ہماری صفوں میں موجود ہمارا دشمن
ہم ابھی جنگ کے میدانوں میں اترے ہی نہیں، ہم مرتے جا رہے ہیں ۔ کہتے ہیں.... اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
سندھی میں ایک کہاوت ہے ''میروں کو اپنے گھر سے آگ لگی تھی'' یہ کہاوت تاریخ کے اس پس منظر میں ہے جب انگریزوں نے سندھ فتح کیا تھا۔ جب والی خیرپور میرس نے تو پہلے ہی چارلس نیپیئر سے چھپ کے معاہدہ کرلیا تھا۔ باقی جنگ لڑی تھی حیدرآباد و میرپور خاص کے میر میانی اور دھابیجی کے میدانوں میں ۔ جب ایسے منظر جڑتے ہوں تو پھر فیض صاحب بھی کچھ اس طرح یاد آتے ہیں۔
تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چکی
جس میں رکھا نہیں ہم نے اب تک قدم
کوئی صف بن نہپائی نہ کوئی علم
یوں لگتا ہے ہمارے دشمن نے بھی کوئی ایسی چال ہمارے لیے بنا کے رکھی ہوئی ہے یا پھر یوں کہیے کہ ہمیں کسی دشمن کی ضرورت ہی نہیں ۔ ہم ہیں نا اپنے سب سے بڑے دشمن ، وہ جو چند دہائیوں سے ہم اپنی صفوں میں بھرتے آئے تھے یہ جو کل ایک عیسائی جوڑے کا درد ناک قتل ہوا تھا یا وہ جو کلہاڑی سے فیصل آباد میں ایک پولیس والے نے قیدی کو مارا تھا اور اس پر اپنی جان بچانے کے لیے ''مرتد'' کا فتویٰ صادر کیا تھا۔ یہ سب وہ بم ہیں جو اوجھڑی کی طرح پھٹتے چلے جا رہے ہیں ۔
ہم ابھی جنگ کے میدانوں میں اترے ہی نہیں، ہم مرتے جا رہے ہیں ۔ کہتے ہیں.... اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ یہ میں نہیں تھا جو کسی ٹاک شو کے اینکر کی حیثیت میں ایسی اشتعال انگیز بات کر بیٹھا کہ پروگرام ختم ہوتے ہی، میرپورخاص میں سر راہ جاتے ہوئے کچھ معصوموں کا خون ہوا تھا ۔ یہ میں نہیں تھا جس کی وجہ سے تاثیر قتل ہوا تھا ۔
میرے جناح کو سب پتا تھا، آزادی کے فوراً بعد خود انھوں نے دو قومی نظریے کو تالے لگائے تھے، کیوں کہ آزادی تک وہ ہمارا ہتھیار تھا اور آزادی کے بعد وہ اپنی افادیت کھو بیٹھا تھا۔ یاد آیا! گیارہ اگست کی تقریر میں قائد نے ایک روشن و تابناک پاکستان کے لیے نقشہ کھینچا تھا ۔ یہاں تک کہ وہ تقریر کا متن غائب کردیا گیا، ایسا تو اسٹالن نے لینن کے ساتھ بھی نہیں کیا۔
پھر چلے آئیے پانچ جولائی1977 کے بعد کے پس منظر میں ۔ کیونکہ جنرل ایوب اور بھٹو نے اس سلطنت کی دیواروں میں کچھ اس طرح دراڑیں نہیں ڈالیں تھیں جس طرح مذہب کو میدان میں جنرل ضیا الحق لائے اس طرح تو کوئی بھی نہیں لایا ۔ یوں لگتا ہے محمد بن قاسم کے بعد ہمیں جیسے ضیا الحق نے مسلمان کیا تھا ۔ اس سے پہلے ہم جیسے مسلمان ہی نہ تھے ۔ ہم چیختے رہے چلاتے رہے، مت کرو ایسا اور ہم پر غداری کے الزام لگتے گئے اور آج میرے وطن عزیز میں بہت سی بیداری پیدا ہوئی ہے تو کیوں نہ پھر میری آنکھیں آبدیدہ ہوں ۔ میری روح زخم زخم کیوں نہ ہو ۔
واہگہ کے دھماکے والے دن کے دوسرے دن بھی اتنے ہی اہلیان لاہور، زندہ دلان لاہور وہاں پہنچے تھے ۔ اس مرتبہ وہ کچھ نہیں ہوا تھا جس طرح پشاور میں سینماؤں پر دھماکوں کی وجہ سے ہوا تھا کہ وہ
سینما گھر ویران کدے بن گئے تھے ۔ اس مرتبہ ایسے واقعات لوگوں میں ڈر نہیں بھر پائے بلکہ لوگوں میں مزید طیش پایا جاتا ہے وہ غصے میں آجاتے ہیں جس طرح دوسرے دن اسی جگہ واہگہ پر پہنچ کر لوگوں نے دہشت گردی کو مردہ باد کہا تھا ۔اسے حقارت سے ٹھوکر ماردیا تھا ۔ اس مرتبہ لوگ اٹھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں جب کوئی ہمارے مذہب کو غلط استعمال کرتا ہے ، وہ اس لیے کہ ہماری فوج نے بالآخر ان لوگوں میں ضرب عضب کے نام سے ہاتھ ڈالنا شروع کردیا ہے ۔ اب یہ دہشت گرد پہاڑوں کو چھوڑ کر شہروں میں ہمارے اندر رہتے ہیں، ان کو بہت سے لوگ پناہ دینے والے موجود ہیں ۔
اب جب صفائی کا کام شروع ہوا ہے تو بہت سی جگہوں پر صفائی کی اشد ضرورت ہے، ہمیں جانا پڑے گا واپس ضیا الحق سے پہلے والے پاکستان میں ، ہمیں راستہ ڈھونڈنا پڑے گا پھر سے جناح کی گیارہ اگست والی تقریر سے ، ہمیں ماڈرن ریاست بننا ہے ناکہ ایران، عراق و شام بننا ہے ۔ ہمارا رول ماڈل ترکی ہونا چاہیے ۔
ہم نے کبھی سوچا ہے ہم اپنے بچوں کو خود ساختہ و جھوٹی تاریخ پڑھاتے ہیں ۔ بہت سے ایسے ہیں جو ہمارے ہیرو نہیں ہیں ان کو ہیرو دکھاتے ہیں ۔ ہم اقلیتوں کے بارے میں لاشعوری طور پر اپنے بچوں میں ایسی نفسیات ڈال دیتے ہیں کہ جیسے وہ اچھوت ہوں ۔ بہت کچھ ہے گنوانے کے لیے مگر لب لباب یہ ہے کہ مسئلہ ہماری صفوں میں ہے ہماری سوچ ، ہمارے رویوں میں ہے ۔ اس کی طرف ہم رجوع بھی کرچکے ہیں مگر رفتار اور عزم میں اب بھی کمی ہے۔
سب کو پتا ہے حکمران واضح نہیں تھے مابین ظن و یقین تھے کہ وزیرستان میں آپریشن ہو، خود بعض سیاسی لیڈر بھی اور پھر بالآخر آپریشن شروع ہوا۔ لیکن اب اس آپریشن کو آگے تک پھیلانا ہے ۔ ساٹھ سالوں سے مجموعی گند ایک رات میں نہیں جاتی ۔ بالخصوص ضیا الحق کے بعد 37 سالوں میں تو ہم بہت کچھ کھو بیٹھے ہیں ۔ ہمیں اس بھنور سے نکلنے کے لیے دہائیاں درکار ہیں لیکن سمت تو طے ہو ۔ ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے یا کوئی اور ۔ ہندوستان میں ریاست کے ستون آپس میں گتھم گتھا نہیں ہیں ۔ نہ یہ ماجرا افغانستان میں ہے نہ ایران میں ہے ۔اس گھناؤنے چکر میں ہمارا پیارا وطن ، ہمارا چمن پھنسا ہوا ہے۔
ہمارا دشمن اب صرف ہمارا نہیں ہے وہ افغانستان کا بھی ہے تو ہندوستان کا بھی، ایران کا بھی ۔ فرق یہ ہے کہ وہ ہماری صفوں میں کچھ زیادہ گھس آیا ہے ۔ اب یہ بحث فضول ہے کہ ہم نے اسے دوست سمجھا تھا کہ وہ ہماری علاقائی برتری میں مدد کرے گا لیکن اس کے برعکس اس نے بجائے ہمیں فائدہ دیا ہو بلکہ الٹا ہمارے روایتی دشمنوں کے ہاتھوں میں ہتھیار بن گیا ہے یا بنتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ وہ اس لیے بھی کہ ہماری ترجیحات پارلیمنٹ میں نہیں بلکہ کہیں اور طے ہوا کرتی تھیں، ہماری عدالتوں کو ہم نے آزاد نہیں چھوڑا تھا کہ وہ آزاد طریقے سے آئین کی تشریح و پاسداری کرسکیں ۔
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو جمہوری ادوار آتے ہیں ان کا مینڈیٹ بھی اصلی نہیں بلکہ نقلی ہوتا ہے اور ایسے جمہوری لیڈر بھی دوسرے دھندوں میں لگ جاتے ہیں ۔
اب یہ لازم ہے کہ سمت کا تعین ہو ، مشترکہ منزل پیش نظر ہو ۔ جب کہ سمت کے لیے عوام سے پوچھے بغیر کوئی بھی فیصلہ کرنا نہ صرف جرم بلکہ حماقت ہوگی ۔ اور اس کے لیے حقیقی مینڈیٹ سے پیدا کیے ہوئے لیڈر چاہئیں ناکہ جعلی مینڈیٹ والے ۔