کہکشاؤں سے باہر اربوں ستاروں کی موجودگی کا انکشاف تحقیق

یہ تو معلوم تھا کہ ستارے کہکشاؤں سے خارج ہو جاتے ہیں لیکن انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہو گی

یہ تو معلوم تھا کہ ستارے کہکشاؤں سے خارج ہو جاتے ہیں لیکن انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہو گی،ماہرین فلکیات۔ فوٹو فائل

کائنات کے پس منظر سے آنے والی روشنی پر کی جانے والی ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس میں پائے جانے والے ستاروں میں سے نصف کےقریب ستارے کہکشاؤں کے اندر نہیں بلکہ کہکشاؤں کے درمیان موجود خلا میں پائے جاتے ہیں۔

کائنات کی تخلیق کی کھوج میں لگے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان کے لیے یہ بات عجیب ہے کہ اربوں ستارے تو کہکشاؤں کے باہر ہی سفر کرتے ہیں، اس نئی تحقیق دو کیمروں کی مدد سے کی گئی جنھیں ایک راکٹ کے ذریعے کرۂ ہوائی سے باہر بھیجا گیا تھا۔ اس کیمرے سے حاصل ہونے والی معلومات کے دوران گرد و غبار اور کہکشاؤں سے آنے والی روشنیوں سے ہونے والی رکاوٹوں کو الگ کردینے کے بعد دیکھا گیا کہ باقی ماندہ روشنی کے اندر کی ہلکی لہریں پائی جاتی ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ روشنی ان ستاروں سے آ رہی ہے جو اربوں سال قبل کہکشاؤں کے تصادم کے دوران کہکشاؤں سے خارج ہو گئے تھے لیکن دوسرے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ روشنی تنہا ستاروں سے نہیں بلکہ بہت دور واقع کہکشاؤں سے آ رہی ہے۔


امریکی خلائی ادارے ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری کے پروفیسر جیمی بوک جو اس تحقیق کے مصنفین میں سے ہیں کا کہنا ہے کہ کہکشاؤں کے باہر سے آنے والی روشنی ایک قسم کی کائناتی چمک ہے، اگرچہ یہ روشنی بہت دھندلی ہے لیکن بنیادی طور پر کہکشاؤں کے درمیاں خلا تاریک نہیں ہے اور یہ وہ کل روشنی ہے جو کہکشاؤں اور ستاروں نے کائنات کی تاریخ کے دوران تخلیق کی ہے۔ اس سے قبل روشنی کی کئی پیمائشوں سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ آسمان میں اس سے زیادہ روشنی ہے جو کہکشاؤں سے آتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں یا تو یہ انتہائی دور اور قدیم کہکشاؤں سے آنے والی روشنی ہے، یا پھر اس کا ماخذ کہکشاؤں سے باہر پائے جانے والے 'آوارہ' ستارے ہیں۔

اس پر تحقیق کرنے والی ٹیم نے ان ستاروں سے متعلق ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے 2010 اور 2012 میں دو راکٹ خلا میں بھیجے، جس کے دوران انہوں نے زمین کے کرۂ ہوائی سے باہر جا کر انفرا ریڈ کیمروں کی مدد سے آسمان کی وائیڈ اینگل تصاویر لیں۔ دو بار تصاویر لینے کےبعد سائنس دانوں کو نظامِ شمسی کے اندر موجود گرد و غبار کے باعث ہونے والی مداخلت کو نفی کرنے کا موقع ملا، جب ان تصاویر سے کہکشاؤں کو بھی نفی کر دیا گیا تو سائنس دانوں کے پاس صرف خلا کی تصاویر رہ گئیں، سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس خلا میں موجود روشنی کی نیلاہٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ان ستاروں سے آ رہی ہے جو کہکشاؤں سے باہر نکل گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان تصاویر میں موجود روشنی سے اندازہ ہوتا ہے کہ کہکشاؤں سے باہر بھی تقریباً اتنے ہی ستارے پائے جاتے ہیں جتنے کہکشاؤں کے اندر ہیں۔

دوسری جانب ماہرینِ فلکیات کا کہنا تھا کہ انہیں یہ تو معلوم تھا کہ ستارے کہکشاؤں سے خارج ہو جاتے ہیں لیکن انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہو گی۔
Load Next Story