اندھا کنواں

عشرۂ محرم تو خیر خیریت سے گزر گیا لیکن سیاسی محفل میں اب سوگوارانہ جذبات ابھرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

عشرۂ محرم تو خیر خیریت سے گزر گیا لیکن سیاسی محفل میں اب سوگوارانہ جذبات ابھرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ امریکا کے خلاف پچھلے چند ماہ سے عوامی جذبات میں کچھ کمی آئی ہوئی تھی کہ یک بیک پینٹاگون کی رپورٹ میں پاکستان کا دہشت گردوں سے تعلق ظاہر کرکے فضا میں تناؤ پیدا کردیاگیا یہاں تک کہ امریکی سفیر کو وزارت خارجہ میں بلاکر باقاعدہ احتجاج ریکارڈ کرانے تک کی نوبت پہنچ گئی۔

ادھر یہ کام تھا کہ بلاول بھٹو کی دھمکی بھی آگئی کہ پیپلزپارٹی کے کارکنوں پر حکومت کا جبر و تشدد بند کیاجائے ورنہ وہ لانگ مارچ شروع ہوگا جس میں گو نواز گو کے نعروں کے ساتھ 'گو ضیاء کی باقیات گو' کی آوازیں بھی پورے پاکستان میں گونجیں گی۔ دوسری طرف سراج الحق نئے امیر جماعت اسلامی کا بیان بھی اہمیت رکھتا ہے کہ بحران ابھی ختم نہیں ہوا، حکومت اگر سنجیدگی سے بات چیت پر توجہ نہیں دے گی اور کوئی مفاہمت کا راستہ اختیار نہیں کرتی ہے تو حالات اس قدر خراب ہوسکتے ہیں کہ نوبت مارشل لاء تک پہنچ جائے۔

یہ عشرۂ محرم کے دوسرے دن کی سرگرمیاں تھیں۔ باقی ماہ نومبر میں لاڑکانہ میں عمران خان کا جلسہ اور پھر تیس نومبر کو اسلام آباد کے دھرنے میں عام لوگوں کو شرکت کی دعوت، ساتھ میں یہ دعویٰ کہ اتنا بڑا مجمع تاریخ میں جمع نہیں ہوا ہوگا۔ پھر دوسری طرف ڈاکٹر طاہر القادری کی غیر ملکی دورے سے واپسی اور مختلف شہروں میں جلسوں کے اعلان پر عمل درآمد کے امکان۔ سندھ میں نئے انتظامی یونٹ کا ایم کیو ایم کے مطالبے شدت کے امکانات۔ یہ وہ سیاسی اشارے ہیں جو کچھ تو عوامی تصرف (Public Consumption) کے لیے ہیں اور کچھ حقیقی سیاسی تبدیلی کے متقاضی نظر آتے ہیں۔

جن میں امریکا کے بدلے ہوئے رویے پر حکومت کو بادل نخواستہ آل پارٹیز بلاکر قومی ایجنڈے پر غور کرنا ہوگا ورنہ نریندر مودی کا بے قابو بھارت مزید گل کھلانے پر اتر آئے گا۔ جہاں تک داخلی صورت حال کا تعلق ہے اس میں بلاول بھٹو کا بیان ضرور اشارہ کرتا ہے کہ کچھ معاملات طے ہوچکے ہیں جس کی روشنی میں یہ دھمکی سامنے آئی ہے۔

حکومت اگر دو قدم پیچھے ہٹ کر پیپلزپارٹی کے ساتھ شراکت اقتدار کے لیے تیار ہوتی ہے تو یقیناً انتہائی قدم نہیں اٹھایاجائے گا۔ کسی حد تک عمران خان بھی ملائم ہوئے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی کی بابت سپریم کورٹ رپورٹ تیار کرے۔ غالباً حکومت اس مسئلے پر چیف جسٹس سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی۔ کوئی بہتر صورت حال نکل سکتی ہے۔ ایم کیو ایم نے بھی مطالبے کی شدت میں کسی حد تک کمی ضرور کی ہے مگر آیندہ دوسری سرگرمیاں مطالبے پر اثر انداز ہوںگی ۔ سندھ کے انتہا پسندوں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ:

کیوں گوارا نہیں تجھ کو مرا اظہار خیال

یہ کوئی زہر بھرا جام نہیں ہے اے دوست


اختلافات سے کھلتی ہے تخیل کی گرہ

یہ بھی اک رائے ہے دشنام نہیں ہے اے دوست

کشمکش عظمت کردار عطا کرتی ہے

زندگی عافیت انجام نہیں ہے اے دوست

سندھی اور اردو بولنے والے سندھ کے عظیم مفاد میں اگر باہمی طور پر انتظامی یونٹ پر متفق ہوجائیں تو سندھ سیاسی انتشار سے محفوظ رہے گا۔ باقی جذباتی اور روحانی طرز سیاست اختیار کرنے کے نتائج کبھی اچھے نہیں نکلتے۔ یہ وہ منظرنامہ ہے جو عشرہ محرم کے بعد ابھر کر آیا ہے، کم سے کم دو سیاسی جماعتیں بار بار کہہ رہی تھیں کہ عشرہ گزر جائے تو ہم اپنی سرگرمیوں میں شدت پیدا کرلیں گے۔ اس میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستانی عوامی تحریک اور عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف شامل ہیں۔

ان دو کا سخت گیر رویہ اختیار کرنا تو سمجھ میں آتا ہے مگر عشرے کے بعد پیپلزپارٹی کا انتہا پسندانہ نعرہ کہ 'گو ضیا باقیات گو' کا تجزیہ کرنا ہوگا جس کے تین ہی ممکنہ پہلو ہوسکتے ہیں۔ یا تو پیپلزپارٹی کو اطلاعات کی روشنی میں یا کسی دوسرے ذریعے سے یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ مڈٹرم انتخابات ہونے جارہے ہیں لہٰذا الیکشن کی تیاری کے لیے یہ لائحہ عمل اختیار کیا گیا ہے تاکہ نواز لیگ سے فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے کو جھٹلایا جاسکے۔ یا پھر ایم کیو ایم کے وفد کا وزیراعظم سے ملنا اور تعلقات میں استواری کے امکان پر پریشر کے لیے یہ نعرہ دیا گیا ہے اگر ایسا ہے تو یہ عارضی ہے۔ یا پھر کچھ سیاسی طاقتوں کے ساتھ مل کر طے ہوا ہے کہ (ن) لیگ کی حکومت کو ہٹاکر کسی طرح حزب اختلاف متحدہ حکومت بنائے گی، اگر صورت حال ایسی ہی ہے تو مارچ 2015 تک کی مدت نئے انتخابات کے لیے موزوں ہے۔

(ن) لیگ اپنی داخلی بغاوت کا شکار ہوکر اقتدار سے محروم ہوتی نظر آرہی ہے، کیا اس بدلتی ہوئی صورت حال میں امن وامان یا مزاجی کیفیت معاشرے میں ابھرے گی یا ساری ڈیولپمنٹ قانون اور آئین کے اندر رہتے ہوئے حالات کے دباؤ تک اجاگر ہوجائیںگے اور ملک ایک نئے ماحول میں پہنچ جائے گا جس کی وجہ سے اسٹیٹس کو پر بھی فرق پڑے گا۔ بظاہر عملی طورپر ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا لیکن بھارت کی خوش گمانیاں اور امریکا کی حماقتوں سے بدلہ ہوا انداز پاکستان کو مجبور کررہاہے کہ وہ اصلاح کرتے ہوئے تبدیلی کے راستے نکالے ورنہ جن راہوں پر اب تک پاکستان چلتا آیا ہے وہ ایک اندھے کنویں پر جاکر رکتا ہے۔
Load Next Story