واہگہ بارڈر پر دہشت گردی

اللہ نے ہمیں کتنی بڑی نعمت سے نوازا ہے کہ ہم ایک آزاد ملک کی فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں،ہم اس ملک کی قدر نہیں کرتے ہیں۔

advo786@yahoo.com

1990 کی بات ہے ملک بھر میں سیاسی سرگرمیاں، کھینچ تان اور اکھاڑ پچھاڑ اپنے عروج پر تھیں۔ کراچی کے حالات بھی خاصے مخدوش تھے، تعلیمی اداروں میں مختلف نظریاتی، سیاسی اور لسانی طلبا تنظیمیں باہمی تصادم میں مصروف عمل تھیں، چند کالجز اور عمارتیں ٹارچر سینٹر اور مذبح خانہ بنے ہوئے تھے، جہاں مخالف جماعتوں کے طلبا کو لے جا کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور انھیں ہلاک تک بھی کردیا جاتا تھا، گویا پورے ملک میں ہر چیز سیاست زدہ نظر آتی تھی۔

گروہی، نظریاتی و سیاسی وابستگی اور مفادات نے جذبہ حب الوطنی کو وقتی طور پر سرد کردیا تھا۔ انھی دنوں ہماری نامزدگی نیشنل انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایڈمنسٹریٹریشن ٹریننگ (NILAT) کے پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورس کے لیے ہوئی، جو نیلاٹ مڈل مینجمنٹ اور لیبر لیڈرز کی تربیت کے لیے ترتیب دیتا ہے۔ اس کورس میں ایک ماہ کا ریسرچ اسٹڈی ٹور بھی شامل ہوتا ہے، جس میں کورس کے شرکا پورے ملک کے اہم قسم کے صنعتی اداروں اور آرگنائزیشن کا مطالعاتی دورہ کرکے اپنے مشاہدات کی رپورٹ پیش کرتے ہیں۔

لاہور میں اپنے قیام کے دوران کورس کے شرکا نے واہگہ بارڈر پر قومی پرچم اتارنے کی تقریب دیکھنے کا پروگرام بنایا، جو زیادہ تر نوجوان تھے جن میں مینجمنٹ کے علاوہ مختلف نظریاتی، سیاسی، مذہبی و لسانی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لیبر لیڈر تھے، جو اپنی جماعتی وابستگی کی بنا پر بعض اوقات انتہائی غیر محتاط اور جذباتی گفتگو بھی کرجاتے تھے۔

لاہور شہر سے جب ہمارا گروپ پریڈ دیکھنے کے لیے واہگہ بارڈر کے لیے روانہ ہوا تو شہر میں جگہ جگہ مختلف پارٹیوں کے پرچم لہرا رہے تھے، دیواروں پر ان کے نعرے تحریر تھے، جیسے جیسے بارڈر کا فاصلہ کم ہو رہا تھا ان پارٹی پرچموں کی تعداد میں بھی کمی آتی جا رہی تھی، حتیٰ کہ جب بی آر نہر پار کرکے سرحدی علاقے کے نزدیک پہنچے تو ان سیاسی پارٹیوں کے پرچموں کی جگہ قومی پرچموں نے لے لی۔ وفد کے شرکا نے یہ بات خاص طور پر محسوس کی۔ راستے میں تمام لوگ بی آر نہر، ہندوستان کی دراندازی اور میجر عزیز بھٹی 1965 کی جنگ کے دیگر شہدا کے کارنامے اور لاہور کے شہریوں کے جذبوں پر بات چیت کرتے رہے۔

انھیں خراج تحسین پیش کرتے رہے۔ جب تقریب کے مقام پر پہنچے تو وہاں ایک زنجیر بندھی ہوئی تھی تاکہ تقریب کے شرکا اس سے آگے نہ جاسکیں۔ اسی دوران کچھ غیر ملکی گورے بھی یہ تقریب دیکھنے وہاں پہنچے، جنھیں زنجیر سے آگے آکر پریڈ دیکھنے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ منظر دیکھ کر ہمارے کچھ ساتھیوں کا جذباتی ردعمل دیکھنے میں آیا، جن کا گلہ تھا کہ ہم پاکستانی ہیں، تقریب ہمارے پرچم کی ہے، ہم پیچھے کھڑے ہیں جب کہ غیر ملکیوں کو آگے بلالیا گیا ہے۔ اس موقعے پر حسن ظن اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے ایک ساتھی نے کہا کہ بھائی! یہ غیر ملکی ہمارے مہمان ہیں، ہماری پریڈ دیکھنے آئے ہیں۔

اس لیے اگر انھیں اتنی عزت و احترام دے دیا گیا ہے تو اس میں ناراض ہونے کی کیا بات ہے۔ بہرحال پریڈ شروع ہوئی تو پینٹ شرٹ میں ملبوس بھارتی اور شلوار قمیض میں ملبوس پاکستانی سپاہی آمنے سامنے تھے۔ دونوں ملکوں نے اس تقریب کے لیے دراز قد اور چاک و چوبند سپاہیوں کا انتخاب کیا، جو پریڈ کے دوران مدمقابل کو مرغوب کرنے اور سبقت لے جانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں، ان کے جذبات دیدنی ہوتے ہیں، پریڈ کے دوران ان کے گھٹنے ان کے پیٹ سے بلند ہوتے ہوئے تقریباً کاندھوں کی سطح تک جا پہنچتے ہیں، پرچم اتار کر بازوؤں میں رکھنا پھر اسے لے جانا، دیکھنے والوں کو ایک عجیب کیفیت سے دوچار کرکے حب الوطنی کے جذبے سے سرشار کردیتا ہے۔


یہ منظر دیکھ کر لوگوں کے لبوں پر بے اختیار نعرے اور آنکھوں میں نمی آجاتی ہے۔ ہمارے وفد کے شرکا پر بھی یہی کیفیت طاری ہوئی اور وہ برملا کہنے لگے کہ ہمارے بزرگوں اور نوجوانوں نے اس ملک کے لیے کتنی قربانیاں دیں اور دے رہے ہیں، اللہ نے ہمیں کتنی بڑی نعمت سے نوازا ہے کہ ہم ایک آزاد ملک کی فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں، ہم اس ملک کی قدر نہیں کرتے ہیں۔ ہمارے لیڈر اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے لیے اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں، ہمیں لسانی، جغرافیائی، مذہبی و سیاسی بنیادوں پر تقسیم کر دیا گیا ہے۔

واہگہ بارڈر پر دہشت گردی کے واقعے کی خبریں سنیں تو کئی عشرے قبل کی یہ کہانی ذہن میں یکدم تازہ ہوگئی۔ دہشت گردی کی اس واردات میں 60 شہری شہید اور سو سے زیادہ شدید زخمی ہوئے، بعض پورے پورے خاندان شہید ہوگئے ہیں۔ شہید ہونے والوں میں ایک خاندان جس کے پانچ افراد شہید ہوئے ہر اتوار کو یہ پریڈ دیکھنے جاتا تھا، اس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہمیں وطن سے محبت کی سزا مل رہی ہے۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ ریاست مخالف ملکی و غیر ملکی ایجنٹ وطن پرستوں سے وطن کی محبت کا خراج وصول کر رہے ہیں۔ لیکن خوش آیند بات یہ ہے کہ اس سانحے کے بعد تین دن کے لیے قومی پرچم اتارنے کی تقریب سادگی سے کرنے اور اس میں عام شہریوں کا داخلہ بند کرنے کا جو فیصلہ کیا گیا تھا عوام اور فوجیوں کا جوش و خروش دیکھتے ہوئے اور ان کا مورال بلند رکھنے کے لیے واپس لے لیا گیا۔ دوسرے دن شہریوں کی بڑی تعداد نے اس تقریب میں شرکت کی، جب کہ بھارت کا پریڈ ایونیو خالی پڑا تھا، صرف سیکیورٹی اہلکار نظر آرہے تھے۔ اس موقع پر شہریوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ دہشت گرد نہ ان کے حوصلے پست کرسکتے ہیں نہ ان کا خوف وطن سے ان کی محبت ختم کرسکتا ہے، وہ ملکی سالمیت پر کبھی آنچ نہیں آنے دیں گے۔

ہمارا تاریخی المیہ یہ ہے کہ بڑے بڑے قومی سانحات پر بھی حکومت، حکومتی ادارے اور ایجنسیاں حقائق اور اپنی ناکامی و کوتاہیوں کو چھپانے کے لیے مبالغہ آرائی اور دروغ گوئی سے کام لیتی ہیں، ان کے اقدامات اور بیانات محض تعزیت، مذمت اور مجرموں تک پہنچنے کی حد تک ہوتے ہیں مگر ان کے مرتکب افراد کبھی کیفر کردار تک نہیں پہنچ پاتے جس کی وجہ سے اس قسم کے واقعات تواتر کے ساتھ رونما ہوتے رہتے ہیں۔ حکومت کے مطابق دہشت گردی کے اس واقعے کی ذمے داری تین کالعدم تنظیموں نے قبول کرلی ہے۔ قریبی آبادی سے دو مبینہ دہشت گرد گرفتار کیے ہیں جن کے سانحے میں براہ راست ملوث ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

ایک ہوٹل سے مشکوک شخص کو حراست میں لیا گیا ہے، اطراف کے علاقوں سے ایک درجن اور فیصل ٹاؤن سے 37 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے، فیصل آباد سے بھی 20 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ حکومت پنجاب نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (JIT) تشکیل دی ہے، جو پولیس، ISI، رینجرز، اسپیشل برانچ اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ پر مشتمل ہے، جو تین دنوں کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل سکا ہے، اس لیے تحقیقات کا دائرہ بھارت اور افغانستان تک وسیع کیا جا رہا ہے۔

یہ واقعہ کسی ایک یا دو دہشت گردوں یا گروہ کی کارروائی کا شاخسانہ محسوس نہیں ہوتا جب تک کہ انھیں انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد کا تعاون میسر نہ ہو، اس میں سیکیورٹی لیپس کا عنصر بھی شامل ہوسکتا ہے، لہٰذا ان تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے ذمے داروں اور اس میں ملوث ممکنہ غیر ملکی ہاتھ جس کے قوی امکانات ہیں، تعین ہونا چاہیے ورنہ ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔
Load Next Story