کی آیت 21 میں فرمایا کہ سب خزانوں کا مالک اﷲ ہے۔'' سورۃ النحل 16 کی آیت 76 میں فرمایا، ''ہم نے رزق میں بعض کو بعض پر فضیلت دی۔ تو پھر جنھیں فضیلت دی ہے وہ اپنے زیردستوں پر کیوں خرچ نہیں کرتے، جب کہ اس کے خزانوں پر سب کا یکساں حق ہے۔ تو کیا وہ اﷲ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں۔'' وطنِ عزیز میں آج جو فساد، جو عدم تحفظ، جو جرم، جو قتل و غارت گری، جو توہینِ انسانی ہورہی ہے۔ اس کا سبب صرف حرام ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ اسلامی قوانین جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔

وہ حرام کا کوئی جواز اسلام میں نہیں پاتے۔ انھیں صرف ایسے قوانین کی ضرورت ہے جو ان کی حرام کمائی کو تحفظ فراہم کرسکیں۔ کیا جن کا حق انھوں نے دبا رکھا ہے جو بھوکے ننگے ہیں۔ ان کو بھی ایسے ہی قوانین کی ضرورت ہے؟ کیا ووٹ لینے سے پہلے انھیں پارٹیاں یہ بتاتی ہیں، ''تمہارے حقوق پر ہم ڈاکہ ڈالیں گے۔ تمہارے بچّے بھوکے ننگے، بیمار اور جاہل ہوں گے۔ تم کوڑے کے ڈھیروں سے رزق تلاش کروگے۔

ہم تمہاری امانت پر عیش کریں گے۔ بیرونِ ملک علاج کروائیں گے۔ ہمارے بچّے غیر ملکی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کریں گے اور کہیں گے۔ ہم تو منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے تھے۔'' یہ ''کراچی سے کشمیر'' کا تاریخی جملہ ہے۔ اگر یہ سب کچھ بتا کر ووٹ لیے گئے تو پھر ان کی توہین رائے عامہ کی توہین ہے۔ اگر لوگوں کو دھوکا دے کر ووٹ لیے گئے تو پھر ان کا اپنا وجود ہی رائے عامہ کی توہین ہے۔ عوام کی توہین ہے۔ پاکستان کی توہین ہے۔ اس میں شک کیا ہے؟ حالات ہمیں کیا تصویر دِکھا رہے ہیں؟

انسان کے دو رخ ہیں ''خیر اور شر۔'' اسی لیے ہر بات کے دو رخ ہوتے ہیں، جس نے اس میں سے جو کچھ سمجھنا ہے۔ اپنی اساس اور اپنے قیاس پر سمجھنا ہے۔ اس کو اس مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ 'بولی' پنجابی شاعری کی ایک صنف ہے۔ مشرقی پنجاب میں اور خاص طور پر سکھوں میں بہت مقبول ہے۔ پاکستان میں غیر معروف تو نہ تھی لیکن 1947 میں قیام پاکستان کے وقت سکھ اکثریت کے علاقوں سے آنے والے مسلمان مہاجرین یہاں اس کی مقبولیت کا ذریعہ بنے۔ وہ اکتارے کے ساتھ اسے گاتے تھے اور سامعین کا لہو جوش مارنے لگتا تھا۔

پنجابی شاعری کی دو اصناف ایسی ہیں، جن میں رونا دھونا نہیں ہوتا بلکہ زندہ دلی اور بہادری کا درس ہوتا ہے۔ ان میں ایک 'بولی' اور دوسری 'ڈھولا' ہے۔ یہ جنگلوں کے باسیوں کی شاعری ہوتی ہے جو بہادری کی داستانیں ہوتی ہیں۔ پاکستان بننے کے ساتھ ہی 'بولی' سننا شروع کی۔ جب تک آنکھ بند تھی تو میں اسے فحش گوئی سمجھ کر نفرت کرتا رہا۔ جب رب کریم غفور الرحیم نے رحم و کرم فرمایا تو ہزار مرتبہ سنی گئی 'بولی' قرآنی آیت کا ترجمہ ثابت ہوئی۔ وہ ہے یہ 'بولی':

تینوں پین کے نصیباں والے
نی تینوں پین گے
تینوں پین گے نصیباں والے
تے نشے دی اے بند بوتلے

ترجمہ: ''اے شراب کی سر بمہر بوتل تو بدنصیبوں کے لیے نہیں۔ تجھے تو وہی پئیں گے جن کی قسمت بہت اچھی ہوگی۔''
ترجمہ آیاتِ قرآنی: ''بے شک نیک لوگ نعمتوں والی جنّت میں ہوں گےo وہاں انھیں بڑی لذیذ سربمہر شراب پلائی جائے گی جس کی مہر کستوری کی ہوگی۔ اس کا شوق رکھنے والوں کو اس کے حصول کی کوشش میں پہل کرنی چاہیےo اس میں تسنیم کی خاصیت ہوگیo''83/27-22

اے حصولِ رزق حلال کے جہاد کے شہیدو! یہ دستورِ زمانہ ہے۔ کبھی آگ ہمیں جلادیتی ہے اور کبھی ہم آگ کو بجھادیتے ہیں۔ ہم تو دوزخ کی آگ کو بھی بجھاسکتے ہیں اور صرف ایک ایک قطرے سے۔ خوفِ خدا کے ایک آنسو سے اور راہِ وفا میں گرنے والے خون کے ایک قطرے سے۔ تم نے تو اپنا سارا لہو جلایا۔ ہم اس سے وطنِ پاک میں ہر طرف لگی ہر آگ بجھائیں گے۔ نمرود کو ناکام بنائیں گے۔


آگ ہے اولادِ ابراہیمؑ ہے نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
(یہ دوسرا رخ ہے)
حضرت شاہ امیر ابوالعلیؒ کے دادا حضرت امیر عبدالسلام سمرقند سے ہجرت کرکے عہدِ اکبری میں ہندوستان آئے۔ حج بیت اﷲ کے لیے جانا چاہتے تھے کہ اکبر کی درخواست پر فتح پور سیکری میں رہنے لگے۔ مگر اس سے پہلے کچھ عرصہ نریلہ نزد دہلی میں قیام کیا۔ پھر فتح پور سیکری میں کچھ عرصہ رہ کر حج کے لیے چلے گئے اور وہیں ان کا وصال ہوگیا۔ آپ کے والد ماجد کا نام امیر ابوالوفا ہے۔

ن کا وصال فتح پور سیکری میں بہ عارضہ دردِ قولنج ہوا۔ اور انھیں دہلی میں دفن کیا گیا۔ آپؒ کی والدہ ماجدہ حضرت خواجہ محمد فیض المعروف بہ خواجۂ فیض کی عابدہ زاہدہ صاحب زادی تھیں۔ حضرت خواجۂ فیض بردوان میں ناظم کے منصب پر فائز تھے۔ آپ والدہ ماجدہ کی طرف سے احراری اور والد بزرگوار کی طرف سے حسینی ہیں۔ آپ 990ھ میں نریلہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام امیر ابوالعلی رکھا گیا۔ کم سنی میں ہی والدِ گرامی کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ دادا بھی داغِ مفارقت دے گئے تھے۔ مگر وہ جانے سے پہلے آپ کا ہاتھ خواجہ محمد فیض کے ہاتھ میں دے گئے تھے۔

وہ آپ کو اپنے ہم راہ بردوان لے گئے تھے۔ ان ہی کی نگرانی میں آپ کی تعلیم و تربیت ہوئی۔ آپ نے بہت جلد علوم و فنون حاصل کیے۔ فنِ سپاہ گری میں مہارت حاصل کی۔ پھر باطنی مراحل طے کیے۔ اس دوران آپ کے نانا خواجہ فیضی ایک فوجی مہم میں شہید ہوگئے۔ آپ کی اہلیت و قابلیت کو دیکھتے ہوئے، راجا مان سنگھ نے آپ کو آپ کے نانا کے منصب پر فائز کرکے بادشاہ سے تقرر نامہ حاصل کرلیا۔ عہدۂ نظامت کے ساتھ منصب سربزاری ذات و سوار حاصل کیا۔ اور ہر لحاظ سے اپنے آپ کو اس منصب کا اہل ثابت کیا۔ مگر یہ سب کچھ تو عارضی تھا۔

ایک شب تین بزرگ آپ کو خواب میں ملے۔ جو فرمارہے تھے، ''اے ابوالعلی! یہ تم نے کیا وضع قطع اختیار کر رکھی ہے۔ تمہاری زندگی کا یہ مقصد نہیں ہے۔ ہماری وضع اختیار کرو۔ اگر فکرِ معاش ہے تو (اﷲ آسمانوں اور زمین کو روشن کرنے والا ہے) کو سمجھو۔ معاش ہی نہیں بلکہ کوئی بھی اندیشہ دل میں نہ لائو'' اس کے بعد ان بزرگوں میں سے ایک نے استرہ لیا۔ اور آپ کے سر کے بال تراشے۔ دوسرے بزرگ نے آپ کو کفنی پہنائی۔ اس کے بعد تیسرے نے سر پر عمامہ رکھا۔

دوسرے دن آپ نے حجام کو بلوا کر سر کے بال ترشوائے۔ پیرہن پہنا اور دنیا سے اپنے آپ کو بے زار پایا۔ کسی کام میں آپ کا جی نہیں لگتا تھا۔ آپ نے عہدۂ نظامت سے سبک دوش ہونا چاہا۔ راجہ مان سنگھ نے آپ کا استعفیٰ منظور نہ کیا۔ اور کہا کہ ایک مہم درپیش ہے۔ اس لیے حفظ ماتقدم کے طور پر استعفیٰ منظور نہیں کیا جاسکتا۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر ترقی چاہیے تو اس میں چنداں مشکل نہیں۔ اپنے نانا کا دوست ہونے کی وجہ سے آپ راجا مان سنگھ کا بہت خیال کرتے تھے۔ آپ امیر لشکر ہو کر جنگ میں شریک ہوئے۔

میناپور کے مقام پر گھمسان کی لڑائی میں آپ فتح پا کر سرخ رو ہوئے۔ جب آپ کام یاب و کام ران بردوان لوٹے تو ایک رات پھر خواب دیکھا۔ اس دفعہ تین کے بجائے چار بزرگ تھے۔ انھوں نے فرمایا، ''اے فرزند یہ دنیاوی جاہ و حشمت چھوڑ! اپنا آبائی طریقہ اختیار کر۔'' اب آپ کا دل دنیا سے اس قدر اچاٹ ہوگیا کہ آپ ہر حال میں عہدۂ نظامت چھوڑنا چاہتے تھے۔ ابھی آپ بردوان میں ہی تھے کہ شہنشاہِ اکبر کے انتقال کی خبر پہنچی اور جہانگیر نے تخت نشیں ہوتے ہی فرمان جاری کیا کہ سب امراء و ناظم اس کے دربار میں بلاتاخیر حاضر ہوں، تاکہ ان کی قابلیت، لیاقت و وجاہت کا اندازہ ہوسکے۔

آپ تو خود ہی بردوان سے جانا چاہتے تھے۔ اس موقع کو تائیدِ غیبی جان کر آپ آگرہ روانہ ہوگئے۔ راستے میں میسری پڑتا تھا۔ کچھ روز آپ نے میسری میں قیام کیا۔ وہاں ایک بزرگ رہتے تھے۔ا نھوں نے آپ کو دیکھتے ہی فرمایا، ''آئو، شاہ اعلیٰ آئو! مرحبا جزاک اﷲ یہ تم نے بہت اچھا کیا کہ دنیا کو چھوڑ دیا۔ دنیا مردار ہے اور اس کے طالب کتے۔ پہلے تو مردار پر گوشت بھی تھا اور اب صرف سوکھی ہڈی باقی ہے۔'' میسری سے روانہ ہو کر آگرہ پہنچے۔ شہنشاہِ جہانگیر سے ملاقات ہوئی۔ جہانگیر آپ کے جمال و کمال سے بہت متاثر ہوا۔

آپ بلاروک ٹوک دربار میں آنے جانے لگے۔ ایک دن ساقی نے جام بھر کر جہانگیر کو دیا۔ جہانگیر نے وہ جام آپ کو دے دیا۔ آپ نے پکڑ کر پھینک دیا۔ جہانگیر نے دوسرا دیا۔ آپ نے وہ بھی پھینک دیا۔ جہانگیر تاب نہ لاسکا اور کہا، ''یہ بے اعتنائی، یہ خودنمائی۔ کیا تم غضب سلطانی سے نہیں ڈرتے ہو؟'' آپ نے جہانگیر کو جواب دیا، ''غضب سلطانی سے نہیں۔ قہرِ ربّانی سے ڈرتا ہوں۔'' آپ اپنی قیام گاہ پر آئے، جو کچھ پاس تھا۔ سب کچھ راہِ خدا میں لٹادیا۔ جہانگیر نے کئی مرتبہ آپ کو دربارِ شاہی میں بلایا، مگر آپ پھر کبھی نہ گئے۔

اسی روز آپ نے مراقبہ میں دیکھا کہ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم تشریف لائے ہیں اور آپ سے فرماتے ہیں، ''اے ابوالعلی! تمہارا کشودکار حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ سے مقدر ہے۔ سستی نہ کرو۔ جلدی اجمیر جا کر اپنا حصّہ پائو۔'' یہ سنتے ہی باقی جو کچھ آپ کے پاس تھا وہ بھی اﷲ کی راہ میں تقسیم کیا۔ سفید تہہ بند باندھا۔ چادر اوڑھی اور اجمیر کی طرف چل دیے۔ دہلی پہنچ کر حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے مزارات پر حاضر ہوئے۔ دہلی سے اجمیر پہنچے۔ حضرت خواجہ معین الدین کے دربار میں حاضری دی۔ بصورت مثالی حضرت خواجہ آپ سے مخاطب ہوئے۔ سامنے بٹھا کر آپ کو توجہ عینی فرمائی۔

ایک دن مزار خواجہ کے پاس تھے کہ حضرت خواجہ نے بہ صورت مثالی جلوہ گر ہو کر تسبیح کے دانے کے برابر سرخ رنگ کی ایک گولی عنایت فرمائی۔ وہ گولی کھاتے ہی آپ کا قلب روشن ہوگیا۔ آپ کا کام پورا ہوا۔ خواجہ نے آپ کو آگرہ واپس جانے کا حکم دیا۔ آپ نے بیعت کی درخواست کی۔ حضرت خواجہ غریب نواز نے فرمایا، ''تمہارے چچا امیر عبداﷲ ماشاء اﷲ عبادت گزار ہیں۔ ان ہی سے بیعت مناسب اور ان کی بیٹی سے مناکحت واجب ہے۔''

حسبِ فرمانِ خواجہ آپ حضرت امیر عبداﷲ سے بیعت ہوئے۔ آپ کے پیر و مرشد حضرت امیر عبداﷲ نے ہاتھ سے انگوٹھی اتار کر آپ کو پہنادی۔ بعد میں آپ کو خلافت و اجازت عطا فرمائی۔ آپ نے حضرت خواجہ غریب نواز کے حکم کے مطابق شادی بھی اپنے چچا اور پیر و مرشد حضرت امیر عبداﷲ کی بیٹی سے کی۔ آپ کے ہاں دو لڑکے پیدا ہوئے۔ ان کے نام حضرت امیر فیض اﷲ اور حضرت امیر نور العلاء بڑے متقی و پرہیزگار تھے۔

آپ 9 صفر 1041ھ کو جوار رحمت میں داخل ہوئے۔ مزار فیض آثار آگرہ میں مرجع خلائق ہے۔ آپ نے تقریباً 71 برس کی عمر پائی۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کے چھوٹے صاحب زادے حضرت امیر نور العلاء آپ کے سجادہ نشین ہوئے۔ آپ کے مقتدر خلفاء حسب ذیل ہیں۔ دونوں صاحبزادے حضرت امیر فیض اﷲ اور حضرت امیر نورالعلاء۔ حضرت خواجہ محمدی عرف خواجہ فولاد۔ حضرت ملاولی۔ حضرت لاڈ خان۔ حضرت میر سید کالپوری۔ حضرت سید دوست محمد برہان پوری۔

آپ صاحبِ نسبت اور صاحبِ کرامت بزرگ تھے۔ عبادت، ریاضت، مجاہدات، ترک و تجرید، صبر و تحمل، فقر و فاقہ، عفوودرگزر، قناعت و توکل میں یگانہ روزگار تھے۔ سخاوت، عطا و بخشش میں مشہور تھے۔ کمالاتِ صوری سے متصف تھے۔ آپ نے سالکین کے لیے اپنے جو مشاہدات نقل کیے ہیں۔ وہ ذاتِ کبریاء کی پہچان کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ فرماتے ہیں، ''سالک کو چاہیے کہ وہ سارے عالم کو ایک آئینہ تصور کرے اور انوار جمال حق دیکھتا رہے۔ اور اس نسبت میں ایسا محو ہو کہ یہ تصور کسی لمحہ دل سے دور اور آنکھ سے اوجھل نہ ہو۔ اس کے بعد سالک کو چاہیے کہ اس مرتبے سے ترقی کرکے اعلیٰ مرتبے پر پہنچے اور تمام عالم کو حق دیکھے۔''

ایک شب تین بزرگ آپ کو خواب میں ملے۔ جو فرمارہے تھے، ''اے ابوالعلی! یہ تم نے کیا وضع قطع اختیار کر رکھی ہے۔ تمہاری زندگی کا یہ مقصد نہیں ہے۔ ہماری وضع اختیار کرو۔ اگر فکرِ معاش ہے تو (اﷲ آسمانوں اور زمین کو روشن کرنے والا ہے) کو سمجھو۔ معاش ہی نہیں بلکہ کوئی بھی اندیشہ دل میں نہ لائو'' اس کے بعد ان بزرگوں میں سے ایک نے استرہ لیا۔ اور آپ کے سر کے بال تراشے۔

دوسرے بزرگ نے آپ کو کفنی پہنائی۔ اس کے بعد تیسرے نے سر پر عمامہ رکھا۔ دوسرے دن آپ نے حجام کو بلوا کر سر کے بال ترشوائے۔ پیرہن پہنا اور دنیا سے اپنے آپ کو بے زار پایا۔ کسی کام میں آپ کا جی نہیں لگتا تھا۔ آپ نے عہدۂ نظامت سے سبک دوش ہونا چاہا۔ راجہ مان سنگھ نے آپ کا استعفیٰ منظور نہ کیا۔ اور کہا کہ ایک مہم درپیش ہے۔

اس لیے حفظ ماتقدم کے طور پر استعفیٰ منظور نہیں کیا جاسکتا۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر ترقی چاہیے تو اس میں چنداں مشکل نہیں۔ اپنے نانا کا دوست ہونے کی وجہ سے آپ راجا مان سنگھ کا بہت خیال کرتے تھے۔ آپ امیر لشکر ہو کر جنگ میں شریک ہوئے۔ میناپور کے مقام پر گھمسان کی لڑائی میں آپ فتح پا کر سرخ رو ہوئے۔ جب آپ کام یاب و کام ران بردوان لوٹے تو ایک رات پھر خواب دیکھا۔ اس دفعہ تین کے بجائے چار بزرگ تھے۔ انھوں نے فرمایا، ''اے فرزند یہ دنیاوی جاہ و حشمت چھوڑ! اپنا آبائی طریقہ اختیار کر۔''
Load Next Story